حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی الحنفی
در زکر
احوال حضرت قطب العالم شیخ عبدالقدوس گنگوہی الحنفی، حضرت شیخ جلال الدین تھانیسری، حضرت شیخ نظام الدین تھانیسری بلخی، حضرت شیخ ابو سعید گنگوہی، حضرت شیخ محمد صادق بن شیخ فتح اللہ گنگوہی، حضرت شیخ داؤد گنگوہی، حضرت شیخ سوندہا بن شیخ عبدالمومن سفیدونی اور حضرت شیخ اللہ بخش براسوی جد پدر کاتب الحروف اور حضرت شیخ محمدعلی بن اللہ بخش براسوی جو کاتب الحروف کے والد ہیں قدس اسرارھم۔
یہ اقتباس بھی تین انوار پر مشتمل ہے۔
نور اول
در زکر حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی، شیخ جلال الدین تھانیسری اور حضرت شیخ نظام الدین تھانیسری بلخی،؎
حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی الحنفی
ساقی ضمخانہ اسرار، سر شارِ بادۂ بے خمار، شاہد بزم الانسان سری، ہادی ساکنان بحری وبری، غزالی صحرائے الوہیت، شہباز اقلیم ہویّت، آشنائے رموز وکنایات معراج، سلطان ملک بقا، قطب العالم بیدل، محو توحید، حضرت شیخ عبدالقدوس بن شیخ اسماعیل قدس سرہٗ کا شمار عارفان روزگار اور واصلانِ صاحب اسرار میں ہوتا ہے آپ نہایت علی ہمت، بلند مقام اور صاحب کرامات عالیشان تھے۔ آپ عشق وسماع میں ممتاز تھے۔ اور تمام مشائخ آپکے کمالات پر متفق ہیں۔ تربیت مریدین میں آپ یگانہ روزگار تھے۔ چنانچہ تھوڑی سی توجہ سے آپ ساکنانِ عالم ظلمات وناسوت کو مرتبۂ اطلاق ولاہوت سے واصل کردیتے تھے۔ آپ ابتدائے آخر وقت تک آپ اسم گرامی[1] (عبد قدوس) کے بمقتضاقیودات کثرت سے منزہ مقدس تھے اور وجود کونی (جسد خاکی) سے خلاصی حاصل کر کے دائماً مشاہدہ انوار مقدس و معائینہ فناء احدیت میں مستغرق تھے اور دوست کے مقام ہمرنگی میں یک رنگ ہوکر غیر اور غریت سے اس قدر فارغ ہوچکے تھے کہ آپ کے لوحِ دل پر غیر کا خطرہ سماتا تھا اور نہ زبانِ مبارک پر کثرت کا نام آتا تھا۔ ریاضات مجاہدات میں آپ بایزید و ہر اور فرید عصر تھے۔ بلکہ آپکے احوال و مقامات اس قدر ارفع واعلیٰ تھے کہ کسی اور نسبت دینا بھی صحیں نہیں ہے۔ جس مقام پر کہ سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی سلاکین کو دس سال میں پہنچاتے تھ، حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہٗ کی توجہ سے تین چار سال بلکہ چند یوم میں حاصل ہوجاتا تھا۔ اور جو ولایت کہ حضرت حق تعالیٰ نے آپکو عطا فرمائی تھ ی سرور کائناتﷺ کے زمانۂ مبارک سے لیکر آج تک بہت کم حضرات کو ملی ہے۔ اس حد تک کہ آپکے دھوبی اور سائیس وغیرہ بھی صاحب ولایت تھے۔ جیسا کہ عام مہور ہے۔ حضرت اقدس کی ذات بابرکات کے اندر شان اذاتم الفقر فَھُوَ اللہ (جب فقر تمام کو پہنچتا ہے تو اللہ ہی اللہ رہ جاتا ہے) جلوہ گر تھی۔ عارف مرتبہ گمنامی مولانا عبدالرحمٰن جامی نے مناسب حال فرمایا ہے۔
رفت اور زمیان ہمیں خدا ماند خدا |
|
الفقر اذاتم ھواللہ این است |
(وہ خود درمیان سے غیب ہوگیا اور باقی خدا رہ گیا اس وجہ سے کہ جب فقر نہایت کو پہنچتا ہے تو اللہ ہی اللہ رہ جاتا ہے)
حضرت اقدس کی نسبت اولییہ
حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہٗ کی نسبت اویسی تھی۔ کیونکہ آپ کی تربیت باطنی طور پر حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ کی روحانیت پاک سے ہوئی تھی اور اسکے بعد ظاہری طور پر آپ نے حضرت شیخ محمد بن شیخ عارف بن شیخ احمد عبدالحق قدس اسرارہم سے بیعت کر کے خرقہ خلافت حاصل کیا تھا۔ علاوہ ازیں آپکو دوسرے مشائخ۔ عظام سے بھی خلافت ملی تھی۔ چنانچہ آپکے فرزند ارجمند حضرت شیخ رکن الدین لطائف قدوسی میں فرماتے ہیں کہ حضرت قطب العالم والد بزرگوار من شیخ عبدالقدوس گنگوہی الحنفی کو ہر سلسلہ سے خلافت ملی تھی۔
خلافت سلسلۂ عالیہ چشتیہ صابریہ
سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں خلافت حضرت شیخ درویش بن قاسم اودھی سے حاصل ہوئی۔ سلسلہ چشتیہ نظامیہ میں دوسری خلافت آپکو حضرت میاں شیخ بن حکیم اودھی سے بھی ملی تھی۔
خلافت سلسلہ عالیہ سہروردیہ وقادریہ
سلسلہ عالیہ سہروردیہ شہابیہ اور قادریہ میں بھی آپکو حضرت شیخ درویش بن شیخ قاسم اودھی سے خلافت حاصل تھی۔
ان تمام سلاسل کا ذکر راقم الحروف کے پیر ومرشد حضرت شیخ سوند ہا قدس سرہٗ کے حالات میں آرہا ہے۔
سلسلۂ نسب
حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی کا سلسلۂ نسب حضرت امام ابو حنیفہ قدس سرہٗ سے جا ملتا ہے اور سراج الملت حضرت امام ابو حنیفہ بادشاہ نوشیرواں کسریٰ کی اولاد میں سے تھے، دوسری روایت کے مطابق آپ نوشیرواں کے بھائی کیلوانگ کی اولاد میں سے تھے۔
حضرت شیخ صفی الدین حنفی
مراۃ الاسرار میں آیا ہے کہ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہٗ کے جد ام جد حضرت مخدوم شیخ صفی الدین حنفی تھے۔ جو حضرت شیخ اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہٗ کے اکابر خلفا میں سے تھے۔ اگر چہ شیخ صفی الدین امام ابو حنیفہ کی اولاد میں سے تھے لیکن علم وثقاہت اور کمالات معنوی کے اعتبار سے آپ ابو حنیفہ ثانی تھے۔ چنانچہ آپکے کمالات کا مشاہدہ آپکی تصانیف میں کیا جاسکتا ہے۔ حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہٗ فرمایا کرتے تھے کہ ملک ہندوستان میں اگر میں نے کسی کو فنون غرائب اور فنونِ عجائب سےمزین دیکھا ہے تو وہ برادرم شیخ صفی الدین حنفی ہیں۔ آپکے مرید ہونے کا واقعہ یہ ہے کہ ایک رات حضرت خضر نے آپکی ایک کتاب کو دیکھ کر فرمایا کہ مجھے معلوم ہے کہ تم نے بہت ورق سیاہ کیے ہیں اب ورق سفید کرنے کا وقت آگیا ہے اور صحیفۂ دل کو انوار جاوید سے روشن کرو۔ اس بات نے آپ کے دل میں گھر کرلیا اور ایسی حالت طاری ہوئی کہ بے اختیار ہوکر بیعت کی درخواست کی۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا میں تجھے بشارت دیتا ہوں کہ ایک ایسا جوان مرد کہ جسکے انورِ ولایت اور آچار ہدایت سے سارا جہاں پُر ہے آج کل تمہارے اسی قصبہ میں آنے والا ہے۔ چنانچہ چند ایام میں میر سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہٗ قصبہ ردولی میں تشریف لائے اور جامع مسجد میں قیام فرمایا۔ حضرت شیخ صفی الدین جو اس سعادت کے منتظر تھے حاضر خدمت ہوئے انکو دیکھ کر حضرت شیخ نے فرمایا بردرم صفی الدین تم صفائے قلب لائے ہو اب آؤ اور نعمت حاصل کرو۔ اسکے بعد فرمایا کہ جب حق تعالیٰ چاہتے ہیں کہ کسی کو اپنے قرب سے سر فراز فرمادیں تو حضرت خضر علیہ السلام کے ذریعے اسے اشارہ کردیتے ہیں۔ یہ بات سنکر حضرت شیخ صفی الدین کے دل میں ان کے متعلق اعتقاد اور بھی زیادہ قوی ہوا۔ اور اُسی وقت مرید ہوگئے۔ حضرت شیخ نے تھوڑی سی مصری اٹھاکر ان کے منہ میں ڈالی اور دعا کی کہ حصول نور الانوار مبارک ہو میں نے حق تعالیٰ سے درخواست کی ہے کہ تمہاری اولاد سے علم نہ جائے۔ چنانچہ حضرت شیخ نے انکی تکمیل و تربیت کیلئے چالیس دن وہاں قیام فرمایا اور آخر خرقۂ خلافت سے مشرف فرماکر دولت ازلی وابدی سے مالا مال کیا اس وقت حضرت شیخ صفی الدین کے فرزند شیخ اسماعیل کی عمر چالیس دن تھی۔ شیخ صفی الدین نے بچے کو اٹھاکر حضرت شیخ جہانگیر سمنانی قدس سرہٗ کے قدموں میں ڈال دیا حضرت شیخ نے فرمایا میں نے اس کو بھی قبول کیا۔ اور یہ ہمارا مرید ہے۔ اس کے بعد حضرت شیخ اشرف جہانگیر سمنانی حضرت شیخ صفی الدین کو ردولیش ریف میں مسند خلافت پر بٹھاکر اودھ تشریف لے گئے۔ غرضیکہ حضرت شیخ صفی الدین قدس سرہٗ نے باکمال بزرگ تھے۔ اور اپنے بیٹے حضرت شیخ اسماعیل کو مسندِ خلافت پر متمکن کر کے عالم بقا کی طرف رحلت کر گئے اور قصبہ ردولی میں دفن ہوئے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
حضرت شیخ اسماعیل بن شیخ صفی الدین کی حضرت شیخ احمد عبدالحق سے ملاقات
مراۃ الاسرار میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ ظاہر وباطنی سفر کے بعد قصبہ ردولی شریف میں تشریف لائے اور مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد آپکا شہرۂ آفاق میں بلند ہوا تو حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے والد ماجد حضرت شیخ اسماعیل بن شیخ صفی الدین نے آپکی خدمت میں حاضر ہوکر تربیت کی درخواست کی۔ تو حضرت شیخ احمد عبدالحق نے فرمایا کہ تمہارے لیے شیخ صفی الدین کی تربیت کافی ہے۔ لیکن تمہاری پشت سے ایک ایسا فرزند پیدا ہوگا۔ جو سفید نوری ہوگا اور ہماری نعمت اسکو ملے گی۔ اگر چہ حضرت شیخ صفی الدین کے تمام بیٹے دولت علم و فضل سے مالا مال تھے لیکن وہ نعمت جسکا وعدہ حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ نے فرمایا تھا حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی کو نصیب ہوئی۔
حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی کی ولادت حضرت شیخ احمد عبدالحق کے وصال کے بعد ہوئی۔ جب آپ سن تمیز کو پہنچے تو حضرت شیخ عارف بن مخدوم احمد عبدالحق بھی وصال فرماچکے ت ھے۔ چونکہ حضرت شیخ محمد بن شیخ عارف حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے ہم عمر تھے اس لیے انکا اعتقاد حضرت شیخ محمد پر نہیں جمتا تھا۔ اور آپکے دل میں حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ کی محبت غالب تھی۔ اس وجہ سے انہوں نے حضرت اقدس کے روضہ مبارک کی جاروب کشی اختیار کرلی۔ ایک رات کتابِ کافیہ ہاتھ میں لیے حضرت اقدس کے روضہ مبارک پر حاضر ہوئے تو مزار مبارک سے حق حق حق کی آواز آنے لگی۔ اس سے آپ بیخود ہوکر گر پڑے۔ اور اس بیخودی کی حالت میں نعمت ازلی وابدی نصیب ہوئی۔ اسکے بعد فرمان ہوا کہ اپنے دل کی تختی کو علم حجاب الاکبر (علم سب سے بڑا حجاب ہے) سے سیاہ مت کرو اور اصلی کام میں مشغول ہوجاؤ۔ اس روز سے آپ حضرت شیخ کے محرم راز ہوگئے کتاب کا پڑھنا ترک کردیا۔ اور پوری ہمت شغل باطن میں صرف کردی۔ حضرت شیخ احمد عبدالحق کی باطنی تربیت کے ساتھ آپکو حضرت شیخ پیارہ کی ظاہری صحبت بھی نصیب ہوئی اور حقائق و معارف سے اگاہ ہی حاصل ہوئی۔ حضرت شیخ احمد عبدالحق کی روحانیت آپکی طرف اس حد تک متوجہ تھی کہ ہمیشہ آخر شب آپکو بیدار کر کے نماز تہجد کا حکم دیا جاتا تھےا۔ اگر کسی وقت آپ اپنے والدین کے گھر جاتے یا کسی اور کام میں مشغول ہوتے تو فوراً حق حق حق ی آواز آپکے کانوں میں آنا شروع ہوجاتی تھی جس سے متنبہ ہوکر آپ حضرت اقدس کے آستانہ پر حاضر ہوجاتے تھے اور شغل اصلی میں مشغول ہوجاتے تھے۔
آواز حق حق کی راہنمائی
حضرت قطب العالم شیخ عبدالقدوس گنگوہی انوار العیون میں فرماتے ہیں کہ اسم حق کی آواز حضرت شیخ احمد عبدالحق کےتمام مریدین کو خانقاہ معلیٰ میں عالم غیب سے سنائی دیتی ہے اور ہر شخص کو یہ مشاہدہ ہوتا تھا۔ اس حد تک کہ ایک رات یہ فقیر اپنی والدہکے پاس چارپائی پر بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک حق حق حق کی آواز غربی جانب سے آنا شروع ہوئی۔ کچھ دیر کے بعد یہ آواز دوسرے لوگ بھی بیدار تھے۔ کچھ دیر کے بعد پھر آواز حق حق حق شمال کی طرف سے آنا شروع ہوئی اور تمام لوگوں نے سُنی۔ میں نے اِدھر اُدھر دیکھا لیکن گھر کے ن زدیک کسی کسی کو نہ پایا۔ یہ تقریباً آدھی رات کا وقت تھا۔ میں نے والدہ صاحبہ سے عرض کیا مجھے معاف کیجئے میرا کام میرے ہاتھ میں نہیں ہے۔ مجھے خدا کے سپرد کردیں کیونکہ حضرت شیخ احمد عبدالحق کی ولایت مجھے کسی اور کام میں مشغول نہیں ہونے دیتی۔ اسکے بعد میری والدہ نے مجھے رضا ورغبت سے راہ حق میں جانے کی اجازت دیدی۔ اس وقت سے میرا قدم راہ حق میں مضبوط ہوگیا۔
حضرت شیخ رکن الدین ابن شیخ عبدالقدوس گنگوہی لطائف میں فرماتے ہیں کہ جب میرے والد بزرگوار نے اپنے دادا شیخ صفی الدین کے چچا زاد بھائی حضرت شیخ فخر الدین قدس کے متعلق سنا کہ انہوں نے پچاس سال تک پانی نہ پیا توآپ نے بھی پانی پینا ترک کردیا۔ اس زمانے میں آپ مدرسہ میں قرآن مجید پڑھتے تھے۔ جب بارہ دن گذر گئے اور پانی کا ایک قطرہ تک حلق میں نہ گیا تو سارا جسم زرد ہوگیا۔ بڑے بھائی نے پوچھا کہ کس وجہ سے تمہارا رنگ زرد ہورہا ہے تو آپ نے کوئی جواب نہ دیا اس خوف سے کہ راز فاش نہ ہوجائے آپ نے پانی پینا شروع کردیا۔
[1] ۔ قدوس اسم الٰہی ہے جسکے معنی ہیں پاک کرنے والا۔ اس اسم مبارک کے طفیل آپ تقیدات کثرت سے پاک ومنزہ تھے۔
(قتباس الانوار)