پھر کے گلی گلی تباہ
پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں
دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں
پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں
دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں
ترا ظہور ہوا چشمِ نور کی رونق
ترا ہی نور ہے بزمِ ظہور کی رونق
جو ہو سر کو رَسائی اُن کے دَر تک
تو پہنچے تاجِ عزت اپنے سر تک
دمِ اضطراب مجھ کو جو خیالِ یار آئے
مرے دل میں چین آئے تو اسے قرار آئے
...
خدا وند جہاں جب خود ہےپیارا تیری صورت کا
تو عالم کیوں نہ ہو بندہ ترے حسن و ملاحت کا
خدا نے جس کے سرپرتاج رکھا اپنی رحمت کا
درود اس پر ہو، وہ حاکم بنا ملک رسالت کا
دو عالم میں روشن ہےاکا تمہارا
ہوا لامکاں تک اجالا تمہارا
رشکِ قمر ہوں رنگِ رخِ آفتاب ہوں
ذرّہ تِرا جو اے شہِ گردوں جناب ہوں
پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفیٰ کہ یوں
کیف کے پر جہاں جلیں کوئی بتائے کیا کہ یوں
یادِ وطن ستم کیا دشتِ حرم سے لائی کیوں
بیٹھے بٹھائے بد نصیب سر پہ بلا اٹھائی کیوں