حضرت شیخ سید محمد کالپی شریف
حضرت شیخ سید محمد کالپی شریف
حضرتِ سید میر محمد کالپوی علیہ رحمۃ اللہ الباری۱۰۰۲ھ کوہند کے شہر کالپی میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والدِ ماجدحضرت ابی سعید علیہ رحمۃ اللہ الرشیدآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ولادت سے قبل شہر دکن کی طرف تشریف لے گئے اور مَفْقُودُ الخَبَر (یعنی لاپتہ)ہوگئے۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی والدہ محترمہ کی آغوش تربیت میں پروان چڑھے اور7 برس کی عمر میں اپنے وقت کے مشہور محدث شیخ محمد یونس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوکر علومِ دینیہ سیکھے۔پھرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جب حضرت سیدنا جمال الاولیاء رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں پہنچے تو انہوں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے عالی ظرف کو دیکھتے ہوئے اپنے سلسلہ بَیْعَت میں داخل کیا اور تمام سلاسل کی اجازت و خلافت عطا کی۔
سات سال کی عمر سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نمازِ باجماعت کبھی قضاء نہ ہوئی۔آخر عمر میں ۲۶سال تک مسلسل روزہ رکھتے رہے سوائے اُن دِنوں کے جن میں روزہ رکھنا حرام ہے۔اپنے مرشد کامل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے اکتسابِ فیض کے بعد کالپی شریف واپس آئے اور درس وتدریس میں مشغول ہوگئے۔ 13 مفید تصانیف یادگار چھوڑیں ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ 65برس کی عمر پا کر ۶ شعبان المعظم ۱۰۷۱ھ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے ۔مزارِ پُر انوار کالپی شریف کے باہر دکھن اور پچھم گوشے میں شہر سے تقریباًایک میل کے فاصلے پر ہے۔
بدکار کو نیکوکار بنادیا
منقول ہے کہ ایک شخص صاحب ثروت تھا اور متعدد گناہوں میں مبتلا رہتا تھا ۔ اس کی عادت تھی جس درویش کا شہرہ سنتا ان کی صحبت میں جاتا۔ بالآخر ایک مرتبہ اس نے سوچا کہ کالپی شریف حضرت میر سید محمد قدس اللہ سرہ العزیز کی بارگاہ میں چلنا چاہے ۔ اور اپنے دل میں یہ خیال باندھا کہ اگر پہلی بار دیکھنے کے ساتھ ہی میرے اوپر کوئی کیفیت طاری ہو گئی تومیں اپنے تمام گناہوں سے تائب ہو جاؤں گا اور اگر کوئی کیفیت ظاہرنہیں ہو گی تو علی الاعلان شراب نوشی کروں گا۔جب وہ حضرت کی بارگاہ میں پہنچا تو دیکھتے ہی بے ہوش ہو گیا اور کافی دیر تک عالم بے ہوشی میں پڑا رہا ۔جب افاقہ ہو ا تو اپنے گریبان کو چاک کر دیا اور فقراختیار کر کے تارکُ الدنیا ہوگیا۔ آپ نے اپنے کشف سے اس کے آئندہ حالات کا مشاہدہ فرمایااور ایک عمدہ جوڑا مع خادم کے اس کے پاس روانہ فرمایا۔اس نے خلعت کو قبول نہ کیا ۔خادم نے ہر چند کوشش کی مگر وہ انکارہی کرتارہا۔آخر کار حضرت خود تشریف لائے اورارشادفرمایاکہ ""تم میری اِرادت کی وجہ سے مرجعِ اربابِ سعادت ہو چکے ہو ، اس لئے جو کچھ بھی تمہیں دیا جا رہا ہے اسے قبول کر لو، تم کیا جانتے ہو کہ اس میں کیا راز ہے؟""یہاں تک کہ اس نے خلعت کو پہنا اور پھر اس پر راز سر بستہ منکشف ہوئے اور وہ آپ کے درکا خادم ہو گیا۔
(شرح شجرہ قادریہ رضویہ عطاریہ، ص۱۰۲)