حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی
حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت شیخ عبدالقدوس مقبول بارگاہ احدیت ہیں۔
خاندانی حالات:
آپ کاسلسلہ نسب چندواسطوں سےحضرت امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ پرمنتہی ہوتاہے۔۱؎
آپ کےداداشیخ صفی الدین ردولی میں رہتےتھے،وہ حضرت میرسیداشرف جہانگیرسمنانی کے مریدتھے۔
والد:
آپ کے والدکانام شیخ اسماعیل ہے۔۲؎بعض کےنزدیک آپ کے والدکانام شیخ صفی الدین ہے۔
پیدائش:
آپ۷۶۱ھ میں ردولی میں پیداہوئے۔
نام:
آپ کانام عبدالقدوس ہے۔
تعلیم وتربیت:
آپ نے تعلیم زیادہ دن جاری نہیں رکھی۔علم ظاہری اورشغل ظاہرسےآپ کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔آپ علم باطنی حاصل کرناچاہتےتھے۔
کایاپلٹ:
آپ جب ذرابڑےہوئےتوحضرت شیخ عبدالحق محدث رحمتہ اللہ علیہ کے مزارپرجھاڑودیناشروع کیا۔ایک روزکاواقعہ ہےکہ آپ ایک کتاب کافیتہ ہاتھ میں لئے ہوئےمزارکےاندرحق حق کی ایسی آوازسنی کہ آپ ازخودرفتہ ہوگئےحضرت شیخ عبدالحق کی روحانیت سے فیض یاب ہوئے،اس روز سے پڑھنالکھناچھوڑدیا،علم باطنی اورشغل باطنی میں ہمہ تن مشغول ہوگئے۔
بیعت و خلافت:
آپ حضرت شیخ محمدبن حضرت شیخ عارف کےدست حق پرست پربیعت ہوئے اوران سے خرقہ خلافت بھی پایا۔آپ حضرت درویش قاسم لودھی کےبھی مریداورخلیفہ ہیں۔۳؎لیکن اصل میں آپ حضرت شیخ احمدعبدالحق ردولوی کی روحانیت سےمستفیدومستفیض تھے۔۵؎آپ کواویسی طریقہ پرحضرت شیخ عبدالحق ردولوی سےفیض پہنچا۔
شاہ آبادمیں قیام:
آپ جلد ہی مدارج سلوک طےکرکےمرتبہ تکمیل وارشادکوپہنچے۔ایک روزآپ کو شیخ احمدعبدالحق ردولوی نے یہ بشارت دی۔۶؎
"تراولایت بالاترعطاکی" (تجھ کومیں نےولایت بالادست عطاکی)
عمرخاں کاشی جوسلطان سکندرلودھی کےامراء میں سےتھا،آپ کامعتقد ومنقاد تھا،اس کی درخواست پرآپ مع اہل وعیال ردولی سےسکونت ترک کرکے شاہ آباد،جودہلی کے قرب وجوار میں واقع ہے،تشریف لےگئے اوروہاں(۳۰)تیس سال سےزیادہ قیام فرمایا۔
گنگوہ میں سکونت:
شاہ آبادپٹھانوں کامرکزسمجھاجاتاتھا۔وہاں افغان کافی تعدادمیں تھے۔جب بابرنےہندوستان فتح کیا توافغانوں کومنتشرکرنےکی غرض سےشاہ آباد کو بھی بربادکیا۔آپ سے شاہ آباد کی بربادی نہ دیکھی گئی۔آپ نےوہاں سکونت ترک کرنے کی ٹھان لی،چنانچہ آپ مع متعلقین گنگوہ تشریف لےگئے اور وہیں سکونت پذیرہوئے۔۷؎
شادی اوراولاد:
آپ کےسات لڑکےتھے،۸؎جن میں شیخ حمیدالدین،شیخ الکبیر اور شیخ رکن الدین مشہورعالم زاہد تھے۔
وفات شریف:
آپ تیس جمادی الاخر۹۴۴ھ کوجواررحمت میں داخل ہوئے،۹؎بعض نےآپ کی وفات۹۴۵ھ میں ہونالکھاہے۔۱۰؎مزارشریف گنگوہ میں ہے۔
خلفاء:
آپ مشہور خلفاءحسب ذیل ہیں۔
شیخ عبدالکبیر،شیخ جلال الدین تھانیسری،شیخ عبدالغفوراعظم پوری،شیخ بھورو،شیخ عبدالاحد۔
سیرت مبارک:
آپ صاحب کشف وکرامات تھے،سماع کاشوق تھا۔جوکچھ زبان سےفرماتےویساہی واقع ہوتا۔ سنت رسول کےپابندتھے۔آپ کامل درویش اوربےنظیرعارف تھے۔سماع میں اکثرآپ پرکیفیت طاری ہوتی اورآپ رقص کرنےلگتےاوروالہانہ اندازمیں کچھ فرمادیتے،ایک مرتبہ دہلی میں محفل سماع میں آپ شریک تھے،آپ پرکیفیت طاری ہوئی اور آپ حالت وجدمیں کھڑے ہوکریہ کلمات فرمانےلگے۔
"منصورکونادانوں نےقتل کیا"۔
کئی مرتبہ آپ نے یہی فرمایا،علماءبھی محفل میں شریک تھے،ان میں سے ایک نےایک بڑےعالم کانام لیا،جومنصورکےزمانےمیں تھااورآپ سےکہاگیاوہ بھی نادان تھا،آپ نےاسی حالت میں اور اسی طرح فرمایاکہ اسی کوکہتاہوں،سب خاموش ہوگئے۔
آپ کاشت کرتے تھے۔۱۱؎
علمی ذوق:
آپ نے کئی کتابیں لکھیں۔"انوارلعیون"آپ کی مشہورکتاب ہے،آپ کےمکتوبات تصوف کاخزانہ ہیں۔
شعروشاعری:
آپ کوشاعری کاشوق تھا۔"قدوس"آپ کاتخلص تھا،آپ کی ایک مشہورغزل حسب ذیل ہے۔
آستیں بررخ کشیدہ ہم چوبکارآمدی |
باخودی خوددرتماشاسوئے بازارآمدی |
دربہاراں گل شدی درصحن گلزارآمدی |
بعدازاں بلبل شدی درصحن گلزارآمدی |
خویشتن راجلوہ کردی اندریں آئینہ بہ |
آئینہ اسمےنہادی خود باظہارآمدی |
شورمنصورازکجاودارمنصور ازکجا |
خودزدی بانگ انا الحق برسردارآمدی |
گفت قدوس فقرلےدرفناودربقا |
خودزخودآزادبودی خودگرفتارآمدی |
تعلیمات:
آپ کی بعض تعلیمات حسب ذیل ہیں۔
بھوک کی قسمیں:
آپ فرماتے ہیں۔۱۲؎
"گرسنگی دوقسم کی ہے۔علوی اورسفلی"۔
بھوک کے فوائد:
آپ فرماتے ہیں۔
"گرسنگی کثیف کولطیف تک پہنچاتی ہےاورمقیدکومطلق کانشان دیتی ہےاورانسانیت کورحمانیت کی طرف لےجاتی ہے،کیوں کہ گرسنگی سے آدمی خداتعالیٰ تک پہنچ جاتاہے"۔
بھوک کےمقام:
آپ فرماتے ہیں۔
"بھوک کےتین مقام ہیں،پہلےمقام کو بھوک کی آگ کہتے ہیں،جس کی غذاپانی اورطعام ہے۔ دوسرےمقام کودرودمحبت و عشق کی آگ کہتےہیں،اس کی غذاخون جگراورخاشاک وغیرہ ہے۔ تیسرےمقام کو محبوب ومعشوق کی آگ کہتے ہیں،جس کی غذاحسن و جمال اوراوصاف کمال ہیں"۔
فرض:
آپ فرماتےہیں۔۱۳؎
"خانۂ بشریت سےنکل کرشہراحدیت کی طرف ہجرت کرناچاہیےاورحضرت صمدیت کامشتاق ہونا چاہیے"۔
کشف وکرامات:
ایک مرتبہ آپ موضع چھاج پورمیں مقیم تھے۔عین مشغولی کی حالت میں آپ نے بہ آوازبلندفرمایا کہ گاؤں کےلوگوں کوچاہیےکہ اپنامال واسباب لےکرگھروں سے باہرنکل آئیں گاؤں میں آگ لگنے والی ہے۔تھوڑی دیرمیں گاؤں میں آگ لگی اورجن لوگوں نےآپ کی ہدایت کےموافق عمل نہیں کیا،وہ پشیمان ہوئےاوران کونقصان برداشت کرناپڑا۔۱۴؎
مولاناچندن جوآپ کےصاحب زادے شیخ رکن الدین کےاستادتھےاورآپ(حضرت عبدالقدوس)سےبیعت تھے،ایک مرتبہ کپڑےدھونےتالاب پرگئے،وہاں ایک حسین عورت کو دیکھ کروہ اس پرشیفتہ و فریفتہ ہوئے۔خلوت نےان کودرازدستی کی ترغیب دی،قبل اس کے کہ وہ
درازدستی کریں،انہوں نےدیکھاکہ آپ تالاب میں عصالئےکھڑے ہین۔
مولاناچندن آپ کوتالاب میں کھڑادیکھ کراپنےخیالات فاسدہ سےشرمندہ ہوئے۔تالاب سے واپس ہوئےاورجب آپ کی خدمت میں حاضرہوئےتوآپ نےمسکراکران سےفرمایاکہ۔
"کچھ دہشت کی بات نہیں ہے،پیرمحافظ وقت ہوتے ہیں"۔
حواشی:
۱؎سفینتہ الاولیاء(فارسی)صفحہ۱۰۱
۲؎سیرالاقطاب(فارسی)صفحہ۲۱۵
۳؎بستان معرفت صفحہ۸۸
۴؎انوارالعارفین (فارسی)صفحہ ۲۴۹
۵؎سفینتہ الاولیاء(فارسی)صفحہ ۱۰۱
۶؎انوارالعارفین (فارسی)صفحہ۴۵۶
۷؎انوارالعارفین(فارسی)صفحہ ۴۵۶
۸؎سیرالاقطاب(فارسی)صفحہ ۲۱۹
۹؎بستان معرفت صفحہ۹۰تذکرۃ العابدین
۱۰؎اخبارالاخیار(اردوترجمہ)
۱۱؎سیرالاقطاب(فارسی)صفحہ ۲۲۸
۱۲؎رسالہ قدسیہ
۱۳؎مکتوب
۱۴؎سیرالاقطاب(فارسی)صفحہ ۲۲۸
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)