منقبت  

عجب کیا میری قسمت نے اگر معراج پائی ہے

منقبت

بدرگاہ مولائے کائنات، شیرخدا، امیرالمؤمنین سیدنا مولانا علی ابن ابی طالب ﷜ ‘ وارضاہ عناّ

 

عجب کیا میری قسمت نے اگر معراج پائی ہے
علی﷜ کے درپہ میں نے اپنی پیشانی جھکائی ہے
جہالت کے تراشیدہ خدا ہیبت سے کانپ اٹھے
نسیم صبح کعبہ سے یہ کیا پیغام لائی ہے
بڑھیں جب میری جانب قلزم افکار کی موجیں
نجانے کیوں مجھے مشکل کشا کی یاد آئی ہے
اُسے مجبور ہوکر غیب داں کہنا ہی پڑتا ہے
رسول اللہﷺ کے بستر پر جس کو نیند آئی ہے
نماز عصر گر جائے نماز عشق مت چھوٹے
حقیقت میں اسی کا نام زاہد پارسائی ہے
اگر دیکھو تو الفت ان کی بیکار و عبث ٹھہرے
اگر سوچو تو عصیاں کے مرض کی اک دوائی ہے
یہ دنیا کیا قیامت تک نہ اُترے گا خُمار اس کا
زہے قسمت مرے ساقی نے وہ صہبا پلائی ہے
ہمارے پاس روزے بھی تھے حج بھی اور نمازیں بھی
مگر محشر میں بس تیری محبت کام آئی ہے
پھر اپنے نام لیواؤں سے کیسے آنکھ پھیروگے
کہ تم نے غیر کی بھی ڈوبتی کشتی ترائی ہے
بناتے ہی اُڑھادی ہے اسے تطہیر کی چادر
مصور کو بھی کتنا آپ کی تصویر بھائی ہے
کرم ہے حضرت مشکل کشا﷜ کی مدح خوانی ہے
بڑی وجد آفریں اخؔتر تری نغمہ سرائی ہے

...

سیمائے کفر جبہہ کلیسا جھکا گئی

منقبت

سیمائے کفر جبہہ کلیسا جھکا گئی
کیا شان حیدری﷜ تھی زمانہ پہ چھاگئی
ہر سو چھلک رہی ہے مئے کیف و انبساط
باد نسیم آکے یہ کیا گنگنا گئی
رکھا چھپا کے پردۂ تطہیر میں اسے
اللہ کو بھی آپ کی تصویر بھاگئی
اپنی مناؤ خیر مری بدنصیبو
مولائے کائنات﷜ کی تشریف آگئی
تن بستر رسولﷺ پہ دل عرشِ آشیاں
دنیا سمجھ رہی تھی انھیں نیند آگئی
دنیا کی زندگی بھی تو ہے مشکلات سے
کیسے کہوں کہ حاجت مشکل کشاگئی
بخت سیہ چمک کہ چمکنے کا وقت ہے
ماہ رجب کی تیرھویں تاریخ آگئی
اخؔتر طلسم نرگس رعنا نہ پوچھئے
اپنے تو اپنے غیر کو اپنا بناگئی

...

ہیں نغمہ سنج ہرسو، ہر طرف شور عنادل ہے

منقبت

ہیں نغمہ سنج ہرسو، ہر طرف شور عنادل ہے
کہ گردون ولایت پر طلوع ماہ کامل ہے
مبارک آمد جان بہاراں اہل گلشن کو
ہیں کلیاں شادماں ہر ایک غنچہ آج خوش دل ہے
یہ کسکے حسن محشر خیز کی ہے جلوہ فرمائی
کہ کوئی نیم جاں کوئی مثال مرغ بسمل ہے
یہی ہیں فاتح خیبر﷜، یہی ہیں جان پیغمبرﷺ
وہاں کیسے گماں پہنچے جہاں پر انکی منزل ہے
بجھائی تشنگی کربل کی اپنے خوں کے دھاروں سے
سختی کتنا حسین شیر اسد اللہ﷜ کا دل ہے
لیا ہے چن انھیں حق نے برائے زینت کعبہ
خدا کا گھر جسے کہتے ہیں وہ حیدر کی منزل ہے
کرے دہن بشر و صف علی ہرگز نہیں ممکن
کہ جن کی تیغ عریاں قہر بہر قلب باطل ہے
فلک کو رشک ہے اے ارضِ کعبہ تیری قسمت پر
کہ تیری گود میں اعداء دین حق کا قاتل ہے
نہیں کوئی معاون خویش بنگانہ ہمارے ہیں
مدد کر دو مرے مشکل کشا اندوہگیں دل ہے
زمانہ کے لئے یہ اک معمہ ہے مگر اخؔتر
محبت سے جو ان کی پُر ہو بس دل تو وہی دل ہے

...

تابش زندگی مرکزِ آگہی تیری کیا شان ہے خواجۂ خواجگاں

منقبت

تابش زندگی مرکزِ آگہی تیری کیا شان ہے خواجۂ خواجگاں
ہے رضا میں تیری تیرے رب کی خوشی میرا ایمان ہے خواجۂ خواجگاں
نور ہی نور ہے تیرے دربار میں غرق ہے روضۂ پاک انوار میں
آپ کی آپ کے رب کی سرکار میں کس قدر مان ہے خواجۂ خواجگاں
اتنا مجھ پر کرم آپ فرمایئے آیئے آیئے بے حجاب آیئے
بخت خفتہ کو آکر جگا جایئے میر ارمان ہے خواجۂ خواجگاں
کتنے کھوٹوں کو جس نے کھرا کردیا کتنے سوکھوں کو جس نے ہرا کر دیا
غم سے چاہا جسے ماورا کر دیا تیرا فیضان ہے خواجۂ خواجگاں
شرم مانع ہے عرض خطا کیلئے لاج رکھ لو ہماری خدا کے لئے
ہاتھ اپنا اٹھا دودعا کے لئے دل پسیمان ہے خواجۂ خواجگاں
وقت رحلت جبیں پر جو تحریر(۱) تھی رفعتِ شان اقدس کی تفسیر تھی
تو حبیب خداﷺ ہے حبیب خدا رب کا اعلان ہے خواجۂ خواجگاں
روحِ شیرخدا﷜ راحت فاطمہ
مظہر شان مختار ہر دوسرا
ہند کی سرزمیں کیلئے باخدا رب کا احسان ہے خواجۂ خواجگاں
کیوں رہے خوف طوفاں سے اندوہگیں یہ ترا اخؔتر بندہ ٔ کمتریں
یہ تصور نہیں کیا سکوں آفریں تو نگہبان ہے خواجۂ خواجگاں

۱؎ ’’ھٰذا حبیب اللہ مات فی حب اللہ‘‘

...

مدد مدد کہ عجب کش مکش کا عالم ہے

منقبت

بیادگار حضرت شیخ المشائخ اشرفی میاں ﷫

مدد مدد کہ عجب کش مکش کا عالم ہے
مرے سفینے سے طوفان آج برہم ہے
پھر آج شانۂ حبّ رسولﷺ آلے کر
کہ بکھری بکھری ہوئی زلف بزم عالم ہے
اے آسمان ولایت کے نّیراعظم
تری نگاہ کا امیدوار عالم ہے
تمہارے ہجر کے مارے ہیں خوگر ساون
ہر ایک فصل میں باران دیدۂ نم ہے
نہ کر خدا کے لئے دیر ساقیا آجا
کہ روٹھے جام سے ہم جام ہم سے برہم ہے
کروں میں کس لئے اب آرزوے تاجوری
ترے گداؤں میں ہوں مرتبہ یہ کیا کم ہے
جھکا ہے خاطر اخؔتر بھی اے مرے آقا
فقط جبیں ہی نہیں درپہ آپ کے خم ہے

...

حشمت دینِ متیں دانائے کیف و کم ہوا

گلہائے عقیدت
بارگاہِ حضرت شیر بیشۂ اہل سنت﷫میں

حشمت دینِ متیں دانائے کیف و کم ہوا
پاسبان حق ہوا اسرار کا محرم ہوا
دشمنوں میں بن کے چمکا ذوالفقار حیدری
اور جب اپنوں میں پہونچا پیار کی شبنم ہوا
آسمان زرفشاں ہو یا زمین گل فروش
تو یہاں سے کیا گیا ہر اک اسیرغم ہوا
آج تاریکی اُڑاتی ہے اُجالے کا مذاق
کہ تِری دنیا کا اک نجم درخشاں کم ہوا
دل میں اپنے عشق پاک مالک عالم لئے
حاضر خلوت سرائے خالق عالم ہوا
پر تو احمد رضا پروردۂ امجد علی
آسمان اتقاء کا نّیر اعظم ہوا
زیست ہو سارے جہاں کی کیوں نہ اس کی زندگی
پیکر آدم تھا لیکن وسعت عالم ہوا
کتنی آنکھیں ہیں جو اسکے ہجر میں ہیں اشکبار
دیدۂ اخؔتر فقط تو ہی نہیں پرنم ہوا

...

تعالیٰ اللہ یہ ہے اوجِ مقامِ احمدِ نوری

سید شاہ ابوالحسین احمد نوری﷜

منقبت

برائے عرس نوری رجب ۱۳۷۴؁ ھ مارہرہ مطہرہ ارسال کردہ شد

تعالیٰ اللہ یہ ہے اوجِ مقامِ احمدِ نوری
کہ قدسی ڈھونڈتے پھرتے ہیں بامِ احمدِ نوری
نہ کیوں لذت دہِ کوثر ہو جامِ احمدِ نوری
شہِ تسنیم سے ملتا ہے نامِ احمدِ نوری
جہاں پر فضل مولیٰ ہے بنامِ رحمتِ عالمﷺ
جہاں میں رحمتِ حق ہے بنامِ احمدِ نوری
یہاں سے کالے کوسوں دور ہیں تاریکیاں شب کی
منور صبح طیبہ سے ہے شامِ احمد ِ نوری
کلام احمدِ نوری کلامِ حق تعالیٰ ہے
کلامِ حق تعالیٰ ہے کلامِ احمد نوری
غلاموں کو سراغ منزلِ مقصود بتلا جا
تو کس منزل میں ہے ماہِ تمام احمدِ نوری
خدایا گلشن برکات سے ہم برکتیں پائیں
پھلے پھولے سدا نخل مُدام احمدِ نوری
مری جانب سے عرض اشتیاقِ دید کردینا
صبا جائے جو تو بہر سلامِ احمدِ نوری
مجلّٰی آیۂ تطہیر سے ہے پاک دامانی
زہے اکرامِ اِجدادِ کِرامِ احمدِ نوری
ملے مجھ روسیہ کو بھی تری تنویر کا صدقہ
میں صدقے تیرے اے فیضانِ عامِ احمدِ نوری
یہ نسبت ہی خلیؔل زار کو دارین میں بس ہے
کہ ہے پروردۂ فیضِ مُدامِ احمدِ نوری

...

وہ جام دے ہو جس میں زلالِ ابوالحسین

’’عنوان معرفت ہے مقام ابوالحسین‘‘

منقبت

 عرس رجب شریف ۱۳۸۲؁ ھ

وہ جام دے ہو جس میں زلالِ ابوالحسین
ساقی پھر آرہا ہے خیالِ ابوالحسین
امیدوار ایک تجلی کے ہم بھی ہیں
نظروں کو ہے تلاشِ جمالِ ابوالحسین
تصویریں ہیں یہ جاہ و جلالِ حضورﷺ کی
جاہِ ابوالحسین و جلالِ ابوالحسین
یارب میری جبیں سے کبھی آشکار ہو
تابندگئی ماہ جمالِ ابوالحسین
پیتے ہیں، مے پرستی کا الزام بھی نہیں
زاہد یہ دیکھ جامِ سفالِ ابوالحسین
قادر ہے وہ، جو چاہے تو یوں موت دے مجھے
یہ سر ہوا اور خاکِ نعال ابوالحسین
معراج زیست ہو جو کہیں عزرئیل یوں
آ اے خلیؔل شیریں مقالِ ابوالحسین

...

اللہ اللہ نو بہار عظمتِ احمد رضا

مِدحتِ احمد رضا﷜

منقبت اعلیٰ حضرت محدّث بریلوی قدس سرہ

اللہ اللہ نو بہار عظمتِ احمد رضا
غنچہ غنچہ ہے زبانِ مدحتِ احمد رضا
سایۂ قصرِ دنیٰ میں منزلت پایا ہوا
کتنا اونچا ہے مقامِ عزّتِ احمد رضا
قربِ حق کی منزلوں میں گم نہ ہوں کیوں رفعتیں
جلوہ گاہِ مصطفیٰﷺ ہے رفعتِ احمد رضا
مصطفیٰﷺ کی بھینی بھینی نگہتوں میں تہِ بہَ تہِ
مہکی مہکی ہے فضائے نکہتِ احمد رضا
التفاتِ جلوۂ غوث الوریٰ سے مُنسلِک
رشکِ صد جَلُوت ہے یعنی خلوتِ احمد رضا
لختِ دل ہے ٹھنڈی ٹھنڈی ضو سے باغ باغ
ماہ طیبہ کی ضیاء ہے طلعتِ احمد رضا
نور آنکھوں کو ملا خلوت گہِ دل کو سرور
جب تصور نے سنواری صورتِ احمد رضا
پھیکی پھیکی سی ہے ساقی، صبح و شامِ زندگی
آئے پھر گردش میں جامِ لذتِ احمد رضا
پھولتا پھلتا رہے گا باغِ مارہرہ مدام
کہہ رہی ہے یہ بہارِ برکت احمد رضا
بارک اللہ فیضِ عامِ حضرتِ اچھے میاں
اچھے اچھوں کا ہے قبلہ سیرتِ احمد رضا
جو خلیؔل زار کو اعزاز بخشا آپ نے
وہ بھی ہے اک شرمسارِ نسبتِ احمد رضا

(یہ منقبت بحیثیت صدر مشاعرہ پڑھی گئی، مشاعرہ دارالعلوم احسن البرکات میں ہوا تھا)

...

جلوۂ قدرت خدا ہے رضا

حق نما ہے رضا

جلوۂ قدرت خدا ہے رضا
ظل آیات کبریا ہے رضا
پر تو شانِ مصطفیٰﷺ ہے رضا
سایۂ فضل مرتضیٰ﷜ ہے رضا
صبح ایمان کی ضیا ہے رضا
شام عرفان کی جلا ہے رضا
کعبۂ عشق اصفیا ہے رضا
قبلۂ شوقِ اذکیا ہے رضا
اعلیٰ حضرت مجددِ ملّت
اہلسنت کا مقتدا ہے رضا
وارثِ وارثان علم نبیﷺ
عطرِ مجموعۂ ہدیٰ ہے رضا
فقہِ حنفی کے بے مثال فقیہ
بو حنیفہ کا لاڈلا ہے رضا
منتہی مبتدی ہیں جن کے حضور
ایسے لاکھوں کا منتہا ہے رضا
آبگینہ فَقَدْ رَأیَ الحق کا
سچ تو یہ ہے کہ حق نما ہے رضا
شاہِ بغداد کی توجہ سے
قادریوں کا رہَ نما ہے رضا
اچھے اچھوں سے نسبتوں کے طفیل
اچھے اچھوں کا پیشوا ہے رضا
باغِ برکات کی بہارِ نو
ہاں رضا ہاں رضا، رضا ہے رضا
کوئی مشکل نہیں مُجھے مشکل
میرا مشکل کشا رضا ہے رضا
ایں ہم از فیضِ مرشد است خلیؔل
جلوہ فرمود گاہے گاہے رضا

...