منقبت  

اللہ اللہ کس قدر ہے عز و شانِ قاسمی

گلستان ِ قاسمی

منقبت حضرت مرشد برحق شاہ ابوالقاسم عرف شاہ جی میاں قدس سرہ برموقع عرس شریف صفر ۱۳۶۷؁ ھ

اللہ اللہ کس قدر ہے عز و شانِ قاسمی
ڈھونڈتے پھرتے ہیں قدسی آستانِ قاسمی
جونبار معرفت، کام و دہانِ قاسمی
غرق موجِ ہُو، کلام درخشانِ قاسمی
واقفِ اسرارِ حق ہے راز دانِ قاسمی
نکتہ سنج و نکتہ رس ہے نکتہ دانِ قاسمی
ہے حبیب حقﷺ کی رحمت غوث اعظم﷜ کا کرم
لہلہاتا ہی رہے گا بوستانِ قاسمی
غنچہ غنچہ اس چمن کا سو بہاریں لائے گا
پھولتا پھلتا رہے گا گلستانِ قاسمی
ہیں جو انکے ماہ و خور انکا تو پھر کہنا ہی کیا
ہیں مثال مہ نجومِ آسمانِ قاسمی
سر جھکاتے ہیں ادب سے آستانِ پاک پر
قدر والے ہی ہوئے ہیں قدر دانِ قاسمی
ہے حجاب اکبر ان سے کینہ و بغض و حسد
کورِ باطن کیسے دیکھے عز و شان قاسمی
پر بچھاتے ہیں ملائک جن قدموں کیلئے
ان کی حسرت ہے کہ سر ہو پائیدانِ قاسمی
دین کا ڈنکا بجاتے پھر رہے ہیں چارسو
خادمانِ دین حق ہیں خادمانِ قاسمی
دھوم مچ جائے گی ہر سو آگئے باطل شکن
سانس جب منزل پہ لے گا کاروانِ قاسمی
سلسلہ ملتا ہے ان کا سرور کونینﷺ سے
مدحِ خوان مصطفیٰﷺ ہیں مدح خوانِ قاسمی
ان کے بدخواہوں کا حصہ ہے خسارِ دوجہاں
شاد ہیں کونین میں پیر و جوانِ قاسمی
طائرانِ قدس بھی مست ترنم ہیں خلیؔل
زندہ باشی اے ہزار بوستان قاسمی

...

تجلئ حق شمع عرفان قاسم

نذر ِ عقیدت

تجلئ حق شمع عرفان قاسم
محمدﷺ کا جلوہ ہے لمعانِ قاسم
ذرا دیکھئے تو ہے کیا شانِ قاسم
کہ ہے حق مُعَنْوَنْ بہ عنوان قاسم
بصد رشک رضوان ہے اللہ اللہ
ذرا دیکھئے شانِ دربانِ قاسم
گھٹائیں بنیں حلقۂ بدرِ کامل
جو رخ پر گری زلفِ پیچان ِ قاسم
عجب جمگھٹا میکدے پر لگا ہے
کہ قاسم ہیں اور تشنہ کامانِ قاسم
عدد کے لئے آپ قہر خدا ہیں
کہ باطل ہے لرزاں یہ ہے شانِ قاسم
شرابِ محبت کے مستانے آئے
عطا ہو کوئی جامِ عرفانِ قاسم
رہے بے خودئ محبت ہمیشہ
نہ چھوٹے کہیں دست و دامانِ قاسم
مجھے خوف کیا ہے مرے پاسباں ہیں
محمدﷺ، علی﷜، غوث﷜ و پیرانِ قاسم﷫
امنگیں مرے دل میں دیدار کی ہیں
خدایا! دکھ روئے تابانِ قاسم
نگہبان ہیں قاسم خلیؔل حزیں کے
خدائے جہاں ہے نگہبانِ قاسم

...

عیاں حالتِ دل کروں توبہ توبہ

منقبت مرشد برحق

(برسوں کی مفارقت کے بعد حاضری پر عرض کی گئی، عرس قاسمی ۱۳۷۴؁ ھ)

عیاں حالتِ دل کروں توبہ توبہ
ترے روبرو کچھ کہوں توبہ توبہ
میں اس آستاں سے پھروں توبہ توبہ
کہیں اور سجدے کروں توبہ توبہ
خودی سے گزر کر ترے سنگِ در پر
گروں اور گر کر اٹھوں توبہ توبہ
منور نہ ہو جو تری بندگی سے
میں اس زندگی پر مروں توبہ توبہ
تمھارا ہوں اور پھر سوائے تمھارے
کسی اور کا ہو رہوں توبہ توبہ
تمھاری عطاؤں کا پروردہ ہوکر
کسی غیر کا منہ تکوں توبہ توبہ
دل زاران کی تمنا کے ہوتے
کسی آسرے پر جیوں توبہ توبہ
خلیؔل آدمی کو رہے خوفِ حق بھی
نہ ظاہر مصفا، دروں، توبہ توبہ

...

آنکھوں میں ضو جمال محمد میاں کی ہے

جمال محمد میاں﷜

منقبت

حضور سیدی مرشدی السید الشاہ اولاد رسول محمد میاں قادری برکاتی قدس سرہ

آنکھوں میں ضو جمال محمد میاں کی ہے
دل میں ضیا کمال محمد میاں کی ہے
ملتی ہے اہل حق میں بڑی جستجو کے بعد
جو بات حال و قال محمد میاں کی ہے
آمین ربَّنا کا ملائک میں شور ہے
وہ آبرو سوالِ محمد میاں کی ہے
روشن دل و دماغ ہیں حب رسولﷺ سے
تنویر یہ جمال محمد میاں کی ہے
میرے حسن۱؎ کو میری نگاہوں سے دیکھئے
تصویر خد و خال محمد میاں کی ہے
انوار کا نزول، غلاموں پہ کیوں نہ ہو
تاریخ یہ وصال محمد میاں کی ہے
اس آستاں سے دولتِ ایماں ملی ہمیں
تشریح یہ نوالِ محمد میاں کی ہے
ہی خوش نصیب، جن کو ملا ہے یہ در خلیؔل
کیا بات خوش خصال محمد میاں کی ہے

۱؎ حضور احسن العلماء سید حسن میاں شاہ صاحب علیہ الرحمتہ و الرضوان

...

راحتِ مصطفیٰﷺ سیدہ فاطمہ

منقبت

﷝ سیدہ فاطمہ زھرا 

راحتِ مصطفیٰﷺ سیدہ فاطمہ
فرحتِ مرتضیٰ﷜ سیدہ فاطمہ
قابل اقتداء ان کا ہر اک عمل
مشعل و رہنما سیدہ فاطمہ

بنت محبوبِ رب جانِ ختمِ رسلﷺ
رفعتوں کی رِدا سیدہ فاطمہ﷝
مصطفیٰﷺ نے کہا حُور فردوس ہیں
باحیا باصفا سیدہ فاطمہ﷝
دھوم عالم میں ہے ان کی تسبیح کی
گویا مشکل کشا سیدہ فاطمہ﷝
روز محشر جب ان کی سواری چلی
ہر طرف تھی ندا سیدہ فاطمہ﷝
میرے حسنین﷠ کو کچھ نہ کچھ ہو عطا
تھا یہ ہی مدعا سیدہ فاطمہ﷝
جو ہیں مشکل کشا اور شیر خدا
آپ پر تھے فدا سیدہ فاطمہ﷝
حافؔظ بے نَوا کو عطا کیجئے
آپ کا ہے گدا سیدہ فاطمہ﷝
۲۶ صفر الخیر ۱۴۳۸ھ ۲۷ نومبر ۲۰۱۶ء

...

ذرہ ذرہ گوشہ گوشہ کیسا پر انوار ہے

منقبت

حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری﷫ میں تیرے قربان داتا

ذرہ ذرہ گوشہ گوشہ کیسا پر انوار ہے
میں تیرے قربان داتا کیا حسین دربار ہے
یہ عطا کرتے ہیں سائل کو ہزاروں نعمتیں
ان کو دینے والا وہ ہے جو شہِ اخیار ہے
ہاتھ خالی کوئی بھی جاتا نہیں ہے لوٹ کر
کتنے محتاجوں غریبوں کی اِدھر یلغار ہے
شان میں فرماگئے ہیں ان کی یہ خواجہ پیا﷫
پیر کامل کو بھی داتا﷫ کی نظر درکار ہے
روح کو تسکیں ملے گی جسم و جاں کو راحتیں
اس طرف آکر تو دیکھے جو کوئی بیمار ہے
اے مدینے کے مسافر اِن کے در سے ہو کے جا
جانے آنے کی اجازت گر تجھے درکار ہے
حافؔظ ان کی مدح میں یہ بات کہہ دے برملا
سرزمین پاک پر داتا شہِ ابرار ہے
(۱۲ صفر ۱۴۳۸ھ/ ۱۳ نومبر ۲۰۱۶ء)

(داتا صاحب کی عطا سے یہ منقبت سفر لاہور کے دوران دو گھنٹے میں ہوئی)

...

غوث اعظم مِرے ہر دکھ کا ازالہ کر دیں

منقبت

(عرض بارگاہ غوثیہ) غوث اعظم﷜ مِرے ہر دُکھ

غوث اعظم﷜ مِرے ہر دکھ کا ازالہ کر دیں
قبلہء دین و عمل روح اُجالا کر دیں
میرا ھر کام جو بگڑا ہے وہ اعلیٰ کر دیں
میرے حق میں یہی دستور نرالا کر دیں
جو کرم آپ کا جاری ہوا رھزن پر بھی
اب عطا مجھ کو وہ رحمت کا پیالہ کر دیں
میرے اعمال تو دن رات ہی پستی میں رہے
آپ چاہیں تو انہیں پل میں ہمالا کر دیں
جس کے کھانے سے رہوں عبدِ حبیب مولا
میرے انعام میں شامل وہ نوالہ کر دیں
ہر گھڑی حمدِ خدا، نعت نبیﷺ ہو لب پر
شَہِ جیلاں میرے الفاظ دوبالا کر دیں
در آقاﷺ سے ملے مجھ کو ردائے رحمت
آپ ہی نظر عنایت سے جو اولیٰ کر دیں
عشق عینؔی بھی ملے حُبِّ رضؔا نوریؔ بھی
اپنے اس قادری بندے کو بھی والا کر دیں
جھڑ گئے تیرے گناہ، غیث شہا سے حافؔظ
میں شرابور رہوں مجھ پہ وہ جھالا کر دیں
(۱۴ جنوری ۲۰۱۷۔ ۱۵ ربیع الاخر ۱۴۳۸ھ)

...

عِزّو عَظْمَتْ حِلْم و رِفْعَتْ، خواجہ خواجہ میرے خواجہ

منقبت

حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری﷫ خواجہ خواجہ میرے خواجہ

عِزّو عَظْمَتْ حِلْم و رِفْعَتْ، خواجہ خواجہ میرے خواجہ
دور ہوئی ہے جن سے ظلمت، خواجہ خواجہ میرے خواجہ
آپ نبیﷺ کی آنکھ کےتارے، جگ میں سب کے راج دلارے
آپ کو چاہے ساری خَلقت، خواجہ خواجہ میرے خواجہ
آپ ہوئے ہیں ہند کے والی، آپ کے در کے سب ہیں سُوالی
غوث اعظم﷜ سے ہے نسبت، خواجہ خواجہ میرے خواجہ
آپ سہارا ہر بے کس کے آپ ہیں چارہ ہر بے بس کے
آپ کنارا بَحْرِ ظُلْمَتْ، خواجہ خواجہ میرے خواجہ
آپ نے جو اجمیر بلایا، خوب بَنَایا یا خوب سجایا
میں نے پائی آپ سے عظمت، خواجہ خواجہ میرے خواجہ
میں ہوں خواجہ آپ کا نوکر ایسی دولت مجھ کو عطا کر
کرتا رہوں میں آپ کی مِدْحَتْ، خواجہ خواجہ میرے خواجہ
شاہِ نورؔی شاہِ برکتؔ اِن کے صدقے ہے یہ عنایت
حافؔظ تجھ پر جن کی شفقت خواجہ خواجہ میرے خواجہ
۲۷ رجب المرجب ۱۴۳۷؁ھ/۵ مئی ۲۰۱۶؁ء بروز بدھ نزیل ماریشس

...

ہر سمت تجھ میں برکت اقطاب کی زمیں ہے

منقبت

اقطاب کی زمیں ہے

ہر سمت تجھ میں برکت اقطاب کی زمیں ہے
مارہرہ تیری قسمت اقطاب کی زمیں ہے
سب کیلئے ہی راحت اقطاب کی زمیں ہے
دنیا میں گویا جنت اقطاب کی زمیں ہے
ہر ذرہ ہے منور انوارِ قادری سے
یعنی حریفِ ظلمت اقطاب کی زمیں ہے
حیرت سے دیکھتا ہے جھک کر فلک بھی تجھ کو
حاصل وہ تجھ کو رفعت اقطاب کی زمیں ہے
ہیں شمس معرفت کے کُل اولیاء یہاں کے
ان سے ہی تیری زینت اقطاب کی زمیں ہے
پاتے ہیں فیض ہر دم، اس سرزمیں سے ہم سب
کیونکر نہ ہو عقیدت اقطاب کی زمیں ہے
فیضِ حسؔن﷜ یہاں ہے فیضِ حسیؔن﷜ بھی ہے
مولا علؔی﷜ کی جلوت اقطاب کی زمیں ہے
ہر سمت ہے بہارِ سرکارِ غوث اعظم﷜
ان کی بڑی عنایت اقطاب کی زمیں ہے
برکاتیو یہ سن لو پندرہ قطب یہاں ہیں
اور ہر قُطُبْ کی جنت اقطاب کی زمیں ہے
یہ ہیں جلیؔل امت، ’’در گہہ بڑی‘‘ ہے اِن کی
آتی ہے یاں پہ خلقت اقطاب کی زمیں ہے
شیخ جلاؔل بھی ہیں، شیخ اِبرَاہِیْمؔ بھی
اعلیٰ ہے ان کی سیرت، اقطاب کی زمیں ہے
اک چھت کے نیچے یکجا، ہیں قطبِ وقت ساتوں
پائے نہ کیوں یہ رفعت اقطاب کی زمیں ہے
ساتوں قطب کے مرکز بیشک ہیں شاہ برکؔت
ان سے ہی تجھ میں برکت اقطاب کی زمیں ہے
قطبِ زمان ثانی آل محؔمدیﷺ ہیں
کیا خوب ان کی عظمت اقطاب کی زمیں ہے
حمزؔہ کی ذات سے ہیں روشن یہ ماہ پارے
کیسی عیاں ہے لمعت اقطاب کی زمیں ہے
اچھؔے میاں سے اچھی، ستھرےؔ میاں سے ستھری
بنتی ہے یاں پہ سیرت اقطاب کی زمیں ہے
آلِؔ رسولﷺ کا ہے یہ فیض جس سے ہر دم
گہوارۂ مسرت اقطاب کی زمیں ہے
کامل کیا رضاؔ کو پل میں گلے لگا کر
ایسی مثالِ نُدرت اقطاب کی زمیں ہے
نوریؔ میاں کے قرباں فیض و کرم سے ان کے
بستانِ علم و حکمت اقطاب کی زمیں ہے
شاہ جیؔ میاں کا قبّہ جو آٹھویں قطب ہیں
گویا نشانِ رفعت اقطاب کی زمیں ہے
ببّا حضوؔر بھی ہیں اقطاب کے جہاں میں
سید میاںؔ کی خلوت اقطاب کی زمیں ہے
اور یہ حسنؔ میاں ہیں جو گیارہویں سے چمکے
کیسی حسیں نُضارت اقطاب کی زمیں ہے
میم محمدی ہے مارہرہ تیری قسمت
گنبد نشانِ عظمت اقطاب کی زمیں ہے
میم مدینہ سے ہے مارہرہ ایسا روشن
گم ہے نشانِ ظلمت اقطاب کی زمیں ہے
دیتے ہیں درسِ وحدت یاں پر امینؔ ملت
بے شک امین وحدت اقطاب کی زمیں ہے
ہاں اک قطب یہاں کے مفتی خلیؔل بھی ہیں
اور ان کی وجہ شہرت اقطاب کی زمیں ہے
حافظؔ زمانہ جس سے برکات پارہا ہے
وہ خانقاہِ برکت اقطاب کی زمیں ہے
(۴ صفر الخیر ۱۴۳۷؁ھ/ ۱۷ نومبر ۲۰۱۵؁ء)

...

رب کی جو ہیں عنایت نوری میاں وہی ہیں

منقبت

نوری میاں وہ ہی ہیں

رب کی جو ہیں عنایت نوری میاں وہی ہیں
جو فخر ہر کرامت نوری میاں وہی ہیں
جو معدن شرافت نوری میاں وہی ہیں
جو منبع ذکاوت نوری میاں وہی ہیں
ہر جام عشق و الفت اس در سے ہی ملا ہے
جو مرکز موَدّت نوری میاں وہی ہیں
ہم فیض نور احمد جس در سے پارہے ہیں
جو سب کی ہیں نضارت نوری میاں وہی ہیں
ہر دور پُر فتن میں ہر راہِ پُر خطر میں
جس سے ملی ہدایت نوری میاں وہی ہیں
برکت نگر میں دی تھی میرے رضا کو جس نے
فرزند کی بشارت نوری میاں وہی ہیں
ان کی ضیاء سے ہم نے پائی ہر اِک بصیرت
جو نور ہر بصارت نوری میاں وہی ہیں
جو غوث عارفاں ہیں، جو قطب سالکاں ہیں
جو رہبر سعادت نوری میاں وہی ہیں
حافظؔ تجھے ملا ہے جس در سے فیض مرشد
جو مرکز حمایت نوری میاں وہی ہیں
(۵ رمضان ۱۴۳۷ھ/ ۱۰ جون ۲۰۱۶؁ء) نزیل مدینہ منورہ

...