ہمیشہ جوش پر بحرِ کرم ہے میرے خواجہ کا
ہمیشہ جوش پر بحرِ کرم ہے میرے خواجہ کا
زمانہ بندۂ جود و نعم ہے میرے خواجہ کا
ہمیشہ جوش پر بحرِ کرم ہے میرے خواجہ کا
زمانہ بندۂ جود و نعم ہے میرے خواجہ کا
پیار سے تم کو فرشتوں نے جگایا ہوگا
اور جنّت کی بہاروں میں سلایا ہوگا
خون ہے یہ شہِ لولاک کے شہزادوں کا
...
اُس پہ کھل جائے ابھی تیغِ علی کا جوہر
چشمِ ساقی کی اگر کوئی نظر پہچانے
لکھوں حال کچھ عبدِ حق دہلوی کا
محدّث، محقق، محبِّ نبی کا
...
کہ جس چیز سے کوئی اُلفت رکھے گا
بہت ذکر اُس کا وہ کرتا رہے گا
...
مقامِ قرب ہے کیسا مِرے صدّیقِ اکبر کا
نبی کے ساتھ ہے روضہ مِرے صدّیقِ اکبر کا
رسولوں اور سارے انبیا کے بعد میں بے شک
ہے سب سے مرتبہ اعلیٰ مِرے صدّیقِ اکبر کا
عمر فاروق، عثمانِ غنی، حیدر علی سے بھی
مقام و مرتبہ بالا مِرے صدّیقِ اکبر کا
وہ دس جن کو حبیبِ رب نے جنّت کی بِشارت دی
ہے اُن میں نام بھی پہلا مِرے صدّیقِ اکبر کا
جو خلفائے محمد مصطفیٰﷺ بننے کی باری تھی
تو نمبر پہلا ہی آیا مِرے صدّیقِ اکبر کا
وہ یارِ غارِ محبوبِ خدا ہیں، ہر صحابی سے
مقدّر ہے جداگانہ مِرے صدّیقِ اکبر کا
صحابی چار پشتیں: باپ، خود، اَولاد اور پوتا
مبارک ہے نسب کتنا مِرے صدّیقِ اکبر کا
قرآنِ پاک ’’اَلْاَتْقٰی‘‘ سے اُن کو یاد کرتا ہے
مثالی کیوں نہ ہو تقویٰ مِرے صدّیقِ اکبر کا
رسول اللہﷺ نے معراج کی تصدیق کرنے پر
لقب ’’صدّیق‘‘ رکھا تھا مِرے صدّیقِ اکبر کا
ضیائے طیبہ اپنا سر عقیدت سے جھکاتی ہے
سنائے جب کوئی نغمہ مِرے صدّیقِ اکبر کا
مبارک ہو، نؔدیم احمد! کہ تو نے بھی محبّت سے
کیا اَشعار میں چرچا مِرے صدّیقِ اکبر کا
...
یہ روایت ہے زید ارقم سے
اُس صحابی ثقہ مکرّم سے
کہ رسولِ خداﷺ نے فرمایا
یعنی میں جس کسی کا ہوں مولا
اُس کا مولا ہے بس علی ولی
ابنِ عمِّ محمدِ عربیﷺ
اور تفصیل اِس روایت کی
اِس طرح سے حدیث میں آئی
کہ نبیﷺ جب اخیر حج سے پھرے
بَہ مکانِ غَدِیرِ خُمّ اُترے
کر کے اَصحاب کو وہاں یک جا
ہاتھ میں ہاتھ مرتضیٰ کا لیا
پیشِ اصحابِ زمرۂ اخیار
کر دیا رتبۂ علی اظہار
یعنی واں یہ حدیث فرمائی
دی علی کو شرف سے آگاہی
اور یہ بھی لکھا ہے راوی نے
کہ بَہ نزدِ علی، عمر آئے
اور کہنے لگے کہ، یا حیدر!
ابنِ عمِّ جنابِ پیغمبرﷺ
آج تم نے وہ مرتبہ پایا
کہ ہُوئے مومنین کے مولا
ہو مبارک یہ مرتبہ تم کو
آج تم ہر بشر کے مولا ہو
سوچتا کیا ہے، کاؔفیِ مضطر!
ہے مقامِ مَناقبِ حیدر
لکھوں کیا منقبت شیرِ خدا کا
علی حیدر امامِ اولیا کا
زیادہ فکر و فہم و عقل سے ہے
مَناقب ابنِ عمِّ مصطفیٰﷺ کا
علی ہے پیشوا ہادی و مولا
تمامی اُمّت ِ خیر الوریٰﷺ کا
درِ حیدر کا جو کوئی گدا و
نہ ہو محتاج وہ ظِلِّ ہُما کا
کہیں کیوں کر نہ ہم ’’مولیٰ‘‘ علی کو
یہ ہے ارشاد ختم الانبیاﷺ کا
شرف کحلِ جواہر پر رکھی ہے
یہ رتبہ ہے علی کی خاکِ پا کا
تولّد وہ ہُوئے کعبے کے اندر
عجب رتبہ ہے شاہِ لَا فَتٰی کا
ہُوا اُن سے منوّر قصرِ عرفاں
وہ ہے سلطان مُلکِ اَولیا کا
مناقب ھَلْ اَتٰی سے ہے ہُویدا
سزاوارِ خطابِ ھَلْ اَتٰی کا
یہ کافی تو گدائے خاکِ پا ہے
جنابِ مستطابِ مرتضیٰ کا
ہم پر ہے احساں آپ کا صدیق اکبر اَلْمَدَدْ
جاری ہے فیضاں آپ کا صدیق اکبر اَلْمَدَدْ
آپ اَمَنَّ النَّاس ہیں آقا کا یہ فرمان ہے
امت پہ احساں آپ کا صدیق اکبر اَلْمَدَدْ
ہے آپ کی صِدِّیْقِیَتْ مَخْتُوم اَزْوَحْیِ اِلٰہ
ظاہر ہے عنواں آپ کا صدیق اکبر اَلْمَدَدْ
وہ دین سے خارج ہوا جس نے نہ مانا آپ کو
شاہد ہے قرآں آپ کا صدیق اکبر اَلْمَدَدْ
سب نیکیاں قرباں کریں فاروق اعظم آپ پر
رتبہ ہے ذی شاں آپ کا صدیق اکبر اَلْمَدَدْ
صدقہ رسول پاک ﷺ کا ہم کو بھی کردیجے عطا
جیسا ہے ایقاں آپ کا صدیق اکبر اَلْمَدَدْ
عثماں علی کا واسطہ طیبہ میں پھر بلوائیے
حاؔفظ ہے حساں آپ کا صدیق اکبر اَلْمَدَدْ
(۲۲ جمادی الاول ۱۴۱۶ھ ۔ ۱۶ نومبر ۱۹۹۵ء )
اَعْلیٰ نشاں ہے آپ کا فاروق اعظم اَلْمَدَدْ
اونچا بیاں ہے آپ کا فاروق اعظم اَلْمَدَدْ
حُبِِّ رسولِ پاک ﷺ کے صدقے میں کیا عرب و عجم
سارا جہاں ہے آپ کا فاروق اعظم اَلْمَدَدْ
وحی الٰہی آپ کی جو رائے سے نازل ہوئی
رتبہ عیاں ہے آپ کا فاروق اعظم اَلْمَدَدْ
وہ ہے کِلَابِ ناَر سے جو بُغْض رکھےّ آپ سے
جو بدگماں ہے آپ کا فاروق اعظم اَلْمَدَدْ
جس رہ گزر پر آپ ہوں شیطاں ادھر جاتا نہیں
ایسا مکاں ہے آپ کا فاروق اعظم اَلْمَدَدْ
اغیار ہم پہ چھاگئے انصاف بھی ملتا نہیں
دُرّہ کہاں ہے آپ کا فاروق اعظم اَلْمَدَدْ
صدقے میں پنجتن پاک کے حاؔفظ کو دیں کچھ جرأتیں
یہ بے زباں ہے آپ کا فاروق اعظم اَلْمَدَدْ
(۲۲ جمادی الاول ۱۴۱۶ھ ۔ ۱۶ نومبر ۱۹۹۵ء)