منقبت  

امام اہل سنن وہ امام اہل ہدیٰ

مجدد اعظم امام اہل سنن

از: عندلیب اہل سنت حضرت مولانا مفتی محمد رجب علی صاحب مفتی نانپارہ مدظلہ العالی

امام اہل سنن وہ امام اہل ہدیٰ
فقیہ ایسا کہ واللہ مرجع الفقہا
وہ آفتاب سپہر علوم دین حسن
وہ ماہتاب معارف و نجم رشد و تقی
وہ جس کے ناخن ادراک کا اشارہ اک
برائے خلق بفضل الہ عقدہ کشا
فہیم ایسا کہ فہم جہاں ہو جس پر نثار
عقیل وہ کہ ہیں جس کے گدا سبھی عقلا
جلال علم عیاں جس کے روئے زیبا سے
جمال عشق کی زلفوں پہ جسکے چھائی گھٹا
نعیم و امجد برہان حق ہیں جس پہ نثار
ضیاء عبد عزیز و سلام جس پر فدا
وہ جس کے آئینۂ رخ میں حجتہ الاسلام
ہوئے جو حامد و محمود مجلس علما
ہیں جس کے مظہر انوار مفتئ اعظم
کہ جن کے دم سے منور ہے محفل نقبا
بسا ہے کون تخیل میں دل بتا تو سہی
وہ کون ہے کہ یہ جس کے لیے ہے قصد ثناء
تری مجال زبان ثنا! کہ واہو کر
کرے تو مدحت الطاف بارگاہ رضا
وہ ہیں مجدد دوراں ضیاء دین مبیں
جنید عصر ہیں وہ شبلی زماں بخدا
برائے تزکیۂ نفس ان کے در پہ جو آئے
خدا کے فضل سے پاجائے بے مثال
ہے اُن کی خاک در فیض کیمیائے غریب
ہے نام اُن کا عجب حرز بہر دفع کا
قضا اگر ہو معلق تو کیا عجب اے دل
بفیض خاص لپٹ جائے روئے تیر قضا
ہے آزمودہ کہ اعداء میں پڑگئی ہلچل
غلام در کی زباں پر جو آیا نام رضاؔ
بقصد دفع بلیات ان کا نام کریم
عمل انوکھا ہے اہل سنن کا لکھا پڑھا
کرم ہے مجھ پہ مدیر تجلیات کا یہ
لکھا جو مجھ کو کروں عرض مدح شان رضا
کہاں میں ذرۂ ناچیز اور کہاں وہ جناب
زمین عجز کہاں اور کہاں وہ عرش ہدیٰ
وہ بادشاہ سخاوت ہیں اُن کے در پہ مرا
عریضہ ایسا ہے جیسے فقیر کی ہو صدا
قبول ہے کہ نہیں اس کی فکر لاحاصل
نگاہ فیض کا محتاج ہوں میں ان کی سدا
غلام حضرت عبد العزیز ہادئ دیں
رجب منہم ز دعائے زبان پاک رضا
فیض مرشد برحق چناں شدہ کہ شدم
گدائے مفتی اعظم فقیہ اہل ہدیٰ

...

اے شہنشاہ رسالتﷺ آپ پر لاکھوں سلام

سلام منقبت

درشان مجدد اعظم امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ

از: جناب محمد سخی اللہ خانصاحب قادری رضوی نوری

اے شہنشاہ رسالتﷺ آپ پر لاکھوں سلام
خاتم دور نبوت آپ پر لاکھوں سلام
جاں نثاران نبوت آپ پر لاکھوں سلام
اے نبیﷺ کے آل عترت آپ پر لاکھوں سلام
صدقہ اس پیارے نبیﷺ کی رحمت بے پایاں کا
اے نبیﷺ کی پیاری امت آپ پر لاکھوں سلام
اے امام اہل سنت آپ پر لاکھوں سلام
بلبل باغ رسالت آپ پر لاکھوں سلام
دین احمد کے مجدد اے ہدایت کے چراغ
ماحئ کفر و ضلالت آپ پر لاکھوں سلام
عاشق صادق ہیں کسکے احمد مختارﷺ کے
مستحق سر وحدت آپ پر لاکھوں سلام
ظل محبوب خداﷺ، سایہ غوث الوریٰ﷜
بوحنیفہ﷜ کی نیابت آپ پر لاکھوں سلام
قطب رب ذوالمنن نوری صدر انجمن
اہل سنت کی سیادت آپ پر لاکھوں سلام
اہل سنت کے جگر آقائے نعمت کے پدر
دین احمد کی حمایت آپ پر لاکھوں سلام
درس تسلیم و رضا کا آپ کے در سے ملا
پیکر نور طریقت آپ پر لاکھوں سلام
انبیاء اولیاء کے سچے پیرو آپ ہیں
جامع شرع و طریقت آپ پر لاکھوں سلام
صدق میں ثابت قدم کوہ گراں کی مثل آپ
کیسی پختہ تھی ارادت آپ پر لاکھوں سلام
شاہ تقریر و قلم اے حافظ دین متیں
وارث شاۂ رسالت آپ پر لاکھوں سلام
مردہ سنت فضل رب العالمین سے زندہ کی
اے محی دین و ملت آپ پر لاکھوں سلام
زندگی اپنی رضائے مصطفیٰﷺ میں کی تمام
کیسی سچی تھی ولایت آپ پر لاکھوں سلام
تھے اشداء علیٰ الکفار کی تفسیر آپ
معنی رحمت بہ ملت آپ پر لاکھوں سلام
اہل باطل کو پکارا دین حق کی راہ پر
پیکر رشد و ہدایت آپ پر لاکھوں سلام
پھوڑ ڈالی چشم باطل توڑ دی اس کی کمر
مرحبا یا اعلیٰ حضرت﷫ آپ پر لاکھوں سلام
اعلیٰ حضرت﷫ کے گھرانے پر رہے ابر کرم
خاندان اعلیٰ حضرت﷫ آپ پر لاکھوں سلام
یا الہٰی مفتئ اعظم کو عطا کر عمر نوح
جانشین اعلیٰ حضرت﷫ آپ پر لاکھوں سلام
آستانِ عالیہ پر پیش کرتا ہے سخی
غنچۂ حسن عقیدت آپ پر لاکھوں سلام
خانقاہ اعلیٰ حضرت﷫ پر سخی یوں عرض کر
دو عطاء سر وحدت آپ پر لاکھوں سلام

...

حق اندیش اور حق نِگر اعلیٰ حضرت﷫

ہو تعریف کیا مختصر اعلیٰ حضرت﷫

فاروق اختؔر چشتی مالیگ (بی۔ایس۔سی، بی۔ایڈ) ۷۲۶۔ہزار کھولی، مالیگاؤں

حق اندیش اور حق نِگر اعلیٰ حضرت﷫
ہیں باطل سے حق کی سِپر اعلیٰ حضرت﷫
ہیں اِس دور کے آپ ہی بو حنیفہ﷜
زمانہ ہے تقلید پر اعلیٰ حضرت﷫
بنا مسلکِ حق کی پہچان جب سے
بریلی ہوا نام ور اعلیٰ حضرت﷫
ضخامت فتاویٰ کی ہے یا کرامت
ہر اک لفظ محتاط تر اعلیٰ حضرت﷫
ریاضی ہو، سائنس ہو، فلسفہ ہو
نظر کی، ہوئے سہل تر اعلیٰ حضرت﷫
ہیں اسلاف کے آپ ہی خلفِ لائق
چلے اُن کی ہی راہ پر اعلیٰ حضرت﷫
تراجم ہیں قرآن کے یوں تو کتنے
مگر ترجماں سربسر اعلیٰ حضرت﷫
اک عنوان سو سو حوالے سے ثابت
دباتے ہیں منکر کا سَر اعلیٰ حضرت﷫
تصانیف بارِ شتر سے زیادہ
ہو تعریف کیا مختصر اعلیٰ حضرت﷫
’’حدائق‘‘ ہیں ’’بخشش‘‘ کے کیسے سجائے
ہر اک شعر مقبول تر اعلیٰ حضرت
صنائع بدائع کی کثرت، مگر ہے
شریعت بھی پیش نظر اعلیٰ حضرت﷫
سخن ور ہیں ایسے کہ حسّانِؔ دوراں
ہیں اقباؔل و غالؔب کدھر اعلیٰ حضرت﷫
سلام آپ نے جانِ رحمتﷺ پہ لکھا
جہاں میں ہے مقبول تر اعلیٰ حضرت﷫
نبیﷺ کی محبت عطا کی نہ ہوتی
تو ہوتی نہ یہ چشم تر اعلیٰ حضرت﷫
یہ اختؔر نرا شاعرِ بے عمل ہے
دعاؤں کا مشتاق تر اعلیٰ حضرت﷫

...

کون ہے نعتِ نبیﷺ میں ہم زباں جبریل کا

وہ امام اہلسنت عبقری اسلام کا

راجہ رشید محمود (لاہور)

کون ہے نعتِ نبیﷺ میں ہم زباں جبریل کا
مدحت آقاﷺ میں ہے محمود کا جو مقتدا
روح و جاں کی کیفیت کو روپ لفظوں کا دیا
کس نے لکھا اپنی تحریروں میں دل کا ماجرا
سر پہ ہے سایہ فگن کس کے ردائے مصطفیٰﷺ
سینۂ مہتاب میں ہے عکس کس کی چاہ کا
غوث اعظم﷜ کی محبت کا سبق کس نے دیا
لامکاں کے میہماں کا کس سے ملتا ہے پتا
کون ہے ، جس کے فتاویٰ ہیں ہمارے رہنما
کس کے ملفوظات و تصنیفات کا چرچا ہوا
دولت عشق پیمبر کس کو حاصل ہوگئی
گنج استغنا سے کون اس درجہ بہرہ ور ہوا
زندگی ہے سینۂ الفت میں کس کے نام سے
ہے رواں سکہ دل مسلم پہ کس کے نام کا
بستئ اوہام کس کی کوششوں سے ڈھے گئی
منزل ایقان و عرفاں کا ملا کس سے پتا
کون ہے ، لکھتا رہا جو خامۂ احساس سے
لوح اخلاص و محبت پر حروفِ خوشنما
زندگی کس کی رہی ہے ہر برائی کی حریف
کون احقاق حق و ابطال باطل کی صدا
ہر فصیل قلعۂ باطل ہوئی دیوار ریگ
کام یہ کس صاحب عظمت کی ٹھوکر سے ہوا
الفت سرکار کے کس نے کھلائے ہیں گلاب
کس نے بخشش کے حدائق کا کیا ہے تذکرہ
کس کا ہر نکتہ ہے اسرار و غوامض کا جہاں
کس کی تحریروں کا ہر فقرہ معافی آشنا
علم کس کا ہے ہمہ گیر اور کس کے خانہ زاد
ہئیت و توقیت ہیں اور صرف و نحو و فلسفہ
وارثِ علم نبوت کون ہے، از بر جسے
ہیں ریاضی، منطق و تاریخ و جغرافیہ
جو صدی گزری، محدد اس کا بے شک و گماں
کون ہے اس بندۂ محبوبِ خالق کے سوا
وہ امام اہل سنت عبقری اسلام کا
سیدی احمد رضا خاں ہے فنا فی المصطفیٰﷺ

...

رضائے احمدﷺ، رضاؔ سے سیکھی، رضائے احمد رضا میّسر

عطائے احمد رضا

فاروق اختؔر چشتی مالیگ

۷۲۶/ ہزار کھولی، مالیگاؤں

رضائے احمدﷺ، رضاؔ سے سیکھی، رضائے احمد رضا میّسر
بریلوی! ناز کر، تجھے ہے ولائے احمد رضا میّسر
ہے رنگِ تحریر منفرد، پُر دلیل، پُر مغز، مُر معانی
قلم تھا انیسویں صدی میں برائے احمد رضا میّسر
’’حدائق بخشش‘‘اپنا نغمہ، ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ ہے جادہ
ہے ’’کنزِ ایمان‘‘ بیش قیمت عطائے احمد رضا میّسر
رہے گا تا حشر کیوں نہ اسلام! تیرا پرچم بلند و بالا
تجھے ملے غوث﷜ اور خواجہ﷫، اب آئے احمد رضا میّسر
بہ صورتِ نورؔی اہلِ سنت کو جانشین ان کا مل چکا ہے
اور آج ہے ازہرؔی میاں کو قبائے احمد رضا میّسر
بہ شکل مفتیِ اعظم ہند،اُن کے جلوے ہیں مَیں نے دیکھے
ہوئی ہے لاریب ایک لمحہ لقائے احمد رضا میّسر
سجایا حسّاؔن اور جامؔی نے خونِ دل سے جسے اے اختؔر
ہوئی ہے اس نعت کے چمن کو صبائے احمد رضا میّسر

...

کس نے روح و قلب میں کنزِ ایماں بھر دیا

گلشنِ عشقِ نبیﷺ کا عندلیبِ خوشنوا

محمد حسین مشاہؔد رضوی

کس نے روح و قلب میں کنزِ ایماں بھر دیا
روح قرآں سے کیا کس نے جہاں کو آشنا
کس نے اعدائے شہِ کونینﷺ سے روکا ہمیں
کس نے عشقِ مصطفیٰﷺ کو عام دنیا میں کیا
کس نے علم و فضل کے روشن کئے صدہا چراغ
ورثۂ پیغمبری کا حق ادا کس نے کیا
کس نے روح و قلب میں طرزِ الفت بار سے
مصطفیٰﷺ پیارے کے ارشادات کو پہنچا دیا
کس نے لاینحل مسائل ریاضی کے یوں حل کئے
کر اُٹھے عش عش مہارت دیکھ کر کے سر ضیا
کون تھا جس نے مٹایا بدعتوں کو دہر سے
کون تھا جس نے ہمیں پابندِ سُنّت کردیا
کون تھا جامع علوم و ماہرِ جملہ فنون
دینیات و سائنس کا اور ہیئت و فلسفا
کون تھا جس نے بتائیں تدابیر فلاح و نجات
کون معاشی استحکام کا درس ہم کو دے گیا
سرزمین عرب پہ جاری کس کا ذکرِ خیر ہے
کون ساری دنیا میں اب مرجعِ تحقیق ہوا
اے مشاہؔد کر رہا ہے کس کا یوں ذکرِ جمیل
کون تِری فکر و نظر کا آج مرکز ہے بنا
وہ مفکر، وہ محدث، وہ مفسّر با صَفا
وہ محقق، وہ مصنّف، وہ سراپا اِتّقا
وہ مدبّر، وہ معلّم، وہ ہمارا رہنما
گلشنِ عشقِ نبیﷺ کا عندلیبِ خوش نوا
وہ امامِ عشق و اُلفت، وہ فنا فی المصطفیٰﷺ
وہ مجدّد دین کا، وہ سیّدی احمد رضا
﷫﷫﷫﷫﷫﷫﷫﷫﷫

...

نور احمد کی ضیا ہے مسلکِ احمد رضا

یاالہٰی مسلک احمد رضا خاں زندہ باد

از: سید آلِ رسول حسنین میاں نظمی مارہروی

نور احمد کی ضیا ہے مسلکِ احمد رضا
شمعِ دینِ مصطفیٰﷺ ہے مسلکِ احمد رضا
لوگ کہتے ہیں کہ کیا ہے مسلکِ احمد رضا
مسلکِ احمد رضا ہے، مسلکِ احمد رضا
مذہبِ حنفی ہو یا ہو مشربِ غوث﷜ و علی﷜
ہم تلک پہنچا رہا ہے مسلکِ احمد رضا
رب کو مانو اور حبیبِ ربﷺ سے تم اُلفت کرو
ہاں یہی تو کہہ رہا ہے مسلکِ احمد رضا
اک مثلث تھے رضا علم و عمل اور عشق کے
زاویہ در زاویہ ہے مسلکِ احمد رضا
یہ سکھاتا ہے شریعت اور طریقت کے اُصول
دین و ایماں کی جِلا ہے مسلکِ احمد رضا
فی زمانہ سُنّیت کی بس یہی پہچان ہے
سکّہ رائج وقت کا ہے مسلکِ احمد رضا
پوری سُنّی دنیا میں سچّے عقیدے کے لیے
ابتدا اور انتہا ہے مسلکِ احمد رضا
اعلیٰ حضرت﷫ کا یہ احساں ہم مسلمانوں پہ ہے
عشقِ احمدﷺ دے رہا ہے، مسلکِ احمد رضا
نام کے سیّد جو جلتے ہیں رضا کے نام سے
اُن کے دل میں چبھ رہا ہے مسلکِ احمد رضا
سامنا ہوتا ہے جب بھی دشمنانِ دین سے
ڈھال بن کر آگیا ہے مسلکِ احمد رضا
مرشدِ مارہرہ نے نسبت رضا کو ایسی دی
شرحِ دینِ حق بنا ہے مسلکِ احمد رضا
خاندانِ برکت اللّٰہی کا یہ فیضان ہے
نور سر تا پا بنا ہے مسلکِ احمد رضا
نظمی تم کو کیوں نہ برکاتی رضا پر ناز ہو
تم نے گھُٹّی میں پیا ہے مسلکِ احمد رضا
ممبئ، ۲۵ جنوری ۲۰۰۸ء

﷫﷫﷫﷫﷫﷫﷫﷫﷫

...

چاہت، محبت اور عقیدت رضا کی ہے

اِس دور اِس صدی کو بھی حاجت رضا کی ہے

فاروق اختؔر چشتی مالیگانوی

چاہت، محبت اور عقیدت رضا کی ہے
شہرت، قبولِ عام، فضیلت رضا کی ہے
عصری علوم، فقہ و تصوف، سُخن وری
ہر شعبہ میں عظیم مہارت رضا کی ہے
مفتی نعیمِؔ دین، بہاریؔ سے ذی وقار
تاریخِ علم و فضل، رفاقت رضا کی ہے
تزئینِ نظم و نثر کوئی سیکھے آپ سے
کیا ہی فصاحت اور بلاغت رضا کی ہے
ہے رشکِ فارسی، عربی، نعت و منقبت
اُردو ادب پہ ایک عنایت رضا کی ہے
گھر کے زمین دار، سِپہ گر تھا خاندان
سرمایۂ کتب ہے جو ثروت رضا کی ہے
لائے کوئی ’’حدائق بخشش‘‘ کا کیا جواب
ہر شعر، ہر کلام میں ندرت رضا کی ہے
’’ایمان کا خزانہ‘‘ ہمیں دے گئے ہیں آپ
ہے کنزِ آخرت جو عقیدت رضا کی ہے
’’الامن والعلیٰ‘‘ میں مِلا سُنیوں کو امن
تصنیف، پاس بانِ شریعت رضا کی ہے
تصنیف ہے جو ’’ترکِ موالات‘‘ آپ کی
شانِ صواب دیدِ سیاست، رضا کی ہے
ہے معترفِ تمام ’’فتاویٰ‘‘ کے خوشہ چیں
بے مثل و باکمال فقاہت رضا کی ہے
شاگردِ داغؔ بن کے تو چمکے حسن رضا
اندازِ نعت گوئی میں نسبت رضا کی ہے
تحقیق جامعات میں جاری ہے، رات دن
اعلیٰ ترین علم میں قامت رضا کی ہے
دین حنیف میں ہیں ’’امامت کے چار باغ‘‘
بے داغ، بے خزاں حنفیّت رضا کی ہے
شاہد ہیں سب اکابرِ مارہرہ آپ کے
رشکِ اکابرین ولایت رضا کی ہے
’’کلکِ رضا ہے خنجرِ خوں خوار برق بار‘‘
باطل سے کوئی پوچھے جو ہیبت رضا کی ہے
گستاخ سر پٹکتے رہے، کیا جواب دیں؟
عشق رسولﷺ آخری حجت رضا کی ہے
زیرِ لوائے حمد یہی ہوگی حشر میں
سُنی بریلوی جمعیت رضا کی ہے
ہم سُنیوں کو کاش ہو ادراک آج بھی
کیا کیا تقاضا کرتی محبت رضا کی ہے
مفلس، غریب، نانِ جویں کو ترستے تھے
نعمت کھلانے والی، وصیت رضا کی ہے
ہیں چودھویں صدی کے مجدد بلا شبہہ
اس دور، اس صدی کو بھی حاجت رضا کی ہے
اشعار تاب دار رقم ہوں گے خود بخود
اختؔر! رضا کے ذکر میں شوکت رضا کی ہے

...

چہرۂ زیبا ترا احمد رضا

منقبت

ظلِ علم مرتضیٰ احمد رضا

حضرت احسن العلما سید شاہ مصطفیٰ حیدر حسن میاں مارہروی قدس سرہٗ

چہرۂ زیبا ترا احمد رضا
آئینہ ہے حق نما احمد رضا
غوثِ اعظم﷜ مظہرِ شاہِ رسلﷺ
ان کا تو مظہر ہوا احمد رضا
علم تیرا بحرِ نا پیدا کنار
ظلِ علم مرتضیٰ احمد رضا
تیرے مرشد حضرت آلِ رسول
ان کو تجھ پہ ناز تھا احمد رضا
اپنے برکاتی گھرانے کا چراغ
تجھ کو نوری نے کہا احمد رضا
سُنیوں پر یہ ترا احسان ہے
اپنے دامن میں لیا احمد رضا
سُنیت کی آبرو دم سے ترے
اب بھی قائم ہے شہا احمد رضا
جب بھی کوئی مرحلہ آ کر پڑا
تُو نے عُقدہ حل کیا احمد رضا
نام لیوا دید کے مشتاق ہیں
کھول دے چہرہ ذرا احمد رضا
مفتی اعظم ہوئے واصل بہ حق
ان سے راضی ہو خدا احمد رضا
تیرے اُلفت میرے مرشد نے مجھے
دی ہے گھٹی میں پلا احمد رضا
یاد کرتا ہے تجھے تیرا حسنؔ
اس کے حق میں کر دُعا احمد رضا
﷫﷫﷫﷫﷫﷫﷫﷫﷫

...

صاحبِ عظمت (صاحب عزّت، صاحبِ نسبت) اعلیٰ حضرت﷫

منقبت اعلیٰ حضرت﷫

از: ڈاکٹر صابر سنبھلی

(نوٹ: اس منقبت کو چار طریقوں سے پڑھنا چاہیے: (۱) پورے پورے مصرعے پڑھنے چاہییں۔ (۲) بریکٹ سے پہلے کا جز بریکٹ کے اندر مندرج عبارت کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔ (۳) بریکٹ میں مندرج عبارت کو اُس کے بعد والی عبارت کے ساتھ ملا کر پڑھنا چاہیے۔ (۴) صرف وہ الفاظ پڑھنے چاہییں جو بریکٹوں کے اندر مرقوم ہیں۔)

 

صاحبِ عظمت (صاحب عزّت، صاحبِ نسبت) اعلیٰ حضرت﷫
پیارے حضرت (میرے حضرت، سب کے حضرت) اعلیٰ حضرت﷫
مفتیِ عالم! (بحرِ فضیلت! فخرِ کرامت!) اعلیٰ حضرت!﷫
بیکس ہوں میں (بہرِ خدا ہو مجھ پہ عنایت) اعلیٰ حضرت!﷫
ہر ہر لمحہ (یادِ خدا یا، دین کی خدمت) اعلیٰ حضرت!﷫
جو بھی قدم تھا (جو بھی عمل تھا، وہ تھا عبادت) اعلیٰ حضرت!﷫
سچ کہتا ہوں (مجھ جیسے سے، ناممکن ہے) ناممکن ہے
حیراں ہوں میں (کیسے بیاں ہو، آپ کی عظمت) اعلیٰ حضرت!﷫
علم کے آگے (سارے مخالف، گُم صُم گُم صُم) سے رہتے تھے
کوئی کہیں تھا (سب پہ طاری، آپ کی ہیبت) اعلیٰ حضرت!﷫
حق کی طرف سے (دینِ خدا کے آپ مجدّد) ہوکر آئے
آپ تھے بےشک (شرک کے قاتل، قاطعِ بدعت) اعلیٰ حضرت!﷫
میری دعا ہے (میرے آقا، سایہ فگن ہو) شامِ ابد تک
آپ کی پیاری (قبر کے اوپر، ربّ کی رحمت) اعلیٰ حضرت!﷫
منگتا ہے یہ (صابؔر کو بھی، کاش بھی عطا) کاش عطا ہو
نام پہ رب کے (میرے آقا، علم کی دولت) اعلیٰ حضرت!﷫

...