صل علی محمد
ماہِ مبین و خوش ادا صلِ علیٰ محمد
پردۂ کن کے مہ لقا صلِ علیٰ محمد
ماہِ مبین و خوش ادا صلِ علیٰ محمد
پردۂ کن کے مہ لقا صلِ علیٰ محمد
اُن کے روضے پہ بہاروں کی وہ زیبائی ہے
جیسے فردوس پہ فردوس اُتر آئی ہے
تم نقشِ تمنّائے قلمدانِ رضا ہو
برکات کا سورج ہو بریلی کی ضیا ہو
تیرے قدموں میں شجاعت نے قسم کھائی ہے
...
اپنے مستوں کی بھی کچھ تجھ کو خبر ہے ساقی
مجلسِ کیف تِری زیر و زبر ہے ساقی
جو طالب ہے کافؔی خدا کی رضا کا
تو اب وصف لکھیے حبیبِ خدا کا
...
لکھا ہے کوئی تو دُرود اس طرح کا
کہ ہے ا صلِ صلوات کا وہ نتیجہ
...
سلامٌ علیک اے حبیبِ الٰہی
سلامٌ علیک اے رسالت نہ پاہی
...
کہ ذکرِ حبیب اِس طرح کا بجا ہے
مریضِ طلب کو طبیبِ دوا ہے
...
سراپا وہ صَلِّ عَلٰی آپ کا تھا
کہ ہر عضو حسنِ تجلی نما تھا
...