منقبت  

طبعِ پُر جوش نے توڑا جو جہانِ وحدت

قصیدہ

درمدحِ شیخ الاسلام و المسلمین

سیدی  و مولائی الشاہ امام احمد رضاخاں فاضل بریلی قدس سرہ العزیز

طبعِ پُر جوش نے توڑا جو جہانِ وحدت
چشمِ تحقیق پھر اپنی ہوئی محو کثرت
کتبِ علمیہ سب حیطۂ ادراک میں تھیں
مکتبِ دہر میں ثابت تھی مری علمیت
مبتدی، منتہی بننے کو چلے آتے تھے
خطباء بنتے تھے آکر سبھی اہلِ لکنت
شملۂ تاجِ تکلّم سے تھی تطویلِ علوم
تختِ تدریس کے پائے تھے رفیع الشوکت
تھی شب و روز کچھ اِس طرح سے تعلیمِ علوم
ابتداء کرتا ہوں تخلیص سے لے کر اُجرت
نحو و تصریف میں ہوتا جو میں محو و مصروف
وزن و اعراب کی مِٹ جاتی تھی پھر نزعیت
ایک ہی لفظ میں لاتا تھا جہاتِ اربع
کرتا توسیعِ معانی سے میں عدمِ عُسرت
سبعِ احرف میں کبھی لہجۂ شیریں مشہور
لقبِ شیخ سے مشہور بعلم قِرأت
عروۃ الوثقی کبھی مجھ کو تھی در علم و عروض
خوب تھی بزمِ قوافی میں بھی میری شہرت
کبھی کرتا میں دوائر پہ زحافات کی مار
ہوتے اِک بحر سے آہنگ ہزاراں مُثبت
ڈوبتا بحرِ تحیّر میں جہانِ شعراء
کرتا میں شعر میں پیدا وہ کمالِ صنعت
شعراء کہتے تھے سب طورِ تخیل کا کلیم
حیرت افزا تھی میرے مضموں کی رفعت
کبھی ابحاث میں تھے علم معانی و بدیع
کبھی شعراء عرب کی میں بناتا درگت
کبھی میں لفظ و معانی میں شراکت کرتا
وجہِ اعجاز کی کرتا میں بیاں سببیت
کبھی تفسیر میں ہوتا مجھے دخلِ کامل
کرتا میں نظم مآخذ پہ کلامِ غایت
آیت آدم الاسماء تھی کبھی شاملِ درس
نطق تھا گویا مرا بحرِ رموزِ آیت
کبھی کرتا میں اصول اور احادیث پہ بحث
کبھی اسنادِ احادیث میں صاحب خبرت
تکتا تاریخ کے ادوار میں اقوامِ کہن
دیتا اقوام اواخر کو میں پھر سو عبرت
ارثمأ طیقی و الجبرأ و اسرارِ حروف
آکے آغوشِ تکلم میں یہ پاتے راحت
کبھی میں علمِ مغازی کو بناتا موضوع
جانِ رحمت کا دِکھاتا میں جمالِ سیرت
کبھی تحقیقِ مسائل رہی در علمِ خلاف
ساغرِ سرِّ شریعت سے میں پیتا شربت
معترض ہوتا کبھی علتِ اربع پر میں
شرعی اوصاف کی کرتا کبھی ثابت علّت
کبھی میں فقہہ کے کرتا تھا مآخذ پہ کلام
مجتہد ایسا کہ تقلید میں آتی اُمت
حنبلی، مالکی اور شافعی حنفی تھا کبھی
کبھی تطبیق مذاہب میں مجھے خاصیّت
کبھی تصحیح مسائل تھی مرے پیشِ نظر
تھی روایت میں سُنن اور فرائض کی صحت
ہفت افلاک کبھی رہتے تھے زیرِ ابحاث
سبعِ ارضین پہ بھی رہتی تھی تحقیق بہت
کبھی اجسام کے کرتا میں حجم کی باتیں
کبھی تدویرِ فلک پر تھا بیانِ ہیت
مشتری، زہرہ میں کرتا مَیں قران السعدین
کبھی اجرامِ فلک پر تھا بیانِ رجعت
کبھی اقوامِ کہن کا تھا مجھے پاسِ ادب
کرتا تھا حُسنِ زباں دانی سے تزئین لغت
کبھی اعدادکے خوّاص پہ تھی گہری نظر
کبھی اسماء کی بیاں کرتا تھا میں وصفّیت
بربطِ ریشم و ارگن سے بجاتا نغمے
کبھی اصوات کی کرتا تھا بیاں کیفیت
عقل کو طبع و تکلّف کا بناتا میں امیر
کرتا حیوان سے ممتاز میں حیوانیت
قوتِ فکر کبھی شہوت و افعالِ دگر
ملکۂ خُلق کے ماتحت تھی میری فطرت
کبھی تھا طبّ میں مشہور طبیب حاذق
طبّ کے کرتا تتّبع میں کبھی طبعیت
کبھی تصدیق و نفی سے تھی تصوّر پہ گرفت
پاتا معروف سے مجہول کی میں عرفیت
کبھی میں قضیہ وجودی کی گرہ سُلجھاتا
کبھی اشکال کے انتاج میں تکتا صورت
کبھی اجسام میں کرتا میں تغّیر کا ثبوت
کرتا عالم کو میں حادث بسکون و حرکت
کبھی کرتا جو بیاں فلسفہ مقدار و مکاں
ہوتی پامال دلائل سے مرے جسمیت
کبھی کرتا جو بیاں ہستئ ذاتِ باری
صد دلائل سے بیاں کرتا تھا میں نفیِ جہت
کبھی کرتا جو میں تشبیہہ میں تمحیص عنیق
چھوڑتا کر کے بیاں ذات کی میں غیریت
کبھی تر دید میں تھی نسبتِ افعال قبیح
کرتا ثابت جو انہیں کوئی بھی تحتِ قدرت
کبھی کفّارِ عرب سے تھا تکلّم میں جدال
وجہِ عالم کی نبوت پہ میں لاتا حجت
لفظ امکاں کو مساوی میں عدم سے کرتا
کرتا راجح میں اسی ذات کو مع فوقیت
بسط و ترکیب کے سلجھاتا میں عقدے ایسے
نطق سے میرے بیاں ہوتی خُدا کی وحدت
 کرتا اشیاء کے میں اجزاء کی وہ تفریق لطیف
وحدتِ حق میں بیاں کرتا میں عدم کثرت
ہمہ از اوست و ہمہ اوست میں اُلجھا رہتا
کبھی میں شیخ و مجدد کی پہنتا خلعت
کرتا جو علّت و معلول پہ تقریر بلیغ
ہوتے انگشت بدنداں سبھی اہلِ حکمت
پوچھتی حرکتِ اجسام محرّک کا پتہ
میں اِسی لا متحرک کی بیان کرتا صفت
کبھی کرتا میں خطِ غیر تناہی کو محال
قوت چشم میں کرتا کبھی عدم وسعت
کبھی میں عدم تناسخ پہ دلیلیں دیتا
روح کو کرتا میں پابند اصول قدرت
غرض، معقول و منقول کی رہتی بحشیں
صاف گردن سے عیاں رہتا غرور و نخوت
آخرش دیکھا تو یہ علم تھا اِک دردِ دماغ
ایک لمحے کے لئے آئی نہ مجھ کو راحت
کتب علم سمندر میں بہائیں میں نے
علم کے لوگوں سے اپنائی جو میں نے عزلت
سوئے میخانہ چل مدرسہء دہر سے مَیں
ملے مجھ کو بھی کِسی ہاتھ سے جامِ عشرت
وجد میں آکے پڑھوں مطلع برجستہ میں وہ
اہلِ حق سُن کے جِسے دیں مجھے داد الفت

 

مطلع ثانی

گر نہ آغاز جنوں میں ہو ہویدا فترت
سوزش عشق جلائے نہ حجاب غیبت
کیا ہُوا عقل نے چھانا تھا جو صحرائے علوم
دیدۂ ذوق نے دیکھا نہ کنارِ وحشت
کیا ہوا علم جواہر سے کیا ذرّے کو یاقوت
کیا ہُوا عِلم فراست میں جو پائی شہرت
پست افراد رمل پستئ تقدیر سے ہیں
عقلہ و قبض و نفی، عتبہ طریق و نصرت
گرچہِ اکسیر کی انواع رہیں تحت ادراک
کھلے ہر نوع کی بےفیض نہ کچھ نوعیت
علم طلسم سے اگر مہر پہ ہو قید بروج
بے مقدر نہ نتیجے پہ یہ پہنچے جودت
گو تصوف میں مِلے وحدت و کثرت کے مزے
فائدہ کیا نہ ہو خلوت میں ورود جلوت
آتش علم سے گر خُشک ہو سب آبِ ارض
ولے یہ ذوق تو ہے قیدئ دشت غربت
وائے ابلیس کو اس علم نے مردود کیا
حشر تک اِس کے گلے میں پڑا طوقِ لعنت
آفت علم کے ڈر سے ہوئی شوریدہ سری
دشت و صحرا سبھی چھانے نہ مٹی کچھ وحشت
شکر اَلْحمد کہ پہنچا میں دیارِ اقطاب
مہرباں مجھ پہ ہُوا کیسے ولئ نعمت
کیا کہوں کیسی تھی وہ وادئ حیرت افزا
جسکے افراد تھے سب صاحب خرق عادت
کہیں تھا حسن تشہد تو کہیں حسن قیام
کہیں تسبیح و تلاوت، کہیں جامِ وحدت
گوشۂ رنداں میں، میں افتاں و خیزاں پہنچا
شدّتِ غم سے گِرا کہہ کے میں آب فرحت
پھر چھلکتا ہُوا اِک جام لگا ہونٹوں سے
تلخئ عِلم کی پھر ختم ہوئی کیفیت
مہر انوار ہوا ظلمت باطن میں طلوع
دیکھ کر جس کو ہُوا خندۂ صبح عشرت
بیخودی میں اُٹھا پھر ہاتھ کہ اِک جام ہو اور
لذّت شرب سے بڑھتی گئی میری شدّت
چشم رنداں کے لئے تھا میں تماشا گویا
پہنچی ساقی کو خبر کون ہے یہ کم ہمت
قدم ناز اُٹھاتا ہُوا نِکلا کوئی
دست بستہ تھے کھڑے سامنے اہلِ فطنت
آئی آواز کہ تھا رقصِ حلاوت جس میں
غازۂ خلق تھی کیا نرمئ خوئے لینت
بزم رنداں میں ہے یہ کون مثال شمعی
کون آیا ہے یہ متلاشئ سرّ وحدت
سر اُٹھایا تو عیاں منظر انوار ہُوا
تھا کھڑا سامنے وہ ساقی شیر و شربت
ہر طرف اس کے تھا اِک ہالۂ انوار ازل
تھا وہ سر تا بقدم جلوۂ شان قدرت
ڈال دے مخزن انوار سے اِک راز اگر
خس و خاشاک ہوں پل بھر میں یہ بحر و پربت
مدح خواں اُس کے تھے اہل ارشاد و تکوین
کہتے تھے اُس کو سبھی قاسم کنز نعمت
خادم اس کے تھے جہات اربع پر معمور
ہفت ابرار کے سر پر تھا وہ ابر رأفت
خوشہ چیں اس کے دبستاں کے تھے اہلِ تمکیں
اہلِ تلویں کو عطا کرتا بساط قربت
تھا قدم اُس کا سر عرش ولایت سے بُلند
مَلتے تھے اولیا بھی چہروں پہ گردِ رفعت
فقر تھا حسن تلذذ کے لئے ملح طعام
فقراء سب تھے بڑھائے کف بحر حاجت
جذبہ و ذوق و رضا، حسن تمارین خیال
مشعل خلوت در بزم تھی اس کی صحبت
بارش فتح سے زرخیز تھی کیا ارض فتوح
اوج ہاہوت تلک تھے شجر بشریت
بزم رنداں میں لکھوں وجد میں آکر مطلع
اہلِ عرفان کو دوں مژدۂ حسن صورت

مطلع ثالث

واہ اس گل میں تھی کیا بوئے کمالِ حیرت
جس سے مہکا ہُوا تھا گلشن انسانیت
نور عارض سے عیاں ہوتا تھا حسن عارض
حسن انوار میں گم تھے اہلِ جمعیت
متحد غلبۂ انوار سے ہوں جیسا کہ قوسین
شکل ابروئے خمیدہ کی تھی ایسی حالت
فتق گلہائے طریقت کا تھا اس سے اثبات
نرگس باغ حقیقت تھا وہ طوبیٰ قامت
شانۂ زلف کی عاشق تھی نسیم تفرید
گلشن معنی میں تھا وہ سہی سر و قامت
بحر آگاہی میں گُم ہوں ارواح و اشباح
ٹپکے جو زلف سے اِک قطرۂ جذب و الفت
سفر در وطن سر گیسوئے خمدار پہ تھا ختم
کاشف پردۂ لاہوت تھی جس کی نکہت
سبزۂ نورِ الست اُس کی تھی مژگان دراز
غازۂ حسن بلیٰ شبنم ابر طلعت
عقدۂ معنئ موہوم کی کھُل جائے گرہ
جنبش حسن کمر پائے جو پل کی مہلت
قلب جو سر خداوندی کا تھا مرکز فیض
تو اَلَمْ نَشْرَح تھی اس پہ دلیل وسعت
جنبش لب کے اثر سے ہلے زنجیر قدر
نور اسنان سے چمکائے وہ نجم قسمت
وادئ حسن تکلم میں تھا کیا سبزۂ نور
حسن افروز تھا کیا چشمۂ علم و حکمت
پہلوئے ناز میں پھر دے کے مجھے جائے شرف
میرے میزان تخیل پہ رکھا دست شفقت
پھر یہ فرمایا کہ اے طالب راز مستی
سوزش غم سے بجا اب نہ یہ ساز نکبت
تیری بے چینی سے بے چین ہیں ارباب شہود
اہلِ احوال کے چہروں کی ہے بدلی رنگت
تنگ اتنا بھی نہیں دائرہ اہلِ وقوف
مرد و نامرد کی سب جانتے ہیں اصلیت
مسکرا کر کہا اب غور سے سُن مژدۂ عیش
چشم وجدان سے اُٹھ جائے حجاب رؤیت

 

 

مطلع رابع

یوم مولود ہے اس کا جو ہے ظلِ رحمت
کھُل گیا معنئ اتمت علیکم نعمت
ظلِ رحمت وہ جسے کہتے ہیں احمد ہندی
گرچہ بیعت ہے ہماری پہ ہے رشک بیعت
فیض مولائے علی﷜ اس کی طبع میں جاری
کم سنی میں تھی عطا اس کو حیائے حشمت
چشم سے اس کی ٹپکتی تھی حیائے تقصیر
طبع کو صورتِ سجدہ میں تھی شب بھر رغبت
تربیت عالم عالی سے ہوئی تھی اُس کی
اہلِ لاہوت صدا اس کے رہے ہم صحبت
بحر مسجور کی اسماک میں اُس کے چرچے
ایسا ترسا کہ ہُوا رشک عباد و خلقت
 کیا بوادِ رہِ معمور تھی اس پر شیدا
موسم علم میں بلبل کو نوید بہجت
اہلِ علم آتے تھے خیراتِ سکوں لینے کو
اہلِ تقوی کو بھی یاں رہتی تھی طلب دعوت
بزم میں اس کی وہ جلتے تھے چراغانِ سلوک
نور سے جن کے چھٹے قلب سے ابر غفلت
اختصاص ایسا کہ قلب اس کا تھا بیت معمور
جسم سے اُس کے ہویدا ہوئی روحانیت
خانۂ نطق جو اُس کا کھُلا، کھُلا چاہِ زنخ
خامہ اس کا جو چلا، فکر میں آئی سرعت
حلقۂ خلع بدن کی صف اوّل کا امام
جس کو حق سے تھی ازل سے ہی عطائے خلت
شان تجدید نظر آئی تو اس کے دم سے
عالم شرع میں تھا مرجعٔ اہلِ سنت
جاؤ اس در پہ کہ حاصل ہو سکونِ قلبی
آتش علم تمہاری بھی ہو باغِ جنت
تیرے خمخانۂ باطن میں پڑے زور کا جوش
اہلِ وسواس کو پھر علم کرے دم میں غارت
روسیاہی وہ ملے جس سے ہوں روشن افکار
دوجہاں گرچہ رہیں تیرے اسیر ظلمت
جاؤ اس در پہ، مٹے نوحۂ توقان و اشجان
دیدۂ قلب سے اُٹھ جائے حجاب حسرت
مرکز ہند کا وہ والی و مختار و حکم ہے
سائلوں کے لئے بٹتی ہے وہاں فتح و نصرت
ایک عالم ہے کہ اس در کی طرف پھرتا ہے
حوض فیضان محمد بنی اس کی تربت
گویا اس شیخ نے بھیجا مجھے پھر جانب ہند
آگیا پھر سے مرے نطق میں شکر نعمت
پہنچا جو تربت اقدس پہ تو احساس ہُوا
جسد و روح سے پل بھر مِٹی سب وحشت
دیکھتا ہوں کہ ہجومِ اہلِ عمل کا آیا
حلقۂ عِلم نے بھی آکے دکھائی جلوت
پھر ہُوا رقص، اُٹھا شور، پڑی ایسی دھوم
کُھل گئی آنکھ مری اور میں محوِ حیرت
پہروں لے لے کے مزے سوچ میں مَیں غرق رہا
کاش یہ خواب حقیقت کی بدلتا صورت
کرتا ہوں ختم سُخن اپنی دُعا پر رازؔی
چھوٹے مجھ سے نہ کبھی دامن اعلیٰ حضرت﷫

...

عشق بھی حُسنِ متانت بھی ہیں اعلیٰ حضرت﷫

عشق بھی حُسنِ متانت بھی ہیں اعلیٰ حضرت﷫
دین کا رنگ بھی نکہت بھی ہیں اعلیٰ حضرت﷫
مخزنِ فلسفہ ہیں‘ معدنِ منطق بھی ہیں
گُلشنِ رُشد و ہدایت بھی ہیں اعلیٰ حضرت﷫
آپ کے فیض سے لَوٹ آئی بہارِ رفتہ،
مَوجِ بُستانِ رسالت بھی ہیں اعلیٰ حضرت﷫
آپ کی فقہی بصیرت کی ہے دُنیا قائل
فخرِ ارباب ِ بصیرت بھی ہیں اعلیٰ حضرت﷫
صاحبِ حال ہیں اور شرع کے پابند بھی ہیں
والہ جدّت و نُدرت بھی ہیں اعلیٰ حضرت﷫
صرف اربابِ نظر ہی کے وہ رہبر تو نہیں
مرجعِ اہلِ طریقت بھی ہیں اعلیٰ حضرت﷫
ایک میرے ہی تو وُہ معنوی اُستاد نہیں
افسر مجلسِ مِدحت بھی ہیں اعلیٰ حضرت﷫
(پروفیسر حفیظؔ تؔائب مدظلّہ)

...

تعالیٰ اللہ بڑا اُونچا مقامِ اعلیٰ حضرت﷫ ہے

تعالیٰ اللہ بڑا اُونچا مقامِ اعلیٰ حضرت﷫ ہے
سرِ فہرستِ اہلِ علم نام اعلیٰ حضرت﷫ ہے
سراپا عشقِ مصطفویﷺ کلامِ اعلیٰ حضرت﷫ ہے
شرابِ عشق سے لبریز جامِ اعلیٰ حضرت﷫ ہے
ہیں میکش اعلیٰ حضرت﷫ کے بنے ساقی زمانے کے
جہاں میں آج بھی فیضانِ عام اعلیٰ حضرت﷫ ہے
محقّق بہت پیدا ہو چکے ہیں دور حاضر میں
مگر سب کی نظر میں نقشِ گام اعلیٰ حضرت﷫ ہے
جہاں پر سر جُھکایا آکے سارے علم والوں نے
وہ سنگ آستان بابِ بامِ اعلیٰ حضرت﷫ ہے
پڑھا جائے نہ کیسے اہلِ سُنّت کی محافل میں
بہت پُرکیف لُطف آور سلامِ اعلیٰ حضرت﷫ ہے
ہے قاسؔم کے گلے میں بھی یہ پٹّہ اعلیٰ حضرت﷫ کا
زہے قسمت یہ قاسؔم بھی غلامِ اعلیٰ حضرت﷫ ہے
(مولانا ابو المکرّم احمد حسین قاسمؔ الحیدری الہاشمی مدظلہ)

...

قبلۂ دین و کعبۂ ایماں، اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت؛

قبلۂ دین و کعبۂ ایماں، اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت؛
راحتِ قلب‘ رحمتِ یزداں‘اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت؛
دُشمنِ دُشمنانِ دینِ متیں، آپ ہیں یار یارِ غارِ نبیﷺ
صدقِ صدیق﷜ ہے زباں پہ رواں‘اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
فخرِ شمشیر ہے قلم ایسا سر قلم جس سے نجدیّت کا ہُوا
عدلِ فاروقیت﷜ ہے تجھ سے عیاں‘اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
حُرمتِ دیں پہ حرف جب آیا‘ کام آئی تری حمیّت ہی
ہر لقہ شرم و غیرتِ عثماں﷜، اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
پنچہ ابلیس کا مروڑا ہے تُو نے ناموسِ مُصطفیٰﷺ کی قسم
جُرأتِ حضرتِ علی﷜ کا نشاں‘اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
غوثَ الاعظم﷜ کے عاشقِ صادق، دینِ اسلام کا ستُون ہو تُم
الُفتِ اہلِ بیت پر قُرباں، اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
جب بڑھا ارضِ ہند کی جانب فتنۂ نجدیت کا سَیلِ رواں
تھا قلم تیرا سدّ ہر طُوفاں اعلیٰ حضرت مجدّدِ ملّت؛
تیری تاریخ ساز ہستی نے زورِ نجدیت کو توڑ دیا
عہدِ حاضر پہ ہے ترا احساں‘ اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
بُوحنیفہ﷫ کے علم کا جوہر غوثِ اعظم﷜ کے فقر کا گوہر
نافع دین و دافعِ عصیاں‘ اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
حنفیت کے حسین گُلشن کو اپنے تازہ لہو سے سینچا ہے
اہلِ سُنّت ہیں آپ پر نازاں اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
اجتہادی صلاحیت تیری دَورِ حاضر پہ ہوگئی حاوی‘
عہدِ نَو کے سکُون کا ساماں اعلیٰ حضرت مجدّدِ مِلٓت؛
جن مسائل میں اختلاف ہوا، کیسی خوبی سے اُن کو سلجھایا
دردِ ملّت کا آپ ہیں درماں‘اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
کُفر و الحاد کے اندھیروں میں ہو ضیائے چراغِ مُصطفویﷺ
دینِ حق کے جو نیرِّ تاباں اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
مصطفیٰﷺ کا ادب سکھاتے ہیں راہِ عشقِ نبیﷺ دکھاتے ہیں
اُلفتِ اہلِ بیت﷢ پر نازاں اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
جذبۂ عشق مصطفیٰﷺ کے طفیل پلصراطِ ادب سے گزر ے ہیں
ترجمانِ حقائقِ قرآں اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
خُوب کھولے دقائقِ قرآں، ترجمہ ہے سلیس اور آساں
راہبرِ راہِ منزلِ عرفاں‘ اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
آپ علمِ حدیث کے ماھر، آپ کی ذات فخرِ علمِ رجال
حافظہ بے مثال و بے پایاں‘ اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
اے کہ تُو فخرِ بُوحنیفہ﷫ ہے ناز ہے تجھ پہ خود فقاہت کو
کون تُجھ سا ہے مُفتئ دوراں، اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
بارہ جلدوں میں موجزن پایا وہ فقاہت کا بحرِ بے پایاں
ہے فتاویٰ رضویہ عُنواں اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
ڈاکٹر سر ضیاء الدّین جیسے ماہرِ فن نے استفادہ کیا
اے ریاضی کے بحرِ پایاں اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
آپ فنِّ عُروض کے ماہر، سب سے مقبول نعت گو شاعر
حُسنِ کامل ہے آپ کا دیواں اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
آپ کے ذہن کے شکنجہ میں قید تھے نصف صد علُوم و فنون
علم و حکمت ہے آپ پر نازاں، اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
ایک ہزار آپ نے لکھّیں کُتب جن میں بکھرے ہیں علم کے موتی
عقل ہے اہلِ علم کی حیراں اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
آپ گنجینۂ حقائق ہیں اور خزینہ بھی ہیں دقائق کا
حکمتِ لازوال و بے پایاں اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
زُہد و تقویٰ  و عشق و الُفت کی آپ کی ذات اک مرقع تھی
جس کا کوئی نہیں مقابل یاں اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
درس و تدریس کے فرائض کو آپ نے کم سِنی میں اپنایا
ابتدا سے تھا فیضِ علم رواں اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
تھے جب علُماء سُو گدائے فرنگ اور کچھ تھے اسیرِ زُلفِ ہنُود
تُو نے دُو قوم کا کیا اعلاں اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
تیرے افکار ہی سے اے ہادی ہم نے جیتی ہے جنگِ آزادی
تیرا احساں ہے یہ ’’پاکستان‘‘ اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
ؔحُرمتِ دامنِ نبیﷺ کی قسم اہلِ سُنّت کا عہد ہے کاوش
اب نہ چھوڑیں گے آپ کا داماں اعلیٰ حضرت﷫ مجدّدِ ملّت
نتئیجہ فکر: پروفیسر فیاض احمد خان کاوؔش مدظلہ‘ میرپور خاص (سندھ)

...

رازِ فطرت کے حقیقی ترجماں احمد رضا

منقبتِ امام احمد رضا بریلوی

۱۹۸۶ء

رازِ فطرت کے حقیقی ترجماں احمد رضا
ہیں رموزِ معرفت کے رازداں احمد رضا
آپ ہیں مسند نشینِ محفلِ نعتِ نبیﷺ
سرورِ کونینﷺ کے ہیں مدح خواں احمد رضا
مسلکِ احناف کے ہیں سالکِ روشن ضمیر
منزلِ حق کے امیر کارواں احمد رضا
پیشوائے اہلِ سُنّت، صدرِ اربابِ یقیں
داعیِ حق‘ واعظِ شیریں بیاں احمد رضا
ہیں ثنائے حق تعالیٰ میں مگن شام و سحر
مدَحِ پیغمبر میں ہیں رطبُ اللّساں احمد رضا
مُفتیِ دَوراں‘ فقیہہِ نُکتہ داں ‘ گنجِ علُوم
حکمت و عرفاں کے بحرِ بیکراں احمد رضا
ہیں تصانیفِ گرامی‘ راہبرِ اہلِ نظر
کائناتِ علم کے رُوحِ رواں احمد رضا
ذرّہ ذرّہ ہے جہانِ معرفت کا نُور بیز
ہیں حریم فقر میں جلوہ فشاں احمد رضا
جانشینِ غوثِ اعظم رحمتہُ اللہِ علیہ
خادمِ اسلام، مخدُومِ جہاں احمد رضا
عارفِ کامل، ولئِ باصفا، قُطبِ زَمن
ہیں مجدّد اور محدّث بےگماں احمد رضا
گُلستانِ قادریّت آپ سے ہے پُر بہار
درحقیقت ہیں بہارِ بےخزاں احمد رضا
ہیں وُہ سرتاجِ افَاضل‘ عالمِ علمِ کلام
شارحِ قرآن‘ یکتائے زماں احمد رضا
تشنہ کامانِ جہانِ معرفت کے واسطے
ہیں بلاشک چشمۂ آبِ رواں احمد رضا
آپ سے نسبت پہ کیوں نہ فخرہو مجھ کو بھی جب
ہر عقیدت کیش پر ہیں مہرباں احمد رضا
جس سے روشن ہے جہانِ قادریّت اے قمرؔ!
ہیں وہ حق کے آفتابِ ضوفشاں احمد رضا
کفش بردارِ عُلماء حقّانی قمر یزدانی

۲۸ ربیع الثانی ۱۴۰۶؁ھ پنوانہ ضلع سیالکوٹ

...

بچایا دین و ایماں تلف ہونے سے مسلماں کا

بچایا دین و ایماں تلف ہونے سے مسلماں کا
عظیم احساں ہے امّت پر امام احمد رضا خان کا
رہا رُخ موڑ کے تو جھوٹ کے ہر ایک طُوفاں کا
زمانہ آج بھی ممنون ہے تیرے لُطف و احساں کا
محدّث بھی مفسر بھی مجدّد بھی تُو برحق ہے
ترے ہی سر پہ سجتا تاج ہے شاہِ فقیہاں کا
جو پایا تُو نے اعزازِ فضیلت وہ مثالی ہے
احاطہ کر نہیں سکتیں نگاہیں عظمت و شاں کا
فصاحت میں بلاغت میں فقاہت اور امامت میں
ہے جاری آج بھی سکّہ ترے ہی علم و عرفاں کا
نشانِ راہ ہے اب تک تری طرزِ جُداگانہ
لقب زیبا ہے تجھ ہی کو امامِ نعت گویاں کا
کھلے ہیں پُھول ہر جانب گلستانِ شفاعت کے
کُھلا ہے جب بھی کوئی باب تیرے نعت ایواں کا
تُجھے فائنہ کیا فطرت نے دیں کی ترجمانی پر
نبھایا خُوب ہے تُو نے فریضہ شرحِ قرآں کا
ترے ہر لفظ سے اُلفت کے سوتے پُھوٹے پڑتے ہیں
مطالعہ کر کے دیکھے بھی تو کوئی ’’کنزِ ایماں‘‘ کا
نبیﷺ کی آن کو رکھّا مُقَدّم ہر گھڑی یارو
عیاں تیرے عمل سے ہوگیا یہ راز ایماں کا
نہیں کوئی سوائے مصطفیٰﷺ کے اپنا کہنے کو
یہی پیغام دیتا ہے ترا ہر شعر دیواں کا
کیا ہے دُودھ سے پانی جُدا بےشک رضؔا تُو نے
تعلّق ہے ترا اسلام سے جاں سے رگِ جاں کا
مقابل کب ترے ٹھہرا ہے کوئی ’’دیو کا بندہ‘‘
ہؤا کب ہے کسی سے سامنا اس تیغِ برآں کا
بدل کر رکھ دیا مطلق مزاجِ گُمرہاں تُو نے
ہدایت کی سند ہت بس تعلق تیرے داماں کا
عرب اور عجم میں الغرض ساری ہی دُنیا میں
ترا ہی نام لیوا ہے مخالف حزبِ شیطاں کا
ترے صدقے ترے قُرباں مِرے آقا مِرے شاہا؛
نمایاں کر دیا سب فرق تُو نے کُفر و ایماں کا
نشانِ اہلِ سُنّت بن گئی نسبت بریلی کی
عجب بخشا تُجھے حق نے صلہ خدماتِ ذی شاں کا
زمانہ لاکھ کروٹ لے ہزاروں انقلاب آئیں
سدا جاری رہے گا تذکرہ اس زیبِ عنواں کا
ہو چاہے نقشبندی قادری چشتی سُہرورَدی
ہر اِک پر مُشترک سایہ ہے اس مہرِ درخشاں کا
مدد اے اعلیٰ حضرت اے مجدّد دین و ملّت کے
عدُو ہے چار سُو پھر سے شکاری دین و ایماں کا
ہے تیرے نام کی نسبت سے یہ مہجوؔر بھی رضوؔی
جہاں میں آج بھی جاری ہے تیرا بحر فیضاں کا

...

عاشقِ خیر الوریٰﷺ احمد رضا خاں قادری

عاشقِ خیر الوریٰﷺ احمد رضا خاں قادری
واصفِ شاہِ ھُدیٰ احمد رضا خاں قادری
پیشوائے اصفیاء احمد رضا خاں قادری
سَر گروہِ اتقیاء احمد رضا خاں قادری
آپ سے وابستہ ہے اربابِ سُنّت کا وقار
نازشِ اہلِ وفا احمد رضا خاں قادری
لرزہ براندام جن کے سامنے ہیں اہلِ شَر
ہیں وُہ مردِ باخُدا احمد رضا خاں قادری
ہیں امامِ اہلِ سُنّت‘ مفتئِ نکتہ شناس
خلق کے عُقدہ کشا احمد رضا خاں قادری
دھجیّاں گُمراہ فرقوں کی اُڑائیں آپ نے
مرحبا صَد مرحبا احمد رضا خاں قادری
جن کا ہے کردار عکسِ سیرتِ خیرالبشرﷺ
ہیں وُہ عبد المصطفیٰ احمد رضا خاں قادری
کاروانِ اہلِ سُنّت کو کیا منزل شناس
سُنّیوں کے رہنما احمد رضا خاں قادری
آج ہے تابشؔ قصوری منقبت خوانِ رضؔا
قلب و جاں کا مُدّعا احمد رضا خاں قادری
﷫﷫﷫﷫﷫﷫﷫﷫﷫

...

احمد رضا (اے حامی دینِ خدا) احمد رضا

منقبت

(Four in one۔چہار دریک)

از: ڈاکٹر صابر سنبھلی (مراد آباد، انڈیا)

نوٹ:اس منقبت کو چار طرح سے پڑھا جائے۔

(۱)پورے مصرع پڑھے جائیں۔(۲)مصرع کا پہلا حصّہ بریکٹ میں درج الفاظ کے ساتھ پڑھا جائے۔ (۳)بریکٹ میں درج الفاظ کے ساتھ مصرع کا آخری حصّہ پڑھا جائے۔ (۴)ہر مصرع سے صرف بریکٹ میں درج الفاظ پڑھے جائیں۔

 

احمد رضا (اے حامی دینِ خدا) احمد رضا
مقبولِ حق ( اے عاشقِ خیر الورٰی) احمد رضا
چشم کرم (اے نائب شاہ ہدیٰ) احمد رضا
بہرِ جہاں (اے ربِّ اکبر کی عطا) احمد رضا
اُجلا کیا (روشن کیا رُخ دین کا) احمد رضا
بیشک ہو تم (کُل اہل حق کے مقتدا) احمد رضا
بر ہر زباں (چرچا ہے ہر سو جابجا) احمد رضا
آخر تمہیں (دنیا نے مانا پیشوا) احمد رضا
صبح ومسا (چاہوں رضائے مصطفیٰﷺ) احمد رضا
رٹتا رہوں (رٹتا رہوں احمد رضا) احمد رضا
مسرور ہوں (سرکار طیبہ خوش رہیں) تم سے سدا
اے رہ نما (راضی رہے ربُّ العلا) احمد رضا
للہِ ھو (للہ ھو للہ ھو) للہ ھو
میری طرف (چشم کرم بہرِ خدا) احمد رضا
مجبور ہوں (رنجور ہوں، مغموم ہو) مظلوم ہوں
اب کیجئے (میری طرف بھی اعتنا) احمد رضا
بے علم یہ (ادنی گدا صابؔر بھی ہے) آقائے من
بہرِ خدا (کچھ علم ہو اس کو عطا) احمد رضا

(تعزیت نامہ: جناب ڈاکٹر صابر سنبھلی صاحب کے والد ماجد محترم جعفر حسین صاحب ۹ دسمبر ۲۰۰۶ کو ۸۵ برس کی عمر میں انتقال فرما گئے۔ آپ نہایت نیک انسان تھے۔ ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا کے تمام اراکین مجلس عاملہ ڈاکٹر صاحب سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جناب جعفر حسین مرحوم کی مغفرت فرمائے اور صالحین میں ان کا شمار فرمائے! آمین بجاہ سید المرسلینﷺ)

...

مرکزِ تجلیّاتِ مُصطفیٰﷺ

مادہ ھائے تاریخ (سال وصال)

مُجدد دین و ملّت، امام اہل سُنّت عظیم الدرجت اعلیٰ حضرت الشّاہ احمد رضا خان القادری البریلوی﷫

از: محمد عبدالقیوم طارق سلطان پوری (حسن ابدال، اٹک)

۱۳۴۵ھ

’’مرکزِ تجلیّاتِ مُصطفیٰﷺ‘‘
’’تجلّیاتِ عِشقِ طیبہ‘‘
’’والہ المُختار طیبہ‘‘
’’تصویرِ کمال محبتِ مُحمّدﷺ‘‘
’’نعیمِ فیضانِ مُصطفیٰﷺ‘‘
’’مکتبِ معرفت حبیب اللہﷺ‘‘
’’شہنشاہِ کشورِ علم و ادب‘‘
’’تابعِ قُرآن و سُنّت‘‘
’’شمعِ رُشد و ہدایت‘‘
’’بدر خُوبئ تقوٰی‘‘
’’ذُوالفقار ۔۔۔۔۔ حیدر‘‘

۱۹۲۱ء

’’ماہتابِ عظمتِ نبیﷺ‘‘
’’پیکر خوبئ فیضانِ نبیﷺ‘‘
’’قُوّتِ عرفانِ حضورﷺ‘‘
’’کمالِ نعمت و بخششِ نبیﷺ‘‘
’’زیب باغِ سیرتِ مصطفیٰﷺ‘‘
’’فیضِ شہِ کوثر‘‘
’’رُوح پرور منظرِ مدینہ‘‘
’’چراغِ منہاجِ حقیقت‘‘
’’ذخیرۂ عرفانِ نعت‘‘
’’فخر الافاضلِ زماں‘‘
’’چراغِ منزلِ سرکارِ مدینہ‘‘

...

گلستانِ نَعت کا نغمہ سرا

مادہ ھائے تاریخ (سال وصال)

امام اہلِ سُنّت، اعلیٰ حضرت الشّاہ احمد رضا خاں القادری البریلوی قدس سرہ القوی﷫

سال وصال: ۱۳۴۵ھ/ ۱۹۲۱ء

قرآنی مادۂ تاریخِ وصال ’’اُولٰئِکَ مَعَ الّذِیْنَ انْعَمَ اللہ عَلَیْھمْ‘‘(۱۳۴۵ھ)

 

گلستانِ نَعت کا نغمہ سرا
عاشقِ خیرُالوریٰ، احمد رضا
حفِظِ نامُوسِ مُحمد مصطفیٰﷺ
تھا یہ اُس کی زندگی کا مُدعّا
تھا علَم بردار اِس تحریک کا
جانِ ایماں ہے ولائے مصطفیٰﷺ
عارفِ توحید، وحدت آشنا
خُود کو کہتا تھا وہ عَبدِ مصطفیٰﷺ
اُس کے اوصاف ِ دماغ و قلب کا
مُعترف غیروں کو بھی ہونا پڑا
وَلولہ انگیز مدّاحِ حبیبﷺ
رُوح پرور اُس کے نغماتِ ثنا
بے نیاز طعنہ و تحسینِ خلق
کلمۂ حق برملا اُس نے کہا
نکتہ دان و زیرک و عالی دماغ
قُلزمِ دانش، سمندر علم کا
کنزِ ایماں، مخزنِ عرفان ہے
ترجمہ قرآں کا جو اُس نے کیا
راست اُس کے قامت زیباپہ ہے
ہر سعادت ہر فضیلت کی قبا
مُنکرانِ دینِ حق کے واسطے
ایک مُحکم حُجّت اسلام تھا
آج بھی اُس مردِ حق کا ذکرِ خوب
کوبۂ کوُ، محفل بہ محفل، جابہ جا
اُس کی تاریخ وصال باکمال
’’طالبِ حق، مَصدرِ فقر و غنا‘‘

...