منقبت  

اجملِ ہر جہاں کا دِلدادہ

قطعۂ تاریخ (سالِ وصال)

امام اہلِ سنت، فیض در جت، اعلیٰ حضرت الشاہ احمد رضا خاں﷫ القادری البریلوی قدس سرہ العزیز

’’زیبا باغِ معرفتِ حق‘‘

۱۹۲۱ء

(سال وصال ۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء)

 

اجملِ ہر جہاں کا دِلدادہ
والۂ ماہِ انورِ طیبہ
مصطفیٰﷺ کا غلام شاہ حشم
عبد ذی شانِ سرور طیبہﷺ
وہ ثنا خوانِ مصطفیٰﷺ بے مثال
بے بدل وہ ثناگرِ طیبہ
اس کا ممدوح اک ملیح عرب
اس کا موصوف دلبر طیبہ
اس کے اشعار نعت کا ہر شعر
عکسِ زیبائے منظرِ طیبہ
اس کی تحریر و گفتگو کا خصوص
ذکر ایمان پرورِ طیبہ
جان و دل سے عزیز تر اس کو
ہر وہ شے جو ہے مظہرِ طیبہ
فاتحِ مکہ کا مدیح نگار
نعت گوئے مُظفّرِ طیبہ
قائدِ کاروانِ عشقِ حبیب
ترجمانِ قد آورِ طیبہ
عاشق و واصف محمدﷺ تھا
مثلِ حسّان منبر طیبہ
اس کا سال وصال ہے طارقؔ
’’جلوہ ہائے پیغمبر طیبہ‘‘
۱۳۴۰ھ

...

حیران ہوں کہ کیسے میں کھولوں زبان کو

اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی کی خدمت میں خراج عقید (الف)
پروفیسر ڈاکٹر سید اظہر علی[1]

حیران ہوں کہ کیسے میں کھولوں زبان کو
میرا سلام ’’حضرت اعلیٰ‘‘ کی شان کو
عالم کو اس امام کو خلد آشیان کو
حیرت میں ڈال دیتا تھا جو نکتہ دان کو
تھا اس کا فیض علم مگر سب کے واسطے
مخصوص وہ نہ تھا کسی منصب کے واسطے
عجمی بھی در پہ آئے‘ حجازی بھی آگئے
شرعی معاملے لئے قاضی بھی آگئے
کچھ تشنگانِ علم مجازی بھی آگئے
الجھن کو لے کے طاق ریاضی بھی آگئے
اک اک کو مطمئن کیا ہر اعتبار سے
سیراب کتنے ہوگئے اس جوئے یار سے
در اصل ہے حیات رضاؔ یک لالہ زار
اور اسی میں رنگ و مہک کے گوشے ہیں بیشمار
تصنیف و درس و جہد تصوف کے برگ و بار
اور حسن نعت گوئی بھی یکتائے روزگار
جو عشق مصطفیٰﷺ کے ہو ماتحت شخصیت
پھر کیوں نہ ہو وہ ایک ہمہ جہت شخصیت
اقبال نے جو دیکھی تھی جرات امام میں
ترکی بہ ترکی فتوے کی قدرت امام میں
مسلک پہ ڈٹ کے رہنے کی قوت امام میں
ان کو گلہ یہ تھا کہ ہے شدت امام میں
کھٹکی نہ جانے کیوں انہیں شدت مزاج کی
شدت تو آب و تاب ہے مومن کے تاج میں
اقبال خود یہ کہتے ہیں مومن کی بات میں
جبروت اور قہر ہوں اس کی صفات میں
شاہین کا مزاج ہو مومن کی ذات میں
باطل کو وہ نہ بخشے کبھی رزمیات میں
ان سب خصوصیات میں شدت نہیں ہے کیا؟
مومن کے اس معیار میں حدت نہیں ہے کیا؟
سورج غروب ہوتا نہ تھا جس کے راج میں
اقوام کے نصیب ٹکے جس کے تاج میں
آزادیاں جو لیتا تھا اپنے خراج میں
حضرت کو اک سمن ملا اس سامراج میں
’’ہش‘‘ کر کے اس سمن کو نظر سے ہٹا دیا
انگریز کی کچہری کو ٹھینگا دکھا دیا
ان کی نظر میں جو بھی تھا جیسا‘ جتا دیا
انگریز کو مقام بھی اس کا بتا دیا
تصویر بادشاہ کو نیچا دکھا دیا
خط پر ٹکٹ لگایا تو الٹا لگا دیا
مقصد یہ تھا کہ ہر کوئی اوقات پر رہے
انگریز حکمران کا نیچے کو سر رہے
الٹا ٹکٹ کچھ ایسا کہ تختہ الٹ گیا
انگریز حکمران کا پتا ہی کٹ گیا
زچ ہوکے اپنے ملک کو واپس پلٹ گیا
سیلاب اقتدار کنوئیں میں سمٹ گیا
عالم کے حکمران جزیرے میں آگئے
الٹی بساط‘ بخت کے تیرے میں آگئے
اک احتجاج اٹھا خلافت کی بات کا
یہ معاملہ تھا صرف مسلماں کی ذات کا
گاندھی نے موقع دیکھا سیاسی برات کا
مسجد میں داخلہ ہوا ‘ لات و منات کا
تحریک مسلمین کا رخ موڑنے لگے
پکے پکائے دیکھے تو پھل توڑنے لگے
گاندھی نے جھٹ سے ترک موالات کیا
آسودہ زندگی کو پر آفات کر دیا
تحریک مسلمیں کو خرافات کر دیا
اس قوم کو سپرد حوالات کر دیا
اک موج تھی کہ جس میں مسلمان بہہ گئے
کافر کی رو میں صاحبِ ایمان بہہ گئے
مسلم سے ہندؤں کے یہ پیرائے ہوگئے
دونوں میں دوستی ہوئی یک رائے ہوگئے
جو دور دور رہتے تھے ہمسائے ہوگئے
ہمسائے ایک نعرے میں ماں جائے ہوگئے
مسلم کو کچھ نہ فکر تھی اپنے مال کی
جے تھے مہاتما کی‘ وجے رام لال کی
کچھ مسلموں نے یہ کسی مفتی کی مان لی
گھر بار اپنے بیچ کے ہجرت کی ٹھان لی
سوچی نہ اگلی پچھلی‘ کچھ ایسی اڑان لی
ہجرت کی مشکلوں نے ہزاروں کی جان لی
سازش یہ تھی کہ ہند سے ان کی خروج ہو
اپنے مہاشے جی کا یہاں پر عروج ہو
حضرت رضاؔ کو علم تھا کیسا یہ کھیل ہے
دراصل کس کے ہاتھ میں سب کی نکیل ہے
منڈھے چڑھے گی اس میں جو‘ وہ کس کی بیل ہے
کتنے تلوں میں تیل ہے اور کتنا تیل ہے
اس تیل سے چراغ جلائیں گے کون لوگ
تاریکیوں میں رات بتائیں گے کون لوگ
حضرت نے مسلموں کو اٹھایا جھنجھوڑ کر
گاندھی کا اصل روپ نکالا کھنکھوڑ کر
ہندؤ کی سب سنائی کھبا گوڑ گوڑ کر
علماء کے بھاری فتوے کو رکھا نچوڑ کر
سارے طلسم ٹوٹے تو پھر روشنی ہوئی
سوئے ہوئے دماغوں میں ایک سنسنی ہوئی
نادان دوستوں کو خردمند کر دیا
جذبات کو شعور کو پابند کر دیا
کو مل جہاں لگا تھا وہ پیوند کردیا
حضرت نے کانگریس کا دیو‘ بند کردیا
چرخہ رکا تو موت کا تانا بکھر گیا
ہندو کی دوستی کا قلمع اتر گیا
اب سحر سامری سے نکلنے لگے تھے لوگ
ٹھوکر لگی تو خود ہی سنبھلنے لگے تھے لوگ
حضرت کی سچی بات سمجھنے لگے تھے لوگ
ان کے بتائے رستے پہ چلنے لگے تھے لوگ
آنکھیں کھلیں تو قوم کی‘ پر کیا مزا ملے
حضرت تو اپنے رب حقیقی سے جاملے

لاکھوں سلام (ب)

خاندان رضا چشمہ روشنی
ان کے آباؤ اجداد سب متقی
یعنی اعظم و کاظم رضائے علی
والد اعلیٰ حضرت جناب نقی
ان ضیا پاش کرنوں کا ارفع مقام
شجرۂ اعلیٰ حضرت﷫ پہ لاکھوں سلام
حامد و مصطفیٰ ان کے شہزادگاں
باپ کے سارے اوصاف جن میں عیاں
علم و تقویٰ جرأت کے اعلیٰ نشاں
اہل سنت کی ناموس کے پاسباں
دونوں سعدین پر ہو خدا کا انعام
ان کی صالح خلافت پہ لاکھوں سلام
ہوں وہ ابن رضا یا کہ احمد رضا
ہیں یہ سب عاشق سبز گنبد رضا
ہیں یہ عالم رضا اور جید رضا
قدر دانان سادات و سید رضا
فرش سے عرش تک ہیں درخشاں یہ نام
عاملان شریعت پہ لاکھوں سلام
مصطفیٰ خاں تھے حضرت کے چھوٹے پسر
بچپنے ہی سے زیرک و بالغ نظر
فکر میں پختگی ‘ گفتگو میں اثر
تھا لڑکپن ‘ بزرگی کے معیار پر
ایسا بچہٗ کہ بوڑھے کریں احترام
کم سنی کی اس عزت پہ لاکھوں سلام
ایک چیلینج پا کر کچھ ایسا لکھا
سب تھے حیراں ششدر کہ یہ کیا لکھا
صرف تیرہ کا سن تھا کہ فتویٰ لکھا[2]
اعلیٰ حضرت نے فرمایا اچھا لکھا
ان کو مفتی کے منصب کا بخشا انعام
ایسے مفتی کی قدرت پہ لاکھوں سلام
اہل سنت کو حق سے محبت رہی
دوزخی‘ مکر اور فن سے وحشت رہی
کانگریسی سیاست سے نفرت رہی
لیگ کے ساتھ ان کی حمایت رہی
پاک تحریک میں ان کا پہلا نام[3]
اہل سنت کے علماء پہ لاکھوں سلام
لیگ نے ایک اچھا یہ ذریعہ دیا
ہم کو دو قومیت کا نظریہ دیا
کس نے پہلے مگر‘ ایسا نعرہ دیا؟
نصف صد سال پہلے اشارہ دیا[4]
تھا یہ بے شک امام رضا کا ہی کام
ان کی فکری بصیرت پہ لاکھوں سلام
جب علیحدہ وطن کا تقاضا ہوا
مفتی اعظم ہند نے یہ کیا
بڑھ کے اس کی حمایت میں فتویٰ دیا
لیگ کو اس طرح بڑھاوا دیا
صرف مقصد تھا مسلم وطن کا قیام
خادم دین و ملت پہ لاکھوں سلام
لیگ پر تھا الیکشن کا لمحہ کڑا[5]
مفتی ہند کا تھا سہارا بڑا
آپ کا ووٹ ہی سب سے پہلے پڑا
پھر تو ووٹوں کا سیلاب ہی آپڑا
بھر گئے لیگ والوں کے بکسے تمام
آپ کے دست برکت پہ لاکھوں سلام
اہل سنت کی تنظیم تھی اک بڑی[6]
پاک تحریک میں سب سے آگے کھڑی[7]
لیگ پر بھی تھیں اس کی نگاہیں کڑی
تاکہ ہونے نہ پائے کوئی گڑبڑی
سعیِ تقسیم بھارت کی تھی صبح و شام
ایسی مخلص جماعت پہ لاکھوں سلام
اس جماعت کے بانی جناب نعیم
صدرفاضل لیئق و عقیل و فہیم
اہل سنت کی دنیا کے فخر عظیم
رزم ابطال باطل میں ضرب کلیم
راہ حق پہ وہ قائم رہے تھے مدام
آپ کی استقامت پہ لاکھوں سلام
جبر سے اندرا نے یہ کروالیا
رول نس بند کرنے کا بنوالیا
اس کے حق میں کچھ علماء سے لکھوا لیا
جب بریلی کے مفتی سے فتوی لیا
اس نے لکھا حرام و حرام و حرام
ایسے عالم کی جرات پہ لاکھوں سلام
قادریت کے یہ گوہرِ لاجواب
اہل سنت کے گویا مہکتے گلاب
حشر میں ان پہ وا ہوگا جنت کا باب
بےعذاب و عتاب و حساب و کتاب
ان کو بلوائیں گے انبیاء کے امام
’’تا ابد اہل سنت پہ لاکھوں سلام‘‘
جس کی معروف ہے سب میں جود و سخا
رہبر کاملاں پر تو مہ لقا
جس نے کر کے دکھایا فنا کو بقا
’’غوث اعظم امام التقےٰ والنقےٰ‘‘
اس کی عظمت میں کس کو روا ہے کلام
’’جلوہ شان قدرت پہ لاکھوں سلام‘‘
اپنے دل میں مچلتا ہے ارماں رضا
جب قیامت میں پہنچیں نبیﷺ واں رضا
ان کی شوکت کے ہوں سب ثناخواں رضا
’’مجھ سے خدمت کے قدسی کہیں ہاں رضا‘‘
مصطفیٰﷺ جان رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام

 

[1] پروفیسر و استاد شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی/ آپ نے اپنی تعلیمی و تدریسی زندگی کا آغاز عالمی درسگاہ ڈھاکہ یونیورسٹی سے کیا، اردو اور انگریزی زبان میں کمال حاصل کیا‘ اور کئی ٹرافیاں جیت کر لائے۔ کافی عرصہ تک ڈھاکہ ٹی وی اور ریڈیو پر مختلف پروگرامز کیساتھ چھائے رہے سقوط ڈھاکہ کے بعد جامعہ کراچی شعبہ سیاسیات سے منسلک ہو کر پھر تدریسی‘ تحقیقی کاموں میں مصروف ہوگئے‘ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور عرصہ سے اپنی علمی بارش سے طلباء اور طالبات کو سیراب کر رہے ہیں۔ (نوری)

[2]  تیرہ برس کی عمر ‘ مولانا ظفر الدین بہاری کے چیلنج پر فتویٰ لکھ دیا

[3]  تحریک پاکستان

[4]  انیسویں صدی کے آخر میں اعلیٰ حضرت نے دوقومی نظریہ پیش کیا تھا(۱۸۹۷ء)

[5]  ۱۹۴۵ء کے الیکشن

 [6] سنی کانفرنس‘ قائم شدہ ۱۹۲۵ء

[7]  تحریک پاکستان

...

جلوہ ہے نور ہے کہ سراپا رضا کا ہے

منقبت

درمدح اعلیحضرت مولانا احمد رضا خانصاحب قدس سرہٗ

(جو کہ احمد رضا کانفرنس میں ۱۸ دسمبر ۱۹۸۲؁ ء کو پڑھی گئی)

جلوہ ہے نور ہے کہ سراپا رضا کا ہے
تصویرِ سنّیت ہے کہ چہرہ رضا کا ہے
وادی رضا کی، کوہ ہمالہ رضا کا ہے
جس سمت دیکھئیے وہ علاقہ رضا کا ہے
دستار آرہی ہے زمیں پر جو سر اُٹھے
اتنا بلند آج پھریرا رضا کا ہے
کس کی مجال ہے کہ نظر بھی مِلا سکے
دربارِ مصطفیٰﷺ میں ٹھکانا رضا کا ہے
الفاظ بہہ رہے ہیں دلیلوں کی دھار پر
چلتا ہوا قلم ہے کہ دھارا رضا کا ہے
چھوتا ہے آسمان کو مینار عزم کا
یعنی اٹل پہاڑ ارادہ رضا کا ہے
نکتے عبارتوں سے ابھرتے ہیں خودبخود
نقد و نظر پہ ایسا اجارہ رضا کا ہے
دریا فصاحتوں کے رواں شاعری میں ہیں
یہ سہل ممتنع ہے کہ لہجہ رضا کا ہے
جو لکھ دیا ہے اس نے سند ہے وہ دین میں
اہلِ قلم کی آبرو نکتہ رضا کا ہے
اگلوں نے بھی لکھا ہے بہت علم دین پر
جو کچھ ہے اس صدی میں وہ تنہا رضا کا ہے
اس دورِ پُر فتن میں نظر خوش عقدیگی
سرکار کا کرم ہے بہاتا رضا کا ہے

...

قتیل حُسنِ تصویرِ مُحّمد مصطفیٰﷺ تم ہو

شاہِ اتقیاء

قتیل حُسنِ تصویرِ مُحّمد مصطفیٰﷺ تم ہو
شہیدِ عشقِ شاہ دیں شہِ احمدؔ رضا تم ہو
بہارِ حسنِ فطرت، عشق کی رنگین فضا تم ہو
فدایانِ رسالت کے دلوں کا مدّعا تم ہو
گئے عشق حقیقت آفریں کی ابتدا تم ہو
گئے سرمستئی الفت کی حضرت انتہا تم ہو
کہا ہے رحمتہ للعالمیںﷺ خود جسکو یزداں نے
شہا اُس جانِ رحمت پر دل و جاں سے فدا تم ہو
دکھائی راہِ توحید و رسالت اک زمانے کو
ہر اک گمراہ و گم گشتہ کے بیشک رہنُما تم ہو
فقیہِ بے بدل اور مُفتئ دینِ نبی اللہ!
سراپائے طریقت صاحبِ فقر و غنا تم ہو
شہابِ ثاقبِ چرخِ معارف کی تجلّٰی اک
خدا شاہد کہ خضرِ راہِ دینِ مجتبیٰ تم ہو
نگاہِ ساقئی کوثر کے حسنِ کیف آور سے
شناسائے رسالت، رمز آگاہِ خدا تم ہو
نظر آتا ہر اک شے میں جسے تھا نورِ مصطفویﷺ
وہ گرویدہ و شیدائے شہِ ارض و سما تم ہو
ہیں جسکے زہد و تقویٰ کے فلک والے بھی سب قائل
وہ فخرِ دین و ملّت ہو وہ شاہِ اتقیاء تم ہو
علُومِ دین و عرفانِ حسن﷜ سینے میں ہے مخفی
ریاض قادریّت کے گل رنگیں قبا تم ہو
جہادِ حق و باطل میں ہوئی فتحِ مبیں حاصل
پئے اعدائے تمت بُرّشِ تیغِ خُدا تم ہو
تمہارا مرقد ذی شاں تجلّٰی زارِ ایمن ہے
رہِ ظلمات میں اک مشعلِ نُورِ ہُدےٰ تم ہو
کہیں جامیؔ و قدسیؔ بھی فداؔ سے مرحبا جس پر
وہ حسّانِ﷜ زمانہ، شاعرِ خیرالوریٰﷺ تم ہو
ابوالطاھر فِدَا حُسین فداؔ

 

...

اعلیٰ حضرت (علم کے دریا بحرِ شریعت) اعلیٰ حضرت

منقبتِ اعلیٰ حضرت (ایک منفرد انداز میں)

نوٹ: اس منقبت کو درج ذیل چار طرح سے پڑھا جائے:

(الف) پورے پورے مصرعے پڑھے جائیں۔ (ب) قوسین میں درج الفاظ قوسین سے قبل درج الفاظ کے ساتھ ملاکر پڑھے جائیں۔ (ج) قوسین میں درج الفاظ میں قوسین کے بعد لکھے الفاظ ملا کر پڑھے جائیں۔ (د) صرف قوسین میں درج الفاظ پڑھے جائیں۔ صابؔر سنبھلی

 

اعلیٰ حضرت (علم کے دریا بحرِ شریعت) اعلیٰ حضرت
صوفی صافی (صاحبِ تقویٰ، فخرِ ولایت) اعلیٰ حضرت
فاضلِ اکمل (عاشقِ مولیٰ، گنجِ کرامت) اعلیٰ حضرت
شیخِ طریقت (ہادئ اعظم، حامئ سنت) اعلیٰ حضرت
اب تک بھی ہیں (ہر باطل فرقے پر آفت) اعلیٰ حضرت
ہم پر (یعنی اہلِ سنن پر رب کی عنایت) اعلیٰ حضرت
آخر دم تک (بد دینی سے ٹکر لی ہے) رب کے کرم سے
آپ تھے بیشک (عہد میں اپنے دین کی طاقت) اعلیٰ حضرت
ہے یہ حقیقت (اُس ظالم کو آپ سے کد ہے) بیشک بیشک
فطرت سے ہے (حق کی مخالف جس کی طبیعت) اعلیٰ حضرت
یہ بھی سچ ہے (ہر لب ہر دل میں اب تک) جاری ساری
گھر گھر میں ہے (آپ کا چرچا، آپ کی مدحت) اعلیٰ حضرت
وقت پڑے تو (ذکر خدا کا اور نبی کا) سب سے بہتر
بھول نہ جانا (بعد میں صابرؔ، اعلیٰ حضرت) اعلیٰ حضرت

...