/ Wednesday, 24 April,2024

حضرت شیخ صدر الدین قونیوی

نام صدرالدین اور کنیت ابوالمعالی ہے۔ حضرت غوث الاعظم﷜ ﷫کے بہترین مریدوں سے تھے (صاحبِ سفینۃ الاولیاء شیخ محی الدین ابن العربی کے ارشد مریدوں سے لکھتے ہیں) علومِ ظاہری و باطنی کے جامع تھے۔ فقہ و حدیث میں یکتائے زمانہ تھے۔ زہدو تقویٰ اور ریاضت و مجاہدہ میں مقامِ بلند پر فائز تھے۔ مولانا قطب[1] الدین علامہ علمِ حدیث میں آپ کے شاگرد تھے۔ کتاب جامع الاحوال خود لکھ کر اُن کے سامنے پڑھی تھی اور اس پر فخر کیا کرتے تھے۔ اُس وقت کے اولیائے کرام نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر اخدِ فیض کیا ہے۔ شیخ سعد[2]الدین حموی اور مولانا جلال الدین[3] رومی سے خاص روابط تھے۔ ۶۳۰ھ میں وفات پائی۔ صدر دین صدرِ اولیائے کرام وصل او ہست آفتابِ علوم ۶۳۰ھ   شد ز دنیا چو در بہشت بریں نیز والیٔ صدق صدرالدین ۶۳۰ھ   [1]۔ جامع منقول و معقول۔ علامۂ عصر اور وحیدالدہر تھے۔ بڑے بڑے علمأ نے آپ سے اکتسابِِ فیض کیا۔۔۔

مزید

حضرت شاہ فیروز قادری لاہوری

نام فیروز شاہ تھا۔ آپ کے دادا شاہ عالم نے بغداد سے نقل مکان کرکے لاہور آکر سکونت اختیار کرلی تھی۔ صاحب علم و فضل تھے۔ سیادت و بخابت اور عبادت و ریاضت میں مشہور زمانہ تھے۔ اپنے دادا کے مرید و خلیفہ تھے۔ چنانچہ ان کی وفات کے بعد سجادہ نشیں ہوئے۔ تمام عمر طلبہ و مریدین کی درس و تدریس اور ہدایت و تلقین میں گزاری۔ طلبہ کو فقہ و حدیث اور قرآن و تفسیر کا درس دیا کرتے تھے۔ شام سے آدھی رات تک اربابِ معنی کو توجہ اور تلقین فرمانے میں مشغول رہتے۔ جمعہ کے روز نماز کے بعد عصر تک وعظ و نصائح میں صرف کرتے۔ آپ کی ذاتِ بابرکات سے ایک خلقِ کثیر علومِ ظاہری و باطنی سے بہرہ در ہوئی۔ آپ کا سلسلۂ بیعت حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی غوث الاعظم﷜ تک منتہی ہوتا ہے۔ ۹۳۳ھ میں وفات پائی۔ مزار تکیہ ڈنڈی گراں لاہور میں ہے۔ ڈنڈی گریا خرادی۔ صناعوں کی یہ جماعت آپ سے بڑی عقیدت رکھتی تھی۔ یہ علاقہ ڈنڈی گراں کے نام سے مشہور ہ۔۔۔

مزید

حضرت شاہ نعمت اللہ ولی

کنیت ابوالسعادت، لقب عفیف الدین، باپ کا نام سعد یافعی ہے۔ یمن کے رہنے والے تھے۔ آپ کا قیام زیادہ عرصہ حرمین الشریفین میں رہا ہے۔ شافعی مذہب تھے۔ علومِ ظاہری و باطنی میں اپنے زمانے کے علماء و فضلاء میں ممتاز درجہ رکھتے تھے۔ آپ کو نسبتِ ارادت چند واسطوں سے حضرت غوث الاعظم﷜ سے حاصل ہے۔ تاریخ یافعی، کتاب روضتہ الریاحین، نشرالمجالس با حوال خوارق و کرامت حضرت غوث الثقلین آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔ جب حضرت سیّد جلال الدین مخدومِ جہانیاں جہاں گشت سہروردی اوچی﷫ المتوفیٰ ۷۰۷ھ مکہ معظمہ گئے تو امام صاحب سے بھی ملاقات کاشرف حاصل کیا۔ ان دونوں حضرات میں اس درجہ اتحاد و محبت کا تعلق بڑھا کہ اس کی نظیر دیکھی نہیں گئی۔ امام صاحب نے سلسلۂ چشتیہ سے اخذِ فیض کے لیے حضرت مخدومِ جہانیاں کو حضرت شیخ سید نصیرالدین محمود چراغ دہلی﷫﷫ المتوفیٰ ۷۵۷ھ کی خدمت میں جانے کو کہا۔ چنانچہ حضرت مخدوم﷫ جب ہندوستان لوٹے تو دہلی م۔۔۔

مزید

سید عبد القادر گیلانی

سیّد جمال الدین باپ کا نام تھا۔ اپنے پدر بزرگوار کے شاگرد و مرید تھے۔ علومِ ظاہری و باطنی میں کامل و اکمل مرجع خلائق اور صاحبِ خوارق و کرامت تھے۔ اصل وطن بغداد تھا۔ وہاں سے نقل مکان کر کے لاہور آکر سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ سلسلۂ نسب حضرت شیخ سیّد عبدالقادر گیلانی غوث الاعظم تک منتہی ہوتا ہے۔ ۹۴۲ھ میں اللہ کو پیارے ہوئے۔ عبد قادر سیّدِ نورانی است خیرِ اسلام آمدہ ترحیلِ او ۹۴۲ھ   قطبِ دوراں سالکِ ربانی است بارِ دیگر عبدِ قادر ثانی است ۹۴۲ھ   ۔۔۔

مزید

حضرت سید محمود حضوری

سید محمود نام، حضوری لقب، باپ کا نام خواجہ شمس الدین المشہور شمس العارفین تھا۔ سلسلۂ نسب امام موسیٰ[1] کاظم﷫ تک منتہی ہوتا ہے۔ غُور[2] کے رہنے والے تھے۔ سیّد محمود اپنے والدِ ماجد کی وفات کے بعد نقل مکان کرکے پہلے اوچ اور وہاں سے لاہور آکر محلہ حاجی[3] سرائے میں سکونت پذیر ہوگئے۔ آپ جامع علوم و فنون تھے۔ اپنے زمانے کے عارف کامل اور استاد گرامی تھے۔ ایک خلقِ کثیر نے آپ کے علمی و روحانی فیوض و برکات سے اخذِ فیض کیا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ جو شخص آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوتا وُہ اسی روز رسول اللہﷺ کے دیدار سے خواب میں نعمت حاصل کرتا اسی لیے آپ حضوری کے لقب سے مشہور زمانہ ہوئے۔ دوسری روایت یہ کہ آپ کا مرید جلدی ہی اور اوجِ طریقت پر پہنچ کر درجۂ حضوری حاصل کرلیتا۔ آپ کا سلسلۂ ارادت حضرت غوث الاعظم﷫ تک اس طرح منتہی ہوتا ہے۔ آپ مرید اپنے والد شمس الدین کے اور یہ مرید سیّد یعقوب کے اور یہ عبدالقادر۔۔۔

مزید

سید عبد الرزاق گیلانی

سیّد عبدالقادر ثانی اوچی﷫ کے فرزند ارشد ہیں۔ عالی ہمت اور صاحبِ فضل و کمال تھے۔ والدِ ماجد کی وفات کے وقت ناگور میں تھے۔ ایک روز مجلس  میں بیٹھے ہوئے تھے کہ فرمایا: مجھے پدر بزرگوار نے بلایا ہے اور میں نے ان کی آواز بگوشِ ظاہری سنی ہے۔ اسی وقت اوچ کو روانہ ہوگئے۔ گوعین وفات کے وقت تو نہ پہنچ سکے، چند روز کے بعد پہنچے، اور والدِ ماجد کے حکم کے مطابق لباسِ خرقہ و اجازت خلافت و نعمتِ سجادہ نشینی سے مشرف ہوئے۔ بقول صاحب اخبار لاخیار ۹۴۲ھ میں وفات پائی۔ مزار اوچ میں ہے۔ سیّدِ رزاق شاہِ والا جاہ میرِ حق آفتاب گو سالش ۹۴۲ھ   رفت چوں در جناں ز دورِ زماں باز مخدوم قطبِ عالم خواں ۹۴۲ھ ۔۔۔

مزید

میر سید مبارک حقانی گیلانی

مشائخ قادریہ میں بڑے پایہ کے بزرگ تھے۔ زہدو تقویٰ، عبادت و ریاضت، ترکِ علائق اور تجریدو تفرید میں وحید العصر تھے۔ جذب و استغراق طبع عالیہ پر بہت غالب تھا۔ حالتِ جذب و سکر میں دُور دراز غیر آباد مقامات میں چلے جاتے اور مراقبہ و مجاہدہ میں مشغول رہتے۔ جلالت و ہیبت کا یہ عالم تھا کہ کوئی شخص پاس نہ آ جا سکتا تھا۔ شیخ معروف چشتی جو حضرت بابا فرید گنج شکر قدس سرہٗ کی اولادِ امجاد سے تھے۔ صرف انھوں نے ہی حاضرِ خدمت رہ کر اخذِ فیض کیا ہے اور نعمت خلافت پائی ہے۔ آپ نے انھیں بشارت دی تھی کہ تمہاری ذات سے ایک نیا سلسلہ جاری ہوگا۔ چنانچہ شیخ معروف چشتی ﷫‘‘نوشاہی’’سلسلہ کے مورثِ اعلیٰ ہیں۔ ۹۵۶ھ میں وفات پائی۔ پہلے لاہور مدفون ہوئے۔ پھر نعش کو اوچ لیجاکر والدِ ماجد کے روضہ کے اندر دفن کیے گئے۔ مبارک شد چو فردوسِ معلّٰی ز فیض اللہ بسرور رحلتش یافت ۹۵۶ھ   بآں سیّد مبا۔۔۔

مزید

حضرت مخدوم جی قادری

صاحب اخبار الاخیار رقم طراز ہیں: آپ سلسلۂ قادریہ ہیں بڑے پایہ کے بزرگ گزرے ہیں۔زہدوتقدس، عبادت و ریاضت میں بے مثال تھے۔ عالی ہمتی میں اپنی نظیر آپ تھے۔ دنیا و اہل دنیا سے کوئی کام نہ تھا۔ متوکل اور مستغنی المزاج تھے۔ شہرِ بدرجو دیارِ دکن سے ہے وہاں کے رہنے والے تھے۔ شیخ عبدالواہاب﷫ متقی فرماتے ہیں کہ آخری عمر میں بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے اٹھنے اور بیٹھنے کی بھی طاقت نہ رہی تھی۔ اس کے باوجود جواں ہمتی کا یہ عالم تھا کہ آدھی رات کو نوافل کے لیے اٹھتے، نمازِ تہجّد ادا کرنے کے بعد فجر تک ایک نشست میں قرآن شریف ختم کرتے۔ ۹۷۸ھ میں وفات پائی۔ شد چو مخدوم از جہاں بیوفا رحلتش مخدوم قطب العالم است ۹۷۸ھ گشت در فردوس والا جائے گیر ہم بخواں ’’ہادی مخدوم الکبیر‘‘ ۹۷۸ھ (خزینۃ الاصفیا قادریہ۔۔۔

مزید

حضرت مخدوم جی قادری

صاحب اخبار الاخیار رقم طراز ہیں: آپ سلسلۂ قادریہ ہیں بڑے پایہ کے بزرگ گزرے ہیں۔زہدوتقدس، عبادت و ریاضت میں بے مثال تھے۔ عالی ہمتی میں اپنی نظیر آپ تھے۔ دنیا و اہل دنیا سے کوئی کام نہ تھا۔ متوکل اور مستغنی المزاج تھے۔ شہرِ بدرجو دیارِ دکن سے ہے وہاں کے رہنے والے تھے۔ شیخ عبدالواہاب﷫ متقی فرماتے ہیں کہ آخری عمر میں بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے اٹھنے اور بیٹھنے کی بھی طاقت نہ رہی تھی۔ اس کے باوجود جواں ہمتی کا یہ عالم تھا کہ آدھی رات کو نوافل کے لیے اٹھتے، نمازِ تہجّد ادا کرنے کے بعد فجر تک ایک نشست میں قرآن شریف ختم کرتے۔ ۹۷۸ھ میں وفات پائی۔ شد چو مخدوم از جہاں بیوفا رحلتش مخدوم قطب العالم است ۹۷۸ھ   گشت در فردوس والا جائے گیر ہم بخواں ’’ہادی مخدوم الکبیر‘‘ ۹۷۸ھ ۔۔۔

مزید

حضرت سید عبداللہ ربانی

سیّد محمد غوث گیلانی حلبی اوچی﷫ کے فرزند رشید تھے۔ تعلیم و تربیت اپنے والدِ گرامی ہی کے سایۂ عاطفت میں پائی تھی۔ علمِ منقول و معقول اور اصول و فروع کے جامع تھے۔ اس جلالتِ علمی کے ساتھ زہدو ورع اور عبادت و ریاضت میں یکتائے روز گار تھے۔ دنیا و اہل دنیا سے بے نیاز تھے۔ اپنے عہد کے مشائخ میں ممتاز و ذویٔ الاحترام تھے۔ تمام عمر ہدایتِ خلق میں مصروف رہے۔ ایک خلقِ کثیر نے آپ کے کمالات صوری و معنوی سے اخدِ فیض کیا۔ ۹۷۸ھ میں بہ عہدِ اکبر وفات پائی۔ مزار اوچ میں ہے۔ قطعۂ تاریخِ وفات: ز دنیا رفت در خلدِ معلّٰی!! وصالِ پاک او از دل عیاں شد   چو شیخِ پاک عبداللہ معصوم ’’امامِ دیں عبداللہ مخدوم‘‘ ۹۷۸ھ ۔۔۔

مزید