حافظ سید محمد عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر

بشارت

آپ کے والد ماجد حضرت سید محمد کبیر الدین احمد شاہ قدس سرہ کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوتی تھی اور وہ قطع نسل کے خیال سے سخت پر یشان رہتے تھے، چنا نچہ ایک خواب میں انہوں نے امیر امومنین حضرت سید نا علی المرتضیٰ حیدر کرار رضی اللہ عنہ کو دیکھا اور عرض کیا کہ یا امیر المو منین؟ آپ میرے حق میں اولاد کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے فرزند عطا فرمائے،حضرت شیر خدا علی المر تضیٰ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: احمد: اللہ تعالیٰ تم کو بیٹا عطا فرمائے گا مگر میری ایک بات یاد رکھنا کہ جب فرزند تولد ہو تواس کا نام ،محمد عثمان،رکھنا اور جب وہ تین سو چور اسی دن کا ہوجائے تو  اس کولے کر مدینہ منورہ حاضری دینا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور سلام کے بعد حضرت سیدناعثمان غنی ذوالنور ین رضی اللہ عنہ کے مزار پر لے جانا اور سلام عرض کرنا، چنا نچہ والد صاحب نے حسب وصیت ایسا ہی کیا( لال شہباز قلندر صفحہ ۵۴)

ولادت باسعادت

حضرت شہباز قلندر چھٹی صدی ہجری کے آخر میں تبر یز(آزربا ئیجا ن، روس) کے قریب ایک گاؤں مر وند میں  573ھ1177ءمیں پیدا ہوئے اور وہیں تعلیم و تربیت حاصل کی۔

پید ا ئش وطن

لب تاریخ سند ھ صفحہ ۷،موج کوثر ۳۳۱پر شیخ اکرم نے آپ کے پید ائش وطن کانام مرند لکھا ہے اور اس کا جائے و قوع تبر یز کے قریب بتا یا ہے،(تذکرہ صو فیائے سندھ صفحہ ۱۹۹)

نسب نامہ

آپ صحیح النسب سادات میں سے ہیں اور حضرت سید نا امام محمد جعفر صادق  رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہیں،سلسلہ نسب یہ ہے:

حضرت سید محمد عثمان مروندی ابن حضرت سید کبیر ابن حضرت سید شمس الدین ابن حضرت سید نور شاہ ابن حضرت سید محمود شاہ ابن حضرت سید احمد شاہ ابن حضرت سید ھادی شاہ ابن حضرت سید مہدی شاہ ابن حضرت منتخب شاہ ابن حضرت سید غالب شاہ ابن حضرت سید منصور شاہ ابن  حضرت سید امام اسمعیل ابن حضرت سید نا امام جعفر صادق (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین)(لب تاریخ سندھ)

تعلیم و تر بیت

حضرت شہباز قلندر کو بچپن ہی سے علم حاصل کرنے کا از حد شوق تھا اور سات سال کی عمر میں انہوں نے قرآن مجید حفظ کرلیا تھا، اس کے علاوہ تھوڑے ہی عرصے میں عربی اور فارسی میں بھی مہارت حاصل کرلی تھی، ان کی عربی کی مہارت کے سلسلے میں مند رجہ ذیل واقعہ سے ثبوت مل سکتا ہے،حضرت شہباز قلندر جب ملتان میں تشریف لائے تو اس زمانہ میں غیا ث الدین بلبن حکمران تھا وہ عارفوں اور عا لموں کا  بہت قدر دان تھا،جب اس نے قلندر شہباز کی آمد سنی تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تعظیم بجا لایا اور تحفہ تحائف دینے کے بعد آپ سے ملتان میں قیام کی درخواست کی لیکن آپ نے یہ دعوت قبول کرنے سے معذ وری ظاہر کی، اسی دوران قیام،سلطان محمد نے ایک عربی محفل مشا عرہ  کا اہتمام کیا، اس مجلس میں حضرت غوث بہا ٔ الدین زکریا ملتا نی کے فرزند حضرت صد ر الدین عارف ملتانی بھی موجود تھے اور یہ دونوں بزرگ( یعنی شہباز قلندر اور عارف ملتانی) عالم وجد میں رقص کرنے لگے اور خود سلطان محمد کا  یہی عالم تھا،(شہباز قلندر) اس واقعہ  سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عربی کے ماہر تھے،فا رسی میں آپ کی دستر س تو ان اشعا ر سے عیاں ہوجاتی ہے جو آپ نے کہے ہیں ،مشہور انگر یز محقق برٹن جو کہ علوم شر قیہ لسانیا ت اور گر ائمر کا ماہر متصو ر کیا جاتا ہے اپنی تصنیف میں رقم طراز ہے کہ اس وقت اسلامی مدارس میں جو کتا بیں پرھا ئی جاتی ہیں ان میں قلندر شہباز کی یہ کتب بھی شامل ہیں۔

عقد،صرف ،صغیر قسم دوئم ،اجناس،میزان الصر ف.

(SIND AND THE RACES)رچرڈ ایف برٹن مطبو عہ آکسفو رڈ یو نیو رسٹی پریس کراچی ۱۹۷۵ء)

بیعت و خلافت

حضرت شہباز قلندر مادر زاد ولی تھے،ابھی سن شعو ر وشباب کا آغاز تھا کہ مروند کے نامور بزرگ شیخ ابو اسحاق بابا ابرا ہیم قادری رحمتہ اللہ علیہ  کو ان کے جدا مجد،غوث اعظم،غوث الثقلین،محبوب سبحانی،قطب ربانی مرشد حقانی،پیران پیر دستگیر،شہنشاہ  بغداد، حضرت شیخ محی الدین ابو محمد سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے عالم خواب میں آگاہ کیا اور حکم دیا، مروند میں محمد عثمان (شہباز قلندر) کی طرف توجہ کریں اور راہ سلوک کے منازل طے کرانے میں پوری کوشش کریں، حضرت بابا ابراہیم صاحب نے شہباز قلندر پر      خصو صی نظر کرم فرمائی سلسلہ عالیہ قا دریہ میں بیعت فرماکر روحانی تر بیت،سلوک و معر فت کی منا زل طے کرائیں، آخر ایک دن عصر کے بعد بابا ابراہیم قادری گیلانی نے مروند میں مشا ئخ عظام کو جمع کیا اور اس خصوصی تقریب میں شہباز قلندر کو خلافت عطا فرمائی۔

اس روایت کو محققین نے رد کردیا ہے کہ آپ حضرت بہاؤ الدین زکریا کے مرید تھے، آپ حضرت زکریا کے دوست تھے جیسا کہ برصغیر میں چار یار کے حوالے سے مشہور و  معر وف  ہیں اور آپ مد رسہ بہا ئیہ ملتان میں مدرس بھی تھے ہو سکتا ہے کہ بعض مصنفین کو اس حوالے سے غلط فہمی ہوئی ہو اور آپ کو مریدیں کے  زمر ے میں گنو انے لگے، لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔

مشائخ عظام سلسلہ طریقت قادریہ

حضرت شیخ حافظ سید محمد عثمان مروندی

حضرت شیخ بابا ابراہیم قادری

حضرت شیخ مرتضی سبحانی

حضرت شیخ احمد بن مبارک

حضرت غوث اعظم دستگیر سید عبد القادر گیلانی رحھم اللہ تعالیٰ(لال شہباز قلندر صفحہ ۱۸) تذکرہ الفقر أ نے شجرہ میں شیخ بابا ابراہیم کے مرشد کا نام شاہ جمال مجر و لکھا ہے، دیگر اسمأ گرامی مندرجہ بالا ہیں،(مظہر شاہ جہانی مرتبہ پیر حسام الدین راشد ی تعلیقا ت صفحہ ۲۶۴)

وطن ما لوف سے ہجرت

حضرت شہباز قلندر اپنے آباؤ اجداد کے وطن مرند (تبر یز،آ ذربا ئیجا ن)سے ہجرت کرکے ہندوستان کیوں تشریف لائے اور وہ کون سے اسباب ہیں،،اس سلسلے میں اکثر تاریخ نویس اور تذکرہ نگاہ خاموش ہیں۔

جناب انعام محمد نے اس جانب توجہ دی اور پس منظر(CONTEXT)کی کھوج لگائی اور عالمی شہرت یافتہ کتاب(LITERARY HISTORTY PERSIA)کے حوالے سے  رقم طراز ہیں۔

۱)تیر ھویں صدی عیسوی کی ابتد أ میں علا ؤ الدین محمد شاہ خوا رزم تخت نشین ہوئے، ان کی سلطنت اتنی وسیع تھی جتنی سلجو قی سلطنت اپنے عروج کے دور میں ،ایک طرف اڑل پہاڑ تا ایرانی نار تک پھیلی ہوئی تھی دوسری طرف دریائے سندھ تا دریا ئے فرات تک۔

۲)خو ارزم کی سلطنت،غز نوی سلطنت،سلجو قی سلطنت اور غو ری سلطنت سے بھی زیادہ مستحکم تھی اور ایک سو سال تک قائم رہتی اگر یہ سانحہ پیش نہ آتا،اس سانحہ نے سلطنت کو تباہ و بر باد کردیا، اس نے دنیا کا نقشہ مسخ کر دیا اور ایسی قوتوں کو کھڑا کیا جو کہ آج تک اثر انداز ہیں، انسان ذات پر ایسا عذاب امڈ آیا جوکہ دنیا کی تاریخ میں ہمارے دور تک محفوظ ریکا رڈ میں تو کسی بھی سانحہ سے برپا نہ ہوا،اس سانحہ سے مراد (MONGOLINVASION)مغلوں کا حملہ ہے۔

۳)ہلا کو، مغل شہنشاہ نے ۶۵۶ھ مطابق ۱۲۵۷ء کو بغداد پر حملہ کیا،اسلامی سلطنت کو ختم کردیا اور اسما عیلی فدایوں کے ،المو ت،والے قلعوں کے مرکز کو تباہ و برباد کردیا، شیخ الجبال (GRANDMASTET) رکن الدین خو ردشاہ اور ان کے معتقد ین کےلیے صرف ایک ہی راستہ تھا کہ وہ دوسرے ممالک کی طرف کوچ کریں اور اپنی مذہبی سرگرمیاں جاری رکھیں،ان میں سے ایک شخص جوکہ نسب کے لحاظ سے تو اسما عیلی سید تھے، مگر عقید ہ مختلف ( اہل سنت) رکھتے تھے،یعنی سید عثمان مر وندی،آپ نے وطن سے ہجرت کی،مغرب کی سمت نکل پڑے اور بالآخر سندھ کے تاریخی شہر سیو ہن شریف میں  قیام فرمایا۔

HAZRAT LAL SHABAZ QALANDAR OF SHEWAN SHARIF

(بحوالہ سندھ جابر بحر اور پہاڑ جلد اول صفحہ ۲۵۲)

غوث بہاؤ الحق زکریا ملتانی کے جدا مجد مغلوں کے حملوں کے سبب خراسان سے ملتان اورحضرت  شہباز قلندر بھی مغلوں کے حملوں ظلم و ستم و تباہی کے سبب وطن سے ہجرت کی اور ملتان تشریف لائے اور سیو ہن کو مستقل قیام کےلیے انتخاب کیا،ا س عہد میں ملتان سندھ ہی کا ایک شہر تھا۔

چار یار

برصغیر کے صوفیا ٔ کرام میں جو،چار یار ، مشہور ہیں، ان سے درج ذیل مشائخ مراد ہیں۔

شیخ الاسلام غوث بہاؤ الدین زکریا سہر وردی ملتانی( ملتان شریف)

قطب عالم مخدوم سید محمد عثمان مروندی لعل شہباز قلندر (سیو ہن شریف)

 سید السا دات مخدوم جلال الدین بخاری سہر وردی (اوچ شریف)

 قطب المشا ئخ خواجہ فرید الدین مسعود چشتی بابا گنج شکر( پا کپتن شریف)

 یہ چار درویش اہل سنت و جماعت احنا ف کے پیر ان کبار میں سے ہیں۔

مذ ہب و مسلک

حضرت شہباز قلندر سنی حنفی مذہب و مسلک سے تعلق رکھتے تھے، بعض حضرات کا خیال ہے کہ وہ،اسما عیلی شیعہ،تھے،لیکن یہ بات تاریخی شواہد و حقا ئق کی روشنی میں  من گھڑت ثابت ہوچکی ہے،کہ شہباز قلندر مخدوم حاجی حافط سید محمد عثمان مروندی ،زندگی بھر کسی بھی باطل فرقہ سے وابستہ نہیں رہے، اگر چہ آپ کے دور میں ملتان اسما عیلیوں کا مرکز تھا لیکن تاریخی شواہد سےیہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ اہل سنت و جماعت کے اکا بر پیران کبار سے رابطہ دوستی ،صحبت اور محبت رکھتے تھے، اسما عیلیون کی ایک کتابTHE GREAT ISMAILI HEROES۱۹۷۳ءکو کراچی سے شا ئع ہوئی، جس کے آغاز میں آغا خان کا خط بطو ر، افتتا حیہ کلمات،شامل ہے اور اس کتاب میں منصور الیما نی اسما عیلی تا پیر سبز علی(وفات ۱۹۳۸ء) تک تیس (۳۰) اہم اسما عیلی مشا ہیر کا تذکرہ درج ہے،لیکن ہمارے شہباز قلندر حضرت مخدوم عثمان مروندی کا ذکر کہیں بھی درج نہیں ہے۔

معلوم ہوا کہ اسما عیلی خوجہ شیعہ کے محققین کے ہاں بھی شہباز قلند ر شیعہ نہیں ہیں۔

محترم غلام ربانی آگر و صاحب رقمطر از ہیں کہ:

میں نے کراچی میں گارڈن کے نزدیک،خوجہ جماعت خانہ کے عقب میں اسما عیلیہ ایسو سی ایشن کے جنر ل سیکر یٹری شیخ محمد اقبال سے ملاقات کی جوکہ تیس برسوں سے ایسو سی ایشن سے منسلک ہیں، میں نے شہباز قلندر کے متعلق دریا فت کیا کہ وہ آپ کے ہاں اسما عیلی ہیں؟ انھوں نے بتایا،اصل بات یہ ہے کہ قلندر شہباز اسما عیلی نہیں تھے۔(سندھ کے برو بحر پہا ڑ جلد اول صفحہ ۳۲۱،۱۵۸ )

کراچی کے مولانا قاری احمد پیلی بھیتی مرحوم رقمطر از ہیں کہ:

حیات نامہ قلندر، کا بیان ہے کہ حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللہ علیہ کا پورا نام ،سید محمد عثمان حنفی،تھا اور آپ کے والد صاحب کانام سید محمد احمد کبیر الدین تھا، آپ آذر بائیجا ن کے صدر مقام تبریز سے چالیس میل دور مغرب کی جانب ایک گاؤں مرند میں پید ا ہوئے تھے، مگر مرندی کے بجا ئے کتا بوں میں ان کو مروندی لکھا گیا، اس غلطی کی وجہ سے ان کا پید ائشی مقام افغا نستان کے قریب مروند تصور کرلیا گیا ہے۔(لال شہباز قلندر صفحہ ۱۴)

حضرت مولانا عبد الرحیم جتوئی مرحوم اپنے استاد محترم سرتاج الفقہاء ولی کامل حضرت علامہ مفتی ابوا لفیض غلام عمر جتو ئی علیہ الرحمتہ کا شیعہ حضرات کے ساتھ ایک مبا حثہ نقل کیا ہے وہ رقمطر از ہیں کہ۔

گزشتہ سال حضرت استا ذینا ومولانا و مہد ینا حضرت ابو الفیض غلام عمر ساکن سونہ جتوئی لاڑکانہ تشریف فرما ہوئے بندہ حاضر خدمت تھا، جب میاں علی محمد قادری کے بنگلے میں داخل ہوئے تو وہیں حاجی امیر علی لاہوری، ماسٹر محمد   پریل(شیعا صاحبا ن) اور دیگر غیر معلوم حضرات بھی تھے، قادری صاحب ایک جعلی شعر پڑھنے میں مشغول تھے، جس میں حضر ت قلندر صاحب مرحوم کا نام پڑھا جارہا تھا، ایک مصر ع کا پچھلا حصہ یوں پڑھا  گیا۔

ھمہ علی من ست ھمہ الہ من ست

جس پر تمام شعیہ صاحبان جھومنے لگے، حضرت استاد صاحب نے فرمایا، حضرت قلندر کا اسم گرامی،محمد عثمان، ہے، پھر اس اسم گرامی والا شخص شیعہ کیسے ہوگا؟ جوکہ حضرت علی کو اللہ کہے، پھر شیعہ صاحبان میں سے کسی کو بولنے کی جرأت نہ ہوسکی،(حقانی خیالات مطبوعہ ۱۳۴۵ھ مزید دیکھیے فقیر کا مقالہ سندھ میں اہل سنت اور شیعیت ایک جائزہ ،سند ھی)

سندھ کے محقق و مؤ رخ ڈاکٹر میمن عبد المجید سند ھی مرحوم نے بڑی جستجو و تحقیق کے بعد قلمی بیاضوں سے شہباز قلندر کا منتشر کلا م جمع کیا، ایک نعتیہ غزل کے آخری مصرع میں حضرت شہباز قلندر اپنا عقید ہ یوں بیان فرماتے ہیں۔

                             عثمان چو شد غلام نبی و چہار یار
                             امید ش از مکا رم عربی محمد است
                                                                                                (شہباز قلندر صفحہ ۱۰۸)

گویا کہ ان کا عقیدہ ہے:

بندہ پرور گارم امت احمد نبی

دوستدار چار یارم تابع اولاد علی

مذھب حنفیہ دارم ملت حضرت خلیل

خاک پائے غوثِ زیر سایہ ھر ولی

حضرت شیخ علی سیو ہانی علیہ الرحمتہ، حضرت شہباز قلندر کے رفیقِ سفر، مرید باوفا اور خلیفہ جا نثار تھے، فیض و فضلیت کے صاحب ،تقویٰ وتوکل کے روشن مینار تھے اور نا مور صحابی رسول حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں ہونے کا شرف رکھتے تھے، انتقال کے وقت اپنی اولاد کو (جو کہ درگاہ کے مجا ور و خدام تھے) وصیت کرتے ہوئے فرمایا:

شہباز قلندر کے مزار شریف کی آمدنی (نذ رانہ) اپنے تصر ف میں نہ لائیے گا  اور کبھی بھی اپنی ملکیت نہ سمجھیں بلکہ اس (نذ رانہ) پر غر یبوں کا حق ہے،مسا فروں غر یبوں ( بیوہ،یتیم،طالب علم، معذور) پر خرچ کیجئے گا۔(رسالہ سیر قلند ری ( قلمی ) ازخضر علی سیو ہانی بحوالہ تذکرہ مشا ہیر سندھ ( سند ھی)

 اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ جب آپ کے خلیفہ عقا ئد و مسائل میں مذہب حق اہل سنت و جماعت پر سخت گیر تھے تو آپ کی اہل سنت و جماعت سے وابستگی کس قدر ہوگی۔

 اہل سنت،صحابہ واہل بیت اور اولیا ٔ اللہ کے پیر و کاروں کانام ہے اہل سنت، اہل نجات اور اہل جنت ہے۔

درس و تدریس

شہباز قلندر،حافظ القر آن،بلند پایہ عالم دین، صد ر المدرس اور صاحب تصا نیف بزرگ تھے، پر ہیز گاری اور متبع سنت ان کا طرہ امتیاز تھا،ڈاکٹر وفا راشدی رقمطراز ہیں کہ:

لعل شہباز جس پایہ کے صاحب علم و فضل اور صاحب تصوف و معر فت تھے،اسی پایہ کے معلم و مقر ر اور ادیب و شاعر بھی تھے، عربی و فارسی علوم و ادبیات پر کامل دستگاہ رکھتے تھے، قرآن و حدیث و فقہ کا وسیع مطا لعہ تھا، ماہر لسا نیات اور ماہر قو اعد زبان بھی تھے، آپ کی کتا بیں مدرسوں کے نصاب میں شامل ہیں جن میں عقد، اجناس،میزان ،صرف،صرف صغیر قسم دوئم وغیرہ مشہور ہیں۔(مہران نقش ۱۷۰)

اس دور میں ایشیا میں سب سے بڑی دینی درسگا ہ ملتان میں غوث بہاو ٔ الحق زکریا  کی تھی۔

جس کے متعلق مولانا نور احمد مرحوم رقمطراز ہیں:

حضرت شیخ الا سلام بہا ؤ الدین زکریا قدس سرہ کی خا نقاہ سے مراد صرف آپ کا مقبرہ نہیں بلکہ یہ اپنے دور کی بہت بڑی علمی وروحانی یو نیو رسٹی تھی،مدرسہ بہا ئیہ، کے دو شعبے تھے۔

۱)تدریسی

۲)تبلیغی

                                                                   (تذکرہ بہا ٔ الدین زکریا ملتانی صفحہ ۹۸)

مد رسہ بہائیہ علمأ،قرأ اور حفا ظ پیدا کرتا تھا اور تبلیغی مرکز حضرات علمأ کو مبلغ بناتا تھا، حضرت شیخ الا سلام نے لسانی بنیا دوں پر تبلیغی شعبے قائم کر رکھے تھے، سنسکرت،بنگالی،سندھی،فارسی،عربی،جا وی، برمی،مر ہٹی، الغر ض مشہور مشہور زبانوں کے الگ الگ شعبے تھے، جو عالم رضا کا رانہ طور پر اپنے آپ کو تبلیغ کےلیے پیش کرتا اسے اسی شعبے میں داخل کیا جاتا تھا، جہاں اسے بھیجنا مقصود تھا، مثلاً جو عالم ِدین انڈ ونیشیا کو جانے اور وہاں تبلیغ کرنے پر آمادگی کا اظہار کرتا اسے اس شعبے میں داخلہ ملتا جہاں انڈونیشین علمأ اپنے علاقے کی زبان سکھا تے اور اپنے  ملک کے طور طریقے سمجھا نے پر مقر ر تھے، جب اس طرح پند رہ بیس مبلغین ایک ملک کےلیے تیار ہو جاتے تو حضرت شیخ الا سلام اپنے ذاتی خزانے سے پانچ پا نچ ہزار اشرفی ایک ایک مبلغ کو عنایت فرماتے تھے اور اپنے اتا لیق کی ہدایت کے مطابق اس ملک کی ضرورت کی چیز یں خرید کر اپنی اپنی منز لوں کی طرف روانہ ہوجاتے تھے،(تذکرہ بہأ الدین صفحہ)

حضرت شہباز قلندر ملتان کے مدرسہ بہا ئیہ میں درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک تھے، شیخ محمد اکرام نے اپنی کتاب،موج کرثر، میں ایک انگر یز مؤ رخ کے حوالے سےلکھا ہے کہ حضرت قلندر صاحب بہت بڑے عالم اور بہت سی زبا نوں کے جاننے والے تھے اور علوم صرف و نحو میں پوری مہارت رکھتے تھے،چنا نچہ انگریز مؤرخ رچر ڈ برٹن کے زمانہ ۱۸۵۲ء میں میزان الصر ف اور صرف صغیر کی کتا بیں جو عام طور پر مد ارس عربیہ میں پڑھا ئی جاتی تھیں وہ سب آپ کی تصنیف تھیں اور آپ ہی سے منسوب کی جاتی تھیں، میزان الصر ف تو آج بھی درس نظامی میں شامل ہے اور عربی مدرسوں میں پڑھائی جاتی ہے۔

حضرت شہباز قلندر چونکہ مذہبی علوم کے عالم تھے اور فارسی و عربی زبان پر پورا عبور رکھتے تھے، اس لیے اکثر اہل علم آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے اور مسائل و قواعد میں آپ سے استفا دہ کرتے تھے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملتان میں حضرت زکریا ملتانی علیہ الرحمتہ نے جو مدرسہ قائم کیا تھا اس میں آپ نے چھ عرصہ درس و تدریس کی خدمت بھی انجام دی تھی اور صرف و نحو کے شائقین خاص طور پر آپ سے سبق لیا کرتے تھے۔(لا ل شہباز قلندر صفحہ ۵۷)

ڈاکٹر سرفراز احمد بھٹی بتا تے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے نصر پور کے مولوی عبد الحق ربانی کے پاس شہباز قلندر کی تصنیف میزان، کے قلمی نسخہ کی زیارت کی تھی لیکن مولور صاحب کے انتقا ل کے بعد وہ نسخہ ضائع ہو گیا جس کا ڈاکٹر صاحب کو آج تک غم ہے

لال اور شہبا ز کا مطلب

آپ کو لال شہباز کہا جاتا ہے اس کا مطلب کیا ہے؟ لعل کے متعلق ایک حکایت سے روشنی پڑتی ہے۔

امام العارفین،غوث العا لمین،تیر ھویں صدی کے مجد د برحق حضرت سید محمد راشد پیر سائیں روضے دھنی قدس سرہ اپنے ملفو ظات مبارک میں فر ماتے ہیں:

 مخدوم لعل شہباز کو کامل اکمل ولی اللہ کی تلاش تھی، عرصہ دراز کی جستجو و تلاش کے بعد آخر،جو یندہ پا یندہ است، ایک عشق کے جلے ہوئے اور سراپا سوز و درد شخص کی زیارت نصیب ہوئی اور ان کی صحبت اختیار کی جب نماز کا وقت ہوا تو شہباز قلندر نے بزرگ سے عرض کی بز رگوار نماز کا وقت ہوا چا ہتا ہے، اٹھیے کہ نماز ادا کریں، بزرگ نے فرمایا،نماز کیا ہے؟شہباز قلندر نے کہا کہ نماز عبادت ہے پھر بزرگ کو وضو کراکے جماعت میں لا کھڑا کیا اور شہباز قلندر خود امام بن گئے مخدوم بن گئے مخدوم شہباز قلندر نے جب نماز کی تکبیر اللہ اکبر کہی تو، اللہ، کا اسم پاک سن کر وہ بزرگ محبوب حقیقی کے عشق میں جل کر خاک ہوگئے۔

مخدوم علیہ الرحمتہ جب نماز سے فارغ ہوئے تب کیا د یکھتے ہیں کہ وہ بزرگ تو جل کر خاک ہوچکے ہیں، وہ بزرگ اپنے معبو د حقیقی کے عشق و محبت میں بے انتہا محو تھے، قرآن مجید کی آیت : اذا ذکراللہ  وجلت قلو بھم (پ ۹ ع ۱۵)

کی تفسیر میں صاحب تفسیر حسینی رقمطر از ہیں، وہ لوگ جن کے ہاں اللہ تعالیٰ کا نام پاک لیا جائے تو وہ انو ار و تجلیا ت کی ہیبت سے ڈر جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے جلال و عظمت سے پر وانوں کی طرح اپنی ہستی کو جلا دیتے ہیں ان کی نگاہ غیر اللہ کی طرف نہیں اٹھتی،اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو نہیں دیکھتی۔

دید ہ از غیر تما شا تو بر دو ختہ باد
آتش عشق تو جان و دل ما سو ختہ باد
شہباز قلندر نے وہ خاک اقدس اپنے چہرہ انور اور بدن پر مل لی، اس خاک پاک کا شہباز قلندر پر ایسے اثر ہوا کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کا نام مبارک سنتے تھے تو یکدم آپ کے جسم کے ہر ایک بال مبارک کی جڑ سے خوں نکلتا تھا۔(ملفو ظات شریف،سندھی)

اس روز سے شہباز قلندر،لال کہلا ئے،لعل کے لغوی معنی ہیں سرخ رنگ کا قیمتی پتھر،جس طرح لعل پتھر پتھروں میں اعلیٰ شان والا ہے اسی طرح لعل شہباز اولیأ اللہ میں  اعلیٰ شان والے ہیں۔

 شہباز، جس طرح شہباز( بڑا باز) پرندہ پرواز کے سبب تمام پرندوں کا سردار کہلاتا ہے، اسی طرح حضرت شہباز قلندر، بلند پرواز کے سبب قلندر وں کے سر دار پیشو اور شہباز ولایت ہیں۔

 جیسا کہ سرکار غوث اعظم ،پیر پیران،پیر دستگیر رضی اللہ عنہ اپنے ،قصید ہ غو ثیہ، میں فرماتے ہیں:

انا البازی اشھب کل شیخ

جس طرح با زا شہب(سیاہ سفید پروں والا باز) تما م پرندوں پر غالب ہے اسی طرح میں تمام مشا ئخ پر غالب ہوں۔

ان دلائل سے واضح ہوا کہ،لال۔ کہلا نا سرخ(لال ) لباس کی وجہ سے نہیں تھا، جس طرح عام لوگوں نے اور غٖیر مستند کتا بوں نے مشہور کر رکھا ہے کہ شہباز قلندر سرخ لباس پہنتے تھے بلکہ اس لال خون کی جانب نسبت ہے جو کہ محبت الہیٰ میں جسم کے بال بال سے جاری ہوا تھا۔

قلندر ی طریقت

بعض مؤلفین کا خیال ہے کہ آپ"قلندری طریقت"رکھتے تھےملنگوں نے قلندروں کو شریعت پاک سے آزاد سمجھ رکھا ہے اور قلند ری طریقے کو بے نمازی اور غیر شرعی کاموں سے روشنا س کراتے ہیں،اس لیے بہتر ہوگا کہ قلندری طریقت پر وضاحت پیش کی جائے۔

قلندر، شہباز ولایت تھے، شہباز قلندر شریعت پاک پر عامل،نماز کے نہ صرف پابند بلکہ بہت بڑے مبلغ تھے، آپ کامل ولی اللہ کی تلاش میں مصروف تھے کہ ایک کامل کی زیارت سے مشرف ہوئے لیکن جب نماز کا وقت ہوا تو آپ نے بڑے ادب سے انہیں بھی نماز یاد دلائی اور آپ یہ حکایت مستند حوالے سے پڑھ کر  آئے ہیں کہ نماز کی تبلیغ کی برکت سے آپ کو"لا ل شہبا ز قلندر" کا مرتبہ ملا، شہباز قلندر اللہ تعالیٰ و رسول کریم نبی مختار صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم کے سچے عاشق تھے پھر عاشق اپنے محبوب پاک صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم کا راستہ کیسے ترک کرسکتا ہے جو کہ صر اط مستقیم ہے،ملنگوں نے حضرت شہبا ز قلند ر مخدوم  سید محمد عثمان قدس سرہ الا قدس کے متعلق بہت سی غلط قسم کی من گھڑت حکا یتیں مشہور کر رکھی ہیں جوکہ عقل و شعو رو آگہی تحقیق و تفتیش کی روشنی میں کچھ بھی وقعت نہیں رکھتیں، اللہ و رسول کی دیوانی ،عشق حقیقی کی مستانی،شب خیز عابدہ حضرت رابعہ بصری رضی اللہ عنہم، جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ بھی قلندر تھیں، آپ کے متعلق حضرت شیخ فرید الدین عطا ر قدس سرہ ر قمطر از ہیں کہ:

آپ شب و روز میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھا کرتی تھیں۔                                 (تذکرۃ الا ولیأ۴۴)

شہباز قلندر کے یار بابا فرید الدین گنج شکر تھے ان کے خلیفہ خواجہ نظام الدین اولیأ دہلوی تھے اور ان کے منظو ر نظر  ر شیخ صدر الدین حکیم تھے وہ فرماتے ہیں کہ: بے نمازوں سے کہو کہ اللہ تعالیٰ نےہم پر نماز پنجگا نہ فرض فرمائی ہے اور پنجگانہ نماز پرھنے کا حکم دیا ہے اور نماز میں اس بات کا خیال رکھنا فرض عین ہے کہ ہم خدا کے ہاں حاضر ہیں، فرائض و سنن پر اکتفا کرکے نوافل کو ترک نہ کریں۔

(اخبا ر الا خیا ر صفحہ ۳۱۹)

اس سے قلندر کی عبادت،ریاضت شب خیز ی ،تقویٰ، پرہیز گاری ،ختم قرآن قائم اللیل و صائم الد ہر کا اند ازہ لگا یا جا سکتا ہے۔

قلندر ی طریقت کے سلسلے میں صاحب،طبقات الصو فیہ، رقمطر از ہیں:

تا رک الدنیا، تہجد گزار اور نفسانی لذتوں سے پاک فرد کو قلندر کہتے ہیں،صاحب حد یقتہ السلوک کا کہنا ہے کہ حضرت خواجہ عبید اللہ احر ار قدس سرہ ( متو فی ۸۹۵ھ) نے فرمایا:

اپنے آپ کو دنیا وی خواہشات سے مجر د رکھنے اور نفس کو معبود کے تابع کردینے کو قلند ری طریقت کہا جاتا ہے۔

کشف اللغا ت میں ہے کہ:

قلند ر اسے کہا جاتا  ہے جو کہ دنیا سے آزاد ہوکر صرف معبود (اللہ تعالیٰ) میں محو ہوجائے، غر ضیکہ طریقہ قلندر ی میں ہمہ وقت مشغول بہ حق رہنے کی تلقین کی جاتی ہے،یعنی عرفان نفس،راضی بہ رضا حق رہنا، استغنا،عالی ہمت،عمل پہیم اور نفس کے ساتھ جہاد قلندر یت کے اجز ائے تر کیبی ہیں، شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال قادری لاہوری نے بھی قلندریت کا یہی مفہوم بیان کیا ہے، علامہ اقبال کے نزدیک قلندر وہ ہے جس کے دل میں دنیا کے مضرات اور مشکلات کا خوف وہراس نہ ہو۔

ہزار خوف ہو لیکن زبان ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلند روں کا طریق
قلند ر کو جو روحانی فتو حات حاصل ہوتی ہیں وہ کسی بادشاہ کی فو جیں بھی حاصل نہیں کرسکتیں،علامہ اقبال فرماتے ہیں:

دبد بہ قلند ری طنطنہ سکند ری
آں ہمہ جذبہ کلیم ایں ہمہ سحر سامری
آں بہ نگاہ می کشید ایں بہ سیاہ می کشد
آں  ہمہ  صالح  و آتشی ، ایں ہمہ جنگ وداوری                                                                                            (شہباز قلندر صفحہ ۳۹)

حافظ شیرازی نے قلندرکی شان میں فرمایا کہ:

ہزار نکتہ  باریک تر زمو اینجا است
نہ ہر کہ سر بہ تراشد قلندری واند
سلطان العا رفین حضرت سلطان باہو قادری ۱۱۰۲ھ نے فرمایا ہے:

جو دم غافل سودم کافر  سانو ں مرشد ایہہ پڑھا یا ہو
سنیا سخن گیا کھل اکھیں،اساں چت مولا دل لایا ہو
 کیتی جان حوالے رب دے اساں ایسا عشق کمایا ہو
مرن تو اگے مرگئے باہو،تاں مطلب توں پایا ہو
برہان قاطع فارسی زبان کی مستند و معتبر لغت ہے،اس میں قلندر کے معنی و تشریع اس طرح ہے:

قلندر: بروزن سمند ر،عبارت از ذاتی است کہ از نقوش و اشکال عادتی و آمال بی سعا دتی مجر د با صفا گشتہ با شند و بمر تبہ روح تر قی کردہ از قیود تکلفا ت رسمی و تعر یفات اسمی اخلاص یا فتہ و دامن  وجود خود را ازہمہ برید مو طالب جمال و جلال حق شدہ و بدان حضرت رسیدہ و اگر ذرہ ای بکو نین واہل آں میلی داشتہ با شد از اہل غر ور است نہ قلندر۔

بقول اقبال:

دم زندگی رم زندگی غم زندگی سم زندگی
غم رم نہ کر،سم غم نہ کھا کہ یہی ہے شان قلندری
سندھ میں تشریف آوری

حضرت شہباز قلندر نے تعلیم و تر بیت ،بیعت و خرقہ خلافت اپنے وطن میں حاصل کی، ملک میں فتنہ و فسا د کے سبب اپنے وطن سے ہجرت کرکے ہندوستان آئے اور سیر و سیا حت، درس و تدریس،تبلیغ اور تلقین وارشاد فرماتے رہے، آپ تبلیغ و ارشاد کے سلسلے میں کن کن ممالک میں گئے اس کی تفصیلا ت میسر نہیں ہیں، بعض مؤ لفین کا خیال ہے کہ آپ نے مشہد شریف (ایران)حضرت امام علی رضا رضی اللہ عنہ کے مزار شریف کی زیارت کی اس کے بعد عراق گئے، جہاں بغداد شریف میں سراج الامت امام اعظم حضرت سیدنا امام ابو حنیفہ تا بعی رضی اللہ عنہ اور سرکار غوث اعظم محبوب سبحانی قطب ربانی پیران دستگیر شیخ محی الدین ابو محمد سید عبد القادر جیلانی حسنی حسینی رضی اللہ عنہ کے مزا رات اقدس پر حاضری دی، وہاں سے کربلائے معلیٰ گئے جہاں نشان حق وصداقت ،سید شباب اہل جنت حضرت سید نا امام حسین شہید کربلا رضی اللہ عنہ کے مزار اقدس کی زیارت کا شرف حاصل کیا، بغداد شریف میں حضرت سید علی بغدادی آپ کے مرید ہوئے جوکہ آگے چل کر آپ کے مشہور خلیفہ بنے(جن کا مزار شہباز قلندر کے دروازے کے ساتھ ہے)

وہاں سے حج بیت اللہ کرنے مکہ معظمہ گئے وہاں سے مدینہ منورہ امام الا نبیا ٔ ختم المر سلین شفیع المذ نبین رحمتہ اللعا لمین صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم کے گنبد خضر یٰ کے سائے تلے سنہری جالیو ں مبارک پر حاضری دی جالیوں کو چو ما صلو ٰۃ و سلام عرض کیا، وہاں سے دوسری بار عراق تشریف لے گئے وہاں سے  مکران کی راہ ہوتے ہوئے سندھ میں تشریف لائے یہاں سے پھر تبلیغ و تلقین کےلیے ملتان اور   ہند وستان تشریف لے گئے۔ کچھ، گرنار،گجرات اور جونا گڑھ بھی گئے۔

 ملتان سے اپنے یاروں کے ساتھ گرمیوں میں کشمیر اور بلخ  بخارا جاتے رہے اور سردیوں میں ان کے ساتھ مل کرسندھ،پنجا ب اور بلوچستان میں تبلیغ کرتے رہے، ملک میں ایسی کئی چلہ گا ہیں آج بھی مرجع خلا ئق ہیں جہاں آپ دوران سفر قیام فرمایا کرتے تھے۔

قدوسی مرحوم لکھتے ہیں:

بہت دن تک آپ شیخ منصور کی خدمت میں بھی رہے،(صوفیائے سندھ) جب کہ حضرت شیخ حسین منصور حلا ج رحمتہ اللہ علیہ سے آپ کی ملا قات ثابت نہیں، حضرت شہباز قلندر کی ولادت ۵۳۸ ھ اور ۵۸۳ھ کے درمیا ن میں ہوئی ہوگی جب کہ شیخ منصور نے ۳۰۹ ھ کو وصال کیا ہے۔

منم عثمان مروندی کہ یار خواجہ منصو رم
ملامت می کند خلقی ومن بر دارمی رقصم
یہ شعر حضرت شہباز قلندر کا نہیں ہے بلکہ خواجہ غریب نواز کے مرشد حضرت عثمان ہارونی رحمہم اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہے،اور یوں پڑھا جا ئے گا۔

منم عثمان ہارونی کہ یار شیخ منصو رم
ملامت می کند خلقی ومن بر دارمی رقصم
(میں عثمان ہارونی ہوں کہ خواجہ منصو ر میرے دوست ہیں، ساری دنیا مجھے ملامت کرتی ہے اور میں اس ملا مت کے بوجھ کو اٹھا ئے ہوئے رقص کرتا ہوں)

دنیا میں کتنے قلندر ہیں؟

مؤ رخ سندھ میر علی شیر قانع ٹھٹو ی رقمطر از ہیں۔

آپ سیرو سیاحت کرتے ہوئے عارف کامل حضرت شیخ

شرف الدین بو علی  قلندر پانی پتی قدس سرہ( جوکہ سراج

الا مت امام اعظم سیدنا ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی اولاد سے

تھے)کی خدمت میں پہنچے انہوں نے فرمایا کہ ہند میں

تین سو قلندر موجود ہیں، بہتر یہ ہے کہ آپ سندھ

تشریف لے جائیں، ان کے مشو رہ کے مطابق آپ

نے سندھ میں پہنچ کر سیو ستان(سیو ہن شریف)میں

قیام فرمایا(تحفہ الا کرام سندھی جلد ۳ صفحہ ۳۴۹۔تذکرہ

صو فیائے سندھ صفحہ ۲۰۲)

اس سے اس روایت کا رد ہوتا ہے جوکہ اکثر جہلا میں مشہور کہ  دنیا میں فقط،ڈہا ئی قلندر ،ہوتے ہیں۔

حضرت شہباز قلندر  مخدوم سید محمد عثمان مروندی اخیر عمر مبارک میں سیو ہن تشریف لائے۔

خدادا دخان رقمطر از ہیں:

قلندر شہباز زیادہ عرصہ سیا حت(تبلیغ) میں بسر کرنے کے بعد سیو ہن شریف لائے،کسی شاعر نے تشریف آوری کی تاریخ نمود، آفتاب دین، ۶۴۸ھ(دین کا سورج ظاہر ہوا) سےنکا لی۔

چوں باز آشیاں قدسی شہباز
سیوستا ن را نمو دہ جنت آسا
 خود تاریخ آں از روی اخلاص
نمود آفتاب دیں بگفتا
                                                                                  

(لب تاریخ سندھ فارسی)

حضرت شہباز قلندر بذریعہ کشتی دریائے سندھ پر سفر پر تھے، جب کشتی لکی شاہ صدر کے قریب پہنچی تو امام الا ولیأ،شیخ المشا ئخ،سند الا تقیاء، قطب ربانی حضرت سید صدر الدین شاہ لکیا ری قدس سرہ( آستانہ عالیہ،لکی شاہ صدر اسٹیشن کے برابر میں ہے اور تحصیل سیوہن شریف ہے) کی کرامت اور تصرف سے شہباز قلندر کی کشتی رک گئی،حضرت شہباز قلندر راز کو سمجھ گئے اور کشتی سے اتر کر سید ھے غار میں حضرت کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے جہاں آپ پہاڑی کی غار میں چلہ گاہ میں مصروف عبادت تھے، مصافحہ و معا نقہ کے بعد حضرت نے فرمایا، آپ یہیں سیو ہن میں قیام فرمائیں اور دین کی خدمت بجا لائیں۔

 شہباز قلندر نے جواب میں دودھ سے بھرا ہوا پیالہ خدمت میں پیش کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ علاقے دودھ سے بھرے ہوئے پیالے کی مانند اولیاء اللہ سے بھرا ہوا ہے،اب میری کیا گنجا ئش ہو سکتی ہے۔

حضرت نے بھر ے ہوئے دودھ کے پیالے پر گلاب کا پھو ل رکھ دیا اور ارشاد فرمایا:یہ علاقہ( سیو ستان)اولیأ اللہ سے اگر چہ بھر ا ہوا ہے لیکن آپ اس پھول کی طرح ممتاز ہوں گے، شہباز قلندر راضی ہوگئے اور مستقل قیام کا فیصلہ کرلیا اور فرمایا۔

شاہ صد ر نیک نظر است

(روزنامہ اخبا ر مہران شاہ صد ر نمبر ۱۹۵۸ء)

روایت ہے کہ سیو ہن میں قیام سے قبل شہباز  نے لکی میں شاہ صدر الدین سے ملاقات کی ان سے عرض کی کہ آپ اپنی اولاد میں سے ایک بیٹا میرے ساتھ کیجئے تاکہ وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے، چنا نچہ شاہ صدر الدین نے اپنا پوتا شاہ صلاح الدین لکیا ری ان کی خدمت میں دے دیا، سید صلاح الدین کو ہی قلندر شہباز کے دربار کی سجادہ نشینی نصیب ہوئی، ایک دوسری روایت ہے کہ آ پ اپنے تینوں احباب غو ث بہاو الحق زکریا ،سید جلال الدین بخاری اور بابا فرید گنج شکر کے  ہمراہ شاہ صدر الدین کی زیارت کو لکی آئے تھے۔       (شہباز قلندر صفحہ ۷۸)

شہباز قلندر کا عہد سندھ میں سو مرا قوم کی حکومت کا عہد تھا، یہ عہد سندھ کا روشن عہد تھا علمی و روحانی سر گرمیاں تیزی کے ساتھ ترقی کررہی تھیں، اس کا سبب یہ تھا کہ ایران خراساں اور دیگر اسلامی ممالک سے علما ٔ ،فقہأ اور صوفیا ٔ کرام مغلوں کے حملوں کے سبب ہجرت کرکے ہند اور سندھ تشریف لارہے تھے اس طرح سندھ اورہند کے علمأ کا بخارا،سمر قند ر،آذر با ئیجا ن، بغداد،خراساں اور ایران کے علمأ سے رابطہ پیدا ہوا۔

 اسی دور میں بکھر ( سندھ) کے مدارس اسلامیہ میں فقہ، اصول فقہ اور تفسیر کی تعلیم دی جاتی تھی اور درس و تدریس کے اہم اسا تذہ میں مولانا ظہیر الدین بخاری م،مولانا سید علی بن سید بد ر الدین،شیخ صدر الدین بخاری،مولانا برہان الدین بخاری،مولانا ابو حنیفہ بخاری اور مولانا عبد اللہ حنفی تھے، ڈاکٹر سر فراز احمد بھٹی نے تاریخ سما سو مرا عہد پر تحقیق مقالہ تحریر کیا ہے اور یہی عہد شہباز قلندر کا تھا، ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ عبا سی خلافت والے دور میں سنٹرل ایشیا اور ایران کی درسگاہیں اپنے عروج پر تھیں سندھ میں خصو صاً اروڑ،بکھر ،سکھر اور سیو ھن میں مد ارس اسلامیہ کے منتظم اعلیٰ حضرت سید محمد مکی اور حضرت نوح بکھری سہروردی کے خانوادے

میں سے تھے۔

مشہور مسلمان سیرانی ابن بطو طہ جوکہ شہباز قلندر کے بعد سندھ کی سیا حت پر آئے تھے وہ رقمطراز ہیں کہ:

سومراعہد میں سندھ کی درسگاہ ہیں معیار کے لحا ظ سے ایران اور سینٹرل ایشیا کی درسگاہ ہوں کے مد مقابل تھیں،اگھم کوٹ کی درسگاہ میں پانچ سو طلبہ قرآن و فقہ کی تعلیم حاصل کرتے تھے، ان کے علاوہ بھی دیگر مدارس تھے جن کے اخراجات سومرا قوم کے زمین دار اور وڈیرے ادا کرتے تھے( اللہ تعالیٰ ان کے طفیل آج کل سند ھی زمین داروں،وڈیروں ، سر داروں اور نوابوں میں وہی جذبہ پید ا فرمائے اور نیک کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین)اور وہ نیک اور پرہیز گار انسان تھے۔

 ابن بطو طہ نے سیو ھن میں شہباز قلندر کی درس گاہ کے متو لی شیخ محمد البغد ادی سے بھی شرف ملاقات حاصل کیا،ان کے علاوہ دیگر متعد د علمأ اسلام سے ملا  قا تیں کیں جن میں سے خطیب شعبا نی زیادہ مشہور ہیں۔

سیو ھن شریف میں مد رسہ " فقہ الاسلام"تھاجس کے متعلق  ایک روایت ہے کہ شہباز قلندر نے  قائم کیا تھا، اور دوسری روایت ہے کہ شہباز قلندر  نے مدرسہ کو ترقی دلو ائی تھے اور اس جیسا عالی شان دار العلوم پورے سند ھ میں نہ تھا،ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے مطابق اسکند ریہ جیسے دور دراز علاقہ سے طلبہ اس درسگاہ میں تحصیل علم کےلیے حاضر ہوتے تھے۔

شہباز قلندر کے عہد میں سیو ھن گویا سندھ میں علم و علمأ الا سلام کا مرکز تھا اور آپ علمأ کے اس کہکشاں میں مثل آفتاب تھے۔(سندھ کے بر بحر اور پہاڑ)

ایک مغالطہ کا ازالہ:

سیوہن میں جب شہباز قلندر تشریف لائے تو آپ نے اسی جگہ قیام کیا جو آج آپ کی درگاہ ہے،اس وقت یہ ہند و ؤں فاحشہ عورتوں کی آما جگاہ تھی،آپ جس روز آئے اور روز جو بھی ان فاحشہ عورتوں کے پاس آیا وہ اپنے مطلب میں قا در نہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔یہ روایت سب سے پہلے تحفہ الکرام فارسی/ سندھی نے جلد ۳ صفحہ ۳۴۹ پر درج کی اس کے بعد اسی سے ہرایک مصنف و مقرر نے نقل کی۔دیکھئے (شہباز قلندر صفحہ ۷۸)معراج نیر،لعل شہباز قلندر صفحہ ۷۱ محمد الیا س عادل،لال شہباز قلندر صفحہ ۴۸ قاری احمد پیلی بھیتی تذکرہ مشائخ سیو ستان صفحہ ۴ وغیرہ وغیرہ۔

اسی چار سطری واقعہ کو خان آصف نے اپنے قلم کی فن کاری سے ۱۱۵ سطروں تک پھیلا دیا، نہ فقط مضمون کو طول دیا بلکہ آپ پر یہ الزام بھی لگایا کہ آپ نے ان فاحشہ عورتوں کو زنا کاری کی اجازت بھی دے رکھی تھی،ذرا خان آصف کی عبادت کو ملا حظہ کیجئے کہ کیا گل کھلائے ہیں۔

 شہباز قلندر نے کہا:

روکنا تو درکنا ر ہم نے  کسی سے کچھ کہا تک نہیں، شیخ نے ان کو مخا طب کرتے ہوئے(مزید) فرمایا،اگر تم گناہوں کی تجارت قائم رکھنا چا ہتی ہو تو شوق سے جاری رکھو ہمیں تمہارے معمولات سے کوئی دلچسپی نہیں(پہلی قسط ہفت روزہ اخبا ر جہاں ۱۹ تا ۲۵ اپریل ۲۰۰۴ء)

ہماری تحقیق سے تحفۃ  الکرام کی یہ عبارت رد ہوجاتی ہے کیونکہ قبۃ الا سلام میں بد  کاری کا اڈہ کیسے چل سکتا تھا اور ویسے بھی تحفۃ  الکرام کی عبارت قیل (سنی سنائی بات) سے درج ہے جس کی تحقیق کی دنیا میں کوئی وقعت نہیں۔

"تذکرہ مشائخ سیو ستان" ایک غیر مستند کتا  بچہ ہے، اس میں درج ہے،ایک روز آپ ( شہباز قلندر) نے قبرستان کےلیے زمین پر قبضہ کیا، مزدور کو بلوا کر انہیں چار دیواری اٹھو انے کا حکم دیا، مزدور اپنے کام سے لگ گئے اور آپ عصا لے کر کھڑے رہے، زمین کے مالک کو پتہ لگا تو وہ غصہ میں چیختا پکارتا ہوا پہنچا اور مزدور کو دیوار اٹھانے سے منع کیا، حضرت شیخ ( شہباز قلندر) نے عصا سے اس کو ٹھو کا عصا لگتے ہی وہ مرگیا، آپ نے مزدور کوحکم دیا کہی اس کو یہیں پرہی گڑھے میں دفن کردو(تاریخ مشائخ سیو ستان صفحہ ۵تحفتہ الکرام صفحہ ۳۵۰لعل شہباز قلندر صفحہ ۷۹ مطبو عہ لاہور ،الیاس عادل)

اس جعلی روایت کو کرامات کے ز مرے میں  بیان کرنا سراسر نا انصا فی اور کرامت کا مزاق اڑانے کے مترادف ہے۔

ڈاکٹر میمن عبد المجید سندھی مرحوم اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ایسی بے سروپا باتیں کسی عالم، فاضل اور ولی اللہ کی طرف منسوب کرنا بالکل غلط ہے،اللہ والے کسی کا استحصال نہیں کرتےہیں، یہ روایت بے بنیاد ہے جس کا  حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے،(سوانح قلندر)

رشدو ھدایت

مخدوم شہباز قلندر نے سیو ھن میں رہ کر بگڑے ہوئے لوگوں کو سید ھے راستے پر لگایا اور ان کے اخلاق کو سنوارا انسانوں کے دلوں میں نیکی اور سچائی کی لگن پیدا کی اور روحانی ماحول پید ا کیا، وہ دو سال تک سیوھن شریف میں رہ کر اسلام کا نور سندھ میں پھیلا تے رہے، ہزاروں انسانوں نے آپ سے ہدایت پائی اور بہت سے بھٹکے ہوئے لوگوں کا رشتہ اللہ عزوجل سے جڑ گیا، ان کےرشد و ہدایت کا سلسلہ سندھ تک محدود نہیں روس سےلے کر سندھ تک پھیلا ہوا ہے، سندھ میں فقط دوسال قیام کیا، انہوں نے ساری زندگی تبلیغ کی،پورے برصغیر کا روحانی دورہ کیا،مدرسہ بہائیہ ملتان میں بیٹھ کر عرب و عجم کے طالبان علم ظاہر و باطن کو فیضیا ب کیا، آپ کی تصانیف سے ایک دنیا ایک طویل عرصہ تک اکتسابِ فیض کرتی رہی۔

 اس کے علاوہ وصال کے بعد سے آج تک کروڑوں عوام و خواص مزار مقدس سے فیض یاب ہوئے ہیں اور تا حشر سیراب ہوتے رہیں گے اور ہر ایک اپنے ظر ف کے مطابق استفا دہ کرتا رہے گا۔

تبرکات کی تعظیم

حضرت شہباز ولایت شہباز قلندر مخدوم حافظ حاجی سید محمد عثمان سیو ھانی قدس سرہ الا قدس اکثر وزنی پتھر گردن میں لٹکا لیتے تھے۔

ایک تو وہ پتھر متبرک تھا اور دوسرا یہ کہ وزنی ہونے کے سبب گردن ہمیشہ جھکی رہتی تھی، اس سے انسان میں تکبر پیدا نہیں ہوگا، تواضع و انکسا ری انسان کےلیے اکسیر کا درجہ رکھتی ہیں، جتنی تواضع زیادہ ہوگی اتنا مرتبہ بلند ہوگا، سر جھکا نے کے سبب نظر کی حفاظت ہوتی ہے وہ خواہ مخواہ بھٹکنے سے محفوظ رہتی ہے اور توجہ و خیال ہمیشہ اللہ سجا نہ و تعالیٰ کی جانب رہتاہے،اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں مسلمانوں کو نظر کی حفاظت کےلیے اس طرح حکم فرمایا ہے۔

قل للمومنین یغضو ا من ابصا رھم(سورہ النور)

ترجمہ: اے محبوب  صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگا ہیں کچھ نیچی رکھیں۔

شاید شہباز قلندر اس آیت کریمہ پر عمل کی غرض سے اپنی گردن مبارک جھکا لیتے تھے۔شہبا ز قلندر کے شید ائیوں کو خصوصی طور پر اس پر عمل کرنا چاہیے۔

مذکو رہ بالا پتھر"گلو بند" کہلاتا ہے،اصل میں یہ پتھر حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی طرف سے تبرک تھا، جو کہ شہباز قلندر کو اپنے مرشد کے تو سط ملا تھا۔

دوسرا تبرک شہباز قلندر کو اپنے مرشد کریم سے بادام کی لکڑی سے بنی ہوئی عصأ عنا یت ہوئی تھی(دیکھیے حکیم سیو ہانی کی کتاب قلندر نامہ سندھی)

یہ گلو بند شہباز قلندر کے مزار شریف کے چبو ترے کے ساتھ تبرکاًلٹکا یا گیا ہے زائرین زیارت کے وقت تبرکاً اس پتھر کو بھی چو متے ہیں۔

شادی

آپ نےشادی نہیں کی تھی،زند گی بھر مجرد رہے اس کا سبب کیا تھا؟  آئیے جواب تلاش کریں۔

نکاح کے درجات

مسئلہ۔اعتدال کی حالت میں یعنی نہ شہوت کا بہت زیادہ غلبہ ہو نہ عنین(نا مرد)ہواور مہر و نفقہ پر قدرت بھی ہوتو نکاح سنت مؤکدہ ہے کہ نکاح نہ کرنے پراڑا رہنا گناہ ہے اور اگر حرام سےبچنا یا اتباع سنت و تعمیل حکم یا اولاد حاصل ہونا مقصود ہوتو ثواب بھی پائے گا اور اگر محض لذت یا قضا ئے شہو ت منظو ر ہو تو ثواب نہیں۔(در مختار،ردالمحتا ر)

مسئلہ۔شہوت کا غلبہ ہے کہ نکاح نہ کرے تومعاذ اللہ اندیشہ زنا ہے اور مہر و نفقہ کی قدرت رکھتا ہو تو نکاح واجب یوں ہی جب کہ اجنبی عورت کی طرف نگاہ اٹھنے سے روک نہیں سکتا یا معاذ اللہ ہاتھ سے کام لینا پڑے گا تو نکاح واجب ہے۔

مسئلہ۔ یہ یقین ہوکہ نکاح نہ کرنے میں زنا واقع ہوجائے گا تو فرض ہےکہ نکاح کرے۔

مسئلہ۔اگر یہ اندیشہ ہے کہ نکاح کرے گا تو نان نفقہ نہ دے سکے گا یا جو ضروری باتیں ان کو پورا نہ کرسکے گا تو مکروہ ہے اور ان باتوں کا یقین ہو تو نکاح کرنا حرام (بہار شریعت)

بعض جہلا ء کہتے ہیں کہ نکاح کرناہر حال میں فرض ہے اورحضرت شہباز قلندر کے بعض ملنگ شادی   اس لیے نہیں کرتے کہ قلندر نے شادی نہیں کی تھی، حالانکہ شریعت مطہرہ کا صحیح مسئلہ وہ ہے جو کہ اوپر مذکو رہوا۔

ہر انسان کی مختلف کیفیات کے سبب نکاح کے بھی چند درجات ہیں۔

ہمارے خیال میں حضرت شہباز قلندر نے اس لیے شادی ترک کی کہ آپ ہمیشہ سفر میں رہتے تھے اس لیے مسئلہ مذکو رہ کی آخری صورت ہو سکتی ہے۔

ملنگوں کو شادی کرلینی چاہیے اور اگر حضرت لعل شہباز قلندر کی پیر وی کرنے کا شوق ہے تو پر ہیز گاری کریں، پنج وقتہ نماز کی پابند ی معمول بنا لیں، شب بیداری کی عادت ڈالیں،ذکر شریف و درود شریف کا کثرت سے ورد کریں، اپنے بچوں کو حافظ قرآن بنائیں،حرام سے اجتناب اور شریعت مطہرہ پر عمل پیرا ہوں۔

وصال

حضرت شہباز قلندر سید محمد عثمان مروندی ۲۱ شعبان المعظم ۶۵۰ھ۱۲۵۲ءکو رحمت ایزدی کے آغوش میں آرام فرما ہوئے۔

سروش غیب می گوید بر حمت،،

کسی شاعر نے ،برحمت، سے سن وصال ۶۵۰ ھ نکالا۔(لب تاریخ سندھ فارسی مترجم سندھی حافظ خیر محمد اوحدی)

شیخ عبد القادر ٹھٹو ی نے آپ کے محا د و اوصاف اور اخلا ق عالیہ کو حسب ذیل اشعار میں نظام کیا ہے۔

 

 

شاہ اورنگ خطہ ملکوت
صاحب وجد تارک ملق
اشرفف الذات ہم شریف نسب
مہر ایقاں چراغ بینائی
بلبل گلستان عالم ذوق
محرم خلوت حریم مثال
سرمئہ بینش عیونِ شہال
حچنیں بودوہم بود لازوال
اد بر روح شاہ مروندی
،

شاہ باز نشیمن لاہوت
اہل دل عارف معارف حق
شاہ عثمان شاہ باز لقب
بحر عرفان کنوزدانائی
مست خم خانہ محبت شوق
صاحب حال و کامل ابدال
خاک آن آستا نہ قبلہ نشان
فیض دربار او با ستقلا ل
             دمبد م رحمت خداوندی

(حد یقتہ الاولیأ فارسی)

بعد وصال

میر غلام علی آزاد بلگرامی اپنی کتاب مآث کر الکرام، میں اپنی ذات کےحوالے سے ایک اہم واقعہ بیا ن کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

جب ربیع الاول ۱۱۴۳ھ کی دسویں تاریخ کو راقم الحروف سیوستان(سیوہن شریف) کے شہر پہنچا تومیر سید محمد خان نے بخشی گری اور وقا ئع نگا ری کی خدمت میرے سپرد کی اور خود بلگرام روانہ ہوگئے، ان کے جانے کے تھو ڑے ہی دنوں بعد میری ملا زمت ختم ہوگئی جس کا کوئی ظاہری سبب موجود نہیں تھا، اس واقعے کا مجھے بے حد صدمہ ہوا اور میں دن رات پریشان رہنے لگا، ملاز مت کی بحالی کےلیے ذاتی طور پر سارے تعلقات آزمالیے مگرکوئی تد بیر  کا ر گرنہ ہوسکی،آخر ایک رات دل پر یہی بوجھ لیےسو گیا،اچانک میں نے خواب میں دیکھا کہ شہر کی ایک گلی سے گز رہا ہوں، پھریوں محسوس ہوا جیسے یہ گلی ختم ہو گئی ہے اور آگے راستہ بند ہے،میں کچھ سوچتے ہوئے ٹھہر گیا، یکا یک ایک شخص سامنے سے آتا ہوا نظر آیا، پھر جب وہ اجنبی شخص میرے قریب پہنچا تومیں  نے اس سے دریافت کیا،یہ گلی بند ہے یا آگے بھی جاتی ہے؟آگے چلے جاؤ، وہاں تمہیں کچھ لوگ ملیں گے، اس شخص نے عربی زبان میں جواب دیا اور آگے بڑھ گیا۔

میں جھجھکتا ہوا آگے بڑھا۔ابھی چند قدم کا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ مجھے ایک جگہ تین بزرگ بیٹھے ہوئے نظر آئے،ان بزرگوں کی وضع قطع سندھیوں جیسی تھی، میں نے قریب پہنچ کر سلام کیا اور ایک بزرگ کے سامنے دوزانو ہوکر ادب سے بیٹھ گیا یہ بز رگ ان دونوں بزرگوں کے  پیشو ا تھے۔

کیسے آئے ہو؟ میرے سوال کا جواب دینے کے بعد پیشو ا بزرگ نے مجھ سے پوچھا، شیخ میں ایک پریشانی میں مبتلا ہوں، میں نے عرض کیا، مجھے سرکاری ملازمت سے سبکد وش کردیا گیاہے،کیا میں دوبارہ اپنے عہد ے پر بحال کردیا جاؤں گا۔

میری درخواست سن کر بزرگ پیشو امراقبے میں چلے گئے،پھر پورے ایک پہر کے بعد انہوں نے سر اٹھا کر فرمایا: تمہیں تمہاری کھوئی ہوئی ملازمت مل جائے گی،بزرگ کی زبان سے یہ نوید سن کر میں کچھ  بے قرار ساہوگیا،کیا واقعی ایسا ہی ہوگا؟ میں نے دوبارہ عرض کیا،بزرگ نے فرمایا،میں کہہ تو رہا ہوں۔اس کےساتھ ہی میری آنکھ کھل گئ۔

میں بے چینی سے اس دن کا انتظا ر کرنے لگا، آخر ایک سال بعد میری ملازمت بحال ہوئی اور خواب میں نظر آنے والے شیخ کا قول سچا   ثا بت ہوا۔ بعد میں مجھے یوں لگا جیسے بشارت دینے والے بزرگ حضرت مخدوم لال شہباز قلندر تھے، اور پورے ایک پہر کا مر اقبہ اس بات کی طراف اشارہ تھا کہ مجھے میرے مقصد کے حصول میں ایک سال کا عرصہ درکار ہوگا۔(ما ٓثر الکرام)

ایک میرغلام علی کیا یہاں تو روانہ سینکڑوں سائل اپنی مرادوں سے جھو لیاں بھر بھر کرجاتے ہیں۔

روضہ مبارک کی تعمیر

حضرت شہباز قلندر  مخدوم محمد عثمان کا مقبرہ شریف سب سے پہلے سلطان فیروز تغلق کے زما نے میں والی سیو ھن ملک اختیا ر الدین نے ۷۵۷ ء کو تعمیر کروایا۔ اس کے بعد اکبر بادشاہ کے عہد اقتد ار میں، ترخانی، خاندان کے آخری حکمران مرزا جانی بیگ نے بنوایا، جانی بیگ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے غازی بیگ نے ۱۰۰۹ ھ کو روضہ کی مرمت کروائی، شاہجہان کے زمانے میں نواب سید بھو رہ عرف دیندار خان نے خا نقاہ کی عمارت کو مکمل کروایا اور خا نقاہ کے صحن کو کا شی کی اینٹو ں سے مزین کیا اور متصل مسجد شریف تعمیر کروائی۔

کلہو ڑا عہد میں میاں غلام شاہ کلہو ڑو حاکم سندھ نے ۱۱۷۳ھ کو خا نقاہ میں پتھر کا فرش لگو ایا اور بلند دروازہ تعمیر کروایا،۱۳۱۹ھ کو لونگ فقیر کے خلیفہ لعل محمد نے مقبرہ علی وزیر کے مشر ق میں موجود مسجد پر کام کروایا بعد میں مسٹر ذوالفقا ر علی بھٹو کے دور حکومت میں صد افسو س کہ مسجد شریف شہید کرکے خا نقاہ کی توسیع کی گئی، اسٹیشن سے درگاہ تک درمیا ن میں قبر ستان پر ٹر یکٹر چلا کر بڑے بڑے میدان بنا دئیے تا کہ میلے کے موقعہ پر کھیل تما شہ والوں کو آسانی رہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

حضرت شہباز قلندر کے مزار کا چبو ترہ لا ڑکا نہ کے زمیند ار رئیس حاجی محبوب خان و گن مرحوم نے بنو ایا۔

روضہ پاک کے دروازے پر ۱۳۱۲ھ۱۸۹۴ءکو اوستہ نو ر محمد صیقل گر، نے چا ندی چڑھائی۔

روضہ کی تعمیر کا دوسرا دور

۲۴جولائی ۱۹۹۴ ء کو مقبرہ شہید ہوا، اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے روضہ شریف کی تعمیر کا حکم دے دیا، اس سلسلہ میں نیشنل کنسٹر کشن لمٹیٹد کو ٹھیکہ دے دیا گیا جس نے امام علی رضا ( مشہد شریف) کی طرز کا نقشہ بنوایا اور منصو بہ کو چار حصو ں میں تقسیم کیا گیا اور کل خرچ ۰۰۰ء۴۹۸ ملین روپیہ کا تخمینہ لگایا گیا اور بعد ڈسٹر کٹ کو آرڈ ینیشن آفیسر دادو کو زیر تعمیر روضہ کا پرو جیکٹ ڈائر یکڑ نامزد کیا گیا۔

 روضہ شریف کی عمارت کو بہت بلند بنایا گیا اور مقبرہ کو گو لڈن کلر سےمزین کیا گیا ہے،زائرین کے قیام کےلیے مسافر خانہ اور آسانی کے لیے ننگر خانہ وضو خانہ،غسل خانہ اور بیت الخلاء وغیرہ بھی بنو ا ئے گئے ہیں۔

 جدید تعمیر محکمہ اوقاف سندھ کے زیر اہتمام ہوئی ہے جوکہ ۱۹۶۲ ء سے درگاہ شریف پر قابض ہے۔درگاہ کے سالانہ نذرانے کا اندازہ کیجئے کہ سال ۲۰۰۲ء۲۰۰۱ءتک ۶۷۸۹۰۶۵ روپیہ حاصل ہوا۔

(ما خوذ:سخی شہبا ز قلندر صفحہ ۳۵مطبوعہ محکمہ اطلا عات سندھ کراچی)

آج کل تعمیر نو مکمل ہو چکی ہے۔

حلیہ مبارک :تصویر کی روشنی میں

آج کل بازار میں شہباز قلندر کی جو تصویر دستیاب ہے،وہ تصویر جعلی ہے اور حضرت شہباز قلندر کی تعلیمات کے بر عکس ہے،اس کا اصل سے دور کا بھی واستہ نہیں۔

لیکن شہباز قلندر کی ایک قدیم نادر نایاب تصویر کا محقق و مؤ رخ سید حسام الدین راشد ی مرحوم نے سراغ لگایا اور کتاب مقالات الشعرأ(مطبو عہ سند ھی ادبی بورڈ ۱۹۵۷ء)کے صفحہ ۴۳۴پر عکس دیا ہے اور بتایا کہ یہ تصویر لاہور کے میوزیم میں محفوظ ہے۔

یہ تصویر بھی اصلی نہیں ہے بلکہ کسی مصو ر کی پینٹنگ کا نتیجہ ہے ،لیکن یہ بھی حقیقت ہےکہ یہ تصویر بازاری تصو یروں سے کافی مختلف و قدیم ہے، مغل دور یا اس سے بھی پہلے کی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قدیم دور میں انسا نوں کے دماغ میں شہباز قلندر کے متعلق کیا  تصو ر تھا وہ تصور اس تصویر سے ابھر تا ہے اور حقیقت کو سمجھنے میں مدد ملے گی، تصویر کو لفظوں میں فقیر نے اس طرح کھینچا ہے:

یہ تصویر حضرت شہبا ز قلند ر کی تعلیمات کی روشنی میں حقیقت کے قریب تر معلوم ہوتی ہے آپ ایک سایہ دار درخت  کے نیچے جائے جائے نماز پر تشہد کی صورت میں بیٹھے ہیں، لباس عربی اسلا می لمبا کرتا زیب تن ہے، ہاتھ میں تسبیح ہے،داڑھی مبارک سفید حد شرعی (مٹھی بھر) سے ایک دو انگلی زائد،زلف مبارک کانوں کی لوتک مو نچھیں سنت مبارک کے مطابق کٹی ہوئی اور بھو ؤ ں کی طرح باریک ہیں چہرہ مبارک چاند کی طرح روشن ،عالمانہ و فقیر انہ شان سے تشریف فرما ہیں۔

آج کے ملنگ اپنے نفس کے غلام ہیں حضرت کی تعلیمات پر قطعی  عمل پیرا نہیں، غیر شرعی اور بد درسمیں انہوں نے خود نکالیں ہیں جن کا حضرت شہباز ولایت سے دور کا بھی  واسطہ نہیں، انہیں چاہیے کے مذکورہ تصویر کی روشنی میں اپنا جائزہ لیں۔

مرجع خلائق

حضرت داتا گنج بخش قدس سرہ کے دربار اقدس کی طرح حضرت شہباز قلندر کا دربار عالیہ بھی سندھ کے علمأ کرام ،مشا ئخ عظام،     صو فیائے کرام،حکمران جا گیر دار،نواب،سر دار اور نامور عسکری شخصیات میں مرجع زیارت رہا ہے، ابتد أ سے آج تک ہر سلسلہ طریقت کے بیسیوں اولیأ کرام و علمأ عظام شہباز ولایت کی درگاہ پر حاضری کی سعادت حاصل کرتے رہے ہیں،ذیل میں ایسی چند متبرک ہستیوں کے نام درج کیے جاتے ہیں۔

حضرت مخدوم بلال با غبانی،حضرت شاہ عبد الطیف بھٹائی ،شیخ الا سلام مخدوم دین محمد صدیقی،شیخ الاسلام مخدوم محمد ہاشم ٹھٹو ی،نعمان ثانی حضرت مخدوم عبد الواحد سیو ستانی،حضرت حافظ عبد الوہاب فاروقی، سچل سرمست ،حضرت مخدوم نوح سرور سہر وردی ہالائی،حضرت شیخ خضر قادری سیو ستانی،حضرت میاں میر قادری لاہوری،حضرت شاہ عبد الکریم بلڑی والے ،حضرت سید حیدر سنائی ،قادر بخش بیدل(روہٹری) بحر العلوم علامہ غلام صدیق شہد اد کوٹی ،بد ر العلوم حضرت مفتی عبد الغفو ر ہما یونی،فقیہ اعظم غوث الز ماں شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج مفتی پیر محمد قاسم مشوری،حضرت حافظ امام بخش سو مرو باقر انی،استا د الکل علامہ مخدوم حسن اللہ صدیقی( پاٹ شریف)علامہ مفتی غلام محمد مھیسر(کما ل ڈیرو) مؤ رخ سندھ میر علی شیر قانع ٹھٹو ی ،مشہو ر سیاح ابن بطو طہ مؤ رخ ہند میر غلام علی آزاد بلگرامی مو ٔلف،ما ثر الکرام،فقیہ الا عظم مخدوم محمد جعفر بو بکا ئی،علامہ شیخ محمد عابد سندھی مدنی، سیاح عرب و عجم علامہ سید احمد شاہ خالد شامی ،مخدوم محمد عاقل اول عباسی(کھہٹرا)،علامہ شیخ محمد حیات سند ھی محدث مدنی وغیرہ وغیرہ۔

عرس مبارک

شہباز ولایت مخدوم الاولیأ حضرت حاجی حافظ سید محمد عثمان مروندی سیوھانی قدس سرہ الا قدس کا عرس مبارک ہر سال آپ کی درگاہ عالیہ پر بتاریخ۱۸ ۱۹ ۲۰ شعبان کو نہایت عقیدت و محبت سے منایا جاتاہے، جس میں دور دراز علاقوں سے لوگ آکر شریک ہوتے ہیں اور آپ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں عرس مبارک میں صرف سندھ ہی نہیں بلکہ،پنجاب،بلوچستان،مکر ان ،سرحد کے علاوہ ہندوستان،افغا نستان اور ایران سے بھی لوگ بکثرت شریک ہوتے ہیں۔

اب تو حکومت کی طرف سے ادبی کا نفرنس اور ثقا فتی شو (مو سیقی) بھی ہونے لگے ہیں یہ دربار مقدس محکمہ اوقاف سندھ کے قبضے میں ہے جس کی بے انتظامی دیدنی ہے،اب اہل تشیع کا بھی عمل  دخل بڑھنے لگاہے،جس کے سبب عرس مبارک کا تقدس پاما ل ہوچکا ہے عرس شریف کے مبارک و مقدس پروگرام کو اخلاق و کردار سے آزاد لوگوں کا میلہ، میلہ ملا کھڑا،ناچ گانا،کھیل وتماشا،خواتین کا بے پردہ،ہونا ،محفل مو سیقی،دھما ل اور دھمال پر عورتوں کا رقص ،رنڈیوں کا تماشا ،طو ائفوں کی بھر مار، شور و ہنگا مہ ،بھنگ و چرس کا دھند،مزار میں مہندی لے جانا،قلندر کی شادی کرانا۔ملنگوں کی عجیب و غریب حرکتیں،شعیہ روافض کا علم کو پو جنا ان پر منتیں مانگنا اور اصحاب کرام کی شان میں گستا خی اور خلفا ٔ ثلا ثہ پر تبرا بازی سمیت حیا سوز خرافات اور بد رسموں میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

ان تمام خرافات کا حضرت شہباز قلندر کے عقیدہ و مشرب سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، نفس کے غلاموں،شیطان کے پیر و کاروں اور خدا کے نا فرمانوں نے اپنے نفس کو خوش کرنے کےلیے ان بے ہو دہ رسموں اور حیا سوز حرکات کورواج دیا ہے۔

حکومت اور مسلمانوں کو ان خرافات وبے ہودہ حرکات اور بد عات سئیہ کا نو ٹس لینا چاہیے،شہباز قلندر کا نذرانہ جوکہ ہزاروں روپے یو میہ اور لاکھوں روپیہ ماہانہ بنتا ہے حکومت لے جاتی ہے لیکن حضرت کی اصل تعلیمات مسلک ومشرب پر خرچ نہیں کرتی، اس نذ رانے کی آمدنی سے حضرت کا اصل دارالعلوم"فقہ الا سلام"جاری کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

بدر سمیں

سندھ کے ایک دانشو ر نے اپنے خطبے (دسو یں سندھ ثقا فت کانفرنس سیوہن مطبو عہ بزم صوفیائے سندھ ۱۹۶۹ء)میں بتایا ہے کہ شہباز قلندر کی درگاہ پر ملنگ حضرات بعض ایسی رسوم ادا کرتے ہیں جن کا اسلام سے دور  کا بھی  واسطہ نہیں اور وہ ہند وؤں (کافروں)کی مذہبی رسوم ہیں، جوکہ اکثر شوکے پجا ریوں کے ہاں مروج ہیں :مثلاً

۱)نفیل بجانا،ہندوستان کے شمال میں شو کے مند روں میں نا دیا   ناقوس کی طرح بجا ئی جاتی ہے۔

۲)صبح و شام نقارا اور گھنٹ بجانا،جن کا شو کے مند روں میں اب تک بجانا مروج ہے۔

۳)ملنگ داڑھی منڈ واتے،مہر لگواتے اور چرس پیتے ہیں،یہ  دستور بھی شو کے  پجا ریوں میں اب تک موجود ہیں۔

۴)میلے کے موقعے پر نقا رے کی دھمال کا رقص بھی انہیں رسوم میں  سے ہے۔

۵)درگاہ کے دروازے پر گھنٹ لٹکا ئے ہوئے ہیں اور ملنگ داخل ہوتے ہوئے بجا تے ہیں، یہ بھی شو مندر کی نقل ہے۔(سندھ جا بر بحر اور پہاڑ،سندھی)

معلوم ہواکہ نفیل نقارے اور گھنٹ بجانا شعار اسلام نہیں بلکہ شعار کفار ہے،برصغیر میں ہند و مسلم میل جول کے سبب ہندوؤں کی کئی بدر سمیں مسلمانوں میں رائج ہوگئیں ہیں۔

زبان سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل

دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں

دھمال روزانہ شام سے شروع ہوجاتی ہے پھر اپنے تینوں اوقا ت پر بجکر صبح کی اذان سے قبل ختم ہوجاتی ہے،ان روزانہ کی دھمال کے لیے چھو ٹے نقارے رکھے ہوئے ہوتے ہیں لیکن بڑی تقر یبا ت اور بالخصوص میلہ کے موقع پر بڑے نقارے استعمال کئے جا تے ہیں جن کو نقارچی درگاہ کے بڑے دروازے کے اندر کرسی پر بیٹھ کربجا تے ہیں، عرس کے دوران باہر علم کے نیچے نقا رے پر چوٹ لگائی جاتی  ہے مست قلندر کے نعرے لگائے جاتے ہیں، بہت شو ر وغل ہوتاہے، ایک ہنگامہ برپا ہو تا جس میں کئی روح فرسا اورحیا سوز مباظر دیکھنے میں آتے ہیں ،جنہیں دیکھ کرمومن کا کلیجہ پھٹ جائے نو جوان مسلمان عورتیں رقص کرتی ہیں، جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود۔

چند برسوں سے میلے کے موقعے پر آتش بازی بھی چھو ڑی جارہی ہے،شہباز قلندر کے ملنگ کہلانے والے ہاتھو ں میں علم ،پیروں میں گھنگھرو،ہاتھوں میں کڑے ڈالے چرس اور بھنگ سے سیر ہوکر سیوھن پہنچتے ہیں۔

اللہ والے اللہ کے عشق و محبت و اطاعت میں مست ہوتے ہیں وہ دنیا وی بد عات،نشہ اور چیز،ڈھولک نقارے ستارے سا رنگی نفیل و مو سیقی کو حرام سمجھتے ہیں انہوں نے مخلوق خدا کی ظاہری و باطنی طہارت کی ترغیب و تر بیت کےلئے اپنی زند گیاں صرف کردیں، وہ کافروں کو مسلمان بنانے اور مسلمانوں کو پرہیز گار،عبادت گزار، متبع سنت اور مسجد کو آباد کرنے والا بنانے کےلیے تشریف لائے تھے۔

مسلمانو۔ذرا سوچو، شہباز قلندر کی محبت کا دم بھرنے والو، تم حضرت شہباز ولایت کی اصل تعلیمات کو فر ا موش کر بیٹھے ہو، خد ا را تم اپنا جائزہ لو، تم خرافات و بد عات میں اپنی عز یز تر زندگی ضائع کررہے ہو، تمہیں آخر مرنا ہےموت اٹل ہے ایک روز ضرور آئے گی، تم سید کی بات مانو،گناہوں سے توبہ کرلو،اللہ تعالیٰ کا خوف اور حضور پرنو ر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم کا عشق اپنے دل  میں پیدا کرو،مرنے سے قبل آخرت کی تیاری کرو۔

اولیأ اللہ کی تعلیمات کے مرکزی دونکتے ہیں۔

۱)اللہ تعالیٰ کا خوف و بند گی

۲)خاتم النبین شفیع المذ نبین رحمتہ اللعا لمین صلی اللہ علیہ وآلہ ِ وسلم کی محبت و اطاعت (پیروی) انہی دونکتوں پر اولیأ کرام اور صوفیا ئے عظام کی زند گیاں بسر ہوتی ہیں۔

آپ نے اگر یہ دو باتیں ذہن نشین کرلیں ہیں تو پھر آپ کسی کے بہکا وے میں نہیں آسکتے ،حضرت ابوالحسن سید علی بن عثمان ہجویری لاہوری المعروف داتا گنج بخش قدس سرہ(رحلت ۴۶۵ھ)رقص کے متعلق فرماتے ہیں۔

خیال رہے کہ شریعت وطر یقت میں رقص کی کوئی اصل  نہیں ہے۔اس لیے کہ رقص اگر سنجید گی سے کیا جائے تو بھی دانشو روں کے نزدیک کھیل تماشا ہے اور اگر کھیل تماشے کے طور پر کیا جائے تو بھی لغو ہے مشائخ میں سے کسی نے بھی اسے اچھا نہیں سمجھا اور نہ اس پر اصرار کیا ہے۔ اس سلسلے میں اہل حشو جو دلائل دیتے ہیں۔ وہ بالکل باطل ہیں، چونکہ اصحاب وجد اور اہل تواجد کی حرکات اور عمل رقص کی طرح ہوتا ہے اس لیے اکثر بیہودہ لوگوں نے اس کی تقلید شروع کردی ہے۔اور اس میں اس حد تک مبالغہ کیا ہے کہ اسے باقعدہ ایک طریقہ بنالیا ہے ۔ عوام میں سے بعض لوگوں نے یہ سمجھ کر کہ شاید اصل تصوف ہی یہی ہے اسے اختیار کرلیا ہے اور ایک گروہ  اس کی اصلیت کا منکر ہوگیا ہے، خلاصہ یہ کہ ناچنا اور پاؤں مارنا شرعاً عقلاً مذموم اور جاہل ترین لوگوں کا فعل ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ اچھے لوگ یہ حرکت کریں البتہ جب دل پر کوئی سبکی یا خفت کی کیفیت نمودار ہوتی ہے دماغ میں ایک خیال غلبہ حاصل کرتا ہے حال بڑھتا ہے اضطراب اور بے قراری قابو پالیتی ہے اور رسوم کی پابندی اٹھ جاتی ہے تو یہ اضطراب رقص نہیں ہے  نہ ہی ناچ اور ہوس پروری ہے یہ ایک جانگدازی ہے ۔

 سخت غلطی کرتا ہے وہ شخص جو اسے رقص کا نام دیتا ہے اسی طرح وہ شخص حقیقت سے بہت ہی دور ہے جو اس کیفیت کوجو اس کی مرضی اور خود اختیار کرنے کے بغیر طاری نہیں ہوتی اور اس کیفیت کے درمیان جو حق سے وارد ہوتی ہے تمیز نہیں کرسکتا ، یہ وہ چیز ہے جو الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتی ۔من لم یذق لایدری ۔ جس نے چکھا نہیں وہ کیا بتا سکتا ہے۔(کشف المحبوب صفحہ)

غور طلب بات

       شیعہ حضرات کا ایک عجیب رویہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک طرف تو یہ غوث اعظم دستگیر شیخ محی الدین سید عبد القادر جیلانی حسنی حسینی رضی اللہ عنہ (بغداد شریف)کو سید بھی نہیں مانتے بلکہ ان کی شان میں طرح طرح کی گستاخیاں کرتے ہیں اور دوسری طرف خود اپنے مؤقف کا عملی رد یوں پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ غوث اعظم جیلانی شہنشاہ ولایت کی اولاد ‘‘جیلانی سادات’’اورآپ کے ‘‘سلسلہ عالیہ قادریہ’’کے اولیأ کرام کے دربارون پر عَلم گاڑ کر نہ صرف قبضہ جمالیتے ہیں بلک ان بزرگوں کو شیعہ ثابت کرنے پر تکے رہتے ہیں۔چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

حضرت سید عبد اللہ شاہ جیلانی المعروف اصحابی مکلی ، ٹھٹھہ

حضرت سخی الوہاب شاہ جیلانی، حیدر آباد

حضرت سید خیر الدین شاہ جیلانی  المعروف جئے شاہ جیلانی پرانا سکھر ، وغیرہ

حضرت شہباز قلندر، حضرت شاہ عبد الطیف بھٹائی اور حافظ عبد الوہاب فاروقی المعروف سچل سرمست بھی سرکار غوث اعظم پیران پیر دستگیر حضرت سید عبد القادر جیلانی حسنی حسینی بغدادی کے‘‘سلسلسہ عالیہ قادریہ’’میں مرید ہیں۔

          اندھیرنگری تو دیکھیے کہ یہ، اہل سنت کے پیران کرام کے درباروں پر علَم گاڑ کر نیزان بزرگوں کو شیعہ کہتے ہوئے ذرا بھی عار محسوس نہیں کرتے۔

آخر کلام

          حضرت شہباز ولایت مخدوم حافظ حاجی سید محمد عثمان سیوھانی قدس  سرہ کے مفلوظات و مکتوبات دنیا میں کہیں بھی موجود نہیں، آ پ کے خلفائے مریدین اور ہم عصر حضرات نے آپ کی سوانح حیات پر کام نہیں کیا۔ آپ کے ہم عصر ہم وطن شیخ فرید الدین عطار نیشانپوری تھے، انہوں نےبھی مشہور  ومعروف کتاب‘‘تذکرہ  الاولیأ’’میں آپ کا ذکر رقم نہیں کیا۔ ہندوستان کے مشہور اولیأ اللہ و بزرگان دین کے مشہور تذکروں  مثلاً اخبار الاخیار ، سیر العارفین اور بزم صوفیہ وغیرہ میں شہباز قلندر کا ذخر نہیں۔ یہی سبب ہے کہ آپ کی جائے ولادت ، سن ولادت ، سن وفات ، اساتذہ و مشائخ کے اسمأ گرامی نیز آپ کن کن ممالک میں گئے کن کن مدارس میں تعلیم دی، سندھ میں کس راہ سے آئے وغیرہ میں اختلاف ہے۔ لیکن تمام اختلافات کے باوجود آپ کے نام نامی اسم گرامی ‘‘حافظ سید محمد عثمان’’میں اختلاف  نہیں عربی، فارسی، سندھی انگریزی اور اردو کتابوں، مطبوعات و محفوطات میں یہی نام لکھا ہوا ہے اس میں ذرہ برابر بھی اختلاف نہیں ہے۔

          آج گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر سات صدیاں قبل کی شخصیت کا تذکرہ لکھنا کوئی آسام کام نہیں۔فقیر نے اپنی طرف سے دیانت داری سے پوری کوشش کی ہے کہ مواد معتبر و مستند درج کیا جائے۔ فقیر کی سعی پیش خدمت ہے فکر آخرت سے سرشار ہو کر مطالعہ فرمائیں آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے محبوب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نصیب فرمائے اور بزرگان دین کے نقش قدم پر چلائے (آمین)

طالب دعا

صاحبزادہ سید محمد زین العابدین راشدی

لاڑکانہ ایم اے

یکم رمضان المبارک ۱۴۱۸ھ

۳۱ ، دسمبر ۱۹۹۷ء

مزار شریف پر حاضری کے آداب

(۱)جب کبھی کسی اللہ عزوجل کے نیک بندے کے مزار پُر انوار پر حاضر ہوں تو پہلے اچھی طرح وضو کرلیں۔ اور مکروہ وقت نہ ہو تو دو رکعت نفل ادا کریں۔

(۲)مزار شریف  پر پاؤں کی طرف سے حاضر ہوں۔

(۳)مزار شریف سے کم از کم چار ہاتھ کے فاصلہ پر چہرے کی جانب کھڑے ہوں۔

(۴)صاحب مزار کی بارگاہ میں انتہائی ادب کے ساتھ اپنے ہاتھوں کو باندھ کر اور سر کو جھکا کر آہستہ آواز میں سلام عرض کریں۔

          السلام علیک یا سیدی و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(۵)اب اپنے دل اور دماغ کو تمام دنیاوی کاموں سے فارغ کر کے تین مرتبہ درود شریف پڑھیں بہتر ہے کہ درود غوثیہ پڑھیں۔

(۶)اگر یاد ہو تو درود تاج شریف کی تلاوت بھی بہتر ہے۔

(۷)اب جو قرآن پاک کی سورتیں یاد ہوں خاص کر الحمد اللہ شریف ایک بار، آیۃ الکرسی ایک بار ، سورہ اخلاص سات بار پھر آخر میں دوبارہ درود غوثیہ ساتھ بار پڑھیں۔

درود غوثیہ:اللھم صلی علی سیدنا محمد و علیٰ آل سیدنا محمد معدن الجود و الکرم وبارک وسلم

(۸)فرصت ہوتو سورہ یٰسین اور سورہ ملک کی بھی تلاوت کریں۔

(۹)آخرمیں اس طرح دعا کریں یاا للہ تبارک و تعالیٰ اس تلاوت پر مجھے اتنا ثواب دے جو تیرے کرم کے قابل ہو اور اسے میری طرف سے صاحب  مزار کی بارگاہ میں تحفہ پہنچا پھر اپنا جو مطلب جائز شرعی ہو اس کے عدا کرے اور صاحب مزار کی روح کواللہ تعالیٰ کی بارگاہہ میں اپنا وسیلہ قرار دے ،۔ پھر اسی طرح سلام کر کے واپس آئے مزار شریف کو ہاتھ نہ لگائیں۔ نہ بوسہ دین اور خوب یاد رکھیں کہ طواف کرنا بالاتفاق ناجائز ہے اور سجدہ کرنا حرام ہے ۔۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

پیارے اسلامی بھائیو!

اگر آپ نے مذخورہ بالا طریقہ کے مطابق مزار شریف پر حاضری دی تو ضرور آپ کو صاحب مزار کی طرف سے التفات ہوگا اور فیوض و برکات کا ظہور ہوگا اور انشاء اللہ تالیٰ ہر جائز دعا مقبول ہوگی۔ اگر مزید تفصیل درکار ہوتو ہماری کتاب "بستر مرگ سے قبر تک" حصہ اول ، و دوم(مطبوعہ ضیاءالدین پبلشرز کھارا در۔کراچی)کا مطالعہ فرمائیں اس کتاب میں  ہر مسئلے کو عام فہم اندازاور دلائل سے مزین کر کے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔


متعلقہ

تجویزوآراء