نعت  

ادب سے یاں چلے آؤ یہ آقا کی عدالت ہے

دربارِرسول ﷺ

 

ادب سے یاں چلے آؤ یہ آقا کی عدالت ہے
مرادیں مانگ لو اپنی کہ ’’جَاُؤکَ‘‘ بشارت ہے
شہِ لَوْلَاک حاضر اور شہِ لَوْلَاک ناظر ہیں
یہی اول یہی آخر ہیں خَتْمْ ان پہ رسالت ہے
نسیم صُبْح حاضر ہو اگر سرکار کے در پر
تو کہنا ہم غلاموں کو تمنائے زیارت ہے
خدا کے واسطے آقا ﷺ غلاموں کو اجازت ہو
دیار پاک میں پہنچیں تو دنیا کی نہ حاجت ہے
حریم ناز میں پہنچیں صدا روضے سے یوں آئے
مبارک تجھ کو آنا ہو ‘ بشارت ہی بشارت ہے
طلب کرنے سے پہلے ہی سوالی جھولی بھرتا ہے
یہ آقا کی ہی رحمت ہے یہ ان کی ہی سخاوت ہے
سر محشر اک ہنگامہ بپا ہے نفسی نفسی کا
تسلی دے کوئی ہم کو کسی میں یہ نہ طاقت ہے
مرے آقا ﷺ میرے مولاﷺہیں مالک روز محشر کے
فقط ان کی حکومت ہے فقط ان کی ولایت ہے
نہ آشفتہ نہ آزردہ ہو ہرگز امتِ عاصی
کہ وا تیرے لئے محشر میں آغوش شفاعت ہے
درود پاک پڑھ لینا کہ نجدی خاک ہو جائے
عبادت اس طرح کرنا کہ اس میں ہی حلاوت ہے
چپک کر ہونٹ رہ جاتے ہیں جب بھی نام لیتے ہیں
وہ شیرینی تمہارے نام میں ہے اور حلاوت ہے
لگی ہیں رات دن نظریں سوئے طیبہ مری حاؔفظ
پیام مصطفی ﷺ آئے تو کیا شی یہ مسافت ہے
(جولائی ۱۹۷۱ء)

...

نبیﷺ کی یاد میں مرنا نویدِ زندگانی ہے

قلزم رحمت

 

نبیﷺ کی یاد میں مرنا نویدِ زندگانی ہے
پیام مرگ میں پہناں حیاتِ جاودانی ہے
عرب میں آمدِ فصلِ بہارِ زندگانی ہے
نیا جوبن ہے کلیوں پر تو پھولوں پر جوانی ہے
شب فُرْقَتْ خُنَکْ کس درجہ اشکوں کی روانی ہے
کہ اک اک بوند گویا قُلزم رحمت کا پانی ہے
سراپا دیکھ کر ہم نے تو اتنی بات جانی ہے
کمال دست قدرت میں جمال مَنَْرَاَنِیْ ہے
اچانک زندگی کا غنچہ غنچہ مسکرا اُٹّھا
گلستاں میں یہ کس کی آمد آمد کی نشانی ہے
گہر ھائے شفاعت ہیں گناہگاروں کے دامن میں
سحاب لطف و احساں کی یہ کیسی دُرْفشانی ہے
ملے ہوں گے نہ جانے اس کو کتنے قیمتی موتی
تری گلیوں کی جس نے اے شہہ دیں خاک چھانی ہے
خوشا ان کی حضوری ان کی فرقت اے زہے قسمت
کرم وہ بھی ہے ان کا اور یہ بھی مہربانی ہے
ملی حاؔفظ کو شرکت کی سعادت پاک محفل میں
کہ  جشن عید میلاد النبی ﷺ میں نعت خوانی ہے
ملی حاؔفظ کو دستار فضیلت نیک ساعت میں
کہ جشن عرس بھی ہے اور بزم نعت خوانی ہے

(بموقع دستار بندی جلسہ دستار فضیلت دار العلوم امجدیہ کراچی مارچ ۱۹۷۴ء)

...

مدینے کی گلی بھی کیا گلی ہے

یاد حبیب ﷺ

 

مدینے کی گلی بھی کیا گلی ہے
جہاں کی زندگی سب سے بھلی ہے
ہے صد رشک فلک اس کی قسمت
حبیب کبریاء کا جو ولی ہے
ضیاء بر کیف ہے داغِ ہجر طیبہ
منور شہرِ دل کی ہر گلی ہے
طلوعِ صُبح تک یادِ نبی ﷺ میں
مرے ہر اشک کی مشعل جلی ہے
بہارِ باغِ طیبہ اللہ اللہ !
شگفتہ میرے دل کی ہر کلی ہے
وہاں کی خاک کو سرمہ بنایا
کبھی چہرے سے وہ مٹی ملی ہے
گدائے مصطفےٰ ﷺ کی بات کیا ہے
خدا خود اس کا والی ہے ولی ہے
غلامانِ محمد ﷺ کی ہے جنت
در جنت پہ تحریر جلی ہے
ترے قربان اے نام محمد ﷺ
تجھی سے زندگی پھولی پھلی ہے
سکوں ہے ہجر مولا میں بھی حاؔفظ
یہ کیسی روح پرور بے کلی ہے
(مئی ۱۹۷۳ء)

...

چلو مدینے چلو مدینے قدم قدم سے ملا ملا کر

نعت رسول مقبولﷺ

 

چلو مدینے چلو مدینے قدم قدم سے ملا ملا کر
بلا رہے ہیں وہ پھر حرم میں عطائیں اپنے بڑھا بڑھا کر
انہیں کے ٹکڑوں پہ پل رہے ہیں ‘ انہیں کی خیرات کھا رہے ہیں
بجھا رہے ہیں وہ پیاس میری‘ طلب سے بڑھ کر پلا پلا کر
میں فرمان جاوُکَٔ رب کا لے کر چلوں گا محشر میں تیز ہوکر
قریب جاؤں گا میں بھی اُن کے روکاوٹوں کو ہٹا ہٹا کر
کھلیں گے میرے عمل کے دفتر  ‘  خدائے برتر کے روبرو جب
منا ہی لوں گا کریم رب کو ‘ نبی ﷺ کی نعتیں سناسنا کر
میرے عمل میں کمی جو ہوگی نبی رحمت شفیعِ امت ﷺ
کریم رب کے کریم سرورﷺ ‘ بھریں گے پلّہ ہلا ہلا کر
کرم جو رہتا ہے خاص مجھ پر ‘ عنایتوں کا سخاوتوں کا
مدینے جاؤں گا ہر طرح کے ‘ میں فاصلوں کو مٹا مٹا کر
کرم کی خیرات لوٹنے کو میں جب بھی جاؤں گا سوئے طیبہ
زمین طیبہ کو چوم لوں گا لبوں کو اپنے جما جما کر
ہمیشہ محروم ہی رہیں گے کبھی نہ عزت کو وہ چھوئیں گے
نبی ﷺ کر در سے ہٹے ہیں دیکھو جو فاصلوں کو بڑھا بڑھا کر
انہی کا صدقہ انہی کی بخشش ‘ انہی کی خیرات کھا رہے ہیں
انہیں کے دم سے تو جی رہے ہیں ‘ مقدّروں کو جگا جگا کر
نبیﷺ کی خیرات کھانے والو ‘ تم اول آخر کے پھیر میں ہو
رضا سے پوچھو بتا گئے ہیں ‘ وہ دائرے سے بنا بنا کر
نصیب ِحاؔفظ چمک گیا ہے ‘ جو رب کا قرآن پڑھتے پڑھتے
تو سوئے جنت بلا رہے ہیں ‘ فرشتے آنکھیں بچھا بچھا کر
از: (احمد میاں حافظ البرکاتی)

...

ہے میری بس یہی دعا ہے یہی التجا فقط

نعت رسول مقبول ﷺ

 

ہے میری بس یہی دعا ہے یہی التجا فقط
بندۂ مصطفےٰ ﷺ ہی رکھ مجھ کو میرے خدا فقظ
جس کو اگر ہو جاننا سیرت مصطفےٰ ﷺ فقط
کافی ہے اس کو قولِ وَالنَّجمِ اِذا ھَویٰ فقط
خالق کائنات کُل بالیقیں ربِّ کائنات
باعث خلق کائنات احمد مجتبیٰ فقط
روز ازل سے تاابد کوئی نہیں ہے آپ سا
بعد از خدا بلند ہے آپ کا مرتبہ فقط
اَسْریٰ کی شب تھی منتظر وسعتیں لامکان کی
آپ کی آپ کی فقط آپ کی مصطفےٰ ﷺ فقط
کس کو ملی ہیں عظمتیں کس کو ملیں یہ رفعتیں
سجدۂ گہہ ملائکہ آپ کا نقش پا فقط
وسعتیں دو جہاں کی ہیں ان کے غلام کے لئے
مسکن جبرائیل ہے سدرۂ منتہیٰ فقط
اس میں نہیں ہے کوئی شک  دونوں جہان میں حضور ﷺ
ضامن راہ مستقیم آپ کی اقتدا فقظ
عشق رسول پاکﷺ میں مجھ کو عطا ہو وہ مقام
میرے روئیں روئیں کی ہو صَلِّ علٰی صدا فقط
جس کو کہیں شفا نہ جس کی کہیں دوا نہ ہو
خاک در حضور ﷺ ہے اس کے لئے دوا فقط
ہو یہ جہان رنگ و بو یا کہ وہ روز حشر ہو
کافی ہمیں ہے یا نبی ﷺ آپ کا آسرا فقط
حاؔفظ بے نوا کو ہے دونوں جہاں میں آسرا
آپ کا آپ کا حضور ﷺ آپ کا آپ کا فقط
(ابنِ خلیل مفتی احمد میاں حاؔفظ البرکاتی)

...

جہاں مل سکے نہ گماں کو رَہ وہ نبیﷺ کا حسن و کمال ہے

نعت رسول اکرم ﷺ

 

جہاں مل سکے نہ گماں کو رَہ وہ نبیﷺ کا حسن و کمال ہے
جو ہر اک سانس پہ ہو عطا وہ نبیﷺ کا جود و نوال ہے
یہی زندگی ، ہے یہی متاع ، یہی میرا مال و منال ہے
میرے دل میں حُبِّ رسول ﷺ ہے مِرے لب پہ ذکر جمال ہے
وہی وجہ کلقِ زمیں زماں ‘ وہ حبیب خالقِﷺ کل جہاں
کہاں ان ساکوئی جہان میں کہاں کوئی ان کی مثال ہے
مہَ و مہر کیا ، یہ نجوم کیا گل و غنچہ کیا ، یہ شمیم کیا
ہیں ان ہی کی ساری یہ تابشیں یہ ان ہی کا سارا جمال ہے
میرے لب پہ مدح حضورﷺ ہے ، یہ کرم بھی تو ان ہی کا ہے
بیاں وصف ان کا میں کرسکوں کہاں مجھ میں اتنی مجال ہے
نہ حکومتیں ، نہ امَارتیں ، نہ وزارتیں ، نہ سفارتیں
ملیں سب ہی مجھ کو تو میں نہ لوں بھلا کوئی مثل نعال ہے
نہ کسی کو کوئی بتا سکا نہ سمجھ سکا کوئی آج تک
’’سر عرش جانا کمال تھا کہ وہاں سے آنا کمال ہے‘‘
ہے نبیﷺ کے رخُ پہ جو قَدْنَریٰ تو ہے قبلہ مرضئِ مصطفےﷺ
وہ کھلے ہیں در جو کرم کے پھر نہ جواب ہے نہ سوال ہے
سرِ عرش تھی جو وہ اک صدا ’’تُو قریب آ تُو قریب آ‘‘
تری عظمتوں کی دلیل ہے تری رفعتوں کا مآل ہے
میں ہوں نازاں حاؔفظ بے نوا درِ شہ پہ خم ہے جو سرمرا
یہی زندگی کا عروج ہے، یہی زندگی کا کمال ہے
(از: ابن خلیل احمد میاں حاؔفظ البرکاتی)

...

ساقئی کوثر مراجب میر میخانہ بنا

ساقئی کوثر مراجب میر میخانہ بنا
چاند و سورج خم بنے ہر نجم پیمانہ بنا
حسن فطرت کے ہر اک جلوے سے بیگانہ بنا
دل بڑا ہشیار تھا اس در کا دیوانہ بنا
اس بہانے ہی سے جا پہنچوں لب اعجاز تک
یاالہی خاک کر کے مجھ کو پیمانہ بنا
اپنے عقل و ہوش کھونے کا صلہ مل ہی گیا
میرا افسانہ سراپا ان کا افسانہ بنا
اللہ اللہ رفعت اشک غمِ ہجر نبیﷺ
جونہی ٹپکا آنکھ سے تسبیح کا دانہ بنا
آج بھی سورج پلٹ سکتا ہے تیرے واسطے
اپنے دل کو الفت احمد کا کاشانہ بنا
چاند کی رفعت کو چھولینا کہاں کی عقل ہے
عقل یہ ہے چاند کو خود اپنا دیوانہ بنا
میرے دل میں حب احمد کے ہیں گل بوٹے کھلے
اب اسے کعبہ سمجھ واعظ کہ بت خانہ بنا
جام و ساغر سے بھی جائیگی کہیں تشنہ لبی
جرعۂ دست کرم کو میرا پیمانہ بنا
جانے کتنی ٹھوکریں کھاتا ہوا آیا ہوں میں
مجھ کو محروم تمنا میرے مولیٰ نہ بنا
ہاتھ ملتی رہ گئی رنگینئ حسنِ مجاز
دل مرا شمع رخ احمد کا پروانہ بنا
دھو کے اپنے نطق کو مدح نبی کے آب سے
اپنی ہر ہر بات اے اخؔتر حکیمانہ بنا

...

خدائے برتر و بالا ہمیں پتہ کیا ہے

خدائے برتر و بالا ہمیں پتہ کیا ہے
ترے حبیب مکرمﷺ کا مرتبہ کیا ہے
جبین حضرت جبریئل  پرکفِ پا ہے
ہے ابتدا کا یہ عالم تو انتہا کیا ہے
خدا کی شانِ جلال و جمال کے مظہر
ہر ایک سمت ہے تو ہی ترے سوا کیا ہے
کوئی بلال﷜ سے پوچھے خُبیب﷜ سے سمجھے
خمارِ الفتِ محبوب کبریاﷺ کیا ہے
سمجھ لو عہد رسالت کے جاں نثاروں سے
کمال صدق و صفا رشتۂ وفا کیا ہے
بشر کے بھیس میں لاکالبشر کی شان رہی
یہ معجزہ جو نہیں ہے تو معجزہ کیا ہے
غمِ فراق نبیﷺ میں جو آنکھ سے نکلے
خدا ہی جانے ان اشکوں کا مرتبہ کیا ہے
کرم کرم کہ کریمی ہی شان ہے تیری
ترے کرم کے مقابل مرِی خطا کیا ہے
جو میری جان سے زیادہ قریب ہیں مجھ سے
انھیں کو ڈھونڈ رہا ہوں مجھے ہوا کیا ہے
فقط تمہاری شفاعت کا آسرا ہے حضورﷺ
ہمارے پاس گناہوں کے ماسوا کیا ہے
چلو دیارِ مدینہ جو دیکھنا چاہو
زمیں سے عرش معلیٰ کا فاصلہ کیا ہے
بخاری پڑھ کے بھی شانِ محمدِ عربیﷺ
سمجھ نہ پائے اگر تم تو پھر پڑھا کیا ہے
وہ دیکھو گنبد خضریٰ ہے رو برو تیرے
نثار کر دے دل و جان دیکھتا کیا ہے
کھڑا ہے اختؔر عاصی درِ مقدس پر
حضورﷺ آپ کی رحمت کا فیصلہ کیا ہے

...

بڑے لطیف ہیں نازک سے گھر میں رہتے ہیں

بڑے لطیف ہیں نازک سے گھر میں رہتے ہیں
میرے حضورﷺ میری چشم تر میں رہتے ہیں
ہمارے دل میں ہمارے جگر میں رہتے ہیں
انہی کے گھر ہیں یہ وہ اپنے گھر میں رہتے ہیں
یہ واقعہ ہے لباسِ بشر بھی دھوکا ہے
یہ معجزہ ہے لباسِ بشر میں رہتے ہیں
مقام ان کا نہ فرش زمیں نہ عرش بریں
وہ اپنے چاہنے والوں کے گھر میں رہتے ہیں
ملائکہ بھی عقیدت سے دیکھتے ہیں انھیں
جو خوش نصیب نبیﷺ کے نگر میں رہتے ہیں
یقین والے کہاں سے چلے کہاں پہونچے
جواہل شک ہیں اگر میں مگر میں رہتے ہیں
خدا کے نور کو اپنی طرح سمجھتے ہیں
یہ کون لوگ ہیں کس کے اثر میں رہتے ہیں
رہیں وہ اپنوں سے غافل ارے معاذ اللہ
خوشا نصیب ہم انکی نظر میں رہتے ہیں
وہ اور ہی تھا جو قوسین پر نظر آیا
مَلک تو اپنی حد بال وپر میں رہتے ہیں
جو اخؔتر ان کے تصور میں صبح و شام کریں
کہیں بھی رہتے ہوں طیبہ نگر میں رہتے ہیں

...

حسن خورشید نہ مہتاب کا جلوہ دیکھو

حسن خورشید نہ مہتاب کا جلوہ دیکھو
آؤ احمد کے کفِ پاکا تماشہ دیکھو
دیکھنے والو دیارِ شہِ بطحا دیکھو
فرش کی گود میں ہے عرش معلیٰ دیکھو
چہرۂ ماہ کو بے داغ تو ہو لینے دو
اس میں پھر جاکے کہیں عکس کفِ پا دیکھو
زاہد و خار صفت خلد بھی ہو جائے گی
کاش تم کوچۂ شاہنشۂ بطحا دیکھو
خواہش جلوۂ سینا بھی بجا ہے لیکن
طور بھی رشک کرے جس پہ وہ جلوہ دیکھو
میری تقصیر ہے کیا تیرے کرم سے بھی فزوں
دیکھو تم اپنا کرم ہاتھ نہ میرا دیکھو
خالِ رخِ زلفِ معنبر کی سیاہی کا امیں
خوش نصیبو مرا تاریک نصیبہ دیکھو
ان کے غم سے میری آنکھوں کو ملا اوج فلک
نوک غمزہ پہ چمکتا ہے ستارہ دیکھو
چشم خاطر کو جو ہو نور بصیرت مقصود
دیکھنے والو ذراگنبد خضریٰ دیکھو
کس نے سرکایا نقابِ رخِ روشن اخؔتر
ہر طرف ایک قیامت سی ہے برپا دیکھو

...