/ Tuesday, 16 April,2024

شیخ عنایت اللہ قادری نوشاہی

مولانا حافظ محمد برخوردار کے فرزند ارجمند تھے اور حضرت شاہ حاجی محمد نوشاہ گنج بخش کے پوتے تھے۔ حضرت شیخ عبدالرحمٰن المشہور پاک سرہٗ سے تربیت و تکمیل پائی تھی۔ صاحب فضل و کمال تھے۔ حالتِ استغراق کا غلبہ رہتا تھا۔ گیارہ سال تک طعام نہیں کھایا۔ صائم الدہر اور قائم الیل تھے۔ صاحبِ تذکرہ نوشاہی بختاور نامی ایک شخص کی زبانی جو موضع ٹھٹھہ عثمان کا مقدم تھا، بیان کرتے ہیں کہ شیخ عنایت اللہ زیادہ تر اپنی زرعی اراضی پر رہا کرتے تھے اور وہاں اپنے رہنے کے لیے ایک حجرہ بنالیا تھا۔ ایک رات میں آپ کی زیارت کے لیے گیا۔ جب حجرے میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہُوں کہ آپ کا ایک عضو تن بدن سے جدا پڑا ہوا ہے۔ میں بڑا حیران ہوا اور دل میں کہنے لگا نہ جانے کون ظالم بے رحم قزاق غارت گر آپ کو شہید کر گیا ہے۔ میں ابھی اسی عالمِ حیرت میں تھا کہ آپ کے بھائی شیخ عصمت اللہ تشریف لے آئے۔ فرمایا بختاور یہ مقامِ حیرت نہیں ہے بل۔۔۔

مزید

شیخ محمد سلطان لاہوری

سلسلۂ قادریہ میں عظیم القدر بزرگ گزرے ہیں۔ حضرت شیخ سعدی شاہ کے مرید و خلیفہ تھے عجیب و غریب احوال و مقامات کے مالک تھے۔ مجذوبوں میں مجذوب اور سالکوں میں سالک تھے۔ طبع عالی پر جذب و سُکر اور عشق ع محبّت کا غلبہ طاری رہتا تھا۔ قدرت نے آنکھیں بڑی خوبصورت دی تھیں اس لیے بارگاہِ مرشد س مرگ نینی یعنی آہُو چشم کا خطاب حاصل تھا۔ ۱۱۵۸ھ میں دفات پائی۔ مزار لاہور میں ہے شاہ نواز خاں صوبہ دار لاہور نے آپ کا مزار تعمیر کرایا تھا۔ چو سلطانِ دنیا  و دیں بادشاہ! وصالش شدہ روشن از ’’نور بخش‘‘ ۱۱۵۸ھ   زدنیائے دوں شد بہ ملکِ جناں دگر ’’شیخ سلطان محمود‘‘ خواں ۱۱۵۸ھ ۔۔۔

مزید

سیّد شاہ حسین بن سیّد نور محمد حجروی

اپنے علمی اور روحانی فضل و کمال کے باعث مشائخ قادریہ میں بڑے عظیم المرتبت شیخ گزرے ہیں۔ صاحبِ خوارق و کرامت تھے۔ مکارمِ اخلاق میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ نقل ہے ایک دفعہ کسی حادثہ کے باعث آپ کے ساتھی سواروں میں سے ایک سوار کے گھوڑے کی آنکھ کا ڈھیلا نکل گیا۔ فرمایا: ابھی یہ ڈھیلا گھوڑے کی آنکھ میں رکھ کر پٹّی باندھ دو۔ تھوڑی دیر کے بعد فرمایا: گھوڑے کی آنکھ سے پٹّی کھول دو۔ چنانچہ پٹّی کھول کر گھوڑے کی آنکھ کو دیکھا گیا تو درست اور صحیح و سلامت تھی اور اسے نظر آرہا تھا۔ نقل ہے ایک دفعہ آپ سفر میں تھے۔ رات کو ایک جگہ پر قیام فرمایا۔ آپ آرام فرمارہے تھے کہ چند قزاقوں نے آکر سامان لُوٹنا شروع کردیا۔ اتنے میں خادم کی آنکھ کُھل گئی۔ اس نے آپ کو پکارا کہ تشریف لایئے، مدد کیجئے۔ قزاق سامان لُوٹ رہے ہیں۔ فرمایا: کچھ غم نہ کرو، لُوٹنے دو واپس لے آئیں گے۔ قزاق سامان لُوٹ کر ابھی تھوڑی دُور ہی گئے تھے۔۔۔

مزید

شیخ نصرت اللہ قادری نوشاہی

مولانا حافظ برخوردار ابن حضرت نوشاہ عالیجاہ﷫ کے فرزندِ چہارم تھے۔ عالمِ متبحر اور عارفِ کامل و اکمل تھے۔ تحصیلِ علوم سیالکوٹ میں کی تھی۔ اپنے والدِ بزرگوار کی خدمت میں حاضر رہ کر سلسلۂ قادریہ نوشاہیہ کی تکمیل کی تھی اور ریاضت و مجاہدہ سے ولایت باطنی کو کمال تک حاصل کیا۔ پدر بزرگوار کی وفات کے بعد احمد بیگ ﷫ سے بھی اخذِ فیض کیا تھا۔ ۱۱۷۰ھ میں وفات پائی۔ مزار ساہن پال میں اپنے والدِ گرامی کے مزار کے قریب ہے۔ رفت از دنیا چو در خلدِ بریں ’’رستمِ عشق‘‘ است سالش کن رقم ۱۱۷۰ھ   نصرت اللہ رہبرِ کون و مکاں نیز ’’نصرت واصلِ کامل‘‘ بخواں ۱۱۷۰ھ ۔۔۔

مزید

میاں شیخ رحمت اللہ قادری نوشاہی

مولانا حافظ برخوردار ابن حضرت نوشاہی عالیجاہ﷫ ﷫ کے فرزند سوم تھے۔ صاحبِ علم و عمل تھے۔ زہد و ورع، عبادت و ریاضت ،اور سخاوت و شجاعت، میں شہرۂ آفاق تھے۔ جب آپ پیدا ہوئے تھے آپ کے دادا حضرت نوشاہ گنج بخش نے آپ کے لیے دعائے درازی عمر فرمائی تھی۔ چنانچہ آپ نے طویل عمر پائی۔ بڑے پُر جلال تھے۔ ایک دفعہ حاکمِ پرگنہ نے ادائیگیِٔ مال  کے لیے اپنا پیادہ بھیجا۔ اس پر جلال میں آگئے۔ اُسی وقت حاکم پرگنہ کے پاس گئے۔ فرمایا کہ جب میں خودبخود مالیہ ادا کردیتا ہُوں تو پھر پیادہ بھیجنے کی کیا ضرورت تھی تُو مسندِ حکومت کے لائق نہیں ہے تجھے معزول کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہُوا۔ اسی روز صوبہ دارِ لاہور کی طرف سے اسے اپنا معزولی نامہ وصول ہوگیا۔ مسمّی نور محمد ترکھان جو آپ کے خادموں سے تھا، موضع باہو کی میں کھیتی باڑی کرتا تھا وہاں کے مقدم مہربان نامی نے کچھ لگان بڑھا کر ایک سوار وصولی کے واسطے نور محمد ک۔۔۔

مزید

میر سیّد بُلّھے شاہ قادری شطاری قصوری

ساداتِ عظام سے تھے۔ وطن قصبۂ قصور تھا۔ حضرت عنایت شاہ قادری شطاری﷫  کے عظیم المرتبت مُرید و خلیفہ تھے جن کا سلسلۂ بیعت حضرت شیخ محمد غوث گوالیاری﷫  تک جاپہنچتا ہے۔ اپنے زمانے کے عالم و فاضل، عابد و زاہد، عارفِ کامل اور شاعرِ بے بدل تھے۔ پنجابی زبان میں آپ کی کافیاں زبان زدِ خاص و عام ہیں۔ تمام کلام موحدانہ اور عارفانہ ہے اور اپنے اندر ایک عجیب لذت و تاثیر رکھتا ہے۔ قوال اب بھی آپ کے کلام سے مجالسِ سماع کو گرماتے ہیں۔ ۱۱۷۱ھ میں وفات پائی۔ مزار قصور میں زیارت گاہِ خلق ہے۔ چو بُلّھے شاہ شیخ ہر دو عالم رقم کن ’’شیخِ اکرم‘‘ ارتحالش ۱۱۷۱ھ   مقامِ خویش اندر خلد ور زید!! دگر  ’’ہادئ اکبر مستِ توحید‘‘[1] ۱۱۷۱ھ   [1]۔ حضرت بُلھے شاہ کی تاریخ وفات میں اختلاف ہے۔ ڈاکڑ مولوی محمد شیخ مرحوم نے ضمیمہ اورینٹل کالج میگیزین۔۔۔

مزید

سعد اللہ قادری نوشاہی

مولانا حافظ برخوردار﷫  کے دُوسرے فرزند ارجمند تھے۔ صاحب علم و فضل تھے۔ فنِ طبابت میں بھی مہارتِ کامل رکھتے تھے۔ ظاہری و باطنی طور پر مریضوں کی خبر گیری بھی کیا کرتے تھے۔ نقل ہے کہ جب آپ کے والد مولانا حافظ محمد برخوردار نے آپ کی شادی کرنے کے بعد شیخ سعد اللہ اور نصرت اللہ دونوں بھائیوں کو اپنے اپنے گھروں میں الگ کیا تو شیردار بھینس شیخ نصرت اللہ کو دی اور اس کا بچّہ (کٹّا) شیخ سعداللہ کو عطا فرمایا۔ یہ بات آپ کو گراں گزری اور عرض کیا: یا تو یہ کٹّا بھی نصرت اللہ کو دے دو یا بھینس میرے حوالے کردو اور اگر یہی تقسیم آپ کو منظور ہے جو کہ کردی ہے تو میں نے خدا تعالیٰ سے منظور کرالیا ہے کہ یہ دونوں مرجائیں۔ چنانچہ واقعی دو(۲) دنوں میں بھینس اور کٹّا دونوں مرگئے۔ نقل ہے کہ آپ موضع بھاگت  میں اپنی زمین کاشت کرتے تھے۔ وہاں کا مقدم (نمبر دار) سید انام معاملہ وصول کرنے پر آپ کو بہت تکلیف دی۔۔۔

مزید

شیخ مصاحب خان خورد قادری لاہوری

سید شاہ سردار کے کامل و اکمل مرید و خلیفہ تھے۔ اپنے عہد میں علم و عمل، زہدو تقویٰ اور عبادت و ریاضت میں ممتاز تھے۔ وفاتِ مرشد کے بعد سجادہ نشین ہوئے اور چھ سال تک درس و تدریس اور ہدایتِ خلق میں مصروف رہے۔ آپ کے حلقۂ درس سے پانچ سوحافظ، حفظِ قرآن کی نعمت سے مالا مال ہوکر نکلے۔ ۱۱۹۰ھ میں وفات پائی۔ مزار بابک وال میں ہے۔ چوں مصاحب بہ رحمتِ باری! جو وصالش ز ’’میر نعمت فقر‘‘ ۱۱۹۰ھ   یافت دربار گاہِ جنت بار! بارِ دیگر ز ’’مخزن الاسرار‘‘! ۱۱۹۰ھ ۔۔۔

مزید

سید میر محمد شاہ عبد الرزاق حجروی

میر محمد شاہ نام، عبدالرزاق لقب تھا۔ جامع علومِ ظاہری و باطنی تھے۔ زہدو تقویٰ اور عبادت و ریاضت میں وحید العصر اور تجرید و تفرید میں فرید الدہر تھے۔ کشف و کرامت میں بڑے اخفا سے کام لیتے تھے۔ بے حد مستغنی المزاج تھے۔ دنیا و اہلِ دنیا سے کچھ واسطہ نہ تھا۔ بقول صاحب اسرار الاولیاء ۱۱۸۴ھ میں وفات پائی۔ مزار حجرہ میں ہے۔ چار فرزند شاہ صدرالدین الملقب بہ شیرِ خدا، شاہ سعد الدین ثابت قدم، شاہ سیف الدین، شاہ طالب الدین اولاد سے تھے۔ شاہ سیف الدین حیاتِ والد ہی میں وفات پاگئے تھے۔ عبدِ رزاق میرِ عالی جاہ ہست ’’غیب اللسان‘‘ سالش نیز ۱۱۸۴ھ   ذات پاکش بد دو جہاں طاق است ’’متقی میر عبدرزاق‘‘ است ۱۱۸۴ھ ۔۔۔

مزید

شاہ صدر الدین حجروی

صاحبِ علم و عمل تھے۔ سخاوت و شجاعت، عبادت و ریاضت اور زہد و ورع میں مقامِ بلند اور درجۂ ارجمند رکھتے تھے۔ آپ کے آستانۂ عالیہ پر جو آتا تھا، محروم نہ جاتا تھا ایک خلقِ کثیر نے آپ سے اخذِ فیض کیا۔ شوقِ شہادت بیحد تھا۔ اسی شوق میں سپاہ گری کا پیشہ اختیار کرلیا تھا۔ کفار سے اکثر معرکہ آرا رہتے تھے۔ ۱۱۹۰ھ میں وفات پائی۔ مزار حجرہ میں ہے۔ قطعۂ تاریخِ ولادت و وفات: صدرِ عالم صدرِدیں صدر الصدور جلوہ گر شد از خرد ’’مہتاب خلد‘‘ ۱۱۲۸ھ سالِ وصل آں شہِ عالی جناب   مظہرِ دیں مصدرِ فیضِ نبی سرورا تولید آں والا ولی ہست’’صدر الدیں امیرِ متقی‘‘ ۱۱۹۰ھ ۔۔۔

مزید