/ Friday, 29 March,2024

حضرت شیخ شاہ محمد المعروف

نام شاہ محمد، کنیت اخوند، لقب لسان اللہ تھا۔ والد کا نام ملّا عبدی۔ جائے ولادت موضع ارکسان، ضلع روستاق۔ علاقہ بدخشاں۔ اوائل عمر ہی طلبِ حق کے لیے وطن سے نکلے۔ پہلے کشمیر آئے۔ یہاں تین سال رہے پھر ہندوستان کا قصد کیا۔ لاہور سے گزر کر آگرہ کو چلے گئے۔ راستہ میں حضرت میاں میر کے حالات سنے۔ اُن سے ملاقات کرنے کے لیے لاہور کا قصد کیا۔مگر رفقاء سفر نے نہ چھوڑا۔ مجبوراً آگرہ پہنچے۔ جستجوئے مرشد میں اِدھر اُدھر پھرے مگر مایوس ہو کر لاہور آئے اور حضرت میاں میر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کے اوصاف و کمالات سے متاثر ہو کر حلقۂ ارادات میں داخل ہوگئے۔ تجرید و تفرید، ریاضت و مجاہدہ اور عبادت و تقویٰ میں حضرت میاں میر کے تمام مریدوں اور خلفاء میں ممتاز تھے۔ فقر و استغنا کا یہ عالم تھا کہ کبھی کوئی غلام یا خدمت گار اپنے ساتھ نہیں رکھا۔ کبھی چُولھا گرم نہیں کیا، کبھی چراغ نہیں جلایا حبسِ دم میں بڑا ملکہ صاصل۔۔۔

مزید

سید جعفر بن ہاجی محمد ہاشم

اپنے عہد میں جامع کمالات صوری و معنوی تھے۔ سلسلۂ قادریہ میں اپنے والدِ ماجد سے بیعت تھے۔ ماہِ جمادی الاخریٰ ۱۰۴۱ھ میں پیدا ہوئے اور ۹؍ رجب ۱۱۰۷ھ میں وفات پائی۔ مزار تکیہ املی والا لاہور میں ہے  حضرت جعفر شہِ دنیا و دیں مولدش ’’افضل مکمل‘‘ شدعیاں ۱۰۴۱ھ   سیّد اکبر مقدس متقی رحلتش ’’جعفر مقدس متقی‘‘ ۱۱۰۷ھ ۔۔۔

مزید

سیّد محمد فاضل متوکّل لاہوری

عالم و فاضل، متوکل و متورع تھے۔ ریاضت و عبادت اور تجرید و تفرید میں شہرۂ آفاق تھے۔ تمام زندگی دائم الصوم اور قائم الّیل رہے۔ ان کے والدِ ماجد جب حج کے لیے جانے لگے تو انہیں نصیحت کی: اے فرزند گھر سے باہر نہ نکلنا۔ اپنے گھر ہی میں مصروفِ عبادت رہنا۔ چنانچہ اس نصیحت پر تمام عمل کیا۔ ایسے خانہ نشین ہوئے کہ مر کر ہی گھر سے نکلے۔ اورنگ زیب عالمگیر کو آپ سے بڑی عقیدت تھی۔ اکثر حاضرِ خدمت ہو کر فیوض و برکات حاصل کرتا تھا۔ ایک دفعہ نقد و جنس و جاگیر پیش کی مگر آپ نے ان میں سے کسی چیز کو قبول نہ کیا۔ ۱۱۱۲ھ میں وفات پائی۔ سیّد اسماعیل محدّث کے مزار کے متصل مدفون ہوئے۔ عالمگیر نے مقبرہ و مسجد بنوائی تھی جسے مزنگ کے زمینداروں نے خشت فروشی کے لالچ میں انگریزوں کی علمداری کی ابتدا میں مسمار کرکے اینٹیں بیچ دیں۔ اس سے قبل سکّھوں نے روضہ کے قیمتی پتھر اکھاڑ کر اسے خستہ کردیا ہوا تھا۔ چوں شہ فاضل ولئِ ۔۔۔

مزید

حضرت سیّد محمد امیر قادری گیلانی

سید بہاءالدین بہاول شیر کی اولادِ امجاد سے تھے۔ حضرت صفی الدین سیف الرحمٰن کی کوئی اولادِ نرینہ نہ تھی اور اس وقت تمام خاندان میں آپ ہی جوہرِ قابل تھے اس لیے متفقہ طور پر سجادہ نشین مقرر ہوئے۔ ذاتی فضل و کمال کے باعث اپنے عہد کے مشائخ قادریہ میں ممتاز الوقت تھے۔ صاحبِ تذکرہ حضراتِ حجرہ لکھتے ہیں۔ شیخ اشرف لاہوری جو صاحبِ دعوتِ اسمائے الٰہی اور امرائے عالمگیری سے تھے انہوں نے رؤ سائے قوم کھو کھر میں سے ایک شخص کی حسین و جمیل دختر کے ساتھ نکاح کرنا چاہا مگر ا س کا باپ اس امر پر راضی نہ ہوا کیونکہ وہ اپنی لڑکی کی شادی مشائخ سادات میں کرنا چاہتا تھا اور اس غرض کے لیے سجادہ نشین حضرت گنج شکر کی خدمت میں بھی حاضر ہوا مگر وہ بھی آمادہ نہ ہوئے۔ اسی طرح دیگر اکابر نے بھی شیخ اشرف لاہوری کے اثر و رسوخ کے باعث انکار کردیا۔ آخر وہ ہر طرف سے مایوس ہو کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے اس کی لڑکی کو اپنے۔۔۔

مزید

سید عبد الحکیم گیلانی

حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی غوث الاعظم قدس سرہٗ کی اولادِ امجاد سے ہیں۔ آپ کے آباؤاجداد میں سے سید یعقوب بعہدِ ابوالفتح مبارک[1] شاہ ایران سے ہندوستان آئے اور ملتان میں سکونت اختیار کر کے درس و تدریس کا شغل اختیار کیا۔ ان کی اولاد میں سید انجم الدین نے اپنے علمی فضل و کمال کے باعث بڑی شہرت پائی۔ ۹۳۴ھ میں دہلی آئے۔ باب کے دربار میں عزت و منزلت پائی۔ ان کے پڑوتے سیّد نظام الدین دہلی نے نقلِ مکانی کرکے لاہور آگئے، ان کے فرزند ملّا بایزید اپنی فضیلتِ علمی کی وجہ سے مشہورِ زمانہ تھے۔ لاہور میں آپ کی ذات اہلِ علم کی توجہ کامرکز تھی۔ اچھے اچھے فاضل آپ کی صحبت سے فیض یاب ہُوئے اور صاحبِ درس بن کر نکلے۔ آپ کے تین فرزند سیّد عبداللہ، سیّدالہ داد اور سیّد عبدالحکیم تھے۔ سید عبدالحکیم  بڑے پایہ کے عالم والد ماجد کے صحیح جانشین، جامع علوم و فنون اور صاحبِ شریعت و طریقت تھے۔ حضرت عبداللہ قادری س۔۔۔

مزید

خواجہ محمد فضیل قادری نوشاہی

حضرت حاجی محمد نوشاہ گنج بخش کے اکابر مریدوں اور خلیفوں میں سے تھے۔ اصلی وطن کابل تھا۔ طلبِ خدا میں ہندوستان آکر حضرت نوشاہ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے تھے۔ ابتدا میں کچھ عرصہ عالمگیری[1] حکومت کے ملازم بھی رہے۔ پھر کلی طور پر ترکِ علائق اختیار کرلی۔ صاحبِ جزب و سکر اور عشق و محبت تھے۔ طبیعت میں بڑا سوز و گداز تھا۔ صاحبِ تذکرہ نوشاہی فرماتے ہیں کہ خواجہ فضیل صاحب کابل میں ’’وصی‘‘ کے لقب سے ملقب تھے۔ جس فاسق و فاجر پر حالتِ جزب و سُکر میں نظر پڑجاتی، عارفِ کامل ہوجاتا۔ کسی مردہ پر پڑتی تو زندہ ہوجاتا۔ نگاہِ غضب سے کسی طرف دیکھتے تو اس کی جان تن سے نکل جاتی، غرض آپ کے احوال و مقامات عجیب و غریب تھے۔ نقل ہے ایک مرتبہ چند کابلی و ہقانوں نے بہ نظرِ امتحان ایک زندہ شخص کو چارپائی پر ڈال کر یہ ظاہر کیا وُہ مُردہ ہے اس کا جنازہ اٹھا کر قبرستان کی طرف چل پڑے۔ راستے میں حضرت ۔۔۔

مزید

سیّد حسن پشاوری گیلانی قادری

اپنے والد بزرگوار سیّد عبداللہ گیلانی کے فرزند اور مرید خلیفہ تھے۔ آپ کے جد امجد سیّد محمود بغداد سے نقلِ مکانی کر کے ہندوستان آکر ٹھٹھہ(سندھ) میں قیام پذیر ہو گئے۔ اِن کی وفات کے بعد سید حسن پشاور آکر مقیم ہوگئے۔ آپ صاحبِ فضل و کمال بزرگ تھے۔ زہد و ورع اور عبادت و ریاضت میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ آپ کی زوجہ سیّد علی ہمدانی کی اولادِ امجاد سے تھیں جو اپنی بزرگی و عظمت میں رابعہ ثانی تھیں۔ آپ نے بڑی سیر و سیاحت کی تھی اور اکابر مشائخ سے فیوض و برکات حاصل کیے تھے۔ آبائی نسبت حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی غوث الاعظم تک منتہی ہوتی ہے۔ آپ کے فرزند سیّد محمد غوث لاہوری بڑے نامور بزرگ گزرے ہیں جن کا ذکر آگے آئے گا۔ بقول صاحبِ رسالۂ غوثیہ ۱۱۱۵ھ میں وفات پائی۔ مزار پشاور میں زیارت گاہِ خلق ہے۔ چوں حسن احسن یافت ور خلدِ بریں رحلتش ’’شیخ مطلوب‘‘ گو ۱۱۱۵ھ چوں جناب سیّدِ والا حسن! نیز فرما ’’فا۔۔۔

مزید

سیّد حسن پشاوری گیلانی قادری

اپنے والد بزرگوار سیّد عبداللہ گیلانی کے فرزند اور مرید خلیفہ تھے۔ آپ کے جد امجد سیّد محمود بغداد سے نقلِ مکانی کر کے ہندوستان آکر ٹھٹھہ(سندھ) میں قیام پذیر ہو گئے۔ اِن کی وفات کے بعد سید حسن پشاور آکر مقیم ہوگئے۔ آپ صاحبِ فضل و کمال بزرگ تھے۔ زہد و ورع اور عبادت و ریاضت میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ آپ کی زوجہ سیّد علی ہمدانی کی اولادِ امجاد سے تھیں جو اپنی بزرگی و عظمت میں رابعہ ثانی تھیں۔ آپ نے بڑی سیر و سیاحت کی تھی اور اکابر مشائخ سے فیوض و برکات حاصل کیے تھے۔ آبائی نسبت حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی غوث الاعظم تک منتہی ہوتی ہے۔ آپ کے فرزند سیّد محمد غوث لاہوری بڑے نامور بزرگ گزرے ہیں جن کا ذکر آگے آئے گا۔ بقول صاحبِ رسالۂ غوثیہ ۱۱۱۵ھ میں وفات پائی۔ مزار پشاور میں زیارت گاہِ خلق ہے۔ چوں حسن احسن یافت ور خلدِ بریں رحلتش ’’شیخ مطلوب‘‘ گو ۱۱۱۵ھ   چوں جن۔۔۔

مزید

سیّد محمد صالح قادری نوشاہی

آپ سادات عظام اور شرفاء کرام میں سے تھے اور حضرت حاجی محمد نوشاہ گنج بخش کے یارانِ کبار اور محبانِ غم خوار اور خلفائے باوقار اور خدام نامدار میں سے تھے۔ مرشد کی اِن پر بڑی نظرِ ِعنایت رہاکرتی تھی۔ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ صرف دو شخص طلبِ خدا کے لیے میرے پاس سچّی نیت سے آئے ہیں۔ ایک محمد صالح اور دوسرے محمد صادق چھینہ ان دونوں دوستوں نے ہم سے کافی فیض حاصل کیا ہے۔ محمد صالح نے بقول صاحبِ ’’تذکرہ [1] نوشاہی‘‘ ۱۱۱۸ھ میں وفات پائی۔ مزار موضع چک سادہ میں ہے جو گجرات سے دو کوس کے فاصلہ پر واقع ہے۔ شدازیں دنیا چو در خلدِ بریں طرفہ سالِ انتقالِ آں جناب   شیخ صالح مقتدائے دوجہاں! گشت ’’شیخ الاولیا صالح‘‘ عیاں! ۱۱۱۸ھ   [1]۔ تذکرہ نوشاہی میں سیّد محمد صالح کا سالِ وفات درج نہیں، مفتی صاحب کو حوالہ دینے میں سہو ہوا ہے۔   ہمارے ۔۔۔

مزید

شیخ صدر الدین قادری نوشاہی

حضرت حاجی محمد نوشاہی گنج بخش کے عالی شان مریدوں اور بلند مرتبہ والے خلیفوں سے تھے۔ سلوک و معرفت میں حالاتِ عجیب اور مقاماتِ بلند رکھتے تھے۔ مرشد صاحب اکثر آپ کے حق میں فرمایا کرتے کہ اگر قیامت کے روز میرے اور صدرالدین کے درمیان دوزخ حائل ہوجائے یقین کلّی ہے کہ صدرالدین دوزخ میں قدم رکھ کر اس راہ سے میرے پاس آئے گا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ صدرالدین ادائل عمر میں دنیا کے لہو و لعب میں بے حد مشغول تھے۔ جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو تمام مکروہاتِ دنیا سے تائب ہوگئے اور ترکِ علائق اختیار کر کے تکمیلِ سلوک کی اور کمالِ فقر کو پہنچے اور مقبولانِ الٰہی کے زمرہ میں داخل ہوئے۔ رفت از دنیا چو در خلدِ بریں! رحلتش ’’غمگیں‘‘ بگو ’’خورشید‘‘ خواں ۱۱۲۰ھ                 ۱۱۲۰ھ &۔۔۔

مزید