حضرت سیدنا عثمان غنی

حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا سلسلۂ  نسب :
کنیت ابو عمر، ابولیلیٰ اور ابوعبداللہ تھی۔ لقب ذوالنورین (کیونکہ  حضورﷺ کی دو صاحبزادیاں آ پ کے نکاح میں رہیں) تھا۔ کہتے ہیں آج تک کسی انسان کو یہ سعادت نصیب نہیں ہوئی کہ اس کے عقد میں کسی نبی کی دو بیٹیاں آئی ہوں۔ آنحضرت  ﷺفرمایا کرتے تھے: اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے نکاح کرتا چلا جاتا۔  امیرالمومنین عثمان  بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبدالشمس بن عبدالمناف۔ آپ کی والدہ کا نام بیضاء تھا جو حضرت رسولِ اکرم ﷺکی پھوپھی تھیں اور آنحضرتﷺ کے والد حضرت عبداللہ کی تو ام تھیں۔ آپ کا نسب والدہ اور والد دونوں نسبتوں سے آنحضرتﷺ کے جد امجد عبد مناف سے جا ملتا ہے۔ عبد مناف حضرت رسول اکرمﷺ کے جد چہارم اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  کے جدِّ پنجم تھے۔

آپ کی ولادت واقعۂ فیل کے چھٹے سال ہوئی۔ اعلانِ رسالت کے سالِ اوّل میں ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ    کی کوشش و تبلیغ سے دامنِ اسلام میں آگئے۔ اور آپ رضی اللہ عنہ  کا شمار خلفاء راشدین ،اور عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے فضائل:
۱۔شیخین نے حضرت  عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام نے حضرت عثمان کے آنے پر اپنے کپڑے سمیٹ لیے اور فرمایا ! کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔(الصواعق المحرقہ ،ص ، ۳۷۵ )
۲۔ابو نعیم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا !  کہ عثمان میری امت کا سب سے زیادہ حیا دار اور کریم شخص      ہے۔(الصواعق المحرقہ ،ص ، ۳۷۵ )
۳۔طبرانی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! کہ حضرت لوط  علیہ السلام کے بعد حضرت   عثمان رضی اللہ عنہ  پہلے آدمی ہیں جنہوں نے خدا کی خاطر اپے اہل سمیت ہجرت کی۔(الصواعق المحرقہ ،ص ، ۳۷۵ )
۴۔ابن ماجہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عماحن سے فرمایا اے عثمان!  یہ جبریل ہیں جو مجھے بتار ہے  ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ام کلثوم کو رقیہ کے مہر کے مثل پر تیری زوجیّت میں دیا ہے۔ اور اس کے ساتھ  بھی  ویسا ہی سلوک کرنا ۔(الصواعق المحرقہ ،ص ، ۳۷۶ )
۵۔ترمذی نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ  سے اور ابن ماجہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے بیان کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی کا جنت میں ایک رفیق ہوتا ہے اور جنت میں میرا رفیق عثمان ہے۔(الصواعق المحرقہ ،ص ،۳۷۶ )
۶۔ابن عساکر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے بیان کیا ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا !  کہ عثمان کی شفاعت سے ستّر ہزار ایسے آدمی جنت میں بلا حساب داخل ہوں گے جو آگ کے مستحق ہو چکے ہوں گے ۔(الصواعق المحرقہ ،ص ، ۳۷۷ )
۶۔ ترمذی اور حاکم نے بیان کیا ہے اور اسے عبد الرحمٰن بن سمرہ سے صحیح قرار دیا ہے کہ حضور ﷺ’’جیش  العسرۃ‘‘  کی تیاری فرمارہے تھے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  ایک ہزار دنیار لے کر آئے اور آپ ﷺکے حجرہ میں انہیں بھیر  دیا ۔ حضور ﷺ ا نہیں الٹنے پلٹنے لگے پھر فرمایا ! عثمان  آج  کے بعد جو کام کرے گا  اس کا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔                                                                                               
۷۔ترمذی ،ابن ِماجہ،اور حاکم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے روایت کیا ہے  کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ! اے عثمان !  اللہ تعالیٰ تجھے (خلافت کی)ایک قمیص پہنائیگا اگر منافقین اس کے اتارنے کا ارادہ کریں  تو تم اسے نہ اتارنا ۔یہاں تک کہ تم مجھ سے   آ ملو۔(الصواعق المحرقہ ،ص ، ۳۷۷ )
یہ حدیث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت ِحقّہ پر واضح دلیل ہے  ۔حدیث میں قمیص سے کنایۃً خلافت ِالٰہیہ مراد لی گئی ہے ۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دس خصائل:
ابن عساکر نے ابن ثور الضمی کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس اس وقت گیا جب کہ آپ محصور تھے اس وقت اپ نے مجھ سے فرمایا کہ میری دس خصلیتیں اللہ تعالی کے پاس محفوظ ہیں (۱)میں اسلام قبول کرنے والا چوتھا شخص ہوں(۲)رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو صاحبزادیوں کو میرے عقد میں دیا (۳)میں کبھی گانے بجانے میں شریک نہیں ہوا(۴)میں کبھی لہو و لعب میں مشغول نہیں ہوا(۵)میں نے کبھی کسی برائی اور بدی کی تمنا نہیں کی(۶)رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے کے بعد اپنا سیدھا ہاتھ اپنی شرم گاہ کو نہیں لگایا (۷)اسلام لانے کے بعد میں نے ہر جمعہ کو اللہ کیلئے ایک غلام ازاد کیا اگر اس وقت ممکن  نہ ہوا تو بعد میں آزاد کیا (۸)زمانہ جاہلیت یا عہد اسلام میں کبھی زنا کا مرتکب نہیں ہوا(۹)عہد جاہلیت اور زمانہ اسلام میں کبھی چوری نہیں کی(۱۰)رسول خدا صلی اللہ عنہ کے زمانہ کے مطابق میں نے قرآن کو جمع کیا۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت:
حضرت عمر ، فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے پہلے ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں چھ صحابی شامل تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی  حضرت طلحہ ،حضرت زبیر ، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبدالرحمان بن عوف رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کمیٹی میں شامل تھے۔ اس کمیٹی نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کیا۔ یکم محرم ۲۴ھ کو مسندِ خلافت پر بیٹھے اور مدتِ خلافت بارہ سال بارہ دن تھی ۔ آپ کے دور خلافت میں ایران اور شمالی افریقہ کا کافی علاقہ اسلامی سلطنت میں شامل ہوا۔

ایک دفعہ چند صحابہ آپ کے گھر گئے مگر راستہ میں ایک کی نظر ایک نامحرم عورت پر جا پڑی۔ آپ نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا: کیا بات ہے۔ تم میں سے ایک شخص ایسا بھی میرے گھر آگیا ہے جس کی آنکھوں میں زنا کا اثر ہے۔ وہ شخص آگے بڑھا اور کہنے لگا: یا امیرالمؤمنین! میرا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺکے بعد آپ پر وحی آتی ہے۔ آپ نے فرمایا: وحی نہیں  یہ نورِ فراست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ کے خادموں کو عطا فرماتا ہے۔

روایت ہے کہ شہادت سے ایک رات پہلے سرکار دو عالمﷺ آپ کو خواب میں ملے اور فرمانے لگے: عثمان! آج افطار میرے پاس کرنا ! دوسرے روز آپ کو سعادتِ شہادت ملی۔

بلوائیوں کا عبرتناک انجام :
شواہد النبوت کے مولّف حضرت مولانا جامی  لکھتے ہیں کہ ایک ثقہ راوی نے کہا ہے: میں طوافِ کعبہ میں مصروف تھا کہ مجھے ایک نابینا ملا جو طواف کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اے اللہ مجھے بخش دے حالانکہ مجھے یقین نہیں آتا کہ تو مجھے  بخش دیگا۔ میں نے کہا: سبحان اللہ! ایسی جگہ پر تم ایسی  مایوس کن بات کرتے ہو؟ اس نے کہا: میں نے ایک عظیم گناہ کیا ہے جس کی وجہ سے مجھے بخشش کی اُمید نہیں۔ میں نے کہا: وہ کیا؟ اس نے بتایا کہ جس دن لوگوں نے  حضرت امیرالمؤمنین عثمان  غنی رضی اللہ عنہ کے مکان کا محاصرہ کیا ہوا تھا۔ میں بھی  حضرت کے معاندین میں سے تھا۔ میں نے قسم کھائی تھی کہ جب حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ  شہید ہوجائیں گے میں ان کے برہنہ منہ پر طمانچہ ماروں گا۔ جب آپ شہید ہوئے میں اندر آیا۔ دیکھا کہ آپ کا سر آپ کی بیوی کی بغل میں پڑا  ہے۔ میں نے کہا: عثمان  کامنہ ننگا کرو۔ بی بی نے پوچھا: تمہارا مطلب کیا ہے؟ میں نے کہا کہ میں نے قسم کھائی تھی کہ میں ان کے منہ پر طمانچہ ماروں گا۔ بی بی نے رو کر کہا: تم خیال نہیں کرتے کہ اس منہ کی رسولِ خداﷺ نے تعریف کی ہے۔ اپنی دو بیٹیاں اس کے نکاح میں دیں۔ اور بھی بہت سے فضائل بیان کیے۔ مگر نے پروا نہ کی۔ دوسرے لوگ ان کی باتیں سُن کر شرمسار ہوکر لوٹ گئے مگر میں نے زبردستی آپ منہ ننگا کرکے زور دار طمانچہ مارا۔ خاتون نے ایک دلدوز آہ بھری اور کہا: ظالم، بے رحم جا  اللہ تم پر کبھی رحم نہ کرے اور تیرے گناہ معاف نہ کرے، تمہارا ہاتھ سوکھ جائے اور تمہاری آنکھوں کی روشنی چھین لے۔ مجھے خدا کی قسم ہے ابھی حضرت عثمان  کے گھر سے میں باہر بھی نہیں نکلا تھا کہ میرا ہاتھ سوکھ گیا اور میں اندھا  ہوگیا۔ مجھے امید نہیں کہ اللہ تعالیٰ میرے گناہ معاف کرے گا۔

تاریخ ِشہادت:
جب بلوائی  قتل کرنے کیلئے امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ   عنہ  کے گھر داخل ہوئے  تو اس وقت  آپ رضی اللہ   عنہ  قرآن ِمجید کی تلاوت فرما رہے تھے ۔جیسے ہی انہوں نے حملہ کیا تو آپکا خون سورۃ البقرۃ; کی آیت نمبر ، ۱۳۸ ۔فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللّٰہُۚ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ پر گرا تو بروزِ قیامت حضرت عثمان غنی رضی اللہ   عنہ  کی شہادت کی گواہی قرآن مجید دیگا۔ یہ واقعہ فاجعہ  بروز جمعہ ۱۸ذی الحجہ ۳۵ھ کو مدینہ منورہ میں رونما ہوا ۔ وقتِ شہادت آپ کی عمر ۸۸ سال تھی۔ بعض روایات میں ۹۲ سال لکھی ہے۔ ۷۵، ۸۲ اور ۸۶ سال بھی مختلف کتابوں میں ملتی ہے۔آپ کا مزار پُرانوار مدینہ پاک کے جنت البقیع کے قبرستان میں ہے۔

تجویزوآراء