منقبت  

امامِ اہلِ سنّت، افتخارِ اہلِ عرفاں ہیں

حضور سیّدی و مرشدی‘ آقائے نعمت‘ مرجع الانام‘ حضور حجتہ الاسلام‘ مولانا علّامہ مفتی الحاج شاہ محّمد حامد رضا خاں﷫ (فرزندِ اکبر اعلحٰضرت فاضلِ بریلوی قدس سرہ)

امامِ اہلِ سنّت، افتخارِ اہلِ عرفاں ہیں
خدا شاہد ہے عبد المصطفیٰ حامد رضا خاں ہیں
عجب علمی جلالت آپ کو اللہ نے دی ہے
فقیہِ دین و ملّت، نائبِ شاہِ رسولاں ہیں
ہیں دورِ حاضرہ میں آپ امام اعظم ثانی
تصدّق آپ پر اہلِ شریعت ‘ اہلِ ایماں ہیں
ولائے صاحبِ لولاک کی تبلیغ فرمائی
فنا فی العِشق ہیں، شیدائی محبوبِ رحمٰں ہیں
قلم تھا آپ کا گویا زبانِ خامۂ قدرت
مسلمانانِ عالم آپ کے، دل سے ثناخواں ہیں
حضورِ خواجۂ اجمیر﷫ کی ہے آپ پر شفقت
معاون آپ کے خود غوثِ اعظم شاہ جیلاں﷜ ہیں
برائے اہلسنّت زندگی کو وقف فرمایا
ہزاروں آپ کے خدّامِ دینِ حق پہ احساں ہیں
تِری صورت ہے آئینہ جمالِ قادریّت کا
تِرے جلوے میں انوارِ جمالِ شاہِ جیلاں﷜ ہیں
ہمارا مسلک و مذہب ولائے سرورِ دیںﷺ ہے
بحمداللہ ہم اختؔر پیرِ حامد رضا خاں ہیں

...

اِک بزرگِ پاک کی ہے منقبت کا اہتمام

منقبتِ محدّثِ اعظم پاکستان مولانا سردار احمد﷫ بانی مظہرِ اسلام بریلی  و  لائل پور

اِک بزرگِ پاک کی ہے منقبت کا اہتمام
نِکھرا نِکھرا سا ہے اختؔر اور بھی حسنِ کلام
جُھک گیا اَوجِ تخیّل با ادب با احترام
عاشقِ نامِ نبیﷺ کا آگیا ہونٹوں پہ نام
اے امیرِ اہلِ سنّت، اے شریعت کے امام
السّلام اے سیّدی سردار احمد السّلام
اے فقیہِ اعظم و شیخ الحدیثِ بے مثال
واعظِ شیریں مقال و مفتئ عالی مقام
اے مکمل معنئ نورانئ اُمّ الکتاب
اے مُجَسَّم اِتِّباعِ سنّتِ خیر الانام
مرتبہ تیرا بھلا تحریر میں کیا آسکے
عجز سے ہے سر بسجدہ اسپِ عقّلِ تیز گام
سرحدِ تخیل سے ہے اس طرف منزل تِری
ہر حد ادراکِ شاعر سے تِرا اونچا مقام
ہے تِری اِک اِک ادا آئینۂ حُبِّ رسولﷺ
ہے ترا ہر ہر نفس دیوانۂ شاہِ انام
سر سے پا تک مظہرِ شان شہِ احمد رضا﷫
مرشدی حامد رضا کا یعنی آئینۂ تمام
آفتابِ نورِ فیض مفتئ اعظم ہے تُو
کیسے پاک و ہند میں روشن نہ ہوتا تیرا نام
آج پَھیلی ہیں تِری کرنیں زمینِ ہند تک
ہے بظاہر سرزمینِ پاک پر تیرا قیام
سومناتِ نجد توڑا تو نے لائل پُور میں
اللہ اللہ تیری ضربِ الَصَّلوٰۃُ وَالسَّلام
پنجۂ باطل مروڑا تو نے ہر شیطان کا
بدزباں، بیباک، گستاخوں کے منہ میں دی لگام
تو ہے سُنّی کے لئے پیمانۂ آبِ حیات
اور نجدی کے لئے سر تا پا تیغِ بے نیام
آج لائل پور گویا مظہرِ اسلام ہے
یا بالفاظِ دگر ہے مرکزِ ہر خاص و عام
خاص عشقِ مصطفیٰﷺ کی بھیک مِلتی ہے یہاں
فیض جاری ہے شہِ احمد رضا﷫ کا صبح و شام
اے شہیدِ عشق، اے جاں دادۂ نام حبیب
تو نے راہِ حق میں مِٹ کر حق کو دی عمرِ دوام
زندہ باد اے سیّدی سردار احمد زندہ باد
اے مجسّم حق، مجسّم سُنّیت پائندہ باد

...

اے شگفتہ شگفتہ گُلِ پنجتن، مولوی شاہ مفتی ریاض الحسن

یہ چند اشعار برادرِ معظم حضرت مفتی شاہ محمد ریاض الحسن رضوی حامدی قادری جیلانی  جودھپوری کے اچانک سانحۂ ارتحال پر قلم برداشتہ تحریر ہوگئے

اے شگفتہ شگفتہ گُلِ پنجتن، مولوی شاہ مفتی ریاض الحسن
اے نسیمِ ریاضِ حسین و حسن، مولوی شاہ مفتی ریاض الحسن
عالمِ نکتہ رس، ماہرِ علم و فن، مولوی شاہ مفتی ریاض الحسن
تجھ سا لائیں کہاں سے اب اہلِ وطم، مولوی شاہ مفتی ریاض الحسن
 مسندِ اقتدارِ شریعت پہ تو، رفعتِ آسمانِ فضیلت پہ تُو
گو کہ خاکِ لحد پر ہے تیرا بدن، مولوی شاہ مفتی ریاض الحسن
رخصتی آپ کی الاماں الاماں، ہر براتی کی آنکھوں میں سیلِ رواں
جیسے میکے سے سُسرال جائے دلہن، مولوی شاہ مفتی ریاض الحسن
یہ محمد[1]؎ علی ہیں، یہ مفتی[2]؎ خلیل، سب کے سب زینتِ بزمِ میلاد ہیں
آج تم کیوں نہیں رونقِ انجمن، مولوی شاہ مفتی ریاض الحسن
نغمۂ جانفزا نَمْ کَنَوْمِ الْعُرُوْس، سُن کے آسودہ ہیں آپ تو چین سے
اور ہم ہیں یہاں وقفِ رنج و محن، مولوی شاہ مفتی ریاض الحسن
مسندِ اَوج تم نے کہاں پائی ہے؟ کس مبارک[3]؎ مہینے میں موت آئی ہے
دُھل کے زمزم[4]؎ سے آیا تمہارا کفن، مولوی شاہ مفتی ریاض الحسن
آشنا ہم ہیں تیری تفاسیر سے، دِل مُنورّ ہیں تیری تقاریر سے
تیری آواز کانوں میں ہے نغمہ زن، مولوی شاہ مفتی ریاض الحسن
دامنِ اختؔرِ بے نوا بھر دیا، آپ نے کامِل علم دفن کر دیا
آپ پر دائما رحمتِ ذوالمنن، مولوی شاہ مفتی ریاض الحسن

 

 حضرت مولانا محمد علی رضوی، ممبر قومی اسمبلی ۱۲[1]

 حضرت مفتی محمد خلیل خاں صاحب مدظلہ، دار العلوم احسن البرکات ۱۲[2]

[3] برادرِ گرامی ﷫ کا وصال ۲۷ رمضان المبارک کا روزہ افطار فرمانے کے بعد اٹھارہویں تراویح پڑھ کر ہوا ۱۲

[4]کئ جگہ سے کفن آئے جو زمزم شریف سے دُھلے ہوئے تھے مگر الحاج مولانا سید محمد علی صاحب رضوی(ممبر قومی اسلمبلی) کے مدینہ طیبہ سے لائے ہوئے اور آبِ زمزم سے ڈوبے ہوئے کفن سے ملبوس کر کے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا گیا ۱۲ اخترالحامدی

...

علم کا فضل کا تھا وہ کوہ گراں آبروئے سنن مفتئ جاورہ

علم کا فضل کا تھا وہ کوہ گراں آبروئے سنن مفتئ جاورہ
اہلسنت کا تھا ایک روح رواں آبروئے سنن مفتئ جاورہ

صحبت شیر سنت میں ہوکر مگن ترک تونے کیا بیچنے میں وطن
قابل دید تھیں تیری سر گرمیاں آبروئے سنن مفتئ جاورہ

لمحہ لمحہ تیری زندگی دیکھ لی بس نظر آئی تبلیغِ عشق نبی
خود بھی مٹ کر اسی پر ہوئے جاوداں آبروئے سنن مفتئ جاورہ

حاسدوں سے کہو کہ حسد چھوڑ دیں ورنہ آرام کی وہ طلب چھوڑ دیں
تجھ سے ہو کرخفا بس کرینگے فغاں آبروئے سنن مفتئ جاورہ

میرے نانا بھی ہیں میرے رہبر بھی ہیں اور علم و حکم کے سمندر بھی ہیں
آہ ایسا ملیگا کہاں پاسباں آبروئے سنن مفتئ جاورہ

داغ عشق نبی پر وہ پہرہ دیا کفر پر شرک پر بن کے بجلی گرا
دشمن دین پرکوہ آتش فشاں آبروئے سنن مفتئ جاورہ

مسند علم پر تو غزالی رہا ممبروں پر دیکھا مثل شیرِرضا
خود میں تو تھا مکمل ہی اک کارواں آبروئے سنن مفتئ جاورہ

اعلیٰ حضرت کے فتوے پہ عامل رہاہوگی بیرون مسجد اذن ہی ادا
حفظِ سنت میں بھی تیری قربانیاں آبروئے سنن مفتئ جاورہ

یہ جو پٹیالہ لندن ہے اور جاورہ تیرے جلؤں سے شاداب سیرا ہوا
ایک بادل تھا برسا کہاں اور کہاں آبروئے سنن مفتئ جاورہ

تیری فاراں آواز دل نے کہا خوب مدحت کری مرحبا مرحبا
ہاں مگر فکرِ من تیرا رتبہ کہاں آبروئے سنن مفتئ جاورہ

...

اللہ کی رحمت کی ردا غوث پیا ہو

اللہ کی رحمت کی ردا غوث پیا ہو
تم گلشنِ نبوی کی عطا غوث پیا ہو

مغموم ہے دل اپنا لئےکس کی طرف جائیں
مغموم دلوں کی تو دوا غوث پیا ہو

ہاں بحرِ الم میں ہوا ہے غرق سفینہ
ڈوبی ہوئی کشتی کی بقا غوث پیا ہو

مردے کو جلایا تو شہا دل کو ہمارے
طالب ہوں وہی حکمِ جلا غوث پیا ہو

یوں وقتِ زیارت میں پکاروں یہ برابر
تم غوث پیا غوث پیا غوث پیا ہو

ہنگامئہ رخصت جو زیارت ہو تمہاری
آغوش میں ہی روح جدا غوث پیا ہو

لاتا ہوں شفیع اپنا رضا کو تیرے آگے
بخشش کے حدائق میں جگہ غوث پیا ہو

قدموں کو رکھا جس پہ ولایت رہی قائم
خاکِ قدمِ ناز عطا غوث پیا ہو

جب داد کے باغوں کی ہی مرہون ہے نعمت
پھر کون شہا تیرے سوا غوث پیا ہو

افگن ہے مشاہد کا کرم تجھ پہ اے فاراں
دائم میرے مرشد کی رضا غوث پیا ہو

...

دیارِ ہند میں اپنا رہا ہے کارواں برسوں

دیارِ ہند میں اپنا رہا ہے کارواں برسوں
کیا ہے اولیاء نے یہ اُجاگر باغباں برسوں

کبھی یاں آئے تھے غازی مٹانے کفر کی ظلمت
کٹے ہیں راہِ حق میں بھی یہاں پر نوجواں برسوں

شمال و مشرق و مغرب جنوبِ ہند سے لیکر
رہے ہیں اے مسلمانوں ہمارے حکمراں برسوں

وہ سنجر سے چلا تھا باغِ حق کی آبیاری کو
معینِ دین و ملت سے رہے گا شادماں برسوں

امام احمد رضا وہ آفتابِ عشق و اُلفت ہے
عداوت جل گئی ، ہوگی محبت ضوفشاں برسوں

وہ بیشِ سُنّیت کا شیرِ دل شیر ببر ہی تھا
وہابیت رہے گی نام ہی سے حرزجاں برسوں

ارے فاراں مُشاہد سا محافظ اب کہاں پاؤ
چلو پائیں وہاں چل کر فیوض آستاں برسوں

...

اُن کےدرکے سگ سے نسبت ہو گئی حاصل مجھے

اُن کےدرکے سگ سے نسبت ہو گئی حاصل مجھے
کیا دبا پائے بھلا پھر قوّتِ باطل مجھے

یہ تمنا ہے کہ کہہ دیں آپ عاشق ہے میرا
غرض کیا دنیا کہے کہتی رہے جاہل مجھے

میرے آقا نے پتا خود ہی بتایا حشر کا
پیاس کی شدت میں ملنا جانبِ ساحل مجھے

دشمنِ احمد پہ شدت کے فوائد کیا کہوں
رحمتِ عالم کی رحمت ہو گئی شامل مجھے

بے بس ان کو کہہ دیا اصحاب کو خاطی لکھا
کیا نہیں تھا رد ضروری یہ بتا غافل مجھے

حیف صد افسوس اس مسئلہ کو ذاتی کہہ دیا
فرضِ اُمت کیا یہی تھا؟ ہاں بتا اے دل مجھے

حفظِ ناموسِ رسالت کا جو مسئلہ ہو کہیں
اے خدا کر دے کرم سے ہر جگہ حائل مجھے

اپنے نانا حضرت طیب کے تیور میں کہو
اے جنونِ عشق لے چل اور اک منزل مجھے

پھر تو فاراں ہے شفاعت کے لئے کافی یہی
حُبٌّ لِلہ بُغْضٌ لِلہ پر رَکِھے عامل مجھے

...

راز وحدت کا جہاں میں راز داں کوئی نہ تھا

امیر کارواں

از: عندیب گلشن رسالت راؔز الہ آبادی

راز وحدت کا جہاں میں راز داں کوئی نہ تھا
فتی احمد رضا خاں زند امتِ ختم رسلﷺ کا پاسباں کوئی نہ تھا
شمع تھی محفل میں روشن کوئی پروانہ نہ تھا
تشنہ لب تھے سیکڑوں ساقئ میخانہ نہ تھا
کفر کے بادل فزائے دہر پر چھائے رہے
راہر و ایمان کی راہوں سے کترائے رہے
چھا گیا تھا زندگی کی رہگزاروں پر جمود
خاک کے ذرے فلک پر چاند تاروں پر جمود
سیکڑوں ابلیس بھی تھے بھیس میں انسان کے
لوٹنے والے تھے لاکھوں دولتِ ایمان کے
ابر میں پوشیدہ تھا علم و یقیں کا آفتاب
دے نہ سکتا تھا کوئی باطل پرستوں کو جواب
شرک تھا جب ناز کرنا احمدِ مختارﷺ پر
نکتہ چیں تھے لوگ علم سید ابرارﷺ پر
ہر دلی ہر غوث کو بے دست و پا سمجھا گیا
یارسول اللہﷺ کہنے پر تھا فتوی شرک کا
کفر پر اِک دن مثیت کو جلال آہی گیا
رب اکبر کو شہہ دیں کا خیال آہی گیا
صورتیں تسکین کی نکلیں دل سیماب سے
اک کرن پھوٹی اچانک چرخ پر مہتاب سے
اس کرن نے راہ ِ ایماں کو منور کر دیا
دشتِ کو گلشن تو کانٹوں کو گل تر کر دیا
اس کرن کو اہل دیں احمد رضا کہنے لگے
کشتی اسلام کا سب ناخدا کہنے لگے
اس کا دل عشقِ محمدﷺ میں ہمیشہ چُور تھا
رند ساقئ مدینہ بے پئے مسرور تھا
اہل سنت والجماعت کا وہ رہبر ہو گیا
اس نے جو کچھ لکھ دیا کاغذ پہ پتھر ہوگیا
راز کے ایمان و حرمت کے نگہباں زندہ باد
زندہ باد اے مہ باد

...

سلام اس پر کہ جس نے خدمت تجدیدِ ملت کی

تحفۂ سلام

برامام اہل سنت مجدد دین و ملت اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب فاضل بریلوی قدس سرہ

از: جناب ڈاکٹر کیفؔی صاحب بکسری شاہ ابادی

سلام اس پر کہ جس نے خدمت تجدیدِ ملت کی
سلام اس پر کہ جس نے خدمتِ تبلیغ سیرت کی
سلام اُس پر کہ جس نے راہ دکھلائی شریعت کی
سلام اُس پر کہ جس نے راہ بتلائی طریقت کی
سلام اُس پر کہ جس نے عزت شانِ نبوتﷺ کی
سلام اُس پر کہ جس نے حرمت جانِ رسالتﷺ کی
سلام اُس پر کہ جس نے رہبری کی اہل سنت کی
سلام اُس پر کہ جس نے شرم رکھ لی دین و ملت کی
سلام اُس پر کہ جس نے رمز قرآنی کو بتلایا
سلام اُس پر کہ جس نے معنی مستور سمجھایا
سلام اُس پر کہ جس نے حل کئے عقدے مسائل کے
سلام اُس پر طریقے جس نے بتلائے دلائل کے
سلام اُس پر کہ جس نے رد کئے باطل عقائد کو
سلام اُس پر کہ کچلا جس نے ان حشود و زوائد کو
سلام اُس ذات پر جو واقف سر حقیقت تھی
سلام اُس ذات پر جو ہادئ راہِ طریقت تھی
سلام اُس ذات پر جو بزم آرائے شریعت تھی
سلام اُس ذات پر جو پاسبان دینِ فطرت تھی
سلام اُس ذات پر جو صاحب عشق نبوت تھی
سلام اُس ذات پر جو شارح حسن و محبت تھی
سلام اُس ذات پر جو چشمۂ جان عقیدت تھی
سلام اُس ذات پر جو صاحب حسنِ بصیرت تھی
سلام اُس پر کہ جس کے روبرو خم یہ زمانہ ہے
اور اس کیفؔی کو بھی جس سے عقیدت والہانہ ہے
﷫﷫﷫﷫﷫﷫﷫﷫﷫﷫﷫

...

امام اہل سنن وہ امام اہل ہدیٰ

مجدد اعظم امام اہل سنن

از: عندلیب اہل سنت حضرت مولانا مفتی محمد رجب علی صاحب مفتی نانپارہ مدظلہ العالی

امام اہل سنن وہ امام اہل ہدیٰ
فقیہ ایسا کہ واللہ مرجع الفقہا
وہ آفتاب سپہر علوم دین حسن
وہ ماہتاب معارف و نجم رشد و تقی
وہ جس کے ناخن ادراک کا اشارہ اک
برائے خلق بفضل الہ عقدہ کشا
فہیم ایسا کہ فہم جہاں ہو جس پر نثار
عقیل وہ کہ ہیں جس کے گدا سبھی عقلا
جلال علم عیاں جس کے روئے زیبا سے
جمال عشق کی زلفوں پہ جسکے چھائی گھٹا
نعیم و امجد برہان حق ہیں جس پہ نثار
ضیاء عبد عزیز و سلام جس پر فدا
وہ جس کے آئینۂ رخ میں حجتہ الاسلام
ہوئے جو حامد و محمود مجلس علما
ہیں جس کے مظہر انوار مفتئ اعظم
کہ جن کے دم سے منور ہے محفل نقبا
بسا ہے کون تخیل میں دل بتا تو سہی
وہ کون ہے کہ یہ جس کے لیے ہے قصد ثناء
تری مجال زبان ثنا! کہ واہو کر
کرے تو مدحت الطاف بارگاہ رضا
وہ ہیں مجدد دوراں ضیاء دین مبیں
جنید عصر ہیں وہ شبلی زماں بخدا
برائے تزکیۂ نفس ان کے در پہ جو آئے
خدا کے فضل سے پاجائے بے مثال
ہے اُن کی خاک در فیض کیمیائے غریب
ہے نام اُن کا عجب حرز بہر دفع کا
قضا اگر ہو معلق تو کیا عجب اے دل
بفیض خاص لپٹ جائے روئے تیر قضا
ہے آزمودہ کہ اعداء میں پڑگئی ہلچل
غلام در کی زباں پر جو آیا نام رضاؔ
بقصد دفع بلیات ان کا نام کریم
عمل انوکھا ہے اہل سنن کا لکھا پڑھا
کرم ہے مجھ پہ مدیر تجلیات کا یہ
لکھا جو مجھ کو کروں عرض مدح شان رضا
کہاں میں ذرۂ ناچیز اور کہاں وہ جناب
زمین عجز کہاں اور کہاں وہ عرش ہدیٰ
وہ بادشاہ سخاوت ہیں اُن کے در پہ مرا
عریضہ ایسا ہے جیسے فقیر کی ہو صدا
قبول ہے کہ نہیں اس کی فکر لاحاصل
نگاہ فیض کا محتاج ہوں میں ان کی سدا
غلام حضرت عبد العزیز ہادئ دیں
رجب منہم ز دعائے زبان پاک رضا
فیض مرشد برحق چناں شدہ کہ شدم
گدائے مفتی اعظم فقیہ اہل ہدیٰ

...