دل میں ہو یاد تیری گوشۂ تنہائی ہو
دل میں ہو یاد تری گوشۂ تنہائی ہو
پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو
دل میں ہو یاد تری گوشۂ تنہائی ہو
پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو
اے راحتِ جاں جو ترے قدموں سے لگا ہو
کیوں خاک بسر صورتِ نقشِ کفِ پَا ہو
تم ذاتِ خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو
اﷲ کو معلوم ہے کیا جانیے کیا ہو
دل درد سے بسمل کی طرح لوٹ رہا ہو
سینے پہ تسلی کو ترا ہاتھ دھرا ہو
عجب رنگ پر ہے بہارِ مدینہ
کہ سب جنتیں ہے نثارِ مدینہ
نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے
اُٹھا لے جائے تھوڑی خاک اُن کے آستانے سے
مبارک ہو وہ شہ پردہ سے باہر آنے والا ہے
گدائی کو زمانہ جس کے دَر پر آنے والا ہے
جائے گی ہنستی ہوئی خلد میں اُمت اُن کی
کب گوارا ہوئی اﷲ کو رِقّت اُن کی
ہم نے تقصیر کی عادت کر لی
آپ اپنے پہ قیامت کر لی
کیا خداداد آپ کی اِمداد ہے
اک نظر میں شاد ہر ناشاد ہے