آئی بہارِ زیست مقدّر سَنبھل گئے
آئی بہارِ زیست مقدّر سَنبھل گئے
سرکار کے قدم مری قسمت بَدل گئے
...
آئی بہارِ زیست مقدّر سَنبھل گئے
سرکار کے قدم مری قسمت بَدل گئے
...
مقدّر آج کتنے اَوج پر ہے
جبیں میری نبی کا سنگ ِ در ہے
...
جب کبھی جانبِ سرکارِ مدینہ دیکھا
میں نے دیدار ِ خدا کا بھی قرینہ دیکھا
...
رسائی ہے مری اس آستاں تک
جہاں خم ہے جبین ِ آسماں تک
...
حبیبِ حق پہ دِل و جاں سے جو نثار ہوئے
اِنہیں پہ راز ِ حقیقت کے آشکار ہوئے
...
دربار نبی میں جھکتے ہی تابندہ جبیں ہوجاتی ہے
جب اُن کا کرم ہو جاتا ہے تقدیر حَسین ہو جاتی ہے
...
اُٹھی نظر تو روئے نبی پر ٹھہر گئی
دل کیا سنور گیا مری قسمت سنور گئی
...
ہر کلی دل کی مسکرائی ہے
جب مدینے کی یاد آئی ہے
...
اعمال کے دَامن میں اپنے تقدیس کی دولت لاتے ہیں
جو شرم گناہوں کی لیکر سرکار کے در پر جاتے ہیں
...
محمد مصطفی اِسم گرامی
شرف ہے جاوِ داں عظمت دوامی
...