حضرت علامہ مولانا سیّد شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
نام ونسب:اسمِ گرامی: اسمِ گرامی: شاہ تراب الحق۔آپ کانام ایک عظیم بزرگ حضرت ’’شاہ تراب الحق‘‘ علیہ الرحمۃکے نام پر رکھا گیا، جن کا مزار حید آباد دکن ہندوستان میں ہے۔ سلسلۂ نسب اس طرح ہے: حضرت سیّدشاہ تراب الحق قادری بن حضرت سیّد شاہ حسین قادری بن سیّد شاہ محی الدین قادری بن سیّد شاہ عبداللہ قادری بن سیّد شاہ میراں قادری اور والدۂ ماجد کی طرف سے آٓپ کا سلسلۂ نسب فضیلت جنگ، بانیِ جامعہ نظامیہ حیدرآباددکن،شیخ الاسلام حضرت امام انواراللہ فاروقی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے واسطے سے امیرالمؤمنین حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جا کرملتاہے۔(رحمۃ اللہ علیہم اجمعین)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادتِ باسعادت 27؍رمضان المبارک 1363ھ/15؍ستمبر1944ء کو موضع کلمبر شہرناندھیڑ(ریاست حیدرآباددکن،انڈیا)میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: ابتدائی تعلیم مدرسۂ تحتانیہ دودھ بولی بیرون دروازہ نزد جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن ہندوستان سے حاصل کی۔ پاکستان تشریف آوری کے بعد پی آئی بی کالونی کراچی میں فیضِ عام ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے رشتے کے خالو اور سسر پیر ِطریقت رہبرِ شریعت حضرت علامہ قاری محمد مصلح الدین صدّیقی علیہ الرحمۃ سے گھر پر کتابیں پڑھیں اور پھر دارالعلوم امجدیہ کراچی میں داخلہ لیا؛ لیکن زیادہ تر اَسباق شیخِِ طریقت حضرت علامہ مولانا قاری محمد مصلح الدین صدّیقی رضوی علیہ الرحمۃ سے پڑھے۔ سندِ حدیث صدر الشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ کے صاحبزادے حضرت علامہ مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری علیہ الرحمۃ، جو اُس وقت دارالعلوم امجدیہ کراچی کے شیخ الحدیث تھے،سےحاصل کی، جب کہ اعزازی سند وقارِ ملّت، سرمایۂ اہلِ سنّت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد وقار الدین قادری رضوی علیہ الرحمۃ (مفتیِ اعظم پاکستان)سے حاصل کی۔
بیعت وخلافت: 1962ء میں بذریعۂ خط اور 1968ء میں بریلی شریف جاکرمفتیِ اعظم ہند حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مصطفیٰ رضا خاں علیہ الرحمۃ کے دستِ حق پرست پر سلسلۂ عالیہ قادریہ میں بیعت کا شرف حاصل کیا۔حضرت مفتیِ اعظم ہند، حضرت قاری محمد مصلح الدین صدّیقی ،حضرت شیخ فضل الرحمٰن مدنی(علیھم الرحمۃ) نے اجازت وخلافت سے نوازا۔
سیرت وخصائص: بقیۃ السلف،حجۃ الخلف، شیخِ طریقت ،امیرِ جماعتِ اہلِ سنّت،مردِ مومن مردِحق حضرت علامہ سیّدشاہ تراب الحق قادری رضوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔آپ علیہ الرحمۃ کانام جیسے ہی ذہن میں آتاہے،توایک جامعِ شریعت وطریقت شخصیت کا خاکہ ہمارے سامنے آجاتاہے، جن کی زندگی کوتامل کیے بغیرایک مردِ مجاہداورمردِ مومن کی زندگی قراردیاجاسکتا ہے۔ آپ علیہ الرحمۃ اِن حالات میں اہلِ سنّت کےلیے ایک شجرِسایہ داراورعظیم نعمت تھے۔آپ بلاشبہ مسلکِ حق اہلِ سنّت وجماعت کےسچے ترجمان،اور تعلیماتِ اعلیٰ حضرت کےپاسبان تھے۔ دینی خدمات، تنظیماتِ اہلِ سنّت اورمساجد ومدارسِ اہلِ سنّت کی سرپرستی،متوسّلین کاتزکیۂ نفس،عوامِ اہلِ سنّت کےایمان کی حفاظت کےلیے درس و بیان، دُکھیاری اُمّت کاروحانی وجسمانی علاج اور ان کے مسائل کاحل، اندرون و بیرونِ ملک تبلیغی دورے، پھرمصروفیات میں سے وقت نکال کر تالیف وتصنیف، بدمذہبوں کااخبارات وجرائدمیں علمی تعاقب، یہ سب کچھ، اِس پُرفتن اورنفسا نفسی کے دور میں قبلہ شاہ صاحب علیہ الرحمۃ کی ذاتِ مبارکہ کاخاصّہ تھا، جواتنے کام فی سبیل اللہ سرانجام دیتے تھے۔ آپ ’’عُلَمَآءُ اُمَّتِیْ کَاَنۡۢبِیَآءِ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْل‘‘ کامِصداق اور ’’اِنَّمَا یَخْشَی اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا‘‘ کی تعبیراور’’اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ‘‘ کی تفسیر تھے۔حضرت خطابت میں اپنی مثال آپ تھے۔مخصوص اندازولہجے میں جب بیان فرماتے تو دل و دماغ منوّر ہو جاتے تھے۔آپ کی دینی و سیاسی خدمات کوہمیشہ یاد رکھا جائے گا، بالخصوص
“C-295” کے تحت گستاخِ رسولﷺکی سزائےموت آپ کاایک عظیم کارنامہ ہے۔ (ویسے تو ہمارے کرپٹ حکمران ’’قانون‘‘، ’’قانون‘‘ کہتے ہوئے تھکتے نہیں ہیں؛ لیکن اس قانون پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہواہے، اِس وقت(2016ء) تک تقریباً 1400کیسز توہینِ رسالت کے درج کیے گئے، عدالتوں کےپاس ثبوت بھی موجود ہیں، لیکن کسی کوسزائے موت نہیں ملی۔ اگر معاملات ایسے ہی چلتے رہے، تو حکمرانوں کے ذہن میں غازیِ ملّت ملک ممتازحسین قادری شہیدعلیہ الرحمۃ کا ضرورتصورہوناچاہیے کہ ناموسِ رسالت کے مسئلےپر ہر سنّی ممتاز قادری ہے)۔ اِس فقیر(تونسوی غُفِرَلَہٗ)نے اپنی آنکھوں سے دیکھاکہ جب جامع مسجداقصیٰ نزد عوامی مرکز میں تحفّظِ ناموسِ مصطفیٰﷺ کےسلسلے میں ’’علما کنونشن‘‘ منعقد ہوا، اُس وقت شاہ صاحب نہایت علیل تھے، لیکن شاہ صاحب نے علالت کے باوجود شرکت فرمائی، اورخطاب فرمایا،اورآپ کی جرأت وشجاعت اور دینِ متین کےلیے کُڑھن دیکھ کر سب حیران ہوگئے۔ آپ کا جسم تو عمراورعلالت کی وجہ سے نہایت ہی کمزور ہوگیا تھا، لیکن عشق جوان اورتوانا تھا۔یہی عشقِ مصطفیٰ ﷺہی ہمارا سرمایۂ حیات ہے۔ آپ ساری زندگی اتحاد اورفروغِ اہلِ سنّت کےلیے کوشاں رہے، اور اتحادِ اہلِ سنّت کے ارمان لیے شہرِِ خموشاں کی طرف روانہ ہوئے۔ ہمیں اپنے اکابرین کےنقشِ قدم پرچلتے ہوئےدینِ متین کی خدمت اور اتحادِ اہلِ سنّت کےلیے کوشش کرنی چاہیے۔
وصال: آپ کاوصال بروز جمعرات، 4؍ محرم الحرام1438ھ مطابق 6؍ اکتوبر2016ء کو ہوا۔ آپ کے نمازِ جنازہ میں کثیر افراد شریک ہوئے۔کراچی کی تاریخ کاایک بہت بڑا نمازِ جنازہ تھا۔آپ کی تدفین پیرِ طریقت حضرت علامہ قاری محمد مصلح الدین علیہ الرحمۃ کے مزار (واقع مصلح ا لدین گارڈن، کراچی) میں ہوئی۔
ماخذومراجع: ’’سیّد شاہ تراب الحق قادری کی شخصیت وخدمات‘‘؛ ماہ نامہ ’’مصلح الدین، کراچی‘‘ (خصوصی شمارہ، عرفانِ منزل ۲‘‘)