نعت  

بیِّ مکرّم نبیِّ امیں ہیں

بیِّ مکرّم نبیِّ امیں ہیں
شفیع الورا خاتم المرسلیں ہیں
وہ ایسے نبی ہیں کہ جن کے سبب سے
زمین و زمان و مکان و مکیں ہیں
وہ ہیں بحرِ زخارِ احسان و رحمت
وہ سب خلق سے بہترین و گزیں ہیں
اسں عالم میں غم خوار ہم عاصیوں کے
بروزِ جزا شافعِ مذنبیں ہیں
سلام و صلاۃ و درود و تحیّت
انھیں کے لیے ہدیۂ مسلمیں/ مومنیں(؟) ہیں
مدارج مراتب جو اُن کو ملے ہیں
کسی دوسرے کو نہیں ہیں نہیں ہیں
ملا ہم کو کیا خوب کؔافی وسیلہ
ہمارے نبی رحمت العالمیں ہیں

 

قطعہ

 

چہ دم زند خامہ بحالِ آل نبی
کہ خار جست ز گفتن کمالِ آل نبی
مطالب ِ دلِ کاؔفی عطا بکن، یا رب ؟؟؟
بحق حرمتِ جاہ و جلالِ آل نبی

 

...

حضور ساقئ کوثر مرا سوال بھی تھا

نعتِ مصطفیٰ ﷺ

 

جلال و جمال

 

حضور ساقئ کوثر مرا سوال بھی تھا
ملا جو جام چھلکتا ‘ مجھے حلال بھی تھا
کہیں جلال کے پردے میں تھا جمال دوست
کہیں جمال کی آغوش میں جلال بھی تھا
مری عطا سے جو بڑھ کر ملا وہ ان کا کرم
یہ میری حسن طلب کا مگر کمال بھی تھا
مری نگاہ میں وَالَّیْلْ کا رہا مضموں
مرے نصیب میں سودائے زلف و خال بھی تھا
یہ بے خودی تھی ‘ جنوں تھا ‘ کہ خویش آگاہی
کہ ہوش گم تھے مگر یار کا خیال بھی تھا
بہار جھانکتی آئی خزاں کے پردے سے
فراق تلخ سہی ‘ مورث وصال بھی تھا
تباہ کرکے رہیں تیری شوخیاں تجھ کو
خودی میں ڈوبنے والے تو بدمآل بھی تھا
تلاش کرہی لیا رحمتوں نے حاؔفظ کو
شکستہ دل بھی ‘ پریشان  بھی ‘ خستہ حال بھی تھا
 (نومبر ۱۹۸۱ء)

...

ہم جہاں بھی آئیں جائیں رب ہمارے ساتھ ہے

ہمیں حمد و  ہمیں نعت

 

ہم جہاں بھی آئیں جائیں رب ہمارے ساتھ ہے
خوف کیوں دل میں بٹھائیں رب ہمارے ساتھ ہے
مومنو مژدہ ملا ہے اَنْتُمُ اْلَاعْلَوْنْ کا
دل کو نہ غمگیں بنائیں رب ہمارے ساتھ ہے
یہ نبیﷺ فرما رہے ہیں غار میں صدیق﷜ سے
غم کو نہ دل میں بسائیں رب ہمارے ساتھ ہے
جو نبی کا ہوگیا ‘ اللہ اس کا ہوگیا
بخش دیں ساری خطائیں رب ہمارے ساتھ ہے
جن کو آقا مل گئے ‘ اللہ ان کو مل گیا
پھر نہ وہ کیوں گنگنائیں رب ہمارے ساتھ ہے
ہو رخ زیبا نظر میں اور زباں پر یَارَسُوْل
نزع میں ہم مسکرائیں رب ہمارے ساتھ ہے
جان دیں گے عشق احمد میں جو حاؔفظ دیکھنا
مرکے بھی دیں گے صدائیں رب ہمارے ساتھ ہے

...

قبر میں لیکے تیری دید کا ارمان گیا

مقصود حیات

 

قبر میں لیکے تیری دید کا ارمان گیا
کون کہتا ہے کہ میں بے سرو سامان گیا
صرف دنیا سے وہی صاحبِ ایمان گیا
جو ترا ہوکے رہا دل سے تجھے مان گیا
مَرْحَبَا آپ وہاں صاحب اَسْریٰ پہنچے
نہ جہاں کوئی فرشتہ کوئی انسان گیا
جب اُٹھی چشم گدا سوئے مدینہ اُٹّھی
جب گیا سَرْورِ عالم کی طرف دھیان گیا
میں تمھاری
نگۂ لطف و عنایت کے نثار
جز تمہارے نہ کسی اور طرف دھیان گیا
نفسی نفسی تھی نہ تھا ہوش کسی کو لیکن
تیرا دیوانہ تجھے حشر میں پہچان گیا
نزع میں پیش نظر تھا رخ مولا حاؔفظ
یعنی دنیا سے میں پڑھتا ہوا قرآن گیا
(مطبوعہ ہفت روزہ المدینہ کراچی جولائی ۱۹۷۱ء)

...

مہر نبوت ‘ ماہ رسالت ‘ رحمت سے بھر پور

مِدحت نبیﷺ

 

مہر نبوت ‘ ماہ رسالت ‘ رحمت  سے بھر پور
ایک نگاہ لطف ادھر بھی ‘ شفقت سے بھرپور
آپ کی آمد سے ہی بنی ہیں ، راحت دل کا ساماں وہ
ایسی راہیں جو تھیں پہلے کلفت سے بھرپور
آپ کے آنے سے ہی ہوا ہے جگمگ جگمگ عالم یہ
آپ سے پہلے سارا جہاں تھا ظلمت سے بھرپور
ہر اک رنج و غم کا مداوا ‘ دنیا ہو کہ عُقْبٰی ہو
نامِ محمدﷺ دونوں جہاں میں راحت سے بھرپور
اُن کے پسینے کی خوشبو سے تیری ہوائیں مہکی ہیں
شہر مدینہ تیری فضا ہے نکہت سے بھرپور
عرش پہ اس کےپاؤں کی آہٹ‘ وجہ سحر ہے اس کی اذاں
اللہ اللہ ان کی غلامی ‘ رفعت سے بھرپور
ان کے ہی کردار و عمل سے سارا عالم رو شن ہے
ان کے گھر کا بچہ بچہ لَمْعَتْ سے بھرپور
ملی کہاں ہے کسی نبی سے آپ سے پہلے شاہِ امم
میرے آقا ایسی محبت ‘ اُمّت سے بھرپور
وہ ہیں امین کُنْتُ کَنْزاَ ‘ بزمِ دَنیٰ کے مہماں وہ
سِدْرَہ سے آگے ان کی خلوت ‘ جلوت سے بھرپور
شجر و حجر محکوم ہیں ان کے، جِنُّ و بشر کی بات ہے کیا
ان کو دیا ہے رب نے رتبہ طاقت سے بھرپور
ان کے دشمن رب کے دشمن ، بوجہل کے ساتھی ہیں
طوق گلے میں ان کے پڑا ہے ‘ لعنت سے بھرپور
سجدہ گہہِ غلمان و ملک ہے ، رشک مہر و ماہ فلک
ان کی نسبت سے ہے مدینہ ‘ حرمت سے بھرپور
ہم سے کہاں ہو مدح ان کی ‘ جنکا ثناخواں خالق ہے
حاؔفظ پورا قرآن ان کی مدحت سے بھرپور
(۱۴  اکتوبر  ۱۹۹۵ء)

...

!کُلفتیں بہہ گئیں سب اشک پشیماں ہو کر

بیمارِ رَسُول ﷺ

 

!کُلفتیں  بہہ گئیں سب اشک پشیماں ہو کر
آگیا جب بھی تصور کبھی مہماں ہو کر
میں رہوں خُلد میں ہم پایٔہ رِضواں ہو کر
ہو بسر عمر مری آپ کا درباں ہو کر
گرنے والا تھا کہ دامان نبیﷺ تھام لیا
کتنا ہشیار ہوں مست مئے عصیاں ہو کر
ان کے دیوانے کو رحمت نے وہیں ڈھانپ لیا
سوئے طیبہ جو چلا بے سرو ساماں ہو کر
رشک کرتے تھے فرشتے بھی مری  قسمت پر
ظِلِّ رحمت جو بڑھا میرا نگہباں ہو کر
جل اٹھے ‘ خاک ہوئے منکر عظمت اے شہا
جب ترا ذکر چھڑا ’’صبح بہاراں‘‘ ہو کر
ہے شفاعت پہ جسے ان کی یقین کامل
کیوں وہ عُقْبیٰ میں پھرے خوار و پشیماں ہو کر
ہم نشینی کا شرف تم نے گدا کو بخشا
انکساری یہ ! شہِ عالم امکاں ہو کر
مرے آقا کی رفاقت جسے مل جائے گی
نہ پھریگا وہ قیامت میں ہراساں ہو کر
مسکراتے ہیں مرے زخم جو دل کے حاؔفظ
پھول بھی دیکھتے ہیں دیدۂ حیراں ہو کر

...

یا حبیبِ خدا ‘ یا شفیع َالْوَریٰ ‘ آپ جیسا نہیں کوئی بھی ہر طرف

آپ  ہی  آپ ﷺ

 

یا حبیبِ خدا ‘ یا شفیع َالْوَریٰ ‘ آپ جیسا نہیں کوئی بھی ہر طرف
از ازل تا ابد ‘ از زمیں تا فلک ‘ آپ ہی آپ ہی آپ ہی ہر طرف
آپ شَمْسُ الضُّحٰی ‘ آپ بَدْرُ الدُّجٰی ‘ آپ محبوبِ رَبْ ‘ آپ نورِخدا
کیا زمیں کیا زماں ‘ کیامکاں لامکاں ‘ آپ کے نور کی روشنی ہر طرف
عرش سے فرش تک فصلِ گل آگئی ‘ مہکا سارا جہاں جاں میں جاں آگئ
زلف لہرائی جب روئے وَالشّمْسْ پر ‘ رحمتوں کی گھٹا چھاگئ ہر طرف
سرد ایراں کا آتشکدہ ہوگیا ‘ قیصرِ کِسریٰ کے کنگرے گرے ٹوٹ کر
آپ تشریف لائے تو باطل گیا ‘ نورِ حق کی ہوئی روشنی ہر طرف
ذہن و دل آدمی کے جلا پاگئے ‘ جو تھے بھٹکے ہوئے راہ پر آگئے
یہ کرم آپ کا یہ عطا آپ کی ‘ آدمی کو ملی زندگی ہر طرف
سمٹا ہر فاصلہ ‘ وقت ٹھہرا رہا ‘ اُدْنُ مِنِّیْ کی تھی ہر اک لمحہ صدا
عرش سےفرش تک نور ہی نور تھا ‘ ماہِ اَسْرٰی کی تھی چاندنی ہر طرف
خوف و ڈر غیر کا دل میں وہ لائیں کیوں ‘ ان کے جو ہو گئےغم سے گھبرائیں کیوں

حاؔفظ ان کو جو ہیں ‘ ان پہ سرکار کی ہے نگاہ کرم ہر گھڑی ہر طرف
(۱۵ اکتوبر۱۹۹۵ء)

...

جب ان کا تصور آتا ہے اشعار حسیں ہوجاتے ہیں

حسین نبیﷺ

 

جب ان کا تصور آتا ہے اشعار حسیں ہوجاتے ہیں
ہر بزم حسیں ہوجاتی ہے دربار حسیں ہو جاتے ہیں
قربان نزاکت پر ان کی ‘ گلزارِ جِناں کے گل بوٹے
طیبہ کے سفر میں اے زائر سب خار حسیں ہو جاتے ہیں
جب جام الفت و عشق نبی ‘ پیتے ہیں نبی کے مستانے
عرفان کی مستی میں ڈھل کرمہ خوار حسیں ہوجاتے ہیں
انوارِ غبارِ طیبہ نے یوں شمس و قمر کو چمکایا
جس طرح کسی کے غازے سے رخسار حسیں ہو جاتے ہیں
جب گنبد خضرا کا منظر آنکھوں میں ہماری ہوتا ہے
اک بزم سخن سج جاتی ہے افکار حسیں ہوجاتے ہیں
ہر دور میں تازہ دیکھا ہے اعجاز ‘ نبی کی سیرت کا
کردار حسیں ہوجاتا تھے کردار حسیں ہو جاتا ہیں
قربان میں ان کے ‘ صدقہ ہے آقا کے تصرف کا حاؔفظ
ہو حمدِ خدا ‘ یا نعتِ نبی ‘ اذکار حسیں ہوجاتے ہیں
(مئی ۱۹۷۹ء)

...