فخر خاندان برکات ڈاکٹر سید محمد امین برکاتی رضوی

ولی عہد خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف

ولادت

فخر السادات امین الملت والدین مولانا سید محمد امین میاں برکاتی رضوی بن احسن العلماء مولانا سید حسن میاں قادری برکاتی بن صحافی ہندوستان حضرت سید آلِ عبابر کاتی بن حضرت سید حیدر برکاتی ۱۹۵۲ء کو مارہرہ مطہر ضلع ایٹہ میں پیدا ہوئے۔

تسمیہ خوان

مولانا ڈاکٹر سید محمد امین میاں برکاتی رضوی کی رسمِ بسم اللہ والد ماجدنے بڑی شان و شوکت سے کرائی، مارہرہ کے مشائخ کے علاوہ دیگر اکابرین ملت نےبھی شرکت کی۔ آپ کے برادر اکبر نے تسمیہ خوانی کے موقع پر ایک نظم کہی جو ہدیۂ ناظرین ہے، ملاحظہ ہو؎

جبینِ امیں پر یہ سہرا مبارک

بہ نامِ خدا اس کا بندھنا مبارک

گلستانِ حیدر کا نور ستہ غنچہ

اسے پھول بن کر مہکنا مبارک

حسینی ضیا سے ہے تاباں درخشاں

اسے مہر بن کر چمکنا مبارک

ہے آلِ عبا کے فضائل کا حامل

نجابت کا اس کو یہ تمغا مبارک

امین اپنا پڑھ لکھ کے فاضل بنے گا

لکھے گا قلم سے یہ فتویٰ مبارک

یہ حافظ بھی ہوگا یہ قاری بھی ہوگا

سنائے گا اک دن شبینہ مبارک

بنے گا مبلغ یہ دینِ متیں کا

نبی کی نیابت کا عہدہ مبارک

عبا اس کے دادا ہیں اسحاق نانا

تو پوتا مبارک نواسہ مبارک

وہابی جو کہتا ہے سہرے کو بدعت

ہے بے ہو وہ جاہل، بڑا نا مبارک

محبت کی کلیو مسرت کے پھولو!

کبھی وقت دیکھا تھا ایسا مبارک

بندھا تسمیہ کاہے یہ جیسے سہرا

اسی طرح شادی کا سہرا مبارک [1]

تعلیم وتربیت

مولانا ڈاکٹر سید محمد امین میاں نے ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار حسن العلماء مولانا سید حسن میاں قادری برکاتی مدظلہٗ، محمد یوسف آفریدی، منشی سعید الدین، حافظ عبدالرحمٰن عرف حافظ کلو، والدہ ماجدہ اور پھو پھیوں سے حاصل کی۔ علم تکسیر کے ابتدائی اسباق اپنے عمِ مکرم سید العلماء مولانا سید آلِ مصطفیٰ برکاتی مارہروی علیہ الرحمۃ سے پڑھے۔ ڈاکٹر سید محمد امین نے مزید جدید علوم و فنون کی تعلیم حاصل کرنے کےلیے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا رُخ کیا، اور وہاں رہ کر اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ آپ نے ۱۹۸۱ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے پی۔ ایچ ڈی کی ڈگری حاصلکی۔

والدماجد احسن العلماء

مولانا ڈاکٹر سید محمد امین کےوالد گرامی مولاناسید مصطفیٰ حیدر حسین میاں برکاتی، حضرت سید آلِ عبا علیہ الرحمہ کے منجھلے بیٹے ہیں، ۱۰؍شعبان المعظم ۱۳۴۵ھ؍۱۰۲۷ء کو مارہرہ شریف میں ولادت ہوئی۔ احسن العلماء مولانا سید حسن میاں کی والدہ ماجدہ تاج العلماء شاہ اولاد بہول محمد میاں مارہروی کی حقیقی بہن تھیں، ماموں نےبچپن سے مثل فرزند حقیقی پرورش اورتعلیم نشو ونما کا اہتمام کیا۔

حضرت احسن العلماء کے اساتذہ میں منشی سعید الدین مارہروی، حافظ سلیم الدین، حافظ عبدالرحمٰن، والدہ ماجدہ، تاج العلماء سید اولادِ رسول محمد میاں مارہروی، حضرت مولانا غلام جیلانی رضوی، اعظمی، برادرِ اکبر مولانا الشاہ سید آلِ مصطفیٰ قادری برکاتی، شیر بیشتہ اہل سنت مولانا حشمت علی رضوی، مولانا مفتی محمد خلیل خاں برکاتی رضوی کےاسماءِ گرامی قابلِ ذکر ہیں۔ انگریزی کےچند اسباق ماسٹر محمد سمیع خاں برکاتی سے پڑھے۔

احسن العلماء کو اپنے نانا محترم حضرت سید شاہ ابو القاسم اسماعیل حسن برکاتی سےارادت حاصل ہے، نیز اجازت وخلافت بھی عطا فرمائی۔ تاج العلماء سید اولادِ رسول محمد میاں قادری نےجملہ سلاسل کی اجازت مرحمت فرمائی اور اپنا جانشین مقرر کیا۔ مولانا سید اولادِ رسول محمد میاں کے وصال کے بعد فروری ۱۹۵۶ء میں آپ خانقاہِ قادریہ برکاتیہ کے سجادہ نشین منتخب ہوئے۔

احسن العلماء بہترین حافظ اور عمدہ قاری ہیں۔ علم و فضل، زہد وتقویٰ، علم وبرباری توکل واستغنا، قناعت ورضا، منکسر المزاجی اور سادگی آپ کی دیگر اہم خصوصیات ہیں۔ آپ علم ظاہر وباطن سے بھی سر فراز ہیں۔ اس دور کے زبردست فاجل، مسلک اہلِ سنت کے عظیم پیر طریقت، فقہ حنفی کے عظیم الشان مفتی، اور ملت اسلامیہ کےبے پناہ ورد رکھنے والے بزرگ ہیں۔ احسن العلماء علوم ظاہری وباطنی میں بے نظیر ہیں، ساتھ ہی ساتھ جادو بیان مقرر بھی ہیں۔ تصوف کےپیچیدہ مسائل کو آسان ترین لفظوں میں بیان کردینا اُن کے صوفی باصفا اور قادر الکلام ہونے کا بین ثبوت ہے۔ راقم السطور کو عرسِ رضوی بریلی شریف میں کئی مرتبہ تقریر سننے کا موقع ملا۔

احسن العلماء سید حسن میاں مدظلہٗ کا عقدِ مسنون سید محمد اسحاق نقوی کی صاحبزادی محبوب فاطمہ سے سیتا پور میں ہوا۔ چار صاحبزادے اور ایک بیٹی بفضلہٖ تعالیٰ حیات ہیں۔

احسن العلماء کے ممتاز خلفاء

۱۔ جانشین مفتی اعظم فقیہ اسلام علامہ مفتی محمد اختر رضا ازہری قادری بریلوی دامت برکاتہم القدسیہ

۲۔ امین الملت مولانا ڈاکٹر سید محمد امین میاں برکاتی رضوی مارہروی

۳۔ مولانا سید محمد اشرف برکاتی

۴۔ مولانا سید محمد افضل برکاتی

۵۔ مولانا سید نجیب حیدر برکاتی

۶۔ مفتی احمد میاں برکاتی احسن المدارس حیدر آباد سندھ

۷۔ مولانا الحاج الشاہ محمد سبحان رضا قادری مہتمم دار العلوم منظر اسلام بریلی

۸۔ خطیب اعظم مولانا توصیف رضا قادری صدر جمعیۃ العلوم بریلی

۹۔ مفتی محمد شریف الحق رضوی امجدی جامعہ اشرفیہ مبارک پور

۱۰۔ مولانا صوفی نظام الدین رضوی تنویر الاسلام امر ڈوبھابستی

۱۱۔ مولانا قاری محمد امانت رسول نوری رضوی پلی بھیتی

۱۲۔ مولانا قاضی عبد الشکور میاں برکاتی

۱۳۔ حضرت سید شاہ ضیاء الدین احمد ترمذی سجادہ نشین خانقاہ محمدیہ کالپی شریف

جد امجد حضرت سید آلِ عبا قادری

مولانا ڈاکٹر سید محمد امین میاں کے دادا حضرت سید شاہ آلِ عبا قادری کی ولادت ۱۹؍ ربیع الاول ۱۳۰۸ھ کو اپنی ننہال سیتا پور میں ہوئی، سید آلِ عبا قادریکے والد گرامی کا نام حضرت سید حسین حیدر برکاتی تھا۔ سید حسین حیدر کانسبی تعلق سید سالار فرزند اکبر میر سید محمد المعروف بہٖ دعوۃ الصغریٰ فاتحِ بلگرام ضلع ہردوئی سے ہے۔

سید آلِ عبا قادری کے نانا میر سید محمد صادق علیہ الرحمۃ کا نسبی تعلق سید محمد عمر فرزند اصغر میر سید صغریٰ بلگرامی سے ہے۔

سید آل عبا نے دینی تعلیم اپنے والد ماجد اور منشی فرزند حسن سے حاصل کی۔ اور گورنمنٹ ہائی اسکول سیتا پور سے ایم۔ اے۔ اوکیا۔ پھر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ،عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد تشریف لے گئے اور کافی عرصے تک علوم و فنون کی تکمیل میں مصروف رہے۔ آپ نے حیدر آباد دکن میں محکمہ پٹہ جات میںملازمت اختیارکی۔ رٹائر ہونے کے بعد آل انڈیا ریڈیو کے بیرونی نشریات کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔ عمر کا آخر حصہ مارہرہ مطہرہ میں گزرا۔

سید آلِ عبا قادری علیہ الرحمۃ کی تصانیف بے پرکی، اپنی موج میں، میرا فرمایا ہوا، اہم ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی نثری مضامین و مقالات ہیں۔ آپ کا قلم بہت شگفتہ تھا۔

سید آلِ عبا سید العارفین سید المشائخ شاہ ابو الحسین احمد نوری قدس سرہٗ سے بیعت تھے اور اجازت و خلافت اپنے خسر حضرت سید شاہ ابو القاسم اسماعیل بن مارہروی سے حاصل ہے۔ آپ کا حلقۂ ارادت بہت وسیع تھا۔ سیدمخدوم علی حیدر آبادی، فرزند اصغر حضرت سید مرتضیٰ حیدر حسن زیدی کو سید آلِ عبا قادری نے اجازت عطا فرمائی۔

سید آلِ عبا قادری کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں۔ بڑے صاحبزادے سید العلماء سید آلِ مصطفیٰ مارہروی (متوفیٰ ۱۱؍جمادی الآخر ۱۳۹۴ھ) وصال کر گئے۔ باقی اولادیں باحیات ہیں۔

صحافی ہندوستان سید آلِ عبا کی عمر سو سال کے قریب ہوکر ۱۹۷۸ء میں وصال ہوگیا۔

خدمات دینیہ

مولانا ڈاکٹر سید محمد امین نے فراغت کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں چند برس درس وتدریس کے منصب پر فائز رہ کر خدمات انجام دیں۔ ۱۹۸۳ء سے سینٹ جانس کالج آگرہ میں شعبۂ اردو کے صدر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر سید محمد امین میاں متحرک اور فعال شخصیت ہیں۔ سنیت کی اشاعت میں بھر پور حصہ لیتے ہیں۔ نہایت سنجیدہ، نیک طینت، خوش کردار اور رحم دل واقع ہوئےہیں۔ طبیعت میں و دیعت کے طور پر سادگی و سنجیدگی زیادہ پائی جاتی ہے۔

تصانیف

ڈاکٹر سید محمد امین میاں اب تک کئی کتابوں کے مصنف ہوچکےہیں۔ آپ کے مقالات ماہنامہ سنی دنیا بریلی، ماہنامہ استقامت کانپور، اور ماہنامہ حجاز جدید دہلی میں چھپتے ہیں۔ مندرجہ ذیل تصانیف کے علاوہ آپ نے ادبی، مذہبی، تنقیدی، تحقیقی مقالات لکھے جن کو اہل علم نے وقعت اور اہمیت کی نظر سے دیکھا۔

۱۔ قائم اور ان کا کلام

۲۔ شاہ برکت اللہ۔ حیات اور علمی کارنامے

۳۔ ادب، ادیب اور اضافت

۴۔ سراج العوارف (ترجمہ)

۵۔ آداب السالکین

۶۔ چہار انواع

بیعت وخلافت

مولانا ڈاکٹر سید محمد امین میاں کو تاج العلماء سید اولادِ رسول محمد میاں برکاتی سے بیعت وخلافت کا شر ف حاصل ہے۔ اور والد بزرگوار احسن العلماء سید حسن میاں قادری نے بھی اجازت حاصل ہے۔ مزید حضور مفتی اعظم مولانا الشاہ مصطفیٰ رضا نوری قدس سرہٗ نے بھی آپ کو اجازت مرحمت فرمائی۔ اجازت وخلافت کا واقعہ بھی عجیب و غیب ہے۔

واقعۂ خلافت

۱۱؍ جمادی الآخر ۱۳۹۴ھ کو مولانا سید آلِ مصطفیٰ مارہروی کا وصال ہوا، ڈاکٹر سید محمد امین میاں کے والد ماجد پابندی سے دارالعلوم مظہر اسلام بریلی کے جلسہ دستار بندی میں شرکت فرماتے تھے۔ حضور مفتی اعظم اور والد ماجد میں بے حد محبت تھی، آپ نے ارادہ کیا کہ ۱۳۹۴ھ کے جلسہ دستار میں حاضر ہونا چاہیے تاکہ حضور مفتی اعظم کو والدم اجد کی غیر موجودگی محسوس نہہو، چنانچہ ڈاکٹر سید محمد امین میاں ۴؍شعبان ۱۳۹۴ھ کو بریلی شریف حاضر ہوئے، پندرھویں شب میں جلسہ ہوا۔ جلسے کے دوران آپ کے دل میں یہ خیال آیا کہ اگر حضور مفتی اعظم قدس سرہٗخلافت واجازت سے نوازدیں تو بہت اچھا ہو۔ ساڑے تین بجے رات کو جلسہ کا اختتام ہوا، اور حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ نے ڈاکٹر سیدمحمد امینکا ہاتھ پکڑا اور اپنےدولت کدے کےلیے روانہ ہوئے۔ ڈیوڑھی میں حضور مفتی اعظم نے فرمای:

میاں! امین یہ تو آپ کے آبائے کرام کی دی ہوئی نعمت ہے۔ میں آپ کو سلسلۂ عالیہ قادریہ کالپویہ میں مجازو ماذون کرتا ہوں اور خلافت نذر کرتا ہوں۔

اس کے بعد ڈاکٹر سید محمد امین کے دونوں ہاتھاپنے ہاتھ میں تھام لیے اور کچھ پڑھتے رہے۔ اُس وقت آپ پر رقت طاری ہوگئی۔

۱۳۹۵ھ کے عرس رضوی میں بریلی شریف تشریف لائے، قل شریف کی محفل جاری تھی۔ تقریباً ۸۰، ۹۰ ہزار کا مجمع تھا۔ حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ نے مولانا مفتی محمد شریف الحق رضوی امجدی سے فرمایا میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، چنانچہ کئی مائک مفتی اعظم کے سامنے رکھ دیے گئے۔ مفتی اعظم نے تریباً آٹھ دس منٹ تقریر فرمائی جس میں ڈاکٹر سید محمد امین کی اجازت وخلافت کا اعلان فرمایا، پھر اپنے قلم مبارک سے مطبوعہ خلافت نامہ کی خانہ پُری کر کے دستخط ثبت فرمائے۔

شوال المکرم۱۳۹۵ھ میں حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ مارہرہ شریف تشریف لے گئے، ڈاکٹر سید محمد امین میاں نے دلائل الخیرات شریف پیش کی اور عرضکیا کہ اسے پڑھنے کی اجازت عطا فرمادیں۔ دریائے کرم جوش پر تھا، دلائل الخیرات کے ساتھ ساتھ جملہ اعمال واذکار اور اشغال کی اجازت عطا فرمائی اور دوبارہ خلافت نامہ تحریر فرمایا۔

عقدِ مسنون

ڈاکٹر سید محمد امین میاں کی شادی سید عابد علی عابدی بریلوی کی صاحبزادی آمنہ خاتون سے الٰہ آباد میں ہوئی، بفضلہٖ تعالیٰ ایک بیٹا اور ایک بیٹی تولد ہوئیں [2] ۔



[1] ۔ یہ نظم راقم کو حضرت مولانا مظہر حسن رضوی بدایونی نےعنایت فرمائی۔ راقم ان کا ممنون ہے۔ ۱۲رضوی غفرلہٗ

[2] ۔ مکتوب گرامی مولانا ڈاکٹر سید محمد امین برکاتی رضوی مارہروی راقم محررہ ۵؍ربیع الاول ۱۴۰۱ھ؍ ۶؍نومبر ۱۹۸۹ء۔ ۱۲ رضوی غفرلہٗ

تجویزوآراء