اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے
اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے
دلِ بے کس کا اِس آفت میں آقا تو ہی والی ہے
...
اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے
دلِ بے کس کا اِس آفت میں آقا تو ہی والی ہے
...
گنہ گاروں کو ہاتف سے نویدِ خوش مآلی ہے
مُبارک ہو شفاعت کے لیے احمد سا والی ہے
...
نبی سَروَرِ ہر رسول و ولی ہے
نبی راز دارِ مَعَ اللہ لِیْ ہے
...
نہ عرش ایمن نہ اِنِّیْ ذَاہِبٌ میں میہمانی ہے
نہ لطفِ اُدْنُ یَا اَحْمَدْ نصیبِ لَنْ تَراَنِیْ ہے
سنتے ہیں کہ محشر میں صرف اُن کی رسائی ہے
گر اُن کی رسائی ہے لو جب تو بن آئی ہے
...
حرزِ جاں ذکرِ شفاعت کیجیے
نار سے بچنے کی صورت کیجیے
...
دشمنِ احمد پہ شدّت کیجیے
ملحدوں کی کیا مروّت کیجیے
شکرِ خدا کے آج گھڑی اُس سفر کی ہے
جس پر نثار جان فلاح و ظفر کی ہے
بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے
کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے
...