منقبت  

آپ کا عرفاں دوبالا سیدی احمد رضا﷫

منقبت

(سیدی احمد رضا﷫)

آپ کا عرفاں دوبالا سیدی احمد رضا﷫
آپ کا فرمان والا سیدی احمد رضا﷫
آپ نے ہم کو سنبھالا سیدی احمد رضا﷫
آپ کا ہے بول بالا سیدی احمد رضا﷫
ذہن و دل، فکر و نظر، روشن سے روشن ہوگئے
آپ نے کیسا اُجالا سیدی احمد رضا﷫
آپ کے نوری قلم نے وہ سیاہی پھیر دی
دشمنوں کا منہ ہے کالا سیدی احمد رضا﷫
آپ کی علمی جلالت دشمنوں پہ چھا گئی
لگ گیا ہے منہ پہ تالا سیدی احمد رضا﷫
آپ نے عشق نبیﷺ کا وہ پڑھایا ہے سبق
ہوگیا ایماں ہمالا سیدی احمد رضا﷫
ہاں یہی چشم و چراغِ محفلِ برکات ہیں
اسطرح ہے ذات بالا، سیدی احمد رضا﷫
کل جہاں کہنے لگا ہے اعلیٰ حضرت﷫ آپ کو
یوں کیا آقا نے اعْلَا سیدی احمد رضا﷫
قادری ہوں، سہروردی، نقشبندی چشتیہ
ہر زباں پر قولِ بالا، سیدی احمد رضا﷫
ہے یہ فیضِ حضرت مفتی خلیل قادری
مل گیا ہے بابِ والا، سیدی احمد رضا﷫
ان کو حافؔظ کیا کہے جو شکل مرشد بن گئے
خود عیاں ہے شانِ والا سیدی احمدی رضا﷫
(۴ نومبر ۲۰۱۵؁ء/ ۲۱ محرم الحرام ۱۴۳۷؁ھ)

...

کیسے چمکے جگمگائے، اے شجاعت قادری

منقبت

بخدمت حضرت استاذی المکرم علامہ جسٹس مفتی سید شجاعت علی قادری﷫

کیسے چمکے جگمگائے، اے شجاعت قادری
پھول بن کر مسکرائے اے شجاعت قادری
آپ کے تلمیذ جو ہیں ہر طرف پھیلے ہوئے
ان سے عالم مسکرائے اے شجاعت قادری
ہاں گلاب ان میں بنے ہیں موتیا بھی یاسمیں
تم نے جو پودے لگائے اے شجاعت قادری
آپ کے مداح تھے جملہ مشائخ، اہل فن
آپ نے وہ رنگ جمائے اے شجاعت قادری
آپ کا درس قرآں بھی خوب ہی مشہور تھا
جس سے سب نے حصّے پائے اے شجاعت قادری
آپ کے فتوے، کتابیں، ترجمے، جو بھی پڑھے
اس کا سینا جگمگائے اے شجاعت قادری
آپ جب جسٹس رہے اعلیٰ شریعت کورٹ میں
کاش وہ دن لوٹ آئے اے شجاعت قادری
آپ منظورِ، نظر مفتی خلیل و کاظمی
جن سے عالم فیض پائے اے شجاعت قادری
آپ کی تلمیذیت پر فخر ہے حافؔظ کو وہ
سب سے ہی یہ داد پائے اے شجاعت قادری
(منقبت ایک گھنٹے میں پوری ہوئی)

۹ رجب المرجب ۱۴۳۸ھ ۷ اپریل ۲۰۱۷ء

...

جہاں میں عظمت تبلیغ کا مینار ہیں گویا

مبلغ اسلام

علامہ ابراہیم خوشتر صدیقی قادری برکاتی رضوی﷫ کی نذر

جہاں میں عظمت تبلیغ کا مینار ہیں گویا
مزاج اعلحضرت﷫ کا وہ ایک معیار ہیں گویا
ادب کے اور محبت کے قریں ہیں خوشتر رضوی
بہ فیض سید برکت وہ ایک گلزار ہیں گویا
فصاحت میں بلاغت میں خطابت میں بھی اے حافؔظ
مثال خوش کلامی میں وہ ایک معیار ہیں گویا
۱۵ جمادی الاخریٰ ۱۴۳۹ھ/ ۴ مارچ ۲۰۱۸ء

...

ہیں افضل خلق میں بعد از پیمبر

حضرات خلفائے راشیدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بارے میں مصنف مدظلہ کا مسلک

ہیں افضل خلق میں بعد از پیمبر
ابوبکر﷜ و عمر﷜ عثمان﷜ و حیدر﷜
ہیں گلزارِ محمّدﷺ کے گلِ تر
ابوبکر﷜ و عمر﷜ عثمان﷜ و حیدر﷜
عرب کے چاند کے تابندہ اختر
ابوبکر﷜ و عمر﷜ عثمان﷜ و حیدر﷜
ہیں اصحابِ نبیﷺ میں سب سے بر تَر
ابوبکر﷜ و عمر﷜ عثمان﷜ و حیدر﷜
مِری آنکھوں میں میرے دل کے اندر
ابوبکر﷜ و عمر﷜ عثمان﷜ و حیدر﷜
الہی نزع میں ہو میرے لب پر
ابوبکر﷜ و عمر﷜ عثمان﷜ و حیدر﷜
تمہارا جو ہو کب کھائے وہ ٹھوکر
ابوبکر﷜ و عمر﷜ عثمان﷜ و حیدر﷜
درِ محبوبِ حق ہے آپ کا دَر
ابوبکر﷜ و عمر﷜ عثمان﷜ و حیدر﷜
تمہیں سے بِھیک ملتی ہے برابر
ابوبکر﷜ و عمر﷜ عثمان﷜ و حیدر﷜
تمہارا ہو، وہ بد مذہب ہے کیونکر
ابوبکر﷜ و عمر﷜ عثمان﷜ و حیدر﷜
ہو اس پر بھی نگاہِ مہر پَرور
ابوبکر﷜ و عمر﷜ عثمان﷜ و حیدر﷜
تمہارے کوچہ کا ذرّہ ہے اختؔر
ابوبکر﷜ و عمر﷜ عثمان﷜ و حیدر﷜

...

مشعلِ قبلۂ ارشاد ہیں غوث الثقلین

منقبت حضور غوث الثقلین﷜

مشعلِ قبلۂ ارشاد ہیں غوث الثقلین﷜
قبلۂ کعبۂ بغداد ہیں غوث الثقلین﷜
ہمہ تن ہم لبِ فریاد ہیں غوث الثقلین﷜
آپ سے طالبِ امداد ہیں غوث الثقلین﷜
نقطۂ گردشِ پر کارِ یقیں ہے بغداد
مرکزِ عالمِ ایجاد ہیں غوث الثقلین﷜
نخلِ ایماں کی ہیں اصل رسولِ عربیﷺ
قصرِ ایقان کی بنیاد ہیں غوث الثقلین﷜
تم ہو سرتا پا کرم، تم ہو سراپا الطاف
ہم کہ مجموعۂ اضداد ہیں غوث الثقلین﷜
آج رحمت سے بغلگیر ہے ہر ایک تڑپ
چارہ ساز دلِ ناشاد ہیں غوث الثقلین﷜
کیوں نہ ہو عرش سے پھر دل پہ بہاروں کا نزول
آپ اس بستی میں آباد ہیں غوث الثقلین﷜
یارسولِ عربیﷺ لب پہ، زباں پر یا غوث﷜
مِرا ایمان یہ اوراد ہیں غوث الثقلین﷜
قادری جام سے پی آج مدینے کی شراب
مِیرِ میخانۂ بغداد ہیں غوث الثقلین﷜
مظہرِ ذات کے مظہر ہیں زسرتا بہ قدم
نور ہیں، نورﷺ کی اولاد ہیں غوث الثقلین﷜
یوں تو سب کچھ ہیں مگر اختؔر عاصی کے لئے
آپ اللہ کی امداد ہیں غوث الثقلین﷜

...

ہے مُرِیْدیْ لَا تَخَفْ جب اذنِ عامِ غوثِ پاک

منقبت حضرت غوثِ اعظم ﷜

ہے مُرِیْدیْ لَا تَخَفْ جب اذنِ عامِ غوثِ پاک﷜
کیوں نہ ہوں آزاد دوزخ سے غلامِ غوثِ پاک﷜
ہے جہانِ معرفت میں احترامِ غوثِ پاک﷜
اللہ اللہ کِتنا ارفع ہے مقامِ غوثِ پاک﷜
میں بھی دیکھوں پوچھتے ہیں مجھ سے کیا مُنکَر نکیر
نزع میں لکھ دے جبیں پر کوئی نامِ غوثِ پاک﷜
آپ کے زیرِ قدم ہیں اولیاء کی گردنیں
اے تعالی اللہ یہ اوجِ مقامِ غوثِ پاک﷜
منہ میں پاتا ہوں حلاوت کوثر و تسنیم کی
لب پہ جب بے ساختہ آتا ہے نامِ غوثِ پاک﷜
گلشنِ صد رنگ و بُو ہے مصرعہ مصرعہ شِعر شِعر
ہے بہشتِ معرفت گویا کلامِ غوثِ پاک﷜
ان کا پَیر و اِک قدم ہٹتا نہیں اِسلام سے
کس قدر مضبوط و محکم ہے نظامِ غوثِ پاک﷜
خلد بر کف اے مقدّس سرزمیں بغداد کی
کب سے ہے تیرے لئے مضطر غلامِ غوثِ پاک﷜
وہ فضائے میکدہ اختؔر ہے فردوسِ نظر
بادۂ جیلاں، رضا کا ہاتھ، جامِ غوثِ پاک﷜

...

ائل بہ کرم چشم ضیا بارِ رضا ہے﷫

منقبتِ اعلحٰضرت مجدّدِ دین و ملّت، امام احمد رضا خان بریلوی قُدِّسَ سِرّہ

ائل بہ کرم چشم ضیا بارِ رضا ہے﷫
خدّام چلیں عرسِ پُر انوارِ رضا ہے﷫
ہے اس کی دمک قاطع تاریکی باطِل
آئینۂ حق روئے ضیا بارِ رضا ہے﷫
اس باغ کا ہر پھول ہے ہر دم تر و تازہ
گلزارِ اِرم گلشنِ بے خارِ رضا ہے﷫
ضُو بار ہے مارہرۂ پُر نور کی مشعل
اللہ رے کیا رونقِ دربارِ رضا ہے﷫
ایمان کی ہے بھیک ترے کاسۂ دل میں
 کیا شان تِری سائلِ سرکارِ رضا ہے﷫
فرقِ حق و باطل ہے عیاں آج جہاں پر
تو کلکِ رضا اصل ہیں تلوارِ رضا ہے﷫
اختؔر تِری شہرت نہ ہو کیوں ملکِ سخن میں
تو شاعرِ دربارِ پر انوارِ رضا ہے﷫

...

آگیا روزِ عیدِ وصالِ حبیب، مثردہ اے مَیگسارانِ احمد رضا﷫

منقبتِ امامِ اہلسنّت، مجدّدِ دین و ملّت فاضلِ بریلوی قدس سِرّہ

آگیا روزِ عیدِ وصالِ حبیب، مثردہ اے مَیگسارانِ احمد رضا﷫
پینے والوں کی خود جستجو میں ہے آج، جامِ صہبائے عرفانِ احمد رضا﷫
پھر بریلی کی جانب سے بادل اُٹھے، ہو مبارک غلامانِ احمد رضا﷫
اہلِ سنت پہ ہونے لگی جھوم کر بارشِ خاص فیضانِ احمد رضا﷫
عشقِ ماہِ مدینہ کے انوار کا، چاند روئے درخشانِ احمد رضا﷫
مصطفیٰﷺ کی محبت کا ہے آئینہ، عکسِ رخسارِ تابانِ احمد رضا﷫
مِل رہا ہے شہِ دیں کا صدقہ یہاں، بٹ رہا ہے مدینے کا باڑا یہاں
نعمتِ عشقِ محبوب سے لے چلو، بھر کے جھولی گدایانِ احمد رضا﷫
اہلِ سنت کا ہے خلد برکف چمن، کیوں اٹھائیں بھلا ہم خزاں کے مِحَن
نگہتِ عشقِ گلزارِ محبوب سے، ہے معطّر گلستانِ احمد رضا﷫
عَلَمِ عظمتِ شاہِ دیں کو لئے، اللہ اللہ وہ معرکے سَر کئے
مصطفیٰﷺ کی وِلا کا نشاں بن گیا، پرچمِ عزت و شانِ احمد رضا﷫
ذاتِ والا ہے سر تا پا بحر العلوم، اک عجم کیا زمانے میں ہے جس کی دھوم
خود عرب کے افاضِل نے اسناد لیں‘ اللہ اللہ یہ شانِ احمد رضا﷫
جلوۂ مصطفیٰﷺ ہے نظر سے قریب، عام ہے دعوتِ سوزِ عشق حبیب
کس قدر اَوج پر ہے ہمارا نصیب‘ ہم ہوئے آج مہمانِ احمد رضا﷫
تابہ کئے یہ خلش اور دردِ جگر، تابہ کَے ٹھوکریں کھاؤں میں دَر بہ دَر
ہو گنہگار اختؔر پہ آقا نظر، ہوں غلامِ غلامانِ احمد رضا﷫

...

فخرِ دین و فخرِ ملّت، سیّدی احمد رضا﷫

منقبتِ اعلحٰضرت امامِ احمد رضا خاں بریلوی قدس سرّہ

فخرِ دین و فخرِ ملّت، سیّدی احمد رضا﷫
نورِ وحدت، ظلِّ رحمت، سیّدی احمد رضا﷫
کعبۂ اہلِ طریقت، سیّدی احمد رضا﷫
آفتابِ قادریّت، سیّدی احمد رضا﷫
الغیاث اے مہرِ طلعت، سیّدی احمد رضا﷫
آگیا پھر دورِ ظلمت، سیّدی احمد رضا﷫
چھا رہی ہے ہر طرف کفر و ضلالت کی گھٹا
ہے پریشاں حال امّت، سیّدی احمد رضا﷫
دینے والے درس نظم و ضبط ہیں خود منتشر
ہے الگ سب کی جماعت، سیّدی احمد رضا﷫
دینِ حق پر مٹنے والے جاہ پر مِٹنے لگے
ہیں شہیدِ حسنِ دولت، سیّدی احمد رضا﷫
الغرض کوئی ہمارا اب نہیں پُرسانِ حال
اے امامِ اہلِ سنّت، سیّدی احمد رضا﷫
تنگ آکر آج اِن ہمّت شِکن حالات سے
در پہ لایا ہوں شکایت، سیّدی احمد رضا﷫
کس سے پوچھیں‘ کون بتلائے، کہاں جائیں غلام
آپ کی ہے پھر ضرورت، سیّدی احمد رضا﷫
لایئے تشریف تربت سے قلم در کف حضور
کیجئے تجدیدِ ملّت، سیّدی احمد رضا﷫
آئیے بھٹکے ہوؤں کی رہبری فرمائیے
خضرِ راہِ دین و سنّت، سیدی احمد رضا﷫
ہم گئے گزرے ہووں کو شان و شوکت ہو نصیب
پھر عطا ہو اَوج و رفعت، سیّدی احمد رضا﷫
ہے یہ مدّت سے پریشان حال مدّاحِ حبیب
اِک نظر اے ابرِ رحمت، سیّدی احمد رضا﷫
ہُوں اِسی در کا بھکاری، ہُوں اسی دَر کا غلام
کیجئے چشمِ عنایت، سیّدی احمد رضا﷫
کلکِ انور کی جواہر ریزیوں سے پھر حضور
کھول دو چشمِ بصیرت، سیّدی احمد رضا﷫
حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے ما
پیشوائے اہلِ سنّت، سیّدی احمد رضا﷫
اختؔرِ عاصیِ کو نظّارہ ہو طیبہ کا نصیب
مرشدی، آقائے نعمت، سیدی احمد رضا﷫

...

یہ کیسی روح پرور میرے کانوں میں پکار آئی

مجدّدِ مأتہِ حاضرہ، امام احمد رضا خان بریلوی کے تجدیدی کارنامے کا منظوم[1]؎خاکہ

یہ کیسی روح پرور میرے کانوں میں پکار آئی
کہ باغِ اہلِ سنّت میں بہارِ خوشگوار آئی
مَلا دستِ نسیمِ رحمتِ کونین نے غازہ
نظر آتے ہیں رضویّت کے گُل بوٹے تر و تازہ
عجب جوشِ نمو، طوفانِ رنگ و نور برپا ہے
شبابِ عشقِ ماہِ طیبہ جامے سے ہویدا ہے
ہجومِ میکشاں ہے، والئے میخانہ بریلی کا
مئے طیبہ، رضا کا ہاتھ، پیمانہ بریلی کا
یہ میخانہ اُبلتا ہے کہ لطفِ حق کا فوّارہ
تعالیٰ اللہ کیسی جوش پر ہے قادری دھاوا
جدھر دیکھو سرور و کیف کے ساغر کھنکتے ہیں
مئے عشقِ حبیبِ حق کے پیمانے چھلکتے ہیں
کسی کے لب پہ مستی میں ہے یا اللہ کا نعرہ
کہیں ہر گھونٹ پر ہے یا رسول اللہﷺ کا نعرہ
اٹھاتا ہے کوئی یا غوث﷜ کہہ کر اپنا پیمانہ
رضا﷫ کا نام لے کر جھومتا ہے کوئی مستانہ
عجب پر کیف نقشہ ہے، عجب پُر نور منظر ہے
یہ لطفِ اعلیٰ حضرت﷫ کی بہارِ روح پرور ہے
مِرے مرشد کا دریائے کرم طغیانیوں پر ہے
زہے قسمت کہ میری طبع بھی جو لانیوں پر ہے
گُہر ہائے کرم سے اپنی جھولی میں بھی پُر کر لوں
سعادت کے دُرِ تاباں سے دامانِ تہی بھر لُوں
لِکھوں اِک نظم تازہ یعنی اپنے پیر و مرشد پر
میں ڈالوں روشنی کچھ سیرتِ پاک مجدّد پر
مگر میں بے بضاعت، بے ہنر، کج مج زباں شاعِر
کہاں وہ علم و حکمت کا سمندر اور کہاں شاعِر
میں اِک ذرّے سے کم وہ نیّرِ برجِ فضیلت ہیں
مجدّد دین و ملّت کے، امامِ اہلِ سنّت ہیں
محیطِ کائناتِ عقل و دانش ان کا خامہ ہے
سند عِلم لَدُنّی کی ہر علمی کارنامہ ہے
میں اِک بے علم، ہے جس کی نظر خود اپنی خامی پر
مگر ہے فخر مجھ کو اعلیٰ حضرت﷫ کی غلامی پر
اس اعزازِ غلامی نے بڑھایا حوصلہ میرا
میں نقشہ کھینچتا ہوں ان کے علمی کارناموں کا
ذرا دیکھیں؟ کہ کیا شانِ تجدّد، کیا فضیلت ہے
فلک پر مسندِ اَوجِ امام اہلِ سنّت ہے
سنبھالا جب امام احمد رضا﷫ نے کام افتاء کا
زمینِ ہند پر چھایا ہوا گہرا اندھیرا تھا
ادھر بکھرا ہوا تھا ملّتِ بیضاء کا شیرازہ
کُھلا تھا ایک جانب دین میں فتنوں کا دروازہ
ابوجہلی، بظاہر متقی بن کر زمانے میں
چراغِ سنّیت مصروف تھے مِل کر بُجھانے میں
قبائیں نیچی نیچی، لبمی لبمی داڑھیوں والے
تقدّس کے لبادوں میں لٹیرے، قلب کے کالے
جبینوں پر نشانِ سجدہ اور تسبیح ہاتھوں میں
یہ رہزن سب کے سب تھے دین پر حملے کی گھاتوں میں
بی عیّاری کلام حق کو سینوں سے لگائے تھے
یہ اپنی آستینوں میں مگر خنجر چھپائے تھے
موحّد کوئی ان میں، کوئی عالم بن کر آیا تھا
ہر اِک رہزن تقدّس کا سنہرا جال لایا تھا
نئی توحید تھی ان کی، نیا اسلام تھا ان کا
غرض اسلام میں فتنے اٹھانا کام تھا ان کا
کہیں دعوے نبّوت کے، کہیں حملے رسالت پر
کہیں کیچڑ اچھالا جا رہا تھا شانِ قدرت پر
کوئی گستاخ، اندھا، کور باطن صاف لکھتا ہے
’’دخولِ کذب تحتِ قدرتِ باری تعا لیٰ ہے‘‘
کسی نے نصِّ قطعی میں بھی یوں تحریف کر ڈالی
نرالی آیۂ[2]؎ مَاکَان کی تعریف کر ڈالی
اگر بالفرض ہو بعدِ محمّدﷺ نبی پیدا
تو پھر بھی خاتمیت میں نہ اصلا فرق آئے گا
مریدوں سے درود اپنا کسی نے خود پڑھا ڈالا
کہیں علمِ نبی، علمِ بہائم سے مِلا ڈالا
کسی نے علمِ شیطاں، علمِ آقاﷺ سے بڑھا ڈالا
کسی نے انبیاء کو اپنا بھائی تک بنا ڈالا
کہیں لکھا ’’نبی ہیں ذرّۂ ناچیز سے کمتر‘‘
کہیں پھونکوں سے حملے مشعلِ بزمِ رسالتﷺ پر
کہیں لکھا ’’نبی کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا‘‘
’’محمدﷺ کے برابر ہوں کروڑوں آن میں پیدا‘‘
کہیں لکھا کہ آیا ہے حدیثِ مصطفیٰﷺ میں یوں
کہ ’’مَر کر ایک دن مٹی میں، میں بھی ملنے والا ہوں‘‘
کہیں انکار ہے تعظیمِ سرکارِ مدینہﷺ سے
محبّانِ شہِ دیں پر کہیں ہیں کفر کے فتوے
فقط نقشہ ہے معمولی سایہ ان کے عقائد کا
یہ تھے ورنہ مجّسم شرک اور بدعت کا پشتارہ
پئے تکمیل یہ لے کر بڑھے اپنے مقاصد کو
مسلمانوں میں پھیلانے لگے باطل عقائد کو
کچھ اب کے جبّہ و دستار سے کھانے لگا دھوکا
بظاہر دین کے پر چار سے کھانے لگا دھوکا
مِلا کر شربتِ توحید میں یہ سَمْ پلاتے تھے
اجل کی نیند ہر بیدارِ ایماں کو سلاتے تھے
ہزاروں دولتِ حسنِ عقیدت اپنی کھو بیٹھے
معاذ اللہ، ایماں تک سے اکثر ہاتھ دھو بیٹھے
جدھر دیکھو ادھر بو جہلیوں کا دور دورہ تھا
زمینِ ہند پر ہر سمت اِک کہرام برپا تھا
نہ تھا کوئی انہیں جرأت سے بڑھ کر ٹوکنے والا
نہ دینی لُوٹ پر تھا ہاتھ ان کا روکنے والا
زبانیں گنگ تھیں، طاری تھا سب پر عالَمِ سکتہ
غرض ہر ایک تھا باہم دگر حیرت سے منہ تکتا
یکایک ایک گوشے سے نبیﷺ کا شیر نَر نکلا
نرالی شان سے مردِ جری سینہ سِپر نکلا
سجا کر اسلحہ سرکارﷺ کے عشق و محبّت کا
عَلَم تھامے ہوئے میداں میں آیا شہ کی عظمت کا
یہ عبدالمصطفیٰ احمد رضا خاں اعلحٰضرت﷫ ہیں
مجدّد اس صدی کے، فخرِ دین و فخرِ مِلّت ہیں
نبیﷺ کے اس فدائی نے عدّو دیں کو للکارا
ہوا اِک اِک سے پنجہ آزما و معرکہ آرا
چلا پَیکر اَشِدَّاءُ عَلَے الْکُفّار کا بن کر
گِرا کوہِ غضب، بَرقِ بلا، قہرِ خدا بن کر
دکھایا کر کے بے پردہ ہر اِک مکّار کا چہرہ
رُخِ مکروہ پر تھا جن کے علم و فضل کا پہرہ
تقدّس کی نقابیں نوچ پھینکی ان کے چہروں سے
کیا آگاہ مسلم قوم کو ان کے فریبوں سے
قلم کی نوک کیا تھی؛ بُرّشِ سیفِ الہٰی تھی
مچی ہر سمت باطل کی صفوں میں اک تباہی تھی
اِدھر تنہا فدا کارِ نبیﷺ، دشمن ادھر سارے
لرزتے تھے بایں کثرت بھی لیکن خوف کے مارے
جدھر دیکھو ادھر تھا دشمنوں میں غلغلہ آیا
یہ کیسا آسماں ٹُوٹا، یہ کیسا زلزلہ آیا
ٹھہرتا کس طرح غولِ بیاباں شیر کے آگے
کہ رکھ کر پاؤں سَر پر، سب محاذِ علم سے بھاگے
بڑا احساں مسلمانوں پہ ہے یہ اعلحٰضرت﷫ کا
اُٹھایا بار اپنے دوش پر تجدیدِ ملّت کا
بہ تائید ِ الہٰی یوں رُخِ اھلِ فِتن موڑا
کہ ان میں سے کسی نے بھی نہ اَب تک لَوٹ کر دیکھا
نوشت و خواند میں شام و سحر بھی ایک کر ڈالے
لکھے دفتر کے دفتر اَن گِنت صفحات بھر ڈالے
دلائل دے کے باطل قول کی تردید فرمائی
خدا و مصطفیٰﷺ کے دین کی تجدید فرمائی
رضا﷫ کی ذات گویا حق تعا لےٰ کا کرم کہئے
یہ علمی کارنامہ ’’اَلْجِہَادُ بِالْقَلَمْ‘‘ کہئے
پھریرا اس قدر اونچا اڑا علمی فضیلت کا
خدا کے فضل سے پہنچا عجم سے تا عرب شہرہ
بلایا اپنے خادم کو نبیﷺ نے آستانے پر
نوازا اِس طرح اسلام کی عزت بچانے پر
غلامِ خاص کو بخشا شرف پہلے زیارت کا
کیا دربار سے تمغہ عطا اعلیٰ فضیلت کا
قدم چُومے عرب کے مفتیوں نے اس فضیلت پر
فِدا ہونے لگے پروانۂ شمعِ رسالتﷺ پر
نہ کیوں نازاں ہوں اختؔر اہلِ سنّت اپنی قسمت پر
رضؔا﷫ لوٹے مدینے سے مُجدّد کی سند لے کر

 

 [1]یہ نظم حضر ت اختر الحامدی نے راقم الحروف کی التماس کو شرفِ قبولیت بخشے ہوئے ’’ معارفِ رضا‘‘ کتاب کے لئے قلم برداشتہ لکھ کر ارسال فرمائی تھی۔ ’’معارفِ رضا‘‘ میں احقر نے امام احمد رضا خاں بریلوی﷫ کے تجدیدی کارنامے کو چار ضمیم جلدوں میں بیان کیا ہے۔ اگرچہ یہ نظم ’’ نعت محل‘‘ کے مرسلہ مسورے میں نہ تھی لیکن حسنِ اتفاق سے جناب اختر الحامدی کا مجموعہ کلام چونکہ اس ناچیز کے ہاتھوں ترتیب دیا جارہا ہے لہذا اس معرکتہ الآرا، نظم کو احقر نے ’’معارفِ رضا‘‘ کی زینت بنانے کے ساتھ ’’ نعت محل‘‘ میں مناسب جگہ دے کر شاملِ اشاعت کر دیا ہے ۱۲ اختؔر تشاہجانپوری

[2]مراد ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبین آلایتہ (سورۃ الاحزاب)

...