/ Friday, 26 April,2024

حضرت شیخ حاجی محمد قادری المشہور

آپ حضرت شاہ سلیمان قادری﷫ کے اکابر خلیفوں سے تھے۔ آپ مادرزادولی اللہ، صاحب جذب اور صحو و سُکر اور محبت و عشق اور شوق و ذوق اور زہد و ریاضت تھے۔ ولایت کے بادشاہ اور صاحبِ خوارق و کرامات تھے۔ طریقہ نوشاہیہ قادریہ کے امام اور پیشوا تھے۔ فقر میں مقاماتِ بلد اور شانِ ارجمند رکھتے تھے۔ آپ کے والد بزرگوار حاجی علماءالدین بڑے عابد بزرگ تھے۔ سات(۷) حج کیے ہوئے تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ بی بی جیونی موضع گھوگا نوالی میں سکونت رکھتی تھیں۔ جب آپ بی بی جیونی کے شکم میں تھے تو آپ کے والد ماجد کو بیت اللہ شریف جانے کا اتفاق ہوا۔ رخصت کے وقت اپنی اہلیہ صاحبہ کو تاکید کی کہ جو فرزند تمہارے پیٹ میں ہے، یہ مقتدائے زمانہ اور فرد یگانہ ہونے والا ہے۔ جب یہ متولد ہو تو اس کی تربیت و پرورش میں پوری پوری کوشش کرنا۔ ان کے بعد حضرت شاہ سلیمان﷫ اپنے مسکن(بھلوال) سے چل کر بی بی صاحبہ کے پاس تشریف لائے اور بشارتیں دیں۔ پید۔۔۔

مزید

حضرت شیخ معروف چشتی

شیخ کبیر بابا فرید گنج شکر کی اولاد امجاد سے ہیں۔ سلسلۂ چشتیہ میں اپنے والد ماجد کے مرید و خلیفہ تھے نیز حضرت سید مبارک حقانی گلیانی اوچی﷫ سے بھی اخذِ فیض کیا تھا اور خرقۂ خلافت پایا تھا۔ روایت ہے: جب آپ حضرت سید مبارک حقانی﷫ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے آئے تو وہ اس انتہائے استغراق اور جذب و سکر میں صحرائے لکھی میں مراقبہ و مجاہدہ میں مشغول تھے۔ اس حالت میں کسی کو اُن کے سامنے جانے کی تاب نہ ہوتی تھی۔ جب شیخ چشتی وہاں پہنچے تو خدام نے انہیں حضرت کے سامنے جانے سے روکا۔ مگر انہوں نے فرمایا: ہرچہ باداباد۔ جوکچھ بھی ہو میں ان کے سامنے ضرور جاؤں گا۔ چنانچہ جرأت و ہمتِ مردانہ کرکے ان کے سامنے پہنچے۔ آپ اس وقت گو مراقبہ میں مستغرق تھے مگر نورِ باطن سے آگاہ ہوکر سر اٹھایا اور متبسم ہوکر شیخ معروف﷫ کی طرف دیکھا۔ نظر پڑتے ہی غش کھا کر گر پڑے۔ تین دن تک بیہوش رہے۔ جب ہوش میں آئے تون حلقۂ ارادت میں ۔۔۔

مزید

حضرت سیّد محمد نور قادری

سید بہاول شیر گیلانی حجروی﷫ کے فرزندِ ارشد تھے۔ تعلیم و تربیت اپنے والدِ گرامی ہی سے پائی تھی۔ تمام بھائیوں میں علومِ ظاہری و باطنی میں درجۂ کمال رکھتے تھے۔ ان کے خُسرشاہ کمال بخاری﷫ بھی جن کا مزار قصبۂ چونیاں میں ہے اور پیرِ جہانیاں کے خطاب سے مشہورِ زمانہ ہیں۔ اپنے عہد کے کامل و اکمل بزرگ گزرے ہیں۔ جب آپ کے پدر بزرگوار نے رحلت فرمائی تو اتفاق سے آپ اس وقت حجرہ میں نہیں تھے۔ آپ کے غیر حاضری ہی میں انھیں دفن کردیا گیا۔ جب آپ سفر سے واپس آئے تو دیدارِ پدر کے لیے نہایت مضطرب و بیقرار تھے۔ آپ نے چاہا کہ قبر کھول کر والدِ بزرگوار کا دیدار کیا جائے۔ چنانچہ آپ نے دیگر معتقدین ولواحقین پر یہ قدغن لگادی کہ کوئی قبر شریف کے پاس نہ آنے پائے۔ قبر پر خیمہ لگا کر اسے کھولاگیا۔ ایک معمار کسی طرح چھپ کر خیمہ کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا تاکہ وہ حضور کی زیارت سے مشرف ہوسکے۔ خود حضرت سید محمد نور﷫ نے۔۔۔

مزید

حضرت شیخ سیّد اسماعیل گیلانی

باپ کا نام سید ابدال بن سیّد نصر تھا۔ سید عبدالرزاق فرزندِ حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی غوث الاعظم﷜ تک سلسلۂ نسب منتہی ہوتا ہے۔ عالم و فاضل اور صاحب حال و قال بزرگ تھے۔ قلعۂ رتہوڑ میں سکونت رکھتے تھے۔ صاحبِ اخبار لاخیار لکھتے ہیں: سب سے پہلےسیّد اسماعیل﷫ کے بزرگ ہندوستان میں تشریف لائے۔ ان سے پہلے حضرت غوثیہ کی اولاد میں سے کسی نے ہندوستان کی جانب رُخ نہیں کیا تھا۔ اگر کیا بھی تھا تو قیام نہیں کیا تھا۔ آپ کی ذاتِ بابرکات سے ایک خلقِ کثیر نے علم و ہدایت سے حصۂ وافر حاصل کیا۔ چنانچہ شیخ محمد حسن، شیخ امان پانی پتی، شیخ عبدالرزاق ساکن جھنجانہ آپ کے نامور مرید و خلیفہ تھے۔ یہ تینوں حضرات مجمع البحرین تھے اور سلسلۂ قادریہ چشتیہ کے مشاہیر اولیا سے تھے۔ ان بزرگوں کا ذکر سلسلۂ چشتیہ میں آئے گا۔ ۹۹۴ھ میں وفات پائی۔ مزار قلعہ تہوڑ میں ہے۔ شد چو اسماعیل از دار البقا رحلتش آمد عیاں ممتازِ وقت ۹۹۴ھ ۔۔۔

مزید

حضرت سیّد الہ بخش گیلانی

بقول صاحب اخیار الاخیار سیّد محمد  بن سیّد زین العابدین بن سیّد عبدالقادر ثانی اوچی کے فرزند تھے۔ اپنے بھائیوں کے ساتھ لاہور آکر سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ اپنے زمانے کے مقتدائے عالَم تھے۔ ایک خلقِ کثیر نے آپ سے اخذِ فیض کیا۔ ۹۹۴ھ میں دیارِ بنگال میں وفات پائی۔ الہ بخش آں ولیٔ دینِ احمد بجتم از خرد سالِ وصالش   ز دنیا شد چو در خلدِ معلّیٰ ز فیاضِ زمانہ گشت پیدا ۹۹۴ھ ۔۔۔

مزید

حضرت شیخ خضر سیوستانی

سلسلۂ قادریہ کے مشائخ سے ہیں۔ سیوستان وطن تھا۔ اپنے زمانے کے صاحب کمال و یکتائے روزگار بزرگ گزرے ہیں۔ عبادت و ریاضت، زہد و تقویٰ اور فقر و استغنا میں بے مثال تھے۔ تجرید و تفرید کا یہ عالم تھا کہ تمام عمر آبادی سے دُور ایک ویرانہ میں یادِ الٰہی میں بسر کردی۔ قوت لایموت جنگل کے درختوں اور پتوں سے حاصل کرتے۔ یا کبھی تنور میں اپنے لیے ایک آدھ روٹی پکالیتے تھے۔ لباس صرف ایک تہ بند اور چادر تھا جس سے سر اور جسم ڈھانپ لیتے تھے۔ جو تنور بنا رکھا تھا اُسے بوقتِ ضرورت جنگل کے ایندھن سے گرم کرلیتے تھے۔ شہر و آبادی کی طرف بالکل رغبت نہ تھی۔ جنگل کے طیور و وحوش آپ کے ہم نفس و ہمداستاں تھے۔ تنور کے سامنے ایک پتھر رکھا ہوا تھا اس پر بیٹھ کر عبادتِ الٰہی کیا کرتے تھے۔ اس پتھر پر گرمیِ آفتاب کا کچھ اثر نہ ہوتا تھا۔ موسمِ سرما میں بھی یہی تنور گرم کرلیتے تھے اور اس میں بیٹھ کر یادِ الٰہی کیا کرتے تھے۔ ایک ر۔۔۔

مزید

حضرت سیّد شاہ نور حضوری

سیّد محمود حضور موسوی غوری کے فرزند ارجمند تھے۔ تعلیم و تربیت اپنے پدر بزرگوار ہی کے زیر سایہ پائی تھی۔ اُنہی کے مرید و خلیفہ تھے۔ تکمیلِ سلوک کے بعد عطائے خرقہ سے سرفراز ہوئے اور اجازتِ ارشاد ملی۔ اپنے زمانے کے عالم و فاضل اور عارفِ کامل تھے۔ تمام عمر  درس و تدریس اور ہدایتِ خلق میں مصروف  رہے۔ والدِ ماجد کے فیضانِ نظر سے یہ مقام حاصل کرلیا تھا جو آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوتا وہ بہت جلد اوجِ طریقت پر پہنچ کر مرتبۂ حضوری حاصل کرلیتا۔ ۹۹۷ھ میں وفات پائی۔ گشت روشن چوں بخلد جاوداں سالِ وصلش از خرد شد جلوہ گر   سیّد و سردار سرور شاہ نور ‘‘ہادئِ احسن منور شاہ نور’’ ۹۹۷ھ مزار سیّد محمود حضور کے گنبد کے اندر ہے۔۔۔۔

مزید

حضرت سیّد موسیٰ پاک شہید

سیّد حامد بخش گیلانی اوچی﷫ کے فرزند رشید ہیں۔ علومِ ظاہری و باطنی کی تعلیم و تربیت اپنے والد گرامی کے زیر سایہ پائی تھی۔ پدر بزرگوار سے سلوک و معرفت میں مقاماتِ بلند اور مدارجِ ارجمند  حاصل کرکے جمال الدین ابوالحسن﷜ کا خطاب پایا تھا۔ عبادت و ریاضت اور ارشاد و ہدایت میں یگانۂ روزگار تھے۔ حضرت غوث الاعظم﷜ کے اویسی تھے۔  نیز حالتِ بیداری میں حضور اقدس ﷺکے جمال جہاں آراء سے بھی مشرف ہوئے تھے اور بطریقِ کشفِ قبور حضرت شیخ سیّد عبدالقادر ثانی گیلانی ا وچی﷫ سے اخذِ فیض کیا اور بیعت سے سرفراز ہوئے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث  دہلوی﷫ صاحبِ اخبار الاخیار آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل تھے۔ کتاب کے آخر میں اپنی بیعت کے حالات مفصل و مشرح درج کیے ہیں۔ آپ کی تمام عمر رشد و ہدایت اور تعلیم و تلقین میں گزری۔ ۱۰۰۱ھ میں قوم لنگاہ کی ایک خانہ جنگی میں اتفاقاً گولی لگنے سے شہید ہوئے۔ مزار ملتان میں زیارت۔۔۔

مزید

حضرت سیّد صوفی گیلانی

باپ کا نام سیّد بدرالدین بن سیّد اسماعیل ہے۔ کمالاتِ ظاہری و باطنی سے آراستہ اور صاحبِ شریعت وطریقت بزرگ تھے۔ تمام عمر لاہور میں ہدایتِ خلق میں مصروف رہے۔ ۱۰۰۲ھ میں وفات پائی۔ شہ خلد صوفیِ صافی ضمیر شود سالِ ترحیلِ او جلوہ گر   شریفے ز اولادِ پاکِ علی ز مخدوم صوفی سیّد ولی ۱۰۰۲ھ ۔۔۔

مزید

حضرت شیخ حسین قادری چشتی

حضرت شیخ عبدالوہاب متقی قادری شاذلی کے بلند مرتبہ مرید تھے۔ صاحب اخبار الاخیار لکھتے ہیں: عجیب و غریب حالت و ہمت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ کشتی میں دریائے  نربدا سے گزر رہے تھے سنا کہ دریا کے ایک کنارے جنگل میں شیر رہتا ہے، کوئی شخص خوف کے مارے اُس طرف سے نہیں گزرتا۔ چنانچہ آپ کشتی سے اس کنارے پر اترے۔ ایک چھری لی اور جنگل میں جاکر اُس شیر کو ہلاک کردیا۔ نقل ہے: ایک شخص بلند جگہ پر جس کے نیچے پانی تھا نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوا۔ وسواس کی وجہ سے نیتِ نماز کے الفاظ بار بار دُہراتا تھا۔ حاضرینِ مجلس پر یہ تکرار نہایت گراں گزری۔ آپ نے اٹھ کر غصّے سے اس کے سینے پر ہاتھ مارا وہ پانی میں گر پڑا جو اس بلندی کے نیچے بہ رہا تھا۔ اس کے بعد اس کے دل میں کوئی وسواس پیدا نہ ہوا۔ بقول صاحبِ شجرہ چشتیہ ۱۰۱۳ھ میں بعہدِ اکبر وفات پائی۔ قطعۂ تاریخِ وفات: حسین آں محسن و احسن حسن پیر!! چو از دنیا بفردوسِ بر۔۔۔

مزید