حضرت سیدناعمر بن خطاب فاروقِ اعظم
حضرت سیدناعمر بن خطاب فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ
نام و نسب:
کنیت ابوالحفص، لقب، فاروق اعظم اور اسم گرامی عمر بن خطاب ،بن فضیل ،بن عبدالغریٰ ،بن ریاح ،بن عبداللہ، بن فرط، بن زراح ،بن عدی ،بن کعب،بن لوی۔ آپ کی والدہ کا نام حنتمہ بنت ہاشم ،بن مغیرہ ،یا بن ہشام ،بن مغیرہ، بن عبداللہ، بن عمر بن مخزوم۔ اس لحاظ سے وہ یا تو ابوجہل کے چچا کی لڑکی یا ابوجہل کی بہن تھیں۔ آپ کا نسب والد کی طرف سے حضور ﷺکے نسب نامہ کعب پر ملتا ہے۔ (کعب رسول اکرمﷺ کے جد ہشتم تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جد نہم تھے)۔
قبولِ اسلام:
رسول اکرم ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے ‘‘اللھم اعزالاسلام بعمر ابن الخطا ب’’(الصواعق المحرقہ ،ص،۳۳۱) تو اس اعتبار سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ مرادمصطفیٰ ﷺہیں۔ بعثتِ رسول پا کﷺ کے چھٹے سال اور حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے تین دن بعد ایمان لائے ۔ آپ چالیسویں مسلمان تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قبول اسلام کی خوشی میں مسلمانوں نےبآواز بلند نعرۂ تکبیر لگایا جس سے پوری وادی گونج اٹھی ۔اور حضرت جبرائیل امین باگاہ رسالت پناہﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺآج آسمان والے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کی خوشی منارہے ہیں اور اور آپکو مبارکباد پیش کر رہے ہیں ۔جس دن حضرت عمررضی اللہ عنہ ایمان لائے تو یہ آیۂ کریمہ نازل ہوئی:
یا ایھا النبی حسبک اللہ ومن اتبعک من المومنین
ترجمٔہ کنز الایمان :اے غیب کی خبریں بتانے والے نبی اللّٰہ تمہیں کافی ہے اور یہ جتنےمسلمان تمہارے پیرو ہوئے (سورۃ الانفال ،آیت 63)
فضائل ومناقب:
حضور ﷺنے فرمایا ! کہ پہلی اُمتوں میں‘‘ محدَّثین’’ ( اللہ تعالیٰ انکو حق بات کا الہام کرتا ہے اور انکی زبان پر حق جاری فرماتا ہے) ہوا کرتے تھے اور میری امت میں عمر رضی اللہ عنہ ایسے شخص ہیں جن کی زبان سے اللہ تعالیٰ کلام کرتے ہیں۔(الصواعق المحرقہ ،ص،۳۳۵) یہاں اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ جس معاملہ میں صحابہ رسول گفتگو کرتے تھے، حکمِ الٰہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق نازل ہوا کرتا تھا۔قرآن مجید کی متعدد آیات مبارکہ اس پر شاہد ہیں۔
رسول کریم ﷺ نے فرمایا!"اگر میرے بعد کوئی اور نبی مبعوث ہوتا تو وہ عمر بن خطابہوتے۔" (جامع ترمذی،ج2 ، ص 563)یعنی جو اوصاف اللہ کے نبی میں ہوتے ہیں وہ تمام کے تمام حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں موجود تھے ،سبحان اللہ ،ایسی عظیم اور عبقری شخصیت ۔
ایک اور موقع پرآپ ﷺ نےفرمایا! "جس راستے پر عمر ہو ںوہاں سے شیطان راستہ بدل لیتا ہے"(صحیح بخاری، ج 2 ، رقم الحدیث 880)
خلافتِ عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ :
حضرت ابوہریرہاس حدیث کے راوی ہیں سرکارِ دو عالمﷺ نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک ڈول میں نے کنویں میں ڈالا اور اس سے پانی کھینچنے لگا اور اس وقت تک پانی کے ڈول کھینچتا رہا جب تک اللہ نے چاہا۔ اس کے بعد سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پانی کھینچنے لگے۔ ابھی آپ نے دو ایک ڈول کھینچے تھے کہ تھک گئے ۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور ڈول کھینچنے لگے۔ میں نے آپ سے زیادہ طاقت ور کوئی نہیں دیکھا تھا۔ آپ نے تمام حوض کو پانی سے بھر دیا اور خلقِ خدا کو سیراب کردیا۔ (صحیح بخاری،حدیث ،۳۶۸۲)
یہ عہدِ خلافتِ عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ تھا۔ آپ نے فارس کے ہزاروں شہر اور قصبے فتح کیے اور بے پناہ لوگ دامنِ اسلام میں آئے۔
بروز منگل ۲۷،جمادی الآخر ۱۳ھ کو آپ مسندِ خلافت پر بیٹھے۔ آپ کی مدتِ خلافت دس سال آٹھ ماہ تھی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دس سالوں میں 22لاکھ مربع میل کا علاقہ بغیرآرگنائزڈآرمی کے فتح کیا ۔ آپ کی ان فتوحات میں اس وقت کی دو سپرپاورطاقتیں رو م اورایران بھی شامل ہیں ۔ آج سیٹلائٹ میزائل اورآبدوزوں کے دور میں دنیا کے کسی حکمراں کے پاس اتنی بڑی سلطنت نہیں ہے ۔
حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے کسی ساتھی نے ان کی حکم عدولی نہیں کی وہ ایسے عظیم مدبرومنتظم تھے کہ عین میدان جنگ میں اسلام کے مایہ ناز کمانڈرسیدناخالد بن ولید کومعزول کردیا اورکسی کو یہ حکم ٹالنے اور بغاوت کرنے کی جرأت نہ ہوئی ۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دنیا کوایسے سسٹم دئیے جو آج تک دنیا میں موجود ہے ۔
آپ کے عہد میں باجماعت نماز تراویح کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا،آپ کے دورمیں شراب نوشی کی سزا 80 کوڑے مقررہوئی ، سن ہجری کا اجراءکیا، جیل کاتصور دیا، مؤذنوں کی تنخواہیں مقررکیں،مسجدوں میں روشنی کابندوبست کروایا،باوردی پولس، فوج اورچھاؤ نیوں کاقیام عمل میں لایا گیا، آپ نے دنیا میں پہلی بار دودھ پیتے بچوں، معذوروں، بیواو ں اور بے آسرا لوگوں کے وظائف مقررکئے آپ نے دنیامیں پہلی بار حکمرانوں، گورنروں، سرکاری عہدے داروں کے اثاثے ڈکلیر کرنے کا تصور دیا ۔ آپ جب کسی کو سرکاری عہدے پر فائز کرتے تھے تواس کے اثاثوں کا تخمینہ لگواکر اپنے پاس رکھ لیتے اوراگرعرصہ امارت کے دوران عہدہ دار کے اثاثوں میں اضافہ ہوتا تواس کی تحقیق کرتے ۔ جب آپ کسی کوگورنر بناتے تو اس کونصیحت کرتے کہ ترکی گھوڑے پرمت بیٹھنا ، باریک کپڑا مت پہننا،چھناہواآٹاا مت کھانا، دروازے پر دربان مت رکھنا ۔
کراماتِ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ:
ایک دن جمعہ کے روز آپ برسرِ منبر خطبہ دے رہے تھے۔ اسی اثناء میں تین بار خطبہ کے دوران ’’یا ساریۃ الجبل‘‘ پکارا اور پھر خطبہ میں مشغول ہوگئے۔ حاضرینِ مجلس ان بے تعلق جملوں سے متعجب تھے۔ حتی کہ عبدالرحمان بن عوف نے وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا: میں نے نظرِ کشف سے دیکھا کہ حضرت ساریہاور اس کے لشکری ایک پہاڑ کے دامن میں لشکرِ کفار سے لڑ رہے ہیں اور قریب ہے کہ انھیں شکست ہو۔ میں نے یہ حال دیکھا تو بے قرار ہوگیا۔ میں نے انہیں للکارا کہ تم پہاڑ کے پیچھے چلے جاؤ۔ چنانچہ انہیں کفار کے لشکر سے نجات مل گئی۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری آواز ان تک پہنچادی ہوگی۔ ابھی کچھ عرصہ گزرا تھا کہ حضرت ساریہ اپنے لشکر کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچے اور بتایا کہ جمعہ کے روز ہم لشکر کفار سے لڑ رہے تھے۔ صبح سے لے کر نماز ظہر تک ہم مصروفِ پیکار رہے۔ میں نے دیکھا کہ کفار کا بے پناہ لشکر ہمیں گھیرے میں لے رہا ہے۔ کسی منادی کرنے والے نے پکارا۔ یا ساریۃ الجبل۔ چنانچہ ہم نے پہاڑ کے دامن میں لشکر کفار کا مقابلہ کیا تو فتح یاب ہوگئے۔ (تایخ الخلفاء،ص،۲۹۲)
جس وقت مصر فتح ہوا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حکم سے عمرو بن العاص کو وہاں کا گورنر مقرر کیا گیا۔ اسی سال مصری لوگ آپ کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے: دریائے نیل کی عادت ہے ہر سال اس ماہ ایک خوب صورت کنواری لڑکی کو اس دریا کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ ہم لڑکی کے والدین کو حسبِ خواہش روپیہ دے کر خوش کرلیتے ہیں اور لڑکی کو خوب صورت لباس پہنا کر دریا میں پھینک دیتے ہیں۔ اس طرح دریائے نیل کا پانی پورا ایک سال رواں دواں رہتا ہے ورنہ خشک ہوجاتا ہے اور قحط رونما ہوجاتا ہے جس سے فصلوں کو بڑا نقصان ہوتا ہے۔ اس سال بھی اگر یہ نذرانہ پیش نہ کیا گیا تو نیل خشک ہوجائے گا اور فصلیں تباہ ہوکر رہ جائیں گی۔
حضرت عمرو ابن العاصنے یہ سارا واقعہ خلیفۃ المسلمین حضرت عمر رضی اللہ عنہکو لکھ بھیجا۔ وہاں سے جواب آیا کہ اسلام اس قسم کی رسوم کو ختم کرنے آیا ہے۔ ایسی بات کو اسلام قطعاً تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ چنانچہ اس قسم کی رسوم ادا کرنے کی کسی کو اجازت نہ دی جائے۔ کہتے ہیں: ابھی تین ماہ گزرے تھے کہ دریائے نیل خشک ہوگیا۔ رعایا برباد ہونے لگی اور لوگ قحط سے نقلِ مکانی پر مجبور ہوگئے۔ حضرت عمرو بن العاص نے دوبارہ صورت حال لکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مشہور لیا کہ بے آبی سے لوگ تباہ ہو رہے ہیں اگر آپ امداد فرمائیں تو رعایا آباد ہوسکتی ہے ورنہ حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات سنتے ہی ایک رقعہ دریائے نیل کو لکھا جس میں یہ الفاظ تھے:
من عبد اللہ الامیر المومنین عمر الی نیل مصر۔ اما بعد فانک ان کنت تجری من قبلک فلا تجرو ان کان اللہ الواحد القھار ان تجریک فتجر فقط!
(امیر المومنین عمر کی طرف سے دریائے نیل مصر کے نام۔ اگر تم خود جاری ہو تو رُک جاؤ۔ لیکن اگر اللہ واحد قہار کے حکم سے چلتے ہو تو تمہیں جاری رہنا پڑے گا)۔
آپ نے حاکمِ مصر کو بھی لکھا کہ میرا یہ رقعہ دریا میں ڈال دینا۔ دریا اللہ کے فضل و کرم سے جاری ہوجائے گا۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے وہ رقعہ دریائے نیل میں ڈالا۔ دوسرے روز دریا عام حالات سے سولہ فٹ اونچا بہنے لگا۔ چنانچہ رعایا آباد ہوگئی اور حالات معمول پر آگئے اور دریائے نیل کی یہ عادتِ بد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی۔(تاریخ الخلفاء،ص،۲۹۴)
آپ کی شہادت:
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ دعا مانگا کرتے تھے....
اللھم ارزقنی شھادۃً فی سبیلک واجعل موتی ببلدِ رسولک َ ﷺ ۔(مؤطا امام مالک ،حدیث ،۹۳۴)
اے اللہ مجھے شہادت کی موت نصیب فرما اور میری موت اپنے رسول ﷺ کے شہر میں مقدر فرما۔
اللہ تعالیٰ نے مدینے میں ہی شہادت عطا کر کے نبی ﷺ کے قدموں میں جگہ بھی عطا فرما دی ۔
شاہِ خلافت کی شہادت ۲۳ھ میں واقعہ ہوئی۔ صحیح تاریخ وفات 26 ذوالحجہ ہے – (کتب کےنام)کتاب الفاروق،ص166۔تاریخ ابن کثیر،ج ،ہفتم۔ ص 186۔طبقات ابن سعد،حصہ سوم ،ص123۔تاریخ طبری۔جلدسوم ،حصہ اول ،ص217۔تاریخ مسعودی،حصہ دوم،ص240۔
. امام اہلسنت جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں: ابو عبیدہ بن جراح کا بیان ہے کہ حضرت عمر بدھ کے دن ۲۶ ذی الحجہ ۲۳ ہجری کو شہید ہوئےاور ہفتہ کے دن محرم کی چاند رات کو دفن کئے گئے۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ۳۱۰ )
اور ان کی وفات کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت 29 ذی الحج سنہ 23ہجری کوہوئی ماہ محرم الحرام کی یکم کوآپکی نماز جنازہ ادا کی گئی آپ ان تین زخموں سے واصلِ بحق ہوئے جو ایک بدنہاد ابو لولؤ فیروز مجوسی نے دھوکے سے لگائے تھے ۔ آپ ۶۰ یا ۶۳ سال اور بقول دیگر ۵۸ سال کی عمر میں شہید ہوئے۔ آپ کی قبرانور حضرت صدیق اکبر کی قبر مبارک کے ساتھ ہے جو کہ سرکار دو عالمﷺ کے پہلو میں ہے۔ کہتے ہیں: حضرت عمر رضی اللہ عنہکے مدفن کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دفن کیا جائے گا۔ یہ دونوں بزرگ دو انبیاء کرام کے درمیان آرام فرما ہیں اور ان کے درمیان سے اٹھیں گے۔
آپ کی مہر پر لکھا ہوا تھا : عمر ! ‘‘ نصیحت کے لیے موت ہی کافی ہے’’
ان کی کنیت ابو حفص، نام عُمَر، لقب فاروق تھا، والد کا نام خطاب بن نفیل بن عبد العزّٰے بن رباح بن عبد اللہ بن قرط بن زُراح بن عدی بن کعب بن لویٔ القرشی تھا، [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد اوّل ص ۱۳] والد کا نام عنتمہ بنت ہشام بن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمرو بن مخزوم بن یقظہ بن مُرّہ بن کعب تھا۔ [۱] [۱۔ الفاروق حصہ اوّل ص ۱۴۲ ۱۲ شرافت]
واقعہ فیل سے تیرہ (۱۳) سال بعد غرہ محرم کو پیدا ہوئے، اور ۶نبوی میں ایمان لائے، اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ۱۳ھ میں رونق افروز مسندِ خلافت ہوئے، اِن کی خلافت میں ایک ہزار چھتیس (۱۰۳۶) شہر و علاقے فتح ہوئے، چار ہزار مسجدیں تعمیر ہوئیں، چار ہزار دیر و کنشت مندرس ہوئے، ایک ہزار نو سو منبر رکھے گئے [۱] [۱۔ الفاروق حصہ اوّل ص ۱۶] دس برس چھ ماہ خلافت فرما کر روز پنجشنبہ بتاریخ اٹھائیسویں ذی الحجہ ۲۳ھ / ۶۴۴ء [۱] [۱۔مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۷۴] کو ابو لؤ لؤ فیروز پارسی کے ہاتھ سے شہید ہوئے، اور روز شنبہ غرہ محرم ۲۴ھ کو روضۂ نبوی میں مدفون ہوئے۔ [۱] [۱۔ مدارج النبوۃ جلد دوم ص ۵۳۰]
فتوحاتِ فاروقی
اِن کے زمانہ میں اسلامی فتوحات کا دائرہ بہت زیادہ وسیع ہَوا مقامی انتظام کے بعد مثنے کی مدد کے لیے فوجیں بھجیں، مثنے رضی اللہ عنہ نے فرسک پر قبضہ کیا، قادسیہ میں زبردست لڑایاں ہوئیں، مسلمان فتحیاب ہوئے، اور اسلامی پرچم ایران کی سر زمین پر لہرانے لگا، اس کے بعد بابل، کوثی، بہرہ ثیر حلوان مسلمانوں کے قبضے میں آئے، ایرانی بادشاہ سے معاہدہ صلح ہَوا، ایرانیوں کے قبضے سے عراق نکل جانے کے باعث انہیں چین نہ تھا، ا س لیے ایک زبردست فوج ایرانیوں کی تیّار ہوئی، نہاوند کے قریب سخت جنگ ہوئی، مگر مَیدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔
۱۴ھ / ۶۳۵ء
رجب میں دمشق پر قبضہ ہوا۔ [۱] [۱۔ الفاروق حصہ اول ص ۸۶]
ذیقعدہ میں فحل کے مَیدان میں سخت جنگ ہوئی، مسلمان فتحیاب ہوئے، اور اردن کے تمام مقامات پر قابض ہوئے، [۱] [۱۔ ایضًا ص ۸۷]
اسی سال حمص فتح ہوا۔ [۱] [۱۔ایضًا ص ۹۱]
۱۵ھ / ۶۳۶ء
۵؍ رجب کو یرموک میں جنگ ہوئی، جس میں مسلمانوں کی فتح ہوئی، اور مسلمان تمام ملک میں پھیل گئے، اور چھوٹے چھوٹے مقامات نہایت آسانی سے قبضہ میں آگئے۔ [۱] [۱۔ایضًا ص ۹۳]
۱۶ھ / ۶۳۷ء
میں بیت المقدّس کا محاصرہ ہَوا، باشندگان بیت المقدس کی خواہش پر حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے وہاں خود تشریف لے جا کر معاہدہ صلح ترتیب دیا، اور یہ مشہور شہر بھی مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا، [۱] [۱۔ایضًا ص ۱۰۵]
اسی سال فتحِ ؟؟؟ واقع ہوئی۔ [۱] [۱۔ایضًا ص ۱۱۵ جزیرہ اس حصہ آبادی کا ؟؟ ہے جو دجلہ اور فرات کے بیچ میں ہے اس کی حدودِ اربعہ یہ ہیں۔ مغرب آرمینیا کا کچھ حصّہ اور ایشیائے کوچک، جنوب شام، مشرق عراق، شمال آرمینیا کے کچھ حصّے۔ ۱۲ ]
۱۷ھ / ۶۳۸ء
میں خوزستان اور اُس کا صدر مقام شوستر فتح ہوا۔ [۱] [۱۔ ایضًا ۱۱۶؍ خوزستان اُس حصہ آبادی کا نام ہے جو عراق اور فارس کے درمیان واقع ہے، اس میں چودہ (۱۴) بڑے شہر ہیں جن میں سب سے بڑا شہر ہواز ہے۔]
۱۸ھ / ۶۳۹ء
میں شام و عراق میں سخت وبا پھیلی جس میں پچیس ہزار اسلامی فوج کے جانباز طعمۂ اجل ہوئے۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۱۲]
نیشا پور و ہمیاط و حران و نصیبین کے علاوہ اکثر جزائر اور موصل بھی فتح ہوئے۔ [۱] [۱۔ تاریخِ اسلام جلد دوم ص ۴۶۰]
۱۹ھ / ۶۴۰ء
شوال میں قیساریہ فتح ہوا۔ [۱] [۱۔ الفاروق حصہ اوّل ص ۱۱۴]
۲۰ھ / ۶۴۱ء
میں مصر کا تمام ملک جنوب میں ابی سینیاتک اور مغرب میں لیبیا تک مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا، سکندریہ بھی فتح ہوا۔ [۱] [۱۔ تاریخِ اسلام جلدِ دوم ص ۴۶۰ ۱۲ شرافت]
۲۱ھ / ۶۴۲ء
عراقِ عجم فتح ہوا [۱] [۱۔ الفاروق حصہ اول ص ۱۲۰؍ سر زمین عراق دو حصوں پر منقسم ہے، مغربی حصہ کو عراق عرب کہتے ہیں اور مشرقی حصہ کو عراق عجم، اس کی حدود اربعہ یہ ہیں کہ شمال میں طبرستان، جنوب میں شیراز، مشرق میں خوزستان، مغرب میں شہر مراغہ واقعہ ہے، اس وقت کے بڑے بڑے شہر اصفہان ہمدان اور رَمے جمھے جاتے تھے، اس وقت رَے بالکل ویران ہوگیا ہے اور اسی کے قریب طہران آباد ہوگیا ہے جو شاہان قاچار کا دار السلطنت ہے۔] اس کے بعد مسلمانوں نے عام فوج کشی کی، اور تقریبًا دو (۲) سال کے اندر کسرٰے کی ساری حکومت قبضہ میں آگئی۔[۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۲۴]
نہاوند و دیگر خرائز فتح ہوئے۔ [۱] [۱۔ تاریخ اِسلام جلد دوم ص ۴۶۱]
۲۲ھ / ۶۴۳ء
میں آذربیجان، [۱] [۱۔ الفاروق حصّہ اوّل ص ۱۲۶؍ اصل لفظ آذر بائیگان تھا، آذر بمعنی آتش اور بائیگان بمعنی محافظ یعنی نگاہدا رندۂ آتش چونکہ اس صوبہ میں آتشکدوں کی کثرت تھی اس وجہ سے یہی نام ہوگیا جس کو عربوں نے اپنی زبان میں آذربیجان کر لیا۔] طبرستان، [۱] [۱۔ ایضًا ۱۲۷؍ طبرستان کے حدود اربعہ یہ ہیں مشرق میں خراسان و جرجان، مغرب سی آذربیجان، شمال میں بحر جان، اور جنوب میں بلا دخیل بسطام اور استر آباد کے مشہور شہر میں ۱۲] آرمینیہ فتح ہوئے۔ [۱] [۱۔ ایضًا ۱۲۷ صوبہ آرمینیہ کو بلادِ دارمن بھی کہتے ہیں جو ایشیائے کوچک کا ایک حصہ ہے شمال میں بحر اسود، جنوب میں کو ہی اور صحرائی حصہ دور تک چلا گیا ہے، مشرق میں گرجستان، اور مغرب میں بلا دروم واقعہ ہیں ۱۲]
۲۳ھ / ۶۴۴ء
میں فارس، [۱] [۱۔ ایضًا ۱۲۸؍ حال کے جغرافیہ میں عراق کی حدود گھٹا کر فارس کی حدود بڑھا دی گئی ہیں پُرانے نقشہ کے رو سے اس کے حدود یہ تھے۔ شمال میں اصفہان، جنوب میں بحر فارس، مشرق میں کرمان، اور مغرب میں عراق عرب اس کا سب سے بڑا اور مشہور شہر شراز ہے ۱۲] کرمان، [۱] [۱۔ الفاروق حصّہ اوّل ص ۱۳۰ اس کا قدیم نام کرمانیہ ہے، حدودِ اربعہ یہ ہیں، شمال میں کوہستان، جنوب میں بحر عمان، مشرق میں سیستان، اور مغرب میں فارس ہے، زمانہ سابق میں اس کا دارالصد اثیر (بیردسیر) تھا جس کی جگہ اب جیرفت آباد ہے ۱۲] سیستان، [۱] [۱۔ ایضًا بحوالہ مذکور۔ سیستان کو عرب میں سجستان کہتے ہیں حدہ داربعہ یہ ہیں شمال میں ہرات، جنوب میں مکران، مشرق میں سرزہ، اور مغرب میں کوہستان ہے، مشہور شہر زرنج ہے ۱۲] مکران، [۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۳۱؍ آج کل مکران کا نصف حصہ بلوچستان کہلاتا ہے ۱۲] خراسان، [۱] [۱۔ ایضًا بحوالہ مذکور۔ علّامہ بلاذری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تمام ماوراء النہر، فرغانہ، خوارزم، طحارستان، اور سیستان رقبہ خراسان میں داخل تھا، مگر اصل یہ ہے کہ اس کے حدود ہر زمانہ میں مختلف رہے ہیں، اس کے مشہور شہر نیشا پور، مَرو ہرات، بلخ، طوس وغیرہ تھے ۱۲] فتح ہوئے غرضیکہ عہدِ فاروقی میں شام، مصر، ایران مسلمانوں کے قبضہ میں آچکے تھے۔
فضائل فاروقی
اِن کے فضائل قرآنِ کریم و احادیث میں بکثرت ہیں، یہاں صرف تین حدیثیں تبرکًا لکھی جاتی ہیں۔
حدیث: عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لقد کان فیما قبلکم محدّثون فان یکن فی امّتی احد فانّہ عمر (بخاری و مسلم)
حدیث: عن عبد اللہ بن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انّ اللہ جعل الحقّ علٰی لسان عمر وقلبہٖ (ترمذی)
حدیث: عن عقبۃ بن عامر قال قال النّبیّ صلی اللہ علیہ وسلم لو کان بعدی نبیّ لکان عمر بن الخطّاب (ترمذی)
اولاد فارقی
ان کے نو بیٹے تھے۔ اوّل حضرت حضرت ابو عبد الرّحمٰن عبد اللہ (متوفی ۷۳ھ) دوم حضرت عبید اللہ (متوفی ۳۷ھ) سوم حضرت عبد الرحمٰن اکبر چہارم حضرت ابو شحمہ عبد الرحمٰن اوسط، پنجم حضرت عبد الرحمٰن اصغر ششم حضرت زید اکبر ہفتم حضرت زید اصغر ہشتم حضرت عیاض نہم حضرت عاصِم (متوفی ۷۰ھ) [۱] [۱۔ 12]
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نسل تین بیٹوں عبد اللہ، عُبید اللہ، عاصِم سے باقی ہے، جو عمری یا فاروقی کہلاتے ہیں۔
خلفائے فارقی
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو خلافت باطنی عطا کر کے کلاہِ دو ترکی پہنائی، چونکہ اِن کا زیادہ خیال اشاعتِ اسلام اور فتوحاتِ ممالک، اور عدل و انصاف کی طرف تھا اس لیے باطنی نسبت صرف ایک شخص حضرت عبد اللہ علم بردار رضی اللہ عنہ کو عطا فرمائی، مگر چونکہ ان کی تکمیل حضرت امیر کرم اللہ وجہہ سے ہوئی، اس لیے ان کا ذکر خلفائے مرتضوی میں آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
(شریف التواریخ)