حیات و شخصیت

حیات و شخصیت

از: حضرت علامہ مفتی محمد عطاء اﷲ نعیمی

(رئیس دارالافتاء، جمعیت اشاعتِ اہلِ سنّت)

______________________________________________________

 

زندہ قومیں اپنے محسنین کو یاد رکھتی ہیں اور اُن کی تابندہ درخشندہ زندگی سے ضیا حاصل کرتی ہیں، ان کی کاوشوں، کوششوں، دینِ متین کے لیے ان کی قربانیوں کا مطالعہ کرکے اپنی سستیوں اور کوتاہیوں کو زائل کرتی ہیں، ان کی تحریریں پڑھ کر اپنی اصلاح کا سامان کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم حضرات اسلاف کے حالات قلم بند کرنے کا اہتما م کرتے آئے ہیں۔ اسمائے رجال و تراجم کے عنوان سے لکھی گئیں کتب اس پر شاہد عادل ہیں، پھر مشاہدہ یہ ہے کہ جن جن محدثین، فقہا، علما، صوفیا، کے تذکرے نہ لکھے گئے ان کی تحریریں اگر آج موجود بھی ہیں یا ان صوفیا کے سلسہ ہائے طریقت اگر آج بھی چل رہے ہیں، باوجود اس کے خود ان کی تحریروں کو پڑھنے والے یا ان کے سلسلے سے وابستگان ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے، بسا اوقات ایسی کتب بھی دکھائی دیتی ہیں جن کے بارے میں تحقیق کرنے والے آج تک وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ فلاں کی تصنیف ہے۔

بعض ایسی کتب بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں جو اپنے موضوع پر اکمل اور لکھنے والے کی اس فن میں مہارت کی خبر دیتی ہیں مگر لکھنے والا کون… کس کا بیٹا… کس خاندان، قوم و قبیلہ سے تعلق… کس علاقے کا رہنے والا… کہاں پیدا ہوا… کہاں پرورش پائی… حصولِ علم اور ترویج و اشاعتِ دین کی خاطر کتنے اور کہاں کہاں سفر کیے… کن شخصیات سے اکتسابِ فیض کیا… کن لوگوں نے اس کے سامنے زانوئے تلمذ خم کیے… کب اور کہاں داعیِ اجل کو لبیک کہا… اور کیا کیا علمی، روحانی ورثہ چھوڑ کر گیا… کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا۔

لہٰذا، علما و مشائخ کے حالاتِ زندگی اور ان کے دینی و ملی کارناموں پر تحریری کام ہونا ایک ضروری امر ہے۔ علما ومشائخ میں سے جو حیات ہیں یا وفات فرماگئے اگر متعلقین کے تعاون سے حالات و واقعات و معاشرتی سرگرمیوں کو قلم بند کرنے کا اہتمام نہ کیا گیا تو یہ اہلِ سنّت و جماعت کا بہت بڑا نقصان ہوگا جس کے ازالے کی پھر کوئی صورت نہ ہوگی۔ بزرگانِ دین عجز و انکساری کے پیشِ نظر اپنے حالات و واقعات کو ضبطِ تحریر پر رضامندی کا اظہار نہیں فرماتے۔

چناں چہ سلسلۂ عالیہ قادریہ نقشبندیہ (سندھ) کے ایک بزرگ قطبِ وقت منبعِ جود و سخا پیرِ طریقت الٰہی بخش میندھرو علیہ الرحمۃ سے جب حالاتِ زندگی لکھنے کے لیے کچھ پوچھا جاتا تو آپ یوں ارشاد فرماتے:

’’مٹّی تھا، مٹّی ہوں اور مٹّی ہوجاؤں گا۔‘‘

ایسی صورت میں متعلقین کا کام ہے کہ وہ بزرگوں کے حالات لکھنے کا اہتمام کریں، یا لکھنے والوں سے تعاون کریں اور انہیں معلومات بہم پہنچائیں۔

مجھے جن کے حالاتِ زندگی اور تاثّرات جمع کرنے کا موقع نصیب ہوا ہے، وہ خاندانِ اہلِ بیت کے چشم و چراغ، جماعتِ اہلِ سنّت کے روحِ رواں، مسلکِ اعلیٰ حضرت کے نقیب، میدانِ خطابت کے شہسوار، متعدد کتب کے مصنّف، یادگارِ سلف، افتخارِ خلف، پیرِ طریقت، رہبر ِشریعت حضرت علامہ سیّد شاہ تراب الحق قادری  علیہ الرحمۃ، جو سچے عاشقِ رسولﷺ، سچے محبّ وطن، نہایت فعال، نہایت بیدار مغز، وسیع النظر، معاملہ فہم، فراست و بصیرت، حکمت و تدبر سے کام لینے والے، جرأت و ہمت اور شجاعت کی خوبیوں سے آراستہ، عظیم مبلغ اسلام ہیں۔ آپ کی راست بازی اور حق گوئی مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ایسی ذاتِ ستودہ صفات کے حالات و واقعات کو قلمبند کرنا مجھ جیسے انسان کے لیے آسان نہیں مگر کچھ ایسے دوستوں کا حکم ہے کہ جن کو ٹالنا میرے لیے مشکل ہے۔

ولادت:

۲۷؍ ماہ رمضان سن ۱۳۶۳ھ

آپ قیامِ پاکستان سے  تین سال قبل ۱۹۴۴ء میں ماہِ رمضان کی 27؍ تاریخ  کو ہندوستان کی اُس وقت کی ایک ریاست حیدرآباد دکن کے ایک شہر ناندھیڑ کے مضافات میں موضع کلمبر میں پیدا ہوئے۔

نسب:

آپ کے والدِ ماجد کا نام حضرت سیّد شاہ حسین قادری بن سیّد شاہ محی الدین قادری بن سیّد شاہ عبداﷲ قادری بن سیّد شاہ میراں قادری تھا اور آپ کی والدۂ ماجدہ کا نام اکبر النساء بیگم تھا اور آپ والدِ ماجد کی طرف سے سیّد ہیں اور والدۂ ماجدہ کی طرف سے فاروقی ہیں یعنی سلسلۂ نسب امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ اپنے وقت کے جیّد عالم، مدیر المہام اُمورِ مذہبی حیدرآباد دکن حضرت علامہ مولانا اَنوار اﷲ خاں صاحب فاروقی علیہ الرحمۃ سے آپ کا ننھیال ہے۔ حضرت علامہ مولانا اَنوار اﷲ خاں صاحب ایک متبحر عالمِ دین تھے، جن کی تبحرِ علمی کا اندازہ اُن کی تصانیف: ’’کتاب العقل‘‘ اور ’’مقاصد الاسلام‘‘ کے مطالعے سے لگایا جاسکتا ہے۔

پاکستان آمد:

تقسیمِ ہند، سقوطِ حیدرآباد دکن کے بعد 1951ء میں ہندوستان سے ہجرت فرما کر پاکستان تشریف لائے۔ سقوطِ حیدرآباد دکن میں آپ کے تایا محترم سیّد شاہ امیر اﷲ قادری کو شہید کردیا گیا تھا اور پاکستان تشریف لاکر آپ نے کراچی میں قیام فرمایا۔ کچھ عرصہ پی آئی بی کالونی میں، پی آئی بی کے قریب لیاقت بستی نامی آبادی میں رہے۔ اِس کے بعدکورنگی منتقل ہوگئے۔

تعلیم:

ابتدائی تعلیم مدرسۂتحتانیہ دودھ بولی بیرون دروازہ نزد جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن میں حاصل کی۔ پاکستان آنے کے بعد پی آئی بی کالونی (کراچی) میں قیام کے دوران ’’فیضِ عام ہائی اسکول‘‘ میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے رشتے کے خالو اور سسر پیرِ طریقت رہبر شریعت ولیِ نعمت قاری مصلح الدین صدّیقی علیہ الرحمۃ سے گھر پر کتابیں پڑھیں، پھر ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ میں داخلہ لے لیا جہاں زیادہ تر اسباق قاری صاحب علیہ الرحمۃ کے پاس پڑھے اور سندِ حدیث صدر الشریعۃ بدر الطریقہ حضرت علامہ امجد علی اعظمی (متوفّٰی۱۳۶۷ھ) علیہ الرحمۃ کے صاحبزادے شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری علیہ الرحمۃ سے حاصل کی، جو اُس وقت ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کے شیخ الحدیث تھے؛ جب کہ اعزازی سند وقار الملّت سرمایۂ اہلِ سنّت حضرت علامہ مفتی محمد وقار الدین قادری رضوی حنفی علیہ الرحمۃ سے حاصل کی، جو اُس وقت ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کراچی کی مَسندِ  اِفتاء پر فائز تھے۔

شادی خانہ آبادی:

آپ کا نکاح 1966ء میں پیرِ طریقت، ولیِ نعمت حضرت علامہ قاری محمد مصلح الدین صدّیقی علیہ الرحمۃ کی دخترِ نیک اختر سے ہوا، جس سے اﷲ تعالیٰ نے تین فرزند سیّد شاہ سراج الحق، سیّد شاہ عبدالحق اور سیّد شاہ فرید الحق اور چھ بیٹیاں عطا ہوئیں جن میں سے ایک کا تین سال کی عمر میں ہی وصال ہوگیا۔ باقی الحمد للہ بقیدِ حیات ہیں۔

آپ کے بڑے صاحبزادے سیّد شاہ سراج الحق نے درسِ نظامی کی اکثر کتب کا سبقاً سبقاً مطالعہ کرنے کے بعد موقوف کردیا جب کہ منجھلے صاحبزادے سیّد شاہ عبدالحق قادری نے بِفَضْلِہٖ تَعَالٰی ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ سے سندِ فراغت حاصل کی۔ اُن کے بارے میں حضرت سیّد شاہ تراب الحق قادری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

’’جب سیّد عبدالحق کی پیدائش ہوئی تو پیرِ طریقت حضرت علامہ قاری مصلح الدین علیہ الرحمۃ نے فقیر سے فرمایا کہ اِن کا نام محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی کی نسبت سے ’’شاہ عبدالحق‘‘ رکھو۔ شاید عالمِ دین بن جائے؛ لہٰذا، قاری صاحب علیہ الرحمۃ کے ارشاد کے مطابق شاہ عبدالحق رکھا گیا۔ خدا کا کرنا دیکھیے یہی بیٹا میرا عالمِ دین بنا۔‘‘

الحمدللہ! موصوف عالمِ دین ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے مقرر بھی ہیں اور اپنے والدِ بزرگوار کی جگہ اکثر آپ ہی وعظ فرمانے تشریف لے جاتے ہیں۔ حضرت کے قائم کردہ دینی ادارے ’’دارالعلوم مصلح الدین‘‘ کا انتظام بھی انھی کے سپرد ہے اور ’’اخوند مسجد‘‘ کھارادر میں خطابت کے فرائض بھی انجام دیتے  رہے اور اب پچھلے کچھ سالوں سے حضرت قبلہ شاہ صاحب علیہ الرحمۃ کی جگہ میمن مسجد مصلح الدین گارڈن میں خطابت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ چھوٹے صاحبزادے سیّد شاہ فرید الحق قادری اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ شاہزادیوں میں آپ کی چھوٹی لختِ جگر بھی عالمہ ہیں۔

شرفِ بیعت:

۱۹۶۲ء میں بذریعۂ خط اور ۱۹۶۸ء میں بریلی شریف حاضر ہوکر امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا محدث بریلوی (متوفّٰی ۱۳۴۰ھ) کے چھوٹے فرزند مفتیِ اعظمِ ہند حضرت علامہ مولانا مصطفیٰ رضا خاں صاحب کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔ اُس سفر میں آپ تیرہ روز حضور مفتیِ اعظمِ ہند علیہ الرحمۃ کے دولت خانے پر قیام پذیر رہے اور آپ سے تعویذات کی تربیت اور اجازت بھی حاصل کی۔ اسی دوران ’’مسجدِ رضا‘‘ میں نمازوں میں امامت فرماتے اور حضور مفتیِ اعظمِ ہند علیہ الرحمۃ اُن کی اقتداء میں نمازیں ادا فرماتے، نیز کئی جلسوں میں حضور مفتیِ اعظمِ ہند علیہ الرحمۃ کی موجودگی میں تقریر فرمائی اور دادِ تحسین حاصل کی۔

خلافت:

سلسلۂ عالیہ قادریہ، برکاتیہ، اشرفیہ، شاذلیہ، منوّریہ، معمریہ اور دیگر تمام سلاسل میں آپ کو اپنے پیر حضور مفتیِ اعظمِ ہند علیہ الرحمۃ، اپنے استاد و سسر پیرِ طریقت حضرت علامہ قاری مصلح الدین علیہ الرحمۃ اور قطبِ مدینہ شیخِ عرب و عجم حضرت علامہ مولانا ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمۃ کے صاحبزادے زینت العلماء مولانا فضل الرحمٰن مدنی علیہ الرحمۃ سے خلافت و اجازت حاصل کی۔ ’’ماہ نامہ مصلح الدین‘‘ کی اشاعتِ خاص  ’’مصلح الدین نمبر‘‘ (اگست ۲۰۰۲/ جمادی الاخر ۱۲۲۳ھ) کے صفحہ ۶۵ میں ہے کہ قبلہ قاری صاحب علیہ الرحمۃ نے مورخہ ۲۷؍ جمادی الاخریٰ۱۴۰۲ھ بمطابق ۲۲؍ اپریل ۱۹۸۲ء بروزِ جمعرات بعد ِنمازِ عشا بمقام میمن مسجد مصلح الدین گارڈن بتقریبِ خرقۂ خلافت سند اجازت اور محفل نعت بروانگیِ عمرہ، حاضریِ دربارِ مدینہ میں حضرت علامہ سیّد شاہ تراب الحق قادری صاحب کو سندِ خلافت اور اجازت ِبیعت عطا فرمائی۔

اس سے قبل جب آپ 1977ء میں تبلیغی دورے پر نیروبی (کینیا) تشریف لے گئے، واپسی پر فریضۂ حج ادا فرمایا۔ اُسی سفرِ حرمین شریفین میں ضیاء الملّت والدین حضرت علامہ مولانا ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمۃ کی صحبت میں کئی روز تک رہنے کی سعادت حاصل ہوئی۔

امامت و خطابت:

1965ء تا 1970ء چھ سال ’’محمدی مسجد‘‘ کورنگی کراچی میں اور 1970ء تا 1982ء بارہ سال ’’اخوند مسجد‘‘ کھارادر کراچی میں امامت و خطابت فرماتے رہے، پھر جب 1983ء میں آپ کے اُستاد و سسر قاری مصلح الدین علیہ الرحمۃ (جوکہ اپنی نیابت و خلافت آپ کو پہلے ہی عنایت فرماچکے تھے) نے اپنے وصال سے دو ماہ قبل ’’میمن مسجد‘‘ مصلح الدین گارڈن سابقہ کھوڑی گارڈن کراچی کی امامت و خطابت آپ کے سپرد فرمائی۔ اُس وقت سے تقریباً ۲۰۱۲ء تک مسلسل ۳۰ سال آپ نے میمن مسجد مصلح الدین گارڈن میں باقاعدہ امامت و خطابت کی خدمات انجام دیں ہیں۔

جس وقت ’’اخوند مسجد‘‘ کھارادر کراچی میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دے رہے تھے، اُس وقت نوجوانوں کی خاصی تعداد آپ کے حلقۂ درس میں شامل ہوئی اور کئی تنظیمیں قائم ہوئیں، جن میں سنّی باب الاشاعت، تحریکِ عوامِ اہلِ سنّت، انجمن اشاعت الاسلام، جمعیتِ اشاعتِ اہلِ سنّت ، حقوقِ اہلِ سنّت اور دعوتِ اسلامی  وغیرہا مَعرضِ وجود میں آئیں۔

تقاریر:

تقاریر کا سلسلہ آپ نے 1962ء میں شروع کیا جب کہ آپ ابھی طالبِ علم تھے، فراغت کے بعد مادرِ علمی ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کراچی سے مبلغ کے طور پر خدمات انجام دیں، ہر جلسے میں ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کی جانب سے خطیب کے طور پر جانے جاتے تھے۔ وہ ایسا دور تھا کہ آپ ایک دن میں بارہ بارہ تقاریر بھی کرتے تھے۔

وہ دور جب مولوی احتشام الحق تھانوی نے سرکاری و نجی دفاتر میں ہونے والے میلاد شریف کے جلسوں میں اپنا سکہ بٹھا دیا تھا۔ اُس وقت حضرت نے اپنی مصروفیات کے باوجود سرکاری، نیم سرکاری ونجی اداروں، بینکوں اور دیگر دفاتر میں ہونے والے میلاد شریف کے جلسوں میں جاکر مسلکِ حق اہلِ سنّت کے فروغ کے لیے تبلیغ فرمائی اور اس کا سلسلہ اڑتیس سال سے زائد عرصے تک چلتا رہا پھر آپ نے طبیعت کی ناسازی اور مصروفیت کی زیادتی کی بنا پر تقاریر کا سلسلہ تقریباً موقوف کردیا۔ پھر صرف جہاں جانا نہایت ضروری ہوتا ہے، وہیں تقریر کے لیے تشریف لے جاتے  تھے۔ آخری کچھ سالوں میں علالت کی وجہ سے جلسوں پر اکثر اپنے فرزندِ ارجمند حضرت علامہ مولانا سیّد شاہ عبدالحق قادری مدظلہ کو بھیج دیتے۔

مُناظرے:

آپ نے کئی مُناظرے بھی کیے ہیں جن میں سے ایک مشہور مُناظرہ ’’دارالعلوم کورنگی کراچی‘‘ کے ایک مولوی ’’محمد فاضل‘‘ سے ہوا، جس میں آپ کے ساتھ مفتیِ اعظمِ سندھ مفتی محمد عبداﷲ نعیمی شہید علیہ الرحمۃ صدر مُناظِر تھے۔ نیز ایک مناظرہ ’’حزب اﷲ کراچی‘‘ کے سربراہ گستاخِ اولیاء ڈاکٹر کمال عثمانی سے ہوا، جس میں ڈاکٹر عثمانی ہار گیا۔ باوجود شکست کے اپنی دائمی شقاوت کے سبب یہ لوگ تائب نہ ہوئے۔

1980ء میں روزنامہ جنگ کے جمعۃ المبارک ایڈیشن میں عنوان ’’آپ کے مسائل اور اُن کا حل‘‘ کے تحت مولوی یوسف لدھیانوی نے ایک سوال کے جواب میں لکھ دیا کہ قبروں پر پھول ڈالنا ناجائز ہے تو آپ نے اُس کا تعاقب کیا اور اُس کا جواب لکھ کر اگلے جمعہ کے اخبار میں شائع کرایا۔ اِس طرح دو سے تین ماہ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ آخرِکار جنگ اخبار کے ایڈیٹر نے معذرت کرکے اس کی اشاعت بند کردی، لیکن مولوی یوسف لدھیانوی نے بددیانتی یہ کی کہ جنگ اخبار میں دیے گئے جوابات کو جب ’’اختلافِ اُمّت اور صراطِ مستقیم‘‘ کے نام سے کتابی شکل دی گئی تو قبر پر پھول ڈالنے والے مسئلےمیں صرف اپنے جوابات شائع کیے اور حضرت کے جوابات کو شائع نہیں کیا۔

بیرونِ مُلک تبلیغ:

دینِ متین کی تبلیغ و اشاعت میں آپ نے بھرپور حصّہ لیا۔ اپنی تقاریر اور مواعظِ حسنہ کے ذریعے کونے کونے میں اسلام کی دعوت کو عام کیا۔ یہ سلسلہ 1977ء سے شروع ہوا، جب آپ نے پہلا دورہ نیروبی کینیا کا فرمایا اور لوگوں کی دعوت پر کئی بار عرب امارات، سری لنکا، بھارت، بنگلہ دیش، برطانیہ، ہالینڈ، جرمنی، بیلجیم، امریکہ، ساؤتھ افریقہ، کینیا، تنزانیہ، زمبابوے، عراق، زنزیبار، زمبیا، فرانس، اُردن اور مصر تشریف لے گئے اور سرکاری وفد کے رکن کی حیثیت سے آپ نے اُس وقت کے وزیرِاعظم محمد خان جونیجو مرحوم کے ہمراہ عوامی جمہوریہ چین کا دورہ کیا اور ’’کنزالایمان‘‘ اور اہلِ سنّت و جماعت کا لٹریچر وہاں کے مسلمانوں تک پہنچایا، نیز سرکاری وفد کے رکن کی حیثیت سے اُردن اور مصر کا بھی دورہ فرمایا۔

جن ممالک میں آپ تشریف لے گئے، اُن میں سے کچھ کی صورتِ حال بتاتے ہوئے آپ نے فرمایا:

’’دنیا کے بعض ممالک ایسے ہیں جہاں علمائے کرام تشریف نہیں لے جاتے کیوں کہ وہاں کے لوگ بہت غریب ہیں اور علمائے کرام کو سارا خرچ خود برداشت کرنا پڑتا ہے اور یہ کام منظّم جماعت کا ہے۔ ایک شخص اُسے برداشت نہیں کرسکتا۔‘‘

آپ مزید فرماتے ہیں … ’’میں کینیا کے ایک جزیرے زنزیبار گیا، لسانی فسادات میں وہاں بہت نقصان ہوا، ہم وہاں ایک مسجد میں پہنچے تو چند ہی لوگ جلسے میں شریک ہوئے، ہمیں بہت حیرانی ہوئی۔ ہم نے باہر نکل کر معلومات حاصل کیں تو پتا چلا کہ وہاں کے مقامی لوگوں نے اپنے تئیں یہ گمان کرلیا کہ کوئی تبلیغی دُرود وفاتحہ کا منکر ہی آیا ہوگا جو کم و بیش پچاس سال سے لگاتار بدلتے چہروں کے ساتھ نام نہاد مذہب کا پرچار کرنے چلے آتے ہیں، آج سے پچاس سال قبل مبلغِ اسلام حضرت علامہ مولانا عبدالعلیم صدّیقی علیہ الرحمہ تشریف لائے تھے۔ ان کے بعد آپ یہاں تشریف لائے ہیں۔

چناں چہ ہم نے لوگوں کو اکھٹا کرکے دن میں جلسہ رکھا۔ اَلْحمْدُ لِلہ عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ کچھ عرصے بعد اُسی علاقے میں ہندوستان کے ایک عالمِ دین کو بھیجا اور وہاں مدرسہ بھی قائم کیا۔‘‘

امریکہ کے بارے میں حضرت فرماتے ہیں کہ ’’امریکہ میں مسلمانوں کی اکثریت اب بھی اُردو زبان سمجھ لیتی ہے، نوجوان نسل تقریباً انگریزی ہی جانتی ہے۔ امریکہ کے لوگوں کے دو سوالات ہیں؟ Why?، What? کیا اور کیوں؟ وہاں کے لوگ اگر کوئی مسئلہ پوچھیں اور بتقاضائے بشریت عالمِ دین بروقت جواب نہ دے سکے تو وہ سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے کا حل دینِ اسلام میں نہیں ہے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ذہین علمائے کرام کو تربیت دے کر بیرونِ ممالک بھیجا جائے۔

دوسری بات یہ کہ تبلیغ کے اثرات اس وقت مرتّب ہوتے ہیں جب عالمِ دین یا مذہبی اسکالر عوام میں رہ کر عوام کے مسائل کو حل کرے۔ اگر کوئی عالمِ دین وہاں جاکر اچھے ہوٹل میں بیٹھ جائے، تقریر کرنے آئے، تقریر کرکے دوبارہ ہوٹل میں چلا جائے، رات کو سوتا رہے، اِس سے تبلیغ کے اثرات مرتّب نہیں ہوتے۔ میں جب بھی تبلیغی دورے پر گیا، کبھی رات کو نہیں سویا، بعدِ نمازِ فجر ہی سویا، لوگوں میں رہ کر لوگوں کے مسائل کو حل کرتا ہوں کیوں کہ لوگوں میں مسائل کی پیاس ہے۔ اُن کے مسائل حل کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ یورپ عریانی و فحاشی کا گڑھ ہے، وہاں کے لوگ لادینیت میں مبتلا ہیں، وہ کسی مذہب کو نہیں مانتے۔ ایسے ملکوں میں بھی مسلمان مذہبی گھرانے ہیں۔ پورے کے پورے خاندان مذہبی ہیں۔ ایک پادری نے مجھ سے کہا: آپ یہاں کچھ سال رہ جائیں؛ آپ اپنی تیس فیصد ایمانی حلاوت کھو بیٹھیں گے، آپ کی دوسری نسل پچاس فیصد مسلمان رہ جائے گی، آپ کی تیسری نسل بیس فیصد مسلمان رہ جائے گی، آخرکار آپ کی چوتھی نسل پر ہمارا قبضہ ہوگا۔

نہ جانے لوگ کیوں کر امریکہ کو جنّت سمجھتے ہیں اور گرین کارڈ کی تمنّا کرتے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جس کا نام گرین کارڈ ہے، اُس کا رنگ گرین نہیں ہے۔ اس گرین کارڈ کو حاصل کرنے میں لوگ اپنے ایمان تک بیچ دیتے ہیں، مسلمان کو اس کام سے بچنا چاہیے۔ اسپین میں مسلمانوں کی زندگی بہت کٹھن ہے، وہاں کوئی کرایہ تک نہیں دیتا، جو خدمت کرنی ہے اپنے طور پر کرے۔ اسپین کے شہر ویلنسیا میں پہلے صرف بیس پاکستانی تھے، لیکن اب چار سو پاکستانی وہاں موجود ہیں۔

اسپین کا سقوط 1691ء یا 1492ء میں ہوا۔ پانچ سو سال قبل اس ملک کو حضرت طارق بن زیاد علیہ الرحمۃنے فتح  کیا تھا۔ اسپین فتح کرنے کے بعد مسلمانوں کے دو اصول تھے: اسلام قبول کرلو یا جزیہ دو، جزیہ دینے کے بعد غیر مسلموں کی جان و مال کی حفاظت مسلمانوں کے ذمّے ہوتی ہے، یعنی جزیہ دینے کے بعد وہ ذمّی ہوجاتا ہے۔ مسلمان عیاش ہونے لگے؛ لہٰذا، اسپین مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھین لیا گیا۔

ہم نے ویلنسیا میں ایک مسجد کی جگہ لی۔ اُس کا نام میں نے ’’فیضانِ مدینہ‘‘ رکھا۔ ہم نے اُس مسجد میں جمعہ بھی پڑھایا ہے، اسپین میں لفظِ مسجد استعمال نہیں کرسکتے؛ لہٰذا، اُس کے نام فیضانِ مدینہ کلچر سینٹر وغیرہ رکھے جاتے ہیں۔

اسپین میں کئی مقامات کے نام اب بھی عربی ہیں جیسے جبل الطارق، قرطبہ وغیرہ، ہم نے مسجدِ قرطبہ کا دورہ کیا۔ اسے دیکھ کر ہمارا دل رنجیدہ ہوا۔ اتنی عظیم الشان مسجد جوکہ بالکل مسجدِ نبویﷺ کے ماڈل پر تیار کی گئی تھی، آج اس کو گرجا گھر بنادیا گیا ہے۔ محرابوں میں بت نصب کیے گئے ہیں، جگہ جگہ شیر کی تصاویر لگی ہوئی ہیں۔ مسجد کے اندر بنچ لگائے گئے ہیں، جس میں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عیسائی اپنی عبادت کرتے ہیں، مینار کے اندر جہاں مؤذّن اذان کہتا تھا وہاں گھنٹانصب کیا گیا ہے، مینار کے اوپر صلیب نصب کیے گئے ہیں تاکہ کوئی یہ جان ہی نہ سکے کہ یہ پہلے مسجد تھی۔ اُس کا نام اب بھی قرطبہ ہی ہے، جگہ جگہ قرطبہ کے بورڈ لگے ہوئے ہیں۔ جب اس مسجد کو گرجا بنایا گیا تو اسلامی ممالک میں سے کسی نے بھی اس کے خلاف آواز نہ اٹھائی۔‘‘

جماعتِ اہلِ سنّت:

1956ء میں ضرورت محسوس کی گئی کہ تبلیغِ دین اور اشاعتِ مسلکِ اہلِ سنّت کی انفرادی کوششوں کو اجتماعی طور پر منظّم کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے کراچی میں خالص مذہبی جماعت ’’جماعتِ اہلِ سنّت‘‘ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ خطیبِ پاکستان حضرت علامہ محمد شفیع اوکاڑوی علیہ الرحمۃ  اس کے امیر، شیخ محمد اسماعیل اس کے ناظمِ اعلیٰ اور حاجی محمدصدّیق خازن مقرر ہوئے اور اس جماعت کے قیام سے مقاصد اور جو اَہداف طے کیے گئے، وہ مندرجۂ ذیل ہیں:

فکری ہدف:

بین الاقوامی سطح پر کفر کا زور توڑنا اور غلبۂ اسلام کی منظّم تحریک چلانا۔

روحانی ہدف:

اﷲ تعالیٰ اور اُس کے حبیبﷺ کی محبّت کی دعوت تمام انسانی حلقوں تک پہنچانا۔

سیاسی ہدف:

استحکامِ پاکستان اور نفاذِ نظامِ مصطفیٰﷺ کے لیے  ذہن سازی کرنا۔

سماجی ہدف:

معاشرتی برائیوں کے خاتمے اور خدمتِ خلق کے فروغ کی کوشش کرنا۔

اصلاحی ہدف:

گمراہ کن عقائد کی اصلاح، فرقہ واریت کی بیخ کنی، جاہلانہ رسوم کی تطہیر اور اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں عامّۃ الناس کے لیے دینی دعوت کا اہتمام کرنا۔

تعلیمی ہدف:

قدیم و جدید علوم کے مَدارِس، اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیاں قائم کرنے کی سعی کرنا، ماہرینِ تعلیم سے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق نصاب تیار کروانا۔

عملی ہدف:

باطل اور طاغوت کے خلاف جہاد کرنا۔

تنظیمی و تحریکی ہدف:

وطنِ عزیز کے گاؤں گاؤں، قریہ قریہ، بستی بستی اور شہر شہر میں جماعتِ اہلِ سنّت کی تنظیم سازی کرنا، پاکستان بھر کی تمام سنّی تنظیموں اور تحریکوں کا عملی اشتراک کرنا۔

عالمی ہدف:

دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنا، دنیا بھر میں کام کرنے والی سنّی تنظیموں اور تحریکوں سے رابطہ کرنا۔

1967ء میں آپ کو جماعتِ اہلِ سنّت (پاکستان) کراچی کے حلقۂ کورنگی کا امیر منتخب کیا گیا اور جماعتِ اہلِ سنّت (پاکستان) کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والا ماہ نامہ ’’ترجمانِ اہلِ سنّت‘‘ بھی آپ ہی چلاتے تھے اور ماہ نامہ ’’افق‘‘ کے ’’روحانی کالم‘‘ میں شرعی مسائل کے جوابات بھی آپ ہی تحریر کرتے تھے۔

جماعتِ اہلِ سنّت (پاکستان) کو کراچی میں فعال رکھنے میں آپ کا بڑا کردار ہے،  چناں چہ 1992ء میں جب کراچی میں جماعتِ اہلِ سنّت (پاکستان) کا کام کچھ نہ رہا اور جماعتِ اہلِ سنّت کا ایک دفتر (جو محمدی مینشن،جوبلی مارسٹن روڈ پرتھا) عدالتی فیصلے کی بنا پر جماعت کا سامان باہر پھینک کر خالی کروالیا گیا، اُس وقت کے موجودہ عہدیداران نے کچھ خبر نہ لی تو آپ نے جماعتِ اہلِ سنّت کے کام کا بیڑا اٹھایا اور ایک دفتر خریدا اور جماعتِ اہلِ سنّت (پاکستان) کی تنظیم سازی فرمائی۔

آپ ’’جماعتِ اہلِ سنّت (پاکستان)‘‘ کے حلقۂ کراچی کے امیر ہونے کے ساتھ ساتھ ’’جماعتِ اہلِ سنّت‘‘ اوورسیز کے ناظم الامور بھی تھے۔ آپ نے بِفَضْلِہٖ تَعَالٰی دنیا کے کئی ممالک میں جماعتِ اہلِ سنّت کی تنظیم سازی اور دینی اداروں کے قیام کے سلسلے میں کوششیں کیں اور اَلْحَمْدُلِلہ  وہاں بھی جماعتِ اہلِ سنّت کا کام جاری و ساری ہے۔

عوامِ اہلِ سنّت کا ایک دیرینہ خواب ایک سیکریٹریٹ کے قیام کا تھا جو ہماری پہچان ہو، جس کے ذریعے دنیائے اہلِ سنّت سے رابطہ ہو، جس سیکریٹریٹ میں ہمارے تحقیقاتی ادارے، مہمان خانے، اسکول، یونیورسٹیاں، تجارت  ہو تاکہ ہمارا بھی سر دنیا میں فخر سے بلند ہو۔

اکیسویں صدی کے آغاز میں اَلْحَمْدُلِلہ، ثُّمَّ اَلْحَمْدُلِلہ جماعتِ اہلِ سنّت (پاکستان) نے ’’انٹرنیشنل سنّی سیکریٹریٹ‘‘ کی صورت میں عوامِ اہلِ سنّت کا دیرینہ خواب پورا کردیا، جس کے قیام میں حضرت پیش پیش رہے۔ اَلْحَمْدُلِلہ آج انٹرنیشنل سنّی سیکریٹریٹ نزد کالا شاہ کاکو جی ٹی روڈ لاہور پر ترقیاتی منازل طے کررہا ہے اور اس سیکریٹریٹ کے شعبہ جات یہ ہیں:

1۔ ادارۂ تحقیقاتِ اہلِ سنّت                                     2۔ بیت الاحسان والحکمت

3۔  سنّی انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹیڈیز                         4۔ دارالاقامت

5۔ عالمی تربیتی ادارہ برائے علما                                   6۔مہمان خانے

7۔ سنّی انسٹیٹیوٹ آف ماڈرن لینگویجز                         8۔ مرکزِ خدمتِ خلق

9۔ رابطۂ عالَمِ اہلِ سنّت                                             10۔ ادارہ برائے تربیتِ خواتین

11۔آن لائن اسلامی یونیورسٹی                                 12۔ سنّی تعلیمی بورڈ

13۔ مشاورتی بورڈ برائے اسلامی تجارت                   14۔ ٹیچر ٹریننگ اسکول

15۔ ادارہ برائے تربیتِ واعظین و مُناظرین               16۔سنّی مساجد

17۔ سنّی دارالاشاعت                                              18۔ سنّی ڈیٹا بیس

 

تحریکِ ختمِ نبوّت و تحریکِ نظامِ مصطفیٰﷺ:

تحریکِ ختمِ نبوّت اور تحریکِ نظامِ مصطفیٰﷺ میں بھی حضرت نے بھرپور کردار ادا فرمایا، تحریکِ ختمِ نبوّت میں حکومت کی جانب سے جب بہت زیادہ سختی کی گئی، بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہورہی تھیں، اُس وقت آپ مختلف مساجد اور جلسوں میں تقاریر کے ذریعے نوجوانوں میں جوش و ولولہ پیدا کرتے۔ کئی دفعہ پولیس نے آپ کو گرفتار کرنے کی کوشش کی، مگر گرفتار نہ کرسکی۔ تحریکِ ختمِ نبوّت میں علمائے اہلِ سنّت نے بڑی قربانیاں دیں؛ بالآخر شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری، علامہ شاہ احمد نورانی، علامہ عبدالستار خاں نیازی علیہم الرحمۃ اور دیگر علمائے اہلِ سنّت، جن میں آپ بھی شامل تھے، حکومتِ پاکستان سے 7؍ ستمبر 1974ء کے مبارک دن قادیانیوں کو غیرِ مسلم اقلیت قرار دلوایا۔

جب تحریکِ ختمِ نبوّت کا گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا تو علامہ عبدالستار خاں نیازی علیہ الرحمۃ کو بھی گرفتار کیا گیا اور ایک دن ایک رات قید خانے میں رکھا گیا۔ جب آپ باہر آئے تو صحافیوں نے آپ سے پوچھا، آپ کی عمر کتنی ہے؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا: ایک رات اور ایک دن، صحافی یہ سن کر مسکرا دیے اور کہنے لگے آپ ہم سے مذاق کیوں کررہے ہیں؟

چناں چہ علامہ نیازی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ جو قربانی میں نے تحفّظِ ختمِ نبوّت کے لیے دی ہے، اُس کی سزا مجھے ایک دن اور ایک رات قید خانے میں ڈال کر دی گئی، یہی تو میری اصل عمر ہے، جو میں نے دین کے لیے قربانی دی، باقی عمر فضول ہے۔ جب علمائے اہلِ سنّت نے قادیانیوں کو غیرِ مسلم اقلیت قرار دینے کی تحریک چلائی تو قومی اسمبلی (پاکستان) کے ایک رکن نے علمائے اہلِ سنّت سے کہا کہ آپ کیوں قادیانیوں کے پیچھے  پڑےہیں، تو اُس وقت رکنِ قومی اسمبلی شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری اور شاہ صاحب قبلہ وہاں موجود تھے، آپ فرماتے ہیں کہ ’’یہ سن کر شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری علیہ الرحمۃ فرمانے لگے: ’’ٹھہر جاؤ ، ابھی فیصلہ ہوجائے گا۔‘‘

علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری نے قادیانیوں کے ذمّے دار شخص کو بلوایا اور اُس سے پوچھا کہ اگر کوئی مرزا غلام قادیانی کو نہ مانے تو آپ اس کو کیا کہیں گے؟

قادیانی نے جواب دیا کہ ہم اُس کو کافر مانتے ہیں۔ یہ سن کر قومی اسمبلی کے رکن جو یہ کہہ رہے تھے کہ آپ قادیانیوں کے پیچھے کیوں پڑے ہیں، کھڑے ہوکر کہنے لگے: یہ تو ہم سب کو کافر کہہ رہا ہے۔ الغرض قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے میں حضرت شاہ صاحب کا بھی حصّہ ہے۔

اسی طرح آپ نے تحریکِ نظامِ مصطفیٰ میں بھی بھرپور حصّہ لیا اور اُس وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اسلام منافی پالیسیوں کے خلاف بھرے جلسوں میں آپ نے اُس کی مخالفت کی اور آپ کے ایک ذومعنیٰ جملے نے لوگوں کو بڑا محظوظ کیا۔ جب آپ نے فرمایا کہ بھٹو کا زوال قریب ہے۔ اب نصرت (یعنی فتح) ہماری ہوگی، جب کہ وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیوی کا نام بھی نصرت تھا۔

سیاسی خدمات:

پیرِ طریقت حضرت سیّد شاہ تراب الحق صاحب قادری مدّظلّہ نے دینِ متین کی ہر شعبے میں خدمت انجام دی ہے، جس طرح آپ مساجد میں منبر پر بیٹھ کر اور دینی جلسوں اور جلوسوں میں تشریف لے جاکر حق کو بلند فرمایا کرتے ہیں۔ اُسی طرح آپ نے اسمبلی میں بیٹھ کر وُزرا، اُمرا  و اراکینِ پارلیمنٹ کے سامنے بھی کلمۂ حق بلند فرمایا ہے۔ جس طرح آپ اپنے حجرے میں اپنی مسند پر بیٹھ کر مسلکِ حق اور عوامِ اہلِ سنّت کی خدمت کرتے تھے، اسی طرح قومی اسمبلی میں پہنچ کر بھی مسلکِ حق اور عوامِ اہلِ سنّت کی خدمت فرمائی ہے۔ آپ 1985ء میں کراچی کے حلقہ این اے 190سے جماعتِ اسلامی کراچی کے محمد حسین محنتی کو بھاری اکثریت سے ہرا کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ یاد رہے کہ 1985ء میں انتخابات غیر جماعتی بنیاد پر ہوئے، جس میں جمعیت علمائے پاکستان نے ان انتخابات کے طریقۂ کار سے اختلاف کرتے ہوئے انتخابات میں حصّہ نہ لینے کا فیصلہ کیا، جب کہ شاہ صاحب قبلہ اور ان کے چند رفقا نے اُس فیصلے کے برعکس الیکشن لڑا جس پر جے یو پی کی قیادت کی طرف سے شدید ردِّعمل کا اظہار کیا گیا۔

اس کے بارے میں جب قبلہ شاہ صاحب سے پوچھا گیا کہ ان غیر جماعتی انتخابات میں حصّہ لینے کا آپ کا اقدام کیا درست تھا اور اس سے مسلکِ اہلِ سنّت کو کہاں تک تقویت ملی؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا:

’’دیکھیں جی! آدمی اختلاف اُس فلور پر کرے جہاں اس کی بات سنی جائے، نہ یہ کہ ادھر ملک میں عام انتخابات کا اعلان ہوچکا ہو، پوری قوم اس میں حصّہ لے رہی ہو اور اِدھر محض کھارادر کی گلیوں میں یہ شور مچایا جائے کہ صاحب! انتخابات غیر جماعتی نہیں، جماعتی ہونے چاہییں، ہمارے نزدیک یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے نقارخانے میں طوطی کی آواز۔

اگر 1985ء کے انتخابات میں ہم یا ہمارا پورا گروپ جسے نظامِ مصطفیٰ گروپ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے، حصّہ نہ لیتا تو وہاں سے کوئی فرشتے تو منتخب ہوکر نہیں آجاتے، ظاہر ہے وہی دنیادار لوگ آگے آجاتے ہیں جو اس الیکشن میں حصّہ لیتے ہیں اور اگر ہم جے یو پی کے فیصلے کے مطابق ان انتخابات کا بائیکاٹ کرتے تو ہمارا یہ فعل پورا شہرِ کراچی جماعتِ اسلامی کے حوالے کرنے کے مترادف ہوتا اور جیسا کہ ہم اس کا ماضی قریب میں مشاہدہ کرچکے ہیں۔ یہاں مسلسل دوبار ان کا منسٹر منتخب ہوا، اب اگر ایک بار پھر پیچھے ہٹ جاتے تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ ہم نے پورا کراچی جماعتِ اسلامی کے حوالے کردیا ہے۔ ان حالات میں جمعیت علمائے پاکستان، جماعتِ اہلِ سنّت یا ہمارے عقیدے کی جتنی تنظیمیں ہیں ان میں ہر شخص یہ محسوس کررہا تھا کہ اس وقت یہاں پر جماعتِ اسلامی اپنا اثرورسوخ آگے بڑھانے کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مار رہی ہے اور اگر ان حالات میں ہم الیکشن میں حصّہ نہ لیتے تو اس کا مطلب یہی نکلتا کہ ہم نے یہاں کی تمام سیٹیں تھالی میں سجاکر جماعتِ اسلامی کو پیش کردی ہیں اور مجھے سو فیصد یقین تھا کہ اگر ہم اپنے انتخاب میں حصّہ نہیں لیتے تو یہاں جماعتِ اسلامی کا امّیدوار کامیاب ہوجائے گا۔ اسی طرح دیگر حلقوں کی صورتِ حال بھی کچھ کچھ اسی کے قریب تھی چناں چہ ہم نے بحیثیتِ سنّی، جماعتِ اسلامی کے مقابلے میں میدانِ عمل میں اتر آنے کو ترجیح دی۔ ہم نے انفرادی طور پر الیکشن لڑا اور کراچی کی سطح پر بہت بڑی کامیابی حاصل کی اور آپ نے دیکھا تھا کہ ان انتخابات کے حوالے سے پورے پاکستان میں کراچی ہی وہ واحد شہر تھا جس سے کچھ علما منتخب ہوکر آئے اور عوام نے ہمارا خیر مقدم کیا۔ ہم نے 47 ہزار ووٹ لے کر پورے کراچی میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور ہماری حکمتِ عملی بھی اسی سلسلے میں یہی تھی کہ جب الیکشن ہورہا ہے تو اس میں حصّہ لے کر منتخب ہوکر اور اسمبلی میں جاکر اپنے مسلک کے اجتماعی مسائل کے لیے آواز اٹھائی جائے اور ہم نے اٹھائی اور کافی معاملات  زیرِ بحث لائے بھی گئے اس لیے ہمارے خیال کے مطابق ہمارا الیکشن 1985ء میں حصّہ لینے کا فیصلہ بالکل درست تھا۔

رہا آپ کے سوال کا بقیہ حصّہ تو اس ضمن میں اعتراضات ہم پر کیے گئے جن کا جواب دینا میں یہاں ضروری نہیں سمجھتا۔ ایک تو یہ کہ الیکشن مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کرارہا تھا اور دوسرے یہ کہ الیکشن غیر جماعتی تھے؟

پہلے اعتراض کا جواب تو یہ ہے کہ اگر مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی طرف سے کرائے جانے والے انتخابات میں حصّہ لینا فی الواقع گناہ ہی ٹھہرا، جنرل یحییٰ خان بھی تو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہی تھا۔ پھر اس کے دور میں الیکشن میں حصّہ لینا کیوں کر صحیح ہوگا۔ یہ سوچ بہرحال ان کی اپنی ہے۔ دوسرا اعتراض یہ کہ ہم نے غیر جماعتی انتخابات میں حصّہ لیا۔ اس لیے معتوب ٹھہرے تو یہاں ہم پوچھتے ہیں کہ اسمبلی توڑنے کے بعد یہ جو 1988ء کے انتخابات کا ضیاء الحق نے اعلان کیا تھا وہ غیر جماعتی نہیں تھے؟ پھر اس وقت یہ فیصلہ کیوں کیا گیا کہ جو بس ہم نے 1985ء میں  چھوڑی تھی اب مس نہیں کریں گے اور وہی گناہ جو ہمارے متھے لگایاجاتا رہا۔ آخر اسی کا ارتکاب خود کرنے کا ارادہ کیوں باندھ لیا گیا؟

یہ تو بعد میں غلام اسحاق خاں نگراں صدر کے دور میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں طے پایا کہ انتخابات جماعتی ہوں گے، ضیاء الحق نے تو اعلان غیر جماعتی کا ہی کیا تھا، جن میں حصّہ لینے کے لیے اُصولی طور پر رضامندی تو ظاہر کردی گئی اور اب کی بار پوزیشن یہ تھی کہ اس دفعہ بس کو مس نہ کیا جائے بلکہ بیٹھ جایا جائے تو ہمارا قصور تو صرف اتنا ہی ٹھہرا کہ ہم اس بس میں ساڑھے تین سال قبل کیوں سوار ہوگئے تھے؟

تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس اعتبار سے بھی 1985ء کے انتخابات میں حصّہ لینا ہماری اعلیٰ سیاسی بصیرت تھی اور یہ کوئی غلط فیصلہ نہیں تھا اور اگر اس وقت دیگر سیاسی جماعتیں بھی ہماری طرح فیصلہ کرکے اسمبلی میں پہنچ جاتیں تو  مارشل لاء کی گرفت جلد ہی کمزور کی جاسکتی تھی اور اسمبلی میں بیٹھ کر بہتر طورپر مسائل حل کیے جاسکتے تھے۔ گویا ہمارا 1985ء کے انتخابات میں حصّہ لینے کا فیصلہ ہر لحاظ سے درست تھا۔‘‘

آپ سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کہا جاتا ہے کہ آپ کے گروپ (یعنی نظامِ مصطفیٰ گروپ) کے اندر بھی وزارتیں لینے پر اتفاقِ رائے نہیں ہوا تھا۔ اگر آپ وزارتیں نہ لیتے تو شاید بہتر طور پر کام کرسکتے تھے۔ تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا:

’’اس معاملے میں ہمارے درمیان قطعی طور پر کوئی اختلاف رائے نہیں تھا، بلکہ جب ہمارے گروپ کو وزارت کی پیش کش کی گئی اس پر ہم نے باقاعدہ اکھٹے بیٹھ کر سوچ بچار کی کہ براہِ راست ’’حکومت سے جنگ‘‘ کی پالیسی کہاں تک ملکی مفاد میں ہوگی، اس پر ہم نے اس بات کو ترجیح دی کہ اگر کوئی وزارت ملکی خدمت کے پیشِ نظر قبول کرکے اس محکمے کو انتہائی دیانت داری سے چلایا جائے تو کم از کم ایک محکمے سے تو کرپشن کو روکا جاسکتا ہے اور یہ بات چوں کہ ملکی مفاد میں تھی، اس لیے ہم نے وزارت کی پیش کش قبول کرلی اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ شجرِ ممنوعہ تھا۔ پھر آپ نے ہاتھ کیوں بڑھایا تو میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آخر یہ سیاسی جماعتیں الیکشن لڑتیں پھر کس لیے ہیں؟ کیا سب کے پیش نظر یہی نہیں ہوتا کہ انتخابات میں کامیاب ہوکر وہ اقتدار حاصل کرکے اپنے اپنے پارٹی پروگرام کو عملی جامہ پہنائیں، پھر وہی پہلے والی بات آگئی کہ جونیجو حکومت میں وزارت کیوں لی، کوئی دوسری حکومت ہوتی تو لے لی جاتی، بھائی اگر جونیجو حکومت میں وزارت لینا ناجائز ہے تو کسی دوسری حکومت میں کیوں کر جائز ہے؟ جہاں تک کام کرنے کا تعلق ہے تو ریکارڈ ملاحظہ کرلیجیے۔ وزارتِ پیٹرولیم کا پورا ریکارڈ آپ کو گواہی دے گا کہ اس میں ہماری وزارت کے دوران زرِمبادلہ ضائع ہونے سے کس طرح بچالیا گیا۔ کتنے ہی ایسے معاملات تھے جن پر ملکی دولت اور زرِمبادلہ ضائع ہورہا تھا جسے ہم نے اَلْحَمْدُلِلہ بطورِ احسن محفوظ کرایا اور میں چیلنج کرتا ہوں کہ اس دور میں ہمارے پاس یعنی حاجی حنیف طیّب کے پاس جو بھی وزارت رہی، اس میں کسی قسم کی کرپشن کا کوئی ثبوت لے آئیں ہم ہر سزا بھگتنے کو تیار ہیں۔‘‘

اس دور میں آپ کے گروپ پر یہ الزام بھی لگا کہ اس گروپ کو وزارت جنرل ضیاء الحق کی خصوصی نوازش سے دی گئی ہے تو آپ نے اس الزام کے جواب میں ارشاد فرمایا:

’’اگر کسی کا خیال ہے تو ہمارے نزدیک بالکل لغو اور بے بنیاد الزام ہے، نوازش تو اس پر کی جاتی ہے جو کسی کے اشارے پر چل رہا ہو، ہمارے ہاں تو ابتدا ہی میں جنرل ضیاء الحق سے تلخی پیدا ہوگئی تھی اور ہم کسی مرحلے پر جنرل ضیاء الحق کے اشارے پر نہیں چلے اور پہلی میٹنگ ہی جونیجو صاحب کو وزیرِ اعظم نامزد کرنے کے سلسلے میں بلائی گئی تھی، جس میں جنرل ضیاء الحق نے تمام صوبوں کے ایم این اے حضرات کو الگ الگ بلایا۔ جب سندھ کی باری آئی تو سب سے زیادہ خطرناک  میٹنگ ہماری جنرل ضیاء الحق سے ہوئی جس پر ہمارے سندھ کے ایم این اے حضرات گواہ ہیں۔ اس موقع پر جنرل ضیاء الحق تقریر کررہے تھے اور کوئی ان کے سامنے بولنے کی ہمت نہ کرتا تھا اور جب ہم نے ان کی قرینے سے کھنچائی کردی تو وہ سخت ناراض ہوئے۔ انھوں نے ہمیں نہ تو ناشتہ دیا نہ چائے پلائی، بس خالی ہاتھ ملا کر رخصت کردیا۔ ہمارے سندھ کے معروف سیاست دان اور سابق پارلیمنٹرین جناب عبدالمجید جتوئی جو قیامِ پاکستان سے لے کر اس وقت تک ایم این اے منتخب ہوتے چلے آرہے تھے، بطورِ خاص میرے پاس آئے اور مجھے مبارکباد دیتے ہوئے کہنے لگے کہ ’’سائیں‘‘ آپ نے سندھ کی عزّت رکھ لی۔

تو جہاں ابتداءً ہی اس قدر تلخی آگئی ہو وہاں نوازش کیسے ہوسکتی ہے؟ یہ تو ہمارا سندھ کے حوالے سے میرٹ بنتا تھا جس کی بناء پر ہمیں وزارت دی گئی اس میں ضیاء الحق کی کوئی نوازش تھی، نہ عنایت؛ یہ ہمارا حق تھا جو ہم نے لیا۔ نوازش و عنایت اﷲ تعالیٰ کی تھی اور اﷲ تعالیٰ کے بعد عوام کی جنھوں نے ہمیں منتخب کیا۔‘‘

جونیجو حکومت زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔ جنرل ضیاء الحق نے اسمبلیاں توڑ دیں۔ اس طرح 1988ء میں انتخابات وقوع پذیر ہوئے اور یہ انتخابات جماعتی بنیاد پر تھے۔ ان میں نظامِ مصطفیٰ گروپ نے باقاعدہ حصّہ لینے کا پروگرام بنایا اور باضابطہ طور پر درخواستیں بھی طلب کی گئیں پھر یکایک تمام حقوق سے دست برداری کا اعلان کردیا گیا۔

جب آپ کے گروپ کی طرف سے اچانک دست برداری کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا:

’’سیاسی آدمی کا کام یہ ہے کہ معاملات کو بھانپ کر اور اچھی طرح سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے۔ صورتِ حال کچھ یوں ہے کہ ہمارے گروپ نے چوں کہ اہلِ سنّت کے حوالے سے اپنا علیحدہ تشخص قائم کیا تھا اور ہمارا پارٹی پروگرام بھی محض نفاذِ نظامِ مصطفیٰ تھا مگر جب ہم نے دیکھا کہ جمعیت علمائے پاکستان نے بھی نظامِ مصطفیٰ پارٹی کے نام سے ہر سیٹ پر اپنا امّیدوار کھڑا کردیا ہے، تو ہم نے محسوس کیا کہ اب اگر ہم بھی اپنے امیدوار یہاں کھڑے کرتے ہیں تو ایک طرف تو ہمارے ووٹ تقسیم ہوں گے اور دوسرا  ہم میں انتشار پیدا ہوجائے گا۔ بایں حالات محض اہلِ سنّت کے وقار اور اتحاد کی خاطر الیکشن سے دست بردار ہوگئے کہ اہلِ سنّت کی طرف ایک پارٹی کے امیدوار یہاں سے الیکشن میں حصّہ لیں۔ حالاں کہ ہمارے گروپ کے امیدوار جے یو پی کے امیدواروں سے کہیں زیادہ مضبوط تھے اور کراچی سے ایک دو سیٹیں ہم لے سکتے تھے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا کہ لسانی تنظیموں کی کم از کم ان حلقوں سے تو حوصلہ شکنی ہوتی اور عوامِ اہلِ سنّت کی حوصلہ افزائی ہوتی، لیکن ہم نے پھر بھی جے یو پی کو موقع فراہم کیا اور ہر سطح پر غیر مشروط تعاون کیا تاکہ اہلِ سنّت میں مزید انتشار نہ پھیل جائے۔‘‘

1985ء کے انتخابات میں حصّہ لینے اور 1988ء کے انتخابات میں حصّہ نہ لینے کے بارے میں آپ سے جو سوال کیا گیا اس کا جواب سننے کے بعد نتیجہ یہ سامنے آیا کہ حصّہ لینے کی وجہ صرف اہلِ سنّت کی نمائندگی اور ملک کا تحفّظ اور عوامِ اہلِ سنّت کی خدمت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ 1988ء میں جب اہلِ سنّت کے نمائندے متعدد حلقوں سے الیکشن لڑرہے تھے تو آپ اپنے گروپ کے ساتھ انتخابات سے دست بردار ہوگئے اور دست برداری سے دوسرا مقصد اہلِ سنّت کو انتشار سے بچانا بھی تھا۔ اس لیے آپ نے اس کے بعد کبھی کسی الیکشن میں حصّہ نہ لیا۔ چوں کہ متعدد حلقوں سے اہلِ سنّت کے نمائندے انتخابات میں حصّہ لیتے ہیں جن میں سے چند ایک کامیاب بھی ہوتے ہیں اسی طرح اسمبلی میں اہلِ سنّت کی نمائندگی کرنے والاکوئی نہ کوئی ضرور موجود رہتا ہے،  جب کہ 1985ء میں حالت یہ تھی کہ اگر آپ اپنے ساتھیوں سمیت انتخابات میں حصّہ نہ لیتے تو ایوانِ بالا میں اہلِ سنّت کی نمائندگی کرنے والا کوئی بھی نہ ہوتا، کیوں کہ اہلِ سنّت کی نمائندہ جماعت جے یو پی انتخابات کا بائیکاٹ کرچکی تھی۔ اس لیے اُس وقت انتخابات میں حصّہ لینے کا فیصلہ بھی اپنی جگہ درست تھا اور بعد میں حصّہ نہ لینے کا فیصلہ بھی اپنی جگہ درست ہے۔

عہدے:

اہلِ سنّت و جماعت کی خدمت کے حوالے سے آپ متعدد عہدوں پر فائز ہوئے، جن میں چند مندرجۂ ذیل ہیں:

1۔  کونسلر، کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن

2۔ چیئرمین، تعلیمی کمیٹی کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن

3۔ رکن، لاء کمیٹی کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن

4۔رکن، انٹرمیڈیٹ بورڈ، کراچی

5۔ رکن قومی اسمبلی، 1985ء میں حلقہ NA-190 کراچی ساؤتھ، جماعت اسلامی کراچی کے محمد حسین محنتی کو بھاری اکثریت سے ہرا کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پھر قومی اسمبلی میں نظامِ مصطفیٰ گروپ قائم فرمایا۔

6۔چیئرمین، انسدادِ جرائم کمیٹی، کراچی

7۔  ڈائریکٹر، جاویداں سیمنٹ فیکٹری (سرکاری نامزدگی)

8۔ رکن ، مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی پاکستان

9۔ چیئرمین، مدرسۂ انوار القرآن قادریہ رضویہ، کراچی

10۔چیئرمین، جامعہ انوار القرآن قادریہ رضویہ گلشنِ اقبال، کراچی

11۔ چیئرمین، مصلح الدین ویلفیئر سوسائٹی، کراچی

12۔  چیئرمین، المسلم ویلفیئر سوسائٹی کراچی

13۔ٹرسٹی/  ناظمِ تعلیمات، دارالعلوم امجدیہ، عالمگیر روڈ، کراچی

14۔ امیر، جماعتِ اہلِ سنّت پاکستان، کراچی

15۔ ناظم، جماعتِ اہلِ سنّت ورلڈ

16۔ رکن، کمیٹی برائے سنّی سیکریٹریٹ، لاہور

17۔ پہلے رکن، سنّی تحریک علما بورڈ

18۔ سرپرستِ اعلیٰ، تحریکِ عوامِ اہلِ سنّت

19۔ سرپرستِ اعلیٰ، تحریکِ اتحادِ اہلِ سنّت

20۔ سرپرستِ اعلیٰ،  بزمِ رضا

21۔ سرپرستِ اعلیٰ، دارالعلوم مصلح الدین، کراچی

22۔ سرپرستِ اعلیٰ، جمعیتِ اشاعتِ اہلِ سنّت

23۔ رکن، سنّی رہبر کونسل

24۔ رکن، سنّی اتحاد کونسل

25۔ سرپرست، انجمن اشاعتِ اسلام،جو 1986ء میں تقریباً ختم ہوگئی؛ پھر 1991ء میں حضرت علامہ مولانا عرفان صاحب ضیائی مدّظلّہ نے جمعیتِ اشاعتِ اہلِ سنّت (پاکستان) حضرت شاہ صاحب قبلہ کی سرپرستی میں قائم فرمائی، جو بِحَمْدِہٖ تَعَالٰی اب تک کام کررہی ہے۔

اِس کے علاوہ، کراچی کے متعدد مدارس ومساجد کے آپ سرپرست  تھے۔

تصانیف:

حضرت شاہ صاحب قبلہ نے متعدد موضوعات پرقلم بھی اٹھایا اور کتابی صورت میں اہلِ سنّت و جماعت کو تفسیر، حدیث شریف، فقہِ حنفی، عقائد، تصوّف اور فضائل وغیرہا عنوانات پر بہترین مواد فراہم فرمایا۔

حضرت کی جو کتب اب تک منظرِ عام پر آچکی ہیں، وہ مندرجۂ ذیل ہیں:

1۔ تصوّف و طریقت                                                 2۔ خواتین اور دینی مسائل

3۔ ضیاء الحدیث                                                        4۔ جمالِ مصطفیٰﷺ

5۔ امامِ اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ                          6۔ مزاراتِ اولیا اور توسّل

7۔ فلاحِ دارین( تفسیرِ سورۂ عصر )                             8۔ رسولِ خدا کی نماز

9۔  دعوت و  تنظیم مبلغ بنانے والی کتاب                     10۔ حضورﷺ کی بچوں سے محبّت

11۔ دینی تعلیم                                                        12۔تفسیرِ سورۂ فاتحہ

13۔ مبارک راتیں                                                 14۔ اسلامی عقائد

15۔ تحریکِ پاکستان میں علمائے  اہلِ سنّت کا کردار     16۔ ختمِ نبوّت

17۔ مسنون دعائیں                                                 18۔ حج و عمرہ

19۔ فضائلِ صحابہ و اہلِ بیت                                    20۔  انوار القرآن تفسیر سورۂ والضحیٰ تا سورۂ ناس

دعوت ِ اسلامی جو بعد میں بنائی گئی اُس کے قیام میں بھی حضرت کا بڑا کردار ہے؛ بقولِ مدیرِ ’’ماہ نامہ تحفّظ‘‘ محترم جناب محمد شہزاد قادری ترابی،  رئیس التحریر علامہ ارشد القادری علیہ الرحمۃ کا آخری انٹرویو (آڈیو کیسٹ کی صورت میں) میرے پاس محفوظ ہے، جس میں آپ سے سوال کیا گیا کہ دعوتِ اسلامی بنانے میں کن علما کا کردار ہے تو علامہ ارشد القادری علیہ الرحمۃ نے دیگر علمائے  اہلِ سنّت کے ساتھ حضرت علامہ سیّد شاہ تراب الحق قادری مدّظلّہ کا نام بھی ذکر کیا۔

تجویزوآراء