حضرت علامہ سیّد شاہ تراب الحق قادری
مختصر حالات
حضرت علّامہ سیّد شاہ تراب الحق قادری الجیلانی دامت برکاتہم العالیۃ
تحریر: مولانا محمد شہزاد قادری ترابی
ولادت با سعادت:
حضرت علّامہ سیّد شاہ تراب الحق قادری الجیلانی دامت برکاتہم العالیۃ کی ولادت ۲۷؍ رمضان المبارک ۱۹۴۶ء میں ہندوستان کی اس وقت کی ریاست حیدر آباد دکن کے ایک شہرناندھیڑ کے ایک علاقے موضع کلمبر میں ہوئی۔ آپ کا نام ‘‘شاہ تراب الحق’’ حیدرآباد دکن کے ایک مشہور بزرگ ‘‘حضرت شاہ تراب الحق علیہ الرحمہ’’ کے نام پر رکھا گیا جن کا مزار حید آباد دکن ہندوستان میں ہے۔
سلسلۂ نسب:
آپ کے والد ماجد کا نام حضرت سید شاہ حسین قادری علیہ الرحمہ بن سید شاہ محی الدین قادری بن سید شاہ عبداللہ قادری بن سید شاہ مہراں قادری تھا اور والدہ ماجد کا سلسلۂ نسب فاروقی ہے۔ اپنے وقت کے جید عالم مدیر المہام امور مذہبی حیدر آباد دکن حضرت علامہ مولانا انوار اللہ خان صاحب فاروقی علیہ الرحمہ سے آپ کا ننھیال ہے، جن کے تبحر علمی کا اندازہ ان کی ایک تصنیف ‘‘کتاب العقل’’ کے مطالعہ سے ہوتا ہے ۔ ان کی ایک تصنیف ‘‘مقاصد الاسلام’’ بھی ہے جو کافی عرصے بعد اب گیارہ جلدو ں میں شائع ہوئی ہے اس کے علاوہ بھی کئی کتب تصنیف فرمائی۔
والد کی جانب سے آ پ ‘‘سید’’ ہیں مگر بعض حاسدین اور شرپسندلوگوں نے یہ مشہور کردیا ہے کہ آپ ‘‘سید’’نہیں ہیں۔ اعتراض کرنے والے اپنے منبروں پر بیٹھ کرمسلمانوں کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اگر کوئی اپنے آپ کو سید کہے تو اس سے دلیل مت مانگو اور خود قبلہ شاہ صاحب کے نسب پر اعتراض کرتے ہیں اور آپ سے دلیل طلب کرتے ہیں۔ آل رسول، عالم دین اور ایک بزرگ سے اس طرح حاسدانہ رویہ کس قدر نقصان دہ ہے؟ جو لوگ سادات سے دلیل مانگتے ہیں وہ اس واقعہ سے عبرت حاصل کریں۔
ابتدائی تعلیم:
ابتدائی تعلیم مدرسہ تحتانیہ دودھ بولی بیرون دروازہ نزد جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن ہندوستان سے حاصل کی۔
بقیہ تعلیم:
پاکستان تشریف آوری کے بعد پی آئی بی کالونی کراچی میں قیام کے دوران فیض عام ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے رشتے کے خالو اور سسر پر طریقت رہبر شریعت حضرت علامہ مولانا الحافظ القاری محمد مصلح الدین صدیقی علیہ الرحمہ سے گھر پر کتابیں پڑھیں اور پھر دارالعلوم امجدیہ کراچی میں داخلہ لیا لیکن زیادہ تر اسباق طریقت حضرت علامہ مولانا قاری محمد مصلح الدین صدیقی رضوی علیہ الرحمہ سے پڑھے۔ سند حدیث صدر الشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ (مصنف بہار شریعت) کے صاحبزادے حضرت علامہ مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری علیہ الرحمہ جو اس وقت دارالعلوم امجدیہ کراچی کے شیخ الحدیث تھے، حاصل کی۔ جبکہ اعزازی سندو قار ملت، سرمایہ ملت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد وقار الدین قادری رضوی علیہ الرحمہ (مفتی اعظم پاکستان) سے حاصل کی۔
پاکستان آمد:
تقسیم ہند، سقوط حیدرآباد دکن کے بعد ۱۹۵۱ء میں ہندوستان سے ہجرت کر کے ہم پاکستان (کراچی) آگئے۔ کراچی آنے کے بعد کچھ عرصے پی آئی بی کالونی میں رہے۔ اس کے بعد پی آئی بی کالونی کراچی سے قریب لیاقت بستی کے نام سے ایک آبادی تھی، ہم وہاں رہے اور اس کے بعد کورنگی منتقل ہوگئے۔
بدمذہبوں سے مناظرے:
تحصیل علم کے بعد آپ نے کئی مناظرے کئے۔ اس میں ایک مشہور مناظرہ دارالعلعم کورنگی کراچی کے مولوی محمد فاضل سے ہوا جس میں آپ کے ساتھ اہلسنت کے معروف بزرگ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد عبداللہ نعیمی علیہ الرحمہ صدر مناظرہ تھے۔
نیز دوسرا مناظرہ حزب اللہ شکست کے تائب نہیں ہوتے۔ یہی حال ڈاکٹر عثمانی سے ہوا جوکہ ڈاکٹر کمال عثمانی ہار گیا۔ بدمذہبوں کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ باوجود شکست کے تائب نہیں ہوتا۔ یہی حال ڈاکٹر کمال عثمانی کا رہا کہ باوجود شکست کے وہ تائب نہیں ہوا اور آخر وقت تک بکواس کرتا رہا۔ بکواس لکھتا رہا، اس کی گستاخی سے بھر پور لٹریچر اب بھی حزب اللہ پورے شہر کراچی میں پھیلا رہی ہے۔
ڈاکٹر عثمانی سے مناظرے کے بعدآپ نے مناظرے کرنا چھوڑ دیئے۔
شرف بیعت:
۱۹۶۲ء میں بذریعہ خط اور ۱۹۶۸ء میں بریلی شریف جاکر اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مجدد دین و ملّت الشاہ امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کے چھوٹے صاحبزادے حضرت مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مصطفیٰ رضا خان بریلی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر سلسلہ قادریہ میں بیعت کا شرف حاصل کیا۔
۱۹۶۸ء کے بریلی شریف کے سفر میں حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے دولت خانے پر قیام کیا اور حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ ےسے تعویذ اور عملیات کی ترتیب اور اجازت حاصل کی۔ اسی دوران آپ نے مسجد رضا بریلی میں نمازوں کی امامت بھی فرمائی۔ یہ آپ کی خوش نصیبی ہے کہ اپنے وقت کے مفتی اعظم اور اللہ تعالیٰ کے کامل ولی حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے آپ کی اقتداءمیں نمازیں ادا فرمائیں نیز آپ نے حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی موجود گی میں کئی جلسوں میں تقاریر بھی کیں جس پر حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے داد تحسین بھی عطا فرمائی۔
خلافت و اجازت:
آپ مدظلہ العالی کو سلسلہ قادریہ، برکاتیہ، اشرفیہ، شازلیہ، منوریہ اور دیگر سلاسل میں اپنے پیر ومرشد شہزادہ اعلیٰ حضرت حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ، پیر طریقت رہبر شریعت حضرت علامہ مولانا الحافظ القاری محمد مصلح الدین صدیقی علیہ الرحمہ اور قطب مدینہ شیخ عرب و عجم حضرت علامہ مولانا ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمہ کے صاحبزادے اور جانشین زینت العلماء، خوشبوئے مدینہ حضرت علامہ مولانا فضل الرحمہ مدنی علیہ الرحمہ سے خلافت و اجازت حاصل ہے۔
نکاح:
آپ مدظلہ العالی کا نکاح ۱۹۶۶ء میں پیر طریقت رہبر شریعت حضرت علامہ مولانا الحافظ القاری محمد مصلح الدین علیہ الرحمہ کی صاحبزادی سے ہوا۔
اولاد:
آپ مدظلہ العالی کے تین صاحبزادے اور چھ صاحبزادیاں ہیں جن میں سے ایک صاحبزادی کا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا تھا۔ باقی الحمدللہ بقید حیات ہیں جن میں دو صاحبزادے اور چار صاحبزادیاں شادی شدہ ہیں۔
آپ کے شہزادگان کے نام یہ ہیں۔ حضرت علامہ سید شاہ عبدالحق قادری، سید شاہ سراج الحق قادری اور سید شاہ فرید الحق قادری۔ بڑے صاحبزادے سید شاہ سراج الحق قادری صاحب، منجھلے صاحبزادے حضرت علامہ مولانا سید شاہ عبدالحق قادری صاحب اور چھوٹے صاحبزادے محترم سید شاہ فرید الحق قادری ہیں۔
بڑے صاحبزادے محترم سید شاہ سراج الحق قادری نے آدجھے سے زیادہ درس نظامی پڑھ کرچھوڑ دیا۔ اس کے بعد چھوٹے صاحبزادے حضرت علامہ مولانا سید شاہ عبدالحق قادری عالم دین ہیں۔ دارالعلوم امجدیہ سے فارغ التحصیل ہیں اور چھوٹی صاحبزادی بھی عالمہ اور مقررہ ہیں۔
حضرت شاہ صاحب مدظلہ العالی کے ایک ہی صاحبزادے عالم دین ہیں جب حضرت علامہ سید شاہ عبدالحق قادری صاحب کی ولادت ہوئی توپیر طریقت ولی نعمت حضرت علامہ مولانا قاری محمد مسلح الدین صدیقی علایہ الرحمہ نے حضرت شاہ صاحب سے فرمایا کہ اس کا نام محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ کی نسبت سے ‘‘عبدالحق’’رکھو۔ شاید عالم دین بن جائے لہٰذا قاری صاحب علیہ الرحمہ کےارشاد کے مطابق ‘‘عبدالحق’’ نام رکھا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا کرنا دیکھیے کہ شاہ صاحب کا یہی صاحبزادہ عالم دین بنا۔
خطابت و امامت:
آپ نے ۱۹۶۵ء سے ۱۹۷۰ء تک یعنی چھ سال محمدی مسجد کورنگی کراچی میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دئیے۔
۱۹۷۰ء سے ۱۹۸۲ء تک بارہ سال کھارا در اور کراچی کی قدیم مسجد اخوند مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دئیے۔
۱۹۸۳ء میں اپنے استاد اورسر حضرت پیر طریقت ولی نعمت قاری محمد مصلح الدین صدیقی علیہ الرحمہ جو کہ اپنی نیابت و خلافت آپ کو پہلے ہی عطا کر چکے تھے، اپنے وصال کے دو سال قبل میمن مسجد مصلح الدین گارڈن سابقہ کھوڑی گارڈن کراچی کی امامت و خطابت آپ کےسپرد فرمائی، حضرت شاہ صاحب آج تک ا س ذمہ داری کو احسن طریقے سے پورا فرما رہے ہیں۔
مکان دور ہونے کے باوجود آپ ایک عرصے تک تین نمازیں عصر، مغرب اور عشاء خود پڑھاتے تھے۔ اب طبیعت نا ساز ہونے اور مصروفیات بڑھ جانے کی وجہ سے دونمازیں مغرب اور عشاء کی امامت فرماتے ہیں جبکہ جمعۃالمبارک کی خطابت و امامت پابندی سے فرماتے ہیں۔ یہ آپ کا خلوص ہے کہ آپ نےکبھی امامت فرمانے کے پیسے نہیں لیے اور جمعۃ المبارک کی خطابت کی پیسے لیے ہیں۔
ملکی وغیر ملکی تبلیغی دورے:
دین متین کی تبلیغ و اشاعت میں آپ نے بھرپور حصہ لیا ہے۔ اپنی ایمان افروز تقاریر اور مواعظ حسنہ کے ذریعے آپ نے دنیا کے کونے کونے میں اسلام کی دعوت عام کی۔ ملکی دورے تو آپ نے اتنے فرمائے کہ جس کاکوئی شمار نہیں مگر بیرون ملک بھی آپ نے کئی تبلیغی دورے کیے۔ درج ذیل ممالک میں آپ وہاں کے لوگوں کی دعوت پر کئی بار تشریف لے گئے اور ان ممالک میں جماعت اہلسنت کی تنظیم سازی اور دینی اداروں کے قیام کے سلسلے میں بھر پور کوشش فرمائی۔ جن ممالک کے آپ نے تبلیغی دورے کیے ان میں متحدہ عرب امارات، سری لنکا، ہندوستان، بنگلہ دیش، برطانیہ، ہالینڈ، جرمنی، اسپین، بیلجیم، امریکہ، ساؤتھ افریقہ، کینیا، چین تنزانیہ، زمبابوے، عراق، زنزیبار، فرانس،زمبیا، اردن، کینیڈاور مصر شامل ہیں۔
قومی اسمبلی میں صلوٰۃ وسلام پڑھا گیا:
حضرت شاہ صاحب نے قومی اسمبلی میں بھی حق کی آواز بلند فرمائی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان دنوں راجہ ظفر الحق نے قومی اسمبلی میں یہ بکواس کی کہ صلوۃ و سلام پرپابندی عائد کی جائے۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ آپ نے اس کے خلاف آواز حق بلند کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر ارشاف فرمایا کہ راجہ ظفر الحق اسمبلی پورے ملک میں صلوٰۃ وسلام پر پابندی کی بات کرتا ہے، ہم اس کی اس تجویز کو مسترد کرتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ صلوٰۃ وسلام پر گز بند نہیں ہوگا۔ ہم تو قومی اسمبلی کے اجلاس کے اختتام پر پابندی سے صلوٰۃ وسلام پڑھیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اور یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ آپ نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے اختتام پر پابندی کے ساتھ کھڑے ہوکر صلوٰۃ وسلام پڑھا اور راجہ ظفر الحق کے عزائم خاک میں مل گئے۔
گستاخِ رسول کی سزا عمر قید سے بلد کر سزائے موت کروائی:
آپ کے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے سے قبل پاکستان کے قانون میں گستاخ رسول کی سزا فقط عمر قید تھی، مگر آپ نے اسمبلی میں بیٹھ کر بھرپور کوششیں کیں اور آپ کی بے انتہا کوششوں کی بدولت وہ وقت آیا کہ پاکستانی قانون میں گستاخ رسول کی سزا کو 295C کےتحت سزائے موت میں بدل دیا جائے۔ الحمدللہ یہ سعادت بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی۔
اس کے علاوہ بھی آپ کی کئی سیاسی خدمات ہیں جو کہ ریکارڈ ہیں، لوگ اس تسلیم کریں یا نہ کریں۔اللہ تعالیٰ نے اس کی بدولت آپ کو بڑی عزت و شان سے نوازا ہے۔
کئی سنّی تنظیموں اور اداروں کے سرپرست:
روز اول سے آپ نے مخلصانہ انداز میں ملک حق اہلسنت کی نمائندہ تنظیموں اور اداروں کی سر پرستی اور ان کی معاونت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جو کہ اب تک جاری ہے۔ کراچی کی سب سے زیادہ مساجد آپ ہی کی سرپرستی میں ہیں، اس کے بعد بے شمار مدارس، دارلعلوم، دینی اور سماجی ادارے اور تنظیمیں آپ کی سرپرستی میں کام کر رہی ہیں۔
آپ مسلک کی خدمت کے حوالے سے درج ذیل عہدوں پر فائز رہے۔
۱۔ کونسلر کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن
۲۔ چیئر مین تعلیمی کمیٹی کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن
۳۔ رکن لاء کمیٹی کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن
۴۔ رکن انٹرمیڈیت بورڈ کراچی
۵۔ رکن قومی اسمبلی ۱۹۸۵ء میں حقلہ ۱۹۰ کراچی ساتھ (جماعت اسلامی کے کراچی کے موجودہ امیر محمد حسین محنتی کو بھاری اکثریت سے ہرا کر قومی اسمبلی کے رکن منتحب ہوئے اور پھر قومی اسمبلی میں نظام مصطفیٰ گروپ قائم فرمایا)
۶۔ چیئر مین انسداد جرائم کمیٹی کراچی
۷۔ ڈائریکٹر جاویداں سیمنٹ فیکٹری (سرکار نامزدگی)
۸۔ رکن مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان
۹۔ چیئرمین مدرسہ انوار القرآن قادریہ رضویہ کراچی
۱۰۔ چیئر مین جامعہ انوار القرآن قادریہ رضویہ گلشن اقبال کراچی
۱۱۔ چیئر مین مصلح الدین ویلفیئر سوسائٹی کراچی
۱۲۔ سرپرست اعلیٰ دارالعلوم مصلح الدین کراچی
۱۳۔ چیئر مین المسلم ویلفیئر سوسائٹی کراچی
۱۴۔ ٹرسٹی/ ناظم تعلیمات دارالعلوم امجدیہ عالمگیر روڈ کراچی
۱۵۔ امیر جماعت اہلسنت پاکستان کراچی
۱۶۔ ناظم جماعت اہلسنت ورلڈ
۱۷۔ رکن کمیٹی برائے سنی سیکریٹریٹ لاہور
۱۸۔ صدر مدارس اہلسنت
۱۹۔ سرپرست ترجمان اہلسنت ماہنامہ مصلح الدین کراچی
۲۰۔ ممبر سنی اتحاد کونسل
۲۱۔ سر پرست اعلیٰ تحریک اتحاد اہلسنت
۲۲۔ سر پرست انجمن طلباء اسلام
۲۳۔ سرپرست تحریک عوام اہلسنت
۲۴۔ سرپرست اعلیٰ بزمِ رضا
۲۵۔ سنی تحریک علماء بورڈ کے پہلے رکن
۲۶۔ سرپرست انجمن اشاعت اسلام (موجودہ جمعیت اشاعت اہلسنت)
۲۷۔ سرپرست اعلیٰ دارالعلوم مصلح الدین
اس کے علاوہ بے شمار مدارس و مساجد کے آپ سر پرست ہیں، جن کے لکھنے کے لیے کئی صفحات درکار ہیں۔
سیاسی خدمات
پیر طریقت حضرت سید شاہ تراب الحق صاحب قادری مدظلہ نے دین متین کی ہر شعبہ میں خدمت انجام دی ہے، جس طرح آپ مساجد میں ممبر پر بیٹھ کر اور دینی جلسوں اور جلسوں اور جلوسوں میں تشریف لے کر حق کو بلند فرمایا کرتے ہیں۔ اسی طرح آپ نے اسمبلی میں بیٹھ کر وزراء، امراء، و اراکین پارلیمنٹ کے سامنے بھی کلمہ حق بلند فرمایا ہے۔ جس طرح آپ اپنے حجرے میں اپنی مسند پر بیٹھ کر مسلک حق اور عوام اہلسنت کی خدمت کرتے ہیں۔ اسی طرح قومی اسمبلی میں پہنچ کر بھی مسلک حق اور عوام اہلسنت کی خدمت فرمائی ہے۔ آپ ۱۹۸۵ء میں کراچی کے حلقہ این اے ۱۹۰ سے جماعت اسلامی کراچی کےمحمد حسین محنتی کو بھاری اکثریت سے ہرا کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
(ماخوذ از ’’سیّد شاہ تراب الحق قادری ۔۔ ۔ شخصیّت و خدمات‘‘ مولّفۂمحمد شہزاد قادری ترابی)