امام العارفین حضرت خواجہ اللہ بخش تونسوی
امام العارفین حضرت خواجہ اللہ بخش تونسوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
سلسلۂ چشتیہ کے نیر تاباں حضرت خواجہ اللہ بخش تونسوی ابن حضرت خواجہ گل محمد بن حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی ماہ ذوالحجہ (۱۲۴۱ھ/۱۸۲۶ئ) میں تونسہ شریف میں پیدا ہوئے دین تعلیم کے لئے حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی نے آپ کو مولانا محمد امین کے سپرد کیا ۔ انہوں نے قرآن مجید کے علاوہ فارسی نظم اور عربی صرف و نحو کی تعلیم دی ، پھر حدیث کا درس دیا ، باطنی تر بیہ خود حضرت پیر پٹھان نے فرمائی۔
ابتدائی زمانہ میں آپ شاہانہ شان و شوکت سے رہتے تھے، جب اپنے اسلی مقام پر فائز ہوئے تو پرانی ٹوپی ، نیلا تہبند اور معمولی کپڑے زیب تن فرماتے تھے ۔ جدا امجد کے فیض تربیت سے نماز اور روزے کی محبت بچپن ہی میں حاصل ہوگئی تھی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عبادت و ریاضت سے لگائو انتہا ء کو پہنچ گیا۔ حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسوی آپ کے دینی جذبے سے بے حد خوش ہوتے تھے چنانچہ آپ نے اپنی حیار ظاہری ہی میں دلائل الخیرات شرف کا پڑھنا آپ کے سپرد کر دیا تھا اور یہ بھی فرمادیا تھا کہ شجروں پر ہماری طرف سے تم ہی دسخط کر دیا کرو ۔ حضرت خواجہ اللہ بخش نے اس فرمان پر یہاںتک عمل کیا کہ حضرت پیر پٹھان کے بعد بھی شجروں پر حضرت شاہ سلیمان کا نام ہی لکھا کرتے تھے (۱)[1]
جب آفتاب تونسہ شریف حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسوی قدس سرہ کے رد پوش ہونے کا وقت قریب آیا تو آپ نے حاضر ہو کر سر قدموں میں رکھ دیا اور عرض کیا:۔
’’میں آپ سے اوکچھ نہیں مانگتا ، صرف یہ چاہتا ہوں کہ آ کے فقیروں کے جوتے سیدھے کرتا رہوں۔‘‘
یہ سن کر حضرت شیخ پر ایک کیفیت طاری ہوگئی اور فرمایا ونفخت فیہ من روحی اور جان جان آفریں کے سپرد کردی،شاہ غلام نظام الدین فرزند کالے صاحب نے حضرت خواجہ اللہ بخش کے سر پردستار بادھ کر انہیں سجادہ شیخ پر بھٹادیا[2]
حضرت خواجہ اللہ بخش رحمہ اللہ تعالیٰ نے جدا مجد کی طرح پوری تندہی سے خلق خدا کی راہنمائی فرمائی اور سلسلہ کی اشاعت میں اپنی تما خدا داد صلاحیتوں کو صر ف فرمایا ۔آپ نے سجادہ نشین ہونے کے بعد ہندوستان کے مختلف شہروں کا سفر کیا اور بزرگان دین کے مزارات پر حاضری دی ، بیکا نیز میں ہزاروں لوگ آپ کے مرید ہوئے ۔ حضرت خواجہ حمید الدین ناگوری رحمہ اللہ تعالیٰ کے مزار پر حاضری دی اور دس روز اجمیر شریف میں قیام فرمایا ، یہاں بھی ہزاروں لوگ حلقہ ٔ ارادت میں داخل ہوئے ، پھر کشن گڑھ ، جے پور ، راجپوتا نہ سے ہوتے ہوئے دہلی پہنچے اور حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کا کی ، حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی اور حضرت خواجہ فخر الدین قدست اسرارہم کے مزارات کے علاوہ سلسلہ چشتیہ کے دوسرے اولیاء کے مقبر پر بھی حاضری دی ۔
قیام دہلی کے دوران بہادر شاہ ظفر نے حاضر ہو کر شرف قد مبوسی حاصل کیا ، بڑے بڑے امیر کبیر بھی آپ کی قد مبوسی کے لئے حاضر ہوئے اور محلات کی بیگامت مرید ہوئیں[3]
مرزا غلام احمد قادیانی نے جب اپنے عقائد کی تشہیر شروع کی تو آپ نے اپنی جگہ بیٹھ کر نہایت سختی سے تردید فرمائی اور کوشش کی کہ مسلمانوں کا دینی احساس بیدار ہو جائے تاکہ اس قسم کی گمراہ کن تحریکوں سے متاثرہ نہ ہوں ، حالانکہ ابھی تک مرزاجی نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیاتھا [4]
آپ کو تعمیرات سے بہت دلچسپی تھی ، آپ کی بنوائی ہوئی عمارات شہر کے تقریباً نسف حصہ میں پھیلی ہیں ، ان عمارا ت میں زیادہ تر مساجد ، مدارس ، کنوئیں اور سرائیں ہیں۔
آپ بلند اخلاق کے مالک تھے ، ایک دفعہ آپ کے دربار میں حاضر ہونے والا آپ کے اخلاق حمیدہ کے انمٹ نقوش دل میں لے کر جاتا تھا ، مسلمان تو مسلمان ہندو تک آپ کے اخلاق عالیہ سے مستفید ہوتے تھے۔
حضرت خواجہ شمس العارفین سیالوی کے حضرت خواجہ اللہ بخش تونسوی سے برے مخلصانہ تعلقات تھے ، ایک دفعہ حضرت شمس العارفین نے ان کے بارے میں فرمایا:۔
’’انہوں نے نسبی شرافت و کرامت کے ساتھ ساتھ عبادت دریاضت میں سب سے آگے بڑھ کر قرب الٰہی حاصل کیا‘‘
آپ کی تین فضیلتیں بہت ہی نمایاں تھیں :۔
۱۔ آپ نے عرب شریف سے ایک قاری صاحب کو بلا کر ا پنے مکان پر ٹھہرا یا تاکہ علاقہ کے لوگ قرآ کی قراء ت کی تصحیح کرلیں ، چنانچہ بے شمار فاع فیض قرآنی سے مستفیض ہوئے ۔
۲۔ ۱۲۹۹ھ میں زیارت حرمین شریفین کے لئے گئے تو پچیس افراد آپ کے ہمراہ تھے ، اس سفر میں آپ نے اپنے رفقاء اور حرمین طیبین کے خدام پر ساٹھ ہزار روپے صرف فرمائے ۔
۳۔ حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسوی قدس سرہ کے وسال کے بعد بہت سے لوگوں کو تشویش تھی کہ مریدین کی تربیت کون کرے گا اور وابستگان آستانہ کی ضروریات کا انتظام کون کریگا جب حضرت خواجہ ؒلہ بخش شجادہ نشین ہوئے تو وہ حضرت شاہ محمد سلیمان تونسوی کی توجہ سے تمام اوصاف میں سب سے سبقت لے گئے:۔
’’پس چوں دریں وقت بنظر غوبہ بنیم معلوم میگر دد کہ ظہور حضرت خواجہ تونسوی اکنوں شدہ است ۔ سبحان اللہ ! چنیں سجادہ نشین از سجاد گان پیش بظہور نا مدہ باشد [5]
حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی قدس سرہ نے ایک مرتبہ فرمایا:۔
’’خواجہ اللہ بخش صاحب کی نظر میں اہل دنیا کی ذرہ برابر وقعت نہ تھی ، آپ بے حد غریب نواز تھے ، دنیا دوروں کو بہت حقیرجانتے تھے، خواجہ اللہ بخش جیسا کوئی فقیر دیکھنے سننے میں نہیں آ یا ۔‘‘[6]
آپ کے تین فرزند تھے ، حضرت خواجہ حافظ محمد موسیٰ حضرت خواجہ حافظ احمد اور حضرت خواجہ حافظ محمود رحمہم اللہ تعالیٰ آپ کے مریدین اور معتقدین حد شمار سے باہر ہیں شمس العلماء مولانا عبد الحق خیر آبادی آپ ہی کے مرید تھے۔
۲۹ جمادی الاولیٰ،۱۳ ستمبر (۱۳۱۹ھ /۱۹۰۱ئ) کو حضرت خواجہ اللہ بخش تونسوی رحمہ اللہ تعالیٰ کا وصال ہوا ، تاریخ وصال یہ ہے:
چراغ جہاں بجھ گیا ہے[7]
[1] خلیق حمد نظامی ، پروفیسر ، تاریخ مشائخ چشت ، مطبوعہ دارالمؤ لفین ، اسلام آباد ، ص : ۷۱۹
[2] خلیق احمد نظامی ، پروفیسر ، تاریخ مشائخ چشت ، مطبوعہ دارالمؤ لفین ، اسلام آباد ، ص : ۷۱۸
[3] ایضاً ، ص: ۷۲۰
[4] ایضاً ، ص: ۷۲۲
[5] محمد سعید سید ، مولانا : مرأ ۃ العاشقین ، مطبوعہ مصطفائی ، لاہور ۱۳۰۲ھ ، ص : ۲۲۵یا۲۲۷
[6] خلیق احمد نظامی ، پروفیسر ، تاریخ مشائخ چشت،ص ۷۲۱ بحوالہ ملفوظات طیبہ، ص۱۴۲
[7] ایضا ً ص : ۷۲۳
(تذکرہ اکابرِ اہلسنت)