خواجہ محمد صالح بلخی
حضرت خواجہ محمد صالح بلخی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ...
حضرت خواجہ محمد صالح بلخی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ...
آپ نارنول کے باشندے تھے اور صاحب نفس مشہور تھے اکثر اوقات نارنول کے بازاروں میں گھومتے پھرتے تھے۔ آپ کا مزار بھی نارنول ہی میں ہے، آپ جس جگہ بیٹھ جاتے وہاں سے کئی کئی دن تک نہ اُٹھتے، تنہائی میں خود سے باتیں کیا کرتے کبھی گریہ و زاری کرتے، کبھی ہنستے کبھی اپنے آپ سے لڑتے جھگڑتے، کبھی دوتارہ بجا کر فارسی چٹکلے کہتے، پُرانے چیتھڑے پہنتے اور ہاتھ پاؤں میں لوہے کی زنجیریں ڈالے رکھتے، گفتگو میں آپ کا تکیہ کلام یہ تھا، خدایا آؤ، خدایا جاؤ، خدایا بیٹھو ...
اصل میں کالپی کے باشندے تھے۔ ابتداء ہی میں سلوک کے راستہ دیکھ چکے تھے اور راتوں کو کمزور لوگوں کے گھروں میں جاکر ان کے مٹکے بھرتے تھے۔ آخر کار ایک شخص کے ذریعہ سے آپ کو جذب کی حالت نصیب ہوئی اور گوالیا میں رہنے لگے۔ فتوح کے دروازے آپ پر کھل گئے اور دنیا والوں کے دل آپ کی طرف مائل ہوگئے۔ آپ اکثر و بیشتر استغراق کی حالت میں رہا کرتے تھے۔ ضرورت انسانی کے وقت استغراق میں تھوڑا سا افاقہ ہو جاتا تھا۔ آپ کا دستور تھا کہ کئی کئی دن بعد تھوڑے سے دانے بطور...
دہلی کے ایک قدیم ریئس کے فرزند تھے بچپن ہی سے مجذوب تھے دنیا کے طور طریقوں سے بے پروا تھے، عجیب و غریب و غریب حالت تھی۔ اکثر اوقات بالکل برہنہ رہتے اورآپکے عضو مخصوص میں انتشار پیدا نہیں ہوتا تھا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مٹی کا ایک غلہ دیوار میں چِپکا ہوا ہے، روپیہ پیسہ اور کپڑے اور جو کچھ آپ کو ملتا وہ سب کا سب حاضرین اور قوالوں کو دے دیا کرتے تھے اس حالت کے باوجود آپ کی ظاہری صورت یہ تھی کہ مجلسوں میں جاتے، ہر ایک کی جانب التفات کرتے اور بڑی دلچ...
آپ کو شیخ علاول بلاول بھی کہتے ہیں۔ کشف حالات اور دلوں کی باتیں ظاہر کرنے میں اللہ کی نشانی تھے جو کوئی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے ضرور کوئی نہ کوئی آپ کی کرامت دیکھی ابتدائے جوانی میں طالب علم تھے عرصہ تک سامانہ میں رہے طالب علمی کے زمانے میں دہلی میں بھی پڑھا، اس کے بعد جب جذبہ و حال طاری ہوا تو آگرہ چلے گئے، عرصہ تک مجردر ہے، آپ کی کرامتوں کو دیکھ کر لوگوں نے آپ کی خدمت کے لیے نوکر چاکر اور کنیزیں خرید کردیں۔ آپ نے بالحاظ فطرت انسانی بعض کے...
مشہور مجذوب تھے اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کے قریب شیخ برہان الدین بلخی کے مقبرہ کے پاس والے پُرانے گنبد میں رہا کرتے تھے مستی اور حالت جذبے کے باوجود علم تکسیر میں اللہ کی نشانیوں میں سے ایک خاص نشانی تھی۔ جب شیر شاہ نے دہلی کے قلعہ کو ویران کیا تو آپ اس کو سنتے ہی ایسے غائب ہوئے کہ پھر آپ کا نشان تک نہیں ملا۔ اخبار الاخیار...
آپ کا نام محمد اور تخلص بحثی تھا۔ ابتدا میں بڑے آزاد تھے لیکن آخر عمر میں توفیق الٰہی کی بدولت راہ فقرو ریاضت کی نعمت نصیب ہوئی، تیس سال تک مسلسل روزے رکھے اور ریاضت کرتے رہے، دہلی میں نظام الدین اولیاء کے قریب رئیس وقت مرزا محمد عزیز نے آپ کے لیے ایک خانقاہ بنوائی تھی آپ اسی میں مشغول عبادت رہا کرتے تھے اور وہیں دفن ہوئے۔ آپ دہلی کی ویران گلیوں میں گشت کرتے تھے اور کشف قبور سے متعلق بہت سی چیزیں آپ سے منقول ہیں۔ بوقت وفات آپ باخبر اور بیدار دل ت...
بڑی ریاضت کرنے والے عبادت گزار، سالک و عارِف اور صورت و سیرت کے لحاظ سے بھی درویش تھے۔ پوری عمر سلوک کی راہ، ریاضت میں گذاری، صاحب ذوق و شوق اور خوشگوار صحبت رہے۔ بانسری کی آواز پر درد و شورش کا اظہار کرتے اور اتنا روتے تھے کہ بیان نہیں کیا جاسکتا، اصلی وطن ماوراءالنہر تھا برسوں حرمین شریفین میں فقروریاضت مجاہدہ و عبادت کی زندگی بسر کی افغانوں کے عہد حکومت میں تقریباً 955ھ میں آپ ہندوستان آئے اور یہاں کے اکثر و بیشتر مشائخین کی صحبت میں رہے پھر د...
جنات کو بلانے کے علم و عمل میں کامل تھے اور اپنے نفس پر پورا قابو رکھتے تھے۔ ہندوستان و خراسان کی خوب سیرو سیاحت کی، آپ اپنے نانا شیخ شمس الدین کے مرید تھے۔ ایک مرتبہ جنات اٹھا کر اپنے ملک میں لے گئے جہاں عرصہ تک آپ رہے ادھر آپ کے گھر والوں کو یہ خیال ہو ا کہ آپ کہیں سیر و سیاحت کرنے گئے ہیں۔ آپ جنات کی وضع قطع، رہن سہن اور ان کی زمین وغیرہ کو تفصیل سے بیان کرتے تھے اور ان کی زَبان بھی بخوبی جانتے تھے۔ جنات کے شہر میں رہنے سہنے کی وجہ سے آپ کی شک...
آپ بہت ہی عمر رسیدہ تھے۔ ملتان سے دہلی آکر سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ آپ نے بے انتہا سیاحت و سفر کیا اور خوب ریاضت کی، اکثر و بیشتر خاموش رہتے اور بہت ہی گم گفتگو کرتے تھے میں نے بھی آپ کی خدمت میں حاضری دی اور آپ کے طریقہ توجہ و عنایات کو خود دیکھا ہے۔ شیخ اسحٰق فرمایا کرتے تھے کہ میں اس انتظار میں ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے کوئی بیٹا عنایت کرے، چنانچہ بڑھاپے میں اللہ نے ان کو ایک لڑکا دیا، جس کی پیدائش کے بعد خود انتقال کر گئے۔ آپ کے انتقال کا واقعہ یہ...