/ Thursday, 18 April,2024

سیّد سعد الدین حجروی

علم و فضل، صدق و صفا اور جُو دو سخا میں شہرۂ آفاق تھے۔ تمام عمر ظاہری و باطنی جہاد میں مصروف رہے۔ ایک خلقِ کثیر نے آپ کی ذاتِ گرامی سے اکتسابِ فیض کیا۔ آپ تمام عمر درس و تدریس اور اشاعتِ دین متیں میں مصروف رہے۔ بقول صاحبِ اسرار الاولیاء ۱۱۹۵ھ میں وفات پائی۔ مزار حجرہ میں ہے۔ باسعادت شدر چو ازدارِ فنا ’’گوشۂ فیض‘‘ است تاریخش دگر ۱۱۹۵ھ   اسعدِ دورِ زماں شیخِ ظہور! سید الابرا ہادئ شمعِ نور ۱۱۹۵ھ ۔۔۔

مزید

شیخ محمود بن محمد عظیم قادری لاہوری

مشائخ قادریہ میں مرد صالح و مجیب الدعوات گزرے ہیں۔ سیّد صدرالدین بن سید عبدالرزاق صاحبِ حجرہ کے مرید خلیفہ تھے۔ حسنِ سیرت اور حسنِ صورت دونوں کے جامع تھے۔ ترکِ علائق، تجرید و تفرید اور عبادت و ریاضت میں مشہورِ زمانہ تھے۔ ایک خلقِ کثیر آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل تھی۔ تمام عمر درس و تدریس اور ہدایت و تلقین میں مصروف رہے۔ ۱۲۱۵ھ میں وفات پائی۔ دو فرزند سیّد غلام نبی اور سیّد غلام علی اولاد سے تھے۔ دونوں صاحبزادے عابد و زاہد اور صاحبِ کرامت تھے۔ رفت خوش محمود زیں دارِ فنا سالِ ترحیلش بہ سرور شد عیاں   چوں برویش گشت بابِ خلد باز محتشم محمود میرِ بے نیاز ۱۲۱۵ھ ۔۔۔

مزید

سید عادل شاہ گیلانی لاہوری

عالم و عامل اور عارفِ کامل تھے۔ زہد و تقویٰ، اور عبادت و ریاضت میں یگانۂ آفاق تھے۔ دعوتِ اسمائے الٰہی میں کامل و اکمل تھے۔ روزانہ خرچ اللہ تعالیٰ کے خزانۂ غیب سے حاصل ہوتا تھا۔ جو کوئی بھی حاضرِ خدمت ہوتا، محروم نہ جاتا۔ ۱۲۲۰ھ میں وفات پائی۔ وطن موضع لکھوال ضلع گجرات تھا۔ مزار لاہور میں ہے۔ حضرت مولانا مفتی غلام سرور رقم طراز ہیں: آپ کے نواسہ سیّد محمد شاہ گیلانی صاحبِ علم و فضل او مظہرِ کمالاتِ ظاہری و باطنی ہیں۔ کئی دفعہ شرفِ ملاقات حاصل ہوچکا ہے۔ یگانگت و الفت میں بے نظیر ہیں۔ اسی طرح آپ کے فرزند سیّد شاہ سردار اصاحبِ حال و قال بزرگ ہیں اور میرے کرم فرماؤں سے ہیں دونوں حضرات لاہور میں سکونت پذیر ہیں۔ قطعۂ تاریخِ ولادت و وفات: سیّد والا مراتب نیک ذات سالِ تولید ش بہ اقوالِ صحیح! گشت سالِ انتقالش جلوہ گر!   شاہ عالم عادلِ دورِ زماں ’’عادل و فاض علیم‘&lsquo۔۔۔

مزید

سیّد شادی شاہ قادری لاہوری

ترکِ علائق میں بے مثال اور اخلاقِ محمّدی کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ موضع لکھوال ضلع گجرات کے رہنے والے تھے۔ طویل عرصہ تک حضرت شیخ مخدوم سید علی ہجویری﷫ داتا گنج بخش کے مزارِ قدس پر معتکف رہے اور بے اندازہ فیوض و برکات حاصل کیے۔ پھر بہ ایمائے باطنی لاہور ہی میں مقیم ہوگئے اور تادمِ زیست ہدایتِ خلق میں مصروف رہے۔ ۱۲۲۱ھ میں وفات پائی۔ چو از روئے ز میں مانندِ خورشید بیاں شد ’’فاضلِ برحق‘‘ وصالش ۱۲۲۱ھ   نہاں شد میر شادی شاہ فردوس عیاں شد ’’میر شادی شاہ فردوس‘‘ ۱۲۲۱ھ     ۔۔۔

مزید

سیّد علی شاہ قادری لاہوری

ساداتِ گیلان سے ہیں۔ سلسلۂ طریقت بھی حضرت شیخ سیّد عبدالقادر جیلانی غوث الاعظم﷫  تک پہنچتا ہے۔ صاحبِ علم و عمل تھے۔ ۱۲۱۷ھ میں احمد آباد دکن سے لاہور آکر اپنے لیے ایک مختصر سی جگہ دریائے راوی کے کنارے تجویز کر کے سکونت اختیار کرلی تھی۔ شب و روز عبادت و ریاضت اور درس و تدریس میں مصروف رہتے تھے۔ نقل ہے ایک دفعہ دریا میں طغیانی آئی کہ پانی شہر لاہور کی فصیل تک پہنچ گیا حتّٰی کہ آپ کی خانقاہ بھی گرنی شروع ہوگئی۔ رنجیت سنگھ حاکمِ لاہور و پنجاب نے آپ کو شہر میں لانے کے لیے کشتی بھیجی مگر آپ نے قبول نہ کیا اور فرمایا: میرا خدا حافظ و ناصر ہے، میں نے اس سے دعا کی کہ آیندہ دریا کا پانی بارش کے موسم کے سوا یہاں نہ آئے۔ پس اسی طرح واقع ہُوا۔ دریا وہاں سے دُور چلا گیا پھر ادھر موسمِ برسات کے سوا کبھی پانی نہیں آیا۔ ۱۲۲۷ھ میں وفات پائی۔ مزار لاہور جھنگی چراغ شاہ میں ہے جو آپ کے مرید و سجادہ نشین تھ۔۔۔

مزید

حضرت شاہ غلام نبی حجروی

اپنے عالی مرتبت والد حضرت محمد عظیم﷫ کے شاگرد اور مرید و خلیفہ تھے۔ پدر بزرگوار کے فیضِ نظر سے صاحبِ علم و فضل و خوارق و کرامت تھے۔ ایک خلقِ کثیر نے آپ سے استفادہ کیا۔ نقل ہے ایک دفعہ موسمِ برسات میں دریائے راوی بڑی طغیانی پر تھا۔ امواجِ دریاشہر لاہور کی فصیل سے ٹکرا رہی تھیں۔ حتّٰی کہ کشتی میں سفر کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں تھا۔ انہی ایّام میں حضرت سید علی ہجویری داتا گنج بخش کا سالانہ عرس آگیا۔ آپ نے اپنے مرید عمر الدین سے کہا: آج ہمیں عرس پر جانا ہے۔ اس نے عرض کیا: حضرت پانی اس قدر چڑھا ہُوا ہے کہ کشتی میں بھی عبور کرنا مشکل ہے۔ فرمایا: غم نہ کرو۔ اِن اللہَ مَعَنَا (بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے) پس آپ نے موضع بیگم کوٹ سے دریا میں قدم ڈال دیا اور عمر الدین سے کہا: میرے قدم بقدم چلے آؤ اور دل میں کچھ اندیشہ نہ لاؤ۔ آج پانی ہمارے ٹخنوں تک ہے۔ چنانچہ وُہ بھی حکمِ مرشد کے مطابق آپ کے پیچھے پیچھے۔۔۔

مزید

شیخ مسلم خاں

پنجاب کے طبقۂ امراء سے تھے۔ ترکِ علائق کر کے راہِ سلوک میں قدم رکھا اور شاہ سردار قادری﷫  کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوکر تکمیلِ سلوک کی اور خرقۂ خلافت پایا۔ مرشد کے کامل تریں اور فاضل تریں خلفاء سے تھے۔ وفاتِ مرشد کے بعد سجادہ نشین ہُوئے اور تمام عمر ارشاد و ہدایتِ خلق میں مصروف رہے۔ ۱۲۵۴ھ میں وفات پائی۔ جنابِ شیخ مسلم خان والا چوں تاریخِ وصالِ او بجتم   بہ جنّت رفت زیں دنیائے پر شور ندا آمد ز دل ’’محبوب منظور‘‘ ۱۲۵۴ھ      ۔۔۔

مزید

حضرت شیخ عبدالوہاب متقی

عبدالوہاب نام، متقی لقب، والد کا نام شیخ ولی اللہ تھا۔ اصل وطن مالوہ تھا۔ ان کے والد ہندوستان کے اکابر صوفیا و صلحا سے تھے۔ حوادثِ زمانہ نے ترکِ وطن پر مجبور کیا۔ برہان پور آگئے، یہیں فوت ہوئے۔ شیخ عبدالوہاب کو چھوٹی عمر ہی میں سلوک و معرفت اور سیر و سیاحت کا بڑا شوق تھا۔ چنانچہ بیس سال کی عمر میں وطن سے نکلے۔ گجرات، دکن، سراندیپ سے ہوتے ہوئے مکہ معظّمہ پہنچے۔ یہاں حضرت شیخ<href="#_ftn1" name="_ftnref1" title="">[1] علی متقی چشتی قادری شاذلی کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے۔ خدمتِ مرشد میں رہ کر علومِ ظاہری و باطنی سے بہرۂ وافر حاصل کیا۔ اپنے خلوص و عقیدت کے باعث مرشد سے بے اندازہ فیوض و برکات اکتساب کیے۔ اپنے اخلاقِ حمیدہ اور اوصافِ پسندیدہ کی وجہ سے عینِ ذاتِ مرشد ہوگئے تھے۔ صاحبِ اخیار الاخیار لکھتے ہیں: شیخ عبدالوہاب ۱۲ سال مرشد کی زندگی میں اور ۲۸ سال مرشد کی وفات کے بعد مکہ معظّمہ م۔۔۔

مزید

شیخ حسین لاہوری

حضرت شیخ بہلول دریائی کے مرید و خلیفہ تھے۔ ان کا دادا کلجس رائے ہندو تھا اور فیروز شاہ تغلق کے عہد میں مُسلمان ہوا تھا۔ حسین کا باپ عثمان نامی دین دار آدمی تھا۔ بافندگی پیشہ تھا۔ شیخ حسین ۹۴۵ھ میں پیدا ہوئے۔ سات برس کے ہوئے تو لاہور کے ایک فاضل حافظ ابو بکر کے حلقۂ درس میں شامل ہوکر قرآن شریف حفظ کرنا شروع کیا۔ چھ سات پارے حفظ بھی کر لیے تھے اور کچھ دینیات میں بھی استعداد بہم پہنچالی تھی کہ اسی اثنا میں شیخ بہلول واردِ لاہور ہُوئے۔ ایک روز شیخ ابو بکر کی مسجد میں تشریف لائے اور شیخ حسین کو دریا سے ایک کُوزہ پانی کا لانے کے لیے کہا۔ اس وقت دریائے راوی ٹکسالی دروازے کے باہر بہتا تھا۔ شیخ حسین دریا پر گئے اور کوزہ میں پانی بھر لائے۔ شیخ بہلول نے وضو کیا، نماز پڑھی اور شیخ حسین کے حق میں دُعا کی کہ اے الٰہی اس لڑکے کو عارف اور اپنا عاشق بنا۔ شیخ حسین بھی ان کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوگئے۔ اُنہی ۔۔۔

مزید

سید عبد القادر اکبر آبادی قادری

اپنے زمانے میں مشائخ قادریہ میں درجۂ بلند رکھتے تھے۔ سکونت اکبر آباد میں تھی۔ صاحبِ فضل و کمال تھے۔ علم و عمل، زہد و تقوٰی، ریاضت و عبادت میں لاثانی، صائم الدہر اور قائم اللیل تھے۔ تمام عمر درس و تدریس میں گزاری۔ ۱۰۵۰ھ میں وفات پائی۔ مزار اکبرآباد میں ہے۔۔۔۔

مزید