مناقب امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
جناب امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پر بھی خدا کی بے شمار رحمتیں اور سلام جو شرم و حیا کے سر چشمے اور تمام اہل صفا سے زیادہ عبادت گزار اور مقبول درگاہ رضا تھے آپ نسب و نسبت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب اور پیغمبر صلعم کی دو صاحبزادیوں کے خاوند تھے اسی وجہ سے آپ ذی النورین کے معزز شریف خطاب سے پکار جاتے تھے آپ جامع قرآن بھوکوں کے پیٹ بھرنے والے لشکر اسلام کے مرتب کرنے والے تھے قطع نظر اس کے انواع و اقسام کے کرم و بخشش اور بے شمار نعمتوں کے ساتھ مخصوص تھے نیز تحمل و برد باری کے لباس سے آراستہ اور کثرت علم کے ساتھ موصوف تھے یہ اُسی انتہا سے زیادہ حلم و شرم اور پیغمبر صاحب کے خوف و ہیبت کا اثر تھا کہ جب آپ ابتداء خلافت کے زمانہ میں منبر پر چڑھے اور خطبہ شروع کیا تو آپ کا گلا بند ہوگیا اور سخن مبارک کا سلسلہ جو لمحہ بہ لمحہ آگے بڑھتا جاتا تھا یک لخت منقطع ہوگیا الغرض آپ کے فضائل واضح اور مناقب ظاہر ہیں۔ عبد اللہ ابو رباحہ اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ جب امیر المومنین حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا گیا تو جمعہ کے روز ہم دونوں آپ کے پاس حاضر تھے جب بلوائیوں اور محاصرین کا شور و غل آپ کے حضور میں پہنچا تو آپ کے غلاموں نے بے اختیارانہ جوش کے ساتھ ہتھیار اٹھا لیے لیکن امیر المومنین نے ایک بڑے استقلال کے لہجہ میں فرمایا کہ جن غلاموں کے ہاتھ ہنوز ہتھیاروں کی طرف نہیں بڑھے ہیں وہ میرے مال میں سے آزاد ہیں ہم یہ صورت دیکھ کر اپنی جان کے خوف کے مارے وہاں سے باہر نکل آئے لیکن جب امیر المومنین حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے مکان کے دروازہ پر تشریف لائے تو ہم پھر ان کے ساتھ امیر المومنین حضرت عثمان کی خدمت میں حاضر ہوئے جناب امیر المومنین حضرت امام حسن نے اول سلام کیا بعد میں فرمایا اے امیر المومنین میں بغیر آپ کے حکم کے مسلمانوں پر تلوار اٹھانے کی جرات نہیں رکھتا چونکہ آپ امام برحق ہیں اس لیے میری نسبت حکم صادر کیجیے کہ اس قوم کی بَلا کو آپ پر سے دور کردوں امیر المومنین جناب عثمان نے فرمایا۔ یا ابن اخی ارجع واجلس فی بیتک حتی یا تی اللہ بامرہ فلا حاجۃ لنا فی اھراق الدماء۔ یعنی اے میرے بھتیجے تم یہاں سےلوٹ جاؤ اور اپنے گھر جا کر بیٹھو یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کا حکم آموجود ہو۔ مجھے لوگوں کی خونریزی کی کچھ حاجت نہیں۔ اہل سلوک کے درمیان یہی رضا کا مقام ہے جس کی امیر المومنین حضرت عثمان نے کما حقہ رعایت کی آپ نے دس روز کم دس سال خلافت کی اور اٹھاسی برس کی عمر میں اور بقول بعض نوے برس کی عمر میں بدھ کو نیا رعیاض کے ہاتھ سے شہید ہوئے شہادت کے وقت قرآن مجید آپ کی بغل میں موجود تھا چنانچہ حکیم سنائی آپ کی مدح میں کہتے ہیں۔
مثنوی
آنکہ برجای مصطفیٰ بنشست |
|
برلبش سہم راہ خطبہ بہ بست |
ترجمہ: حضرت عثمان جب آنحضرت کے جانشین ہوئے اور منبر پر چڑھ کر خطبہ پڑھنے لگے تو آپ کی زبان بند ہوگئی لیکن یہ صورت زبان کی لکنت کی وجہ سے عارض نہیں ہوئی تھی بلکہ شرم و حیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہیبت کی وجہ سے۔ حقیقی ایمان حضرت عثمان ہی کو حاصل تھا اور اس پر دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے الحیاء من الایمان۔ مشاط پسندیدہ کے ہاتھ نے آپ کی آنکھ میں شرم و حیا کا سرمہ لگایا تھا آپ گذشتہ لوگوں کے سردار تھے اور اسلام کے عہد میں بزر گیا آپ کی گود میں پرورش پائی تی آپ کا دل پیغمبر صاحب کے ساتھ موافق تھا اور آپ کی روح مقدس کا نور صبح صادق کی طرح تاباں و درخشاں تھا جو فساد آپ کی عہد میں اٹھا تھا وہ آپ ہی کے رشتہ داروں کا بھڑکایا ہوا تھا دنیا میں جس قدر نیک و بد ہیں سب اپنی خواہش کے پورا کرنے میں کوشاں ہیں لیکن آپ ہمہ تن نیکی تھے اس لیے اپنے غمگسار یاروں کے پاس بہت جلد تشریف لے گئے جب دشمن نے آپ کے سر پر تلوار ماری تو آیہ فسیکفیکہم اللہ پر خون کے قطرے گرے۔
(سیر الاولیاء)