وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
اُن کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیے ہیں
جس راہ چل گئے ہیں کوچے بسا دیے ہیں
ہے لبِ عیسیٰ سے جاں بخشی نرالی ہاتھ میں
سنگریزے پاتے ہیں شیریں مقالی ہاتھ میں
راہِ عرفاں سے جو ہم نادیدہ رو محرم نہیں
مصطفیٰ ہے مسندِ ارشاد پر کچھ غم نہیں
وہ کمالِ حُسنِ حضور ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
رخ دن ہے یا مہرِ سما یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
شب زلف یا مشکِ ختا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
وصفِ رخ اُن کا کیا کرتے ہیں شرحِ والشمس و ضحیٰ کرتے ہیں
اُن کی ہم مدح وثنا کرتے ہیں جن کو محمود کہا کرتے ہیں
زائرو! پاسِ ادب رکھو ہوس جانے دو
آنکھیں اندھی ہوئی ہیں اُن کو ترس جانے دو
چمنِ طیبہ میں سنبل جو سنوارے گیسو
حور بڑھ کر شکنِ ناز پہ وارے گیسو
آیا ہے جو ذکرِ مہ جبیناں
قابو میں نہیں دلِ پریشاں