عاصیوں کو در تمہارا مل گیا
عاصیوں کو دَر تمہارا مل گیا
بے ٹھکانوں کو ٹھکانا مل گیا
عاصیوں کو دَر تمہارا مل گیا
بے ٹھکانوں کو ٹھکانا مل گیا
دل مِرا دنیا پہ شیدا ہو گیا
اے مِرے اﷲ یہ کیا ہو گیا
کہوں کیا حال زاہد، گلشن طیبہ کی نزہت کا
کہ ہے خلد بریں چھوٹا سا ٹکڑا میری جنت کا
تصور لطف دیتا ہے دہانِ پاک سرور کا
بھرا آتا ہے پانی میرے منہ میں حوضِ کوثر کا
مجرمِ ہیبت زدہ جب فردِ عصیاں لے چلا
لطفِ شہ تسکین دیتا پیش یزداں لے چلا
قبلہ کا بھی کعبہ رُخِ نیکو نظر آیا
کعبہ کا بھی قبلہ خمِ اَبرو نظر آیا
ایسا تجھے خالق نے طرح دار بنایا
یوسف کو ترا طالبِ دیدار بنایا
تمہارا نام مصیبت میں جب لیا ہو گا
ہمارا بگڑا ہوا کام بن گیا ہو گا