چند حروف کتابِ حیات سے
دور حاضر میں تاج الشریعہ کا کوئی جواب نہیں۔ علم و عمل، تصنیف و تالیف، بیعت و ارشاد، تقویٰ و پرہیز گاری، مقبولیتِ عوام و خواص اور صورت و کردار میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ علم و فضل، حکمت و دانائی، فتویٰ نویسی، شعر و سخن اور اردو عربی نثر نگاری گویا کسی بھی لحاظ سے انہیں دیکھیے وہ اپنے صاف و کمالات میں اپنے عہد کے یکتا و یگانہ نظر آئیں گے۔ عربی، انگلش اور اردو میں نہایت اہم موضوعات پر انتہائی تحقیقی، مستند اور قابلِ اتباع کتابیں لکھنا آپ ہی کا حق و حصہ ہے۔ فتویٰ نویسی میں احتیاط، دور اندیشی اور شان فقاہت کا یہ عالم کہ حضور مفتی اعظم کی یاد تازہ ہوجائے۔ شاعری میں بھی آپ یکتائے روز گار ہیں، قادرا اکلام اور برجستہ شعر گوئی پر آپ کو ملکہ حاصل ہے۔ یہ وصف تو آپ کا مورثی اور آبائی ہے۔ چلتے پھرتے نہایت آسانی سے شعر کہنا اپنے خیالات کو نہایت عمدگی کے ساتھ شاعری کا جامہ پہنانا اور اپنے کلام بلاغت نظام کو محاسنِ شاعری اور صنعاتِ ادب سے مرصع کرنا آپ کے لیے معمولی کام اور ادنیٰ سا کار نامہ ہے۔ اہل ذوق ’’سفینۂ بخشش‘‘ کا مطالعہ کریں، عشق و ادب، فنی محاسن، وارداتِ قلب اور حسن عروض کے ’’چمن زار پُر بہار‘‘ کی فرحت بخش فضاؤں میں سیر کریں گے۔
آپ جس طرف کا رخ کرلیں۔ جس شہر میں گزر ہو جائے، جس علاقے پر قدم رنجہ فرمادیں۔ مسلکِ اعلیٰ حضرت کی دھوم مچ جائے۔ لوگ پروانہ وار آپ پر فدا ہونے کے لیے تیار ہوجائیں۔ آپ کے رخ زیبا کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے عاشقوں کا جم غفیر امنڈ پڑے۔ آپ کی آمد سے پہلے خواہ کتنے ہی چراغ روشن ہوں اس نیر تاباں کے طلوع ہوتے ہی سب ماند پڑ جائیں۔ اور سب اسی کے جلووں میں گم ہوجائیں ؎
ایں سعادت بروز بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
· آپ کے خلفاء کی تعداد درجنوں میں نہیں بلکہ سیکڑوں میں ہے۔ آپ کے مریدین کی تعداد لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہے۔ وہ رہبر سنیت ہیں۔ شمع بزم رضویت ہیں ’’الولد سرٌ لابیہ‘‘ کے تحت اپنے جد کریم اعلیٰ حضرت، حضور حجۃ الاسلام، حضور مفتی اعظم ہند اور جیلانی میاں رحمۃ اللہ علیھم کے علوم و معارف کے سچے وارث و عکس جمیل ہیں۔ ان کا علم دیکھ کر اُن کے بزرگوں کا علم یاد آجاتا ہے۔ اُن کی کتابوں میں حضور مفتی اعظم ہند کی بے مثال فقاہت کا نور جھلکتا نظر آتا ہے۔ اُن کے فتاویٰ کمال احتیاط اور تحقیقِ عمیق میں حضور مفتی اعظم کا آئینہ نظر آتے ہیں۔ وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں تحقیق کے دریا بہا دیتے ہیں اور کوئی سوال تشنۂ جواب نہیں چھوڑتے۔ معترض کو شافی جواب سے مطمئن کر دینا، ہر گوشے پر اپنی شانِ فقاہت کے پرچم لہرادینا آپ کا موروثی ملکہ و حق ہے۔ ان کے توسل سے اہل عقیدت اعلیٰ حضرت اور مفتی اعظم کا روحانی فیض حاصل کرتے ہیں۔ اُن کی بہت سی کرامات بھی اُن کے حلقۂ ارادت میں مشہور و معروف ہیں۔ اُن کے دست حق پرست پر اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بھی خاصی ہے۔ انہوں نے اسلام و سنیت کی تبلیغ کے لیے جتنے ملکوں کے دورے کیے ہیں شاید کسی اور شیخ طریقت نے کئے ہوں۔ دور دراز مُلکوں میں سنیت کے جتنے چراغ انہوں نے روشن کیے ہیں شاید کسی نے کئے ہوں۔ بریلی شریف میں دینی درسگاہ جامعۃ الرضا، ہر علاقے میں اُن کے باعمل خلفاء، اُن کےپسر مسعود، حضرت مولانا عسجد رضا خاں قادری اور ہندو بیرون ہند میں سیکڑوں جامعات و مساجد اور دینی ادارے، درجنوں پُر تحقیق کتابیں اور ہزاروں اُن کے معتبر و مستند فتاویٰ اُن کی سچی یاد گارہیں۔
اسی چراغ سے روشن ہیں بام و در میرے
اسی چراغ کی نورانیت ہے چاروں طرف
اپنے عہد کی بے مثال شخصیت:۔
· حضور تاج الشریعہ کے دور میں علماء و فضلاء اور مشائخ و سجادگان تو بہت دیکھے مگر اُن جیسا نہیں دیکھا وہ اپنے عہد میں اپنی مثال آپ ہیں۔ عربی زبان و بیان پر مہارت تامہ کے ساتھ ساتھ فارسی اور انگریزی زبانوں پر بھی انہیں کامل عبور حاصل تھا۔ جب انگریزی میں تقریر فرماتے تو انگلش گرامر کی پوری رعایت و پاسداری کا لحاظ رکھتے، انگریزی داں سامعین آپ کی انگریزی میں تقریر سُن کر حیرت زدہ ششدر رہ جاتے۔ اور جب آپ عربی ادب کا مظاہرہ کرتے یعنی عربی زبان میں بیان فرماتے تو بڑے سے بڑا عربی داں آپ کی زبان و ادب، فصاحت و بلاغت اور لہجے کی شتگی کے سامنے پست نظر آتا۔ عربی نثر نگاری میں بھی آپ کا جواب نہیں اور اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ عربی ادب میں شاعری کرنا نہایت دشوار مرحلہ ہے مگر آپ عربی شاعری میں بھی کہنہ مشق استاذ نظر آتے ہیں۔ آپ کا عربی کلام پڑھنے اور سمجھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جیسے ’’فنِ عروض‘‘ اور ادبی محاسن آپ کے لبوں کا بوسہ لیتے ہوں۔ علماء و مشائخ اور صاحبانِ زبان و ادب تو بہت دیکھے مگر اتنی خوبیوں اور اتنے علوم و فنون کا جامع کہاں؟ جو درسِ حدیث عطا کرے تو بڑے بڑے محدثین اس کی شاگردی پر ناز کریں اورقرآن کی تفسیر بیان کرے تو علوم و معارف کے چشمے ابلتے نظر آئیں۔ جو خاموش بھی رہے تو تبلیغ و ارشاد کے گلشن لہلہا انھیں اور مسند وعظ و بیان پر متمکن ہو تو لوگ اس کے قدموں پر متاع دل قربان کریں۔ اور فصاحت و بلاغت اُن کے مقدس لبوں کا بوسہ لے، بہت سے لوگوں کی تقاریر سے وہ کام نہیں ہوتا جو اُن کی موجودگی اور خاموشی سے انجام پا جاتا ہے۔ بڑے بڑے دانشوران و عقلاء اور ارباب علم و حکمت آپ کی ’’ذات والا صفات‘‘ اور آپ کی دینی مسلکی خدمات دیکھ کر یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ؎
فخر جناب مفتی اعظم ہے تیری ذات
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہوں جسے
جلوس جنازہ:۔
20؍ جولائی 2018 ء بروز جمعہ کی اذانِ مغرب رضا مسجد میں گونج رہی ہے۔ حضرت تاج الشریعہ اپنے دولت کدے میں اذان کے کلمات دُہرا رہے ہیں۔ نماز کے لیے تیار ہیں۔ با وضو بھی ہیں اور باہوش و حواس بھی۔ نہ چہرے پر کوئی حزن و ملال کی لکیر، نہ بظاہر کسی پریشانی و بے چینی کے آثار۔ پیشانی سے سکون و اطمینان کے آثار نمایاں، رُخِ زیبا ہشاش۔ اذان کے کلمات دُہراتے رہے۔ اللہ کی مرضی کہ اذان ختم ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کی حیات کے لمحات بھی تمام ہوگئے۔ اور آپ نے اللہ اکبر اللہ اکبر۔ اشھد ان محمد رسول اللہ لا الہ الا اللہ۔ کی دل آویزا اور جاں بخش صداؤں کے سائے میں اپنے خدا و رسول کی وحدانیت و رسالت کا اعلان کرتے ہوئے اپنی جان، آفریں کے سپرد کردی اور اس ’’دارِ نا پائیدار‘‘ سے دارِ سکون و قرار‘‘ کی طرف کوچ فرمایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے آپ کا یہ شعر فضا میں رقص کرنے لگا ؎
دیکھنے والو جی بھر کے دیکھو ہمیں
پھر نہ کہنا کہ اختر میاں چل دیے
چند لمحوں میں یہ خبر ساری دنیا میں پھیل گئی۔ اور سارا ماحول سوگوار ہوگیا۔ فضا پر اُداسی چھاگئی۔ ہر چہرہ اُتر گیا، ہر دل مرجھا گیا۔ ہر آنکھ نمناک ہوگئی، لوگ شہر بریلی کی طرف دوڑ پڑے۔ رات ہی میں سوداگران کی گلیاں فُل، سوگواروں کے ہجوم کا عالم نہ پوچھو۔ اُن کے چہرۂ پُر ضیاء‘‘ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہر دل بے چین و بے قرار۔ زائرین کی لمبی لمبی لائنیں۔ کوئی رو رہا ہے، کوئی سسکیاں بھر رہا ہے۔ کوئی اُن کے ذکر سے دل کو تسکین دے رہا ہے۔ کوئی اُن کی یادوں کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہے۔ کوئی خاموش تصویرِ حیرت بنا کھڑا ہے۔ کوئی درودِ پاک اور کلمۂ طیبہ پڑھنے میں مصروف ہے۔
سبحان اللہ! عقیدت ہو تو ایسی کہ اُن کی یادوں میں ڈوب کر اُن کےرُخ زیبا کی زیارت کے شوق میں 6/6 گھنٹے لائن میں لگے رہے گرمی رہے پورے شباب پر۔ پسینہ بہ رہا ہے۔ کپڑےپسینے سے تر بہ تر ہیں مگر پر واہ نہیں۔ آخرکئی گھنٹوں کی سخت مشقت کے بعد کہیں زیارت کا موقع نصیب ہو رہا ہے۔ وہ بھی چلتے چلتے رُکنے کا موقع نہیں ورنہ کثرتِ ہجوم سے انتظام گڑ بڑا جائیگا۔ لوگ لمبی لمبی لائنوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ کی شان کہ بارش آگئی تیز موسلادھار بارش میں بھی لوگ لائن میں لگے رہے۔ اوپر سے تیز برسات اور نیچے روڈ پر سیلاب ہی سیلاب، کمر کمر تک پانی جس میں لوگ گھنٹوں کھڑے رہے اور پانی کی تیز رفتار کا یہ عالم کہ اگر کوئی بچہ گرجائے تو سنبھلنا مشکل۔ پانی کی تیز ریلے میں نہ جانے کہاں تک بہتا چلا جائے۔ پانی میں بھیگنے اور گھنٹوں کمر کمر تک پانی میں کھڑے رہنے کی کوئی پرواہ نہیں مرشد کا دیدار ہوجائے تو ساری محنت وصول ہوجائے ؎
میری جاں! سختیاں جھیلی ہیں تو پایا ہے تجھے
اک نظر دیکھ لے کہ دِل کو قرار آجائے
تیرا پھیرا ہو مرے صحنِ دلِ پُر غم میں
میری سوکھی ہوئی کھیتی میں بہار آجائے
· اُن کی موت ایسی کہ زندگی کو رشک آئے، خبرِ موت پھیلتے ہی دنیا سوگوار۔ در و دیوار اداس اداس، فضا خاموش خاموش، ہر طرف ایک سکتے کا عالم طاری، ہر شخص غمزدہ غمزدہ، ہر انجمن سونی سونی، ہر ادارہ رنجیدہ رنجیدہ، یہ کوئی معمولی حادثہ نہیں ایک زبر دست عالم دین اور قاضی شرع بلکہ دنیا کی سب سے بڑی علمی شخصیت نے دنیا سے منہ موڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گُلشنِ سنیت کی رونق اُڑگئی۔ اہل سنن کے دل مرجھا گئے۔ اور فضا پکار اٹھی ؎
رنگِ بہار اُڑ گیا چھائیں اُداسیاں
تم کیا گئے کہ رونقِ محفل چلی گئی
· جلوسِ جنازہ میں کثرتِ زائرین کا یہ عالم کہ بریلی کے گوشے گوشے میں سوگوار ہی سوگوار، کوئی میدان ایسا نہیں کہ اس میں یہ تمام اہل عقیدت سما سکیں اسلامیہ کا وسیع و عریض میدان بھی اس کثرت ہجوم کو دیکھ کر اپنی تنگ دامانی اور تہی دستی کا اعتراف کر رہا ہے۔ ہر کالج، ہر میدان، ہر اسپتال، ہر ہوٹل، ہر اسکول، ہر روڈ پر بس اُنہی کے دیوانوں کی بھیڑ۔ سارے شہر میں جہاں دیکھیے اُنہی کے سوگواروں کا جم غفیر، کوئی بیس 20 لاکھ بتا رہا ہے تو کوئی 30 لاکھ۔ کوئی 40 لاکھ بتا رہا ہے تو کوئی 50 لاکھ، سچائی یہ ہے کہ بریلی کی سر زمین نے اپنی تاریخ میں آج تک کبھی اتنی بھیڑ اور اتنے افراد کا جم غفیر نہیں دیکھا۔ ہر سال عرس رضوی کے موقع پر اسلامیہ انٹر کالج اور بریلی شریف میں لاکھوں زائرین حاضر ہوتے ہیں مگر ایک اندازے کے مطابق اس سے بھی زیادہ اس جلوسِ جنازہ میں ہجوم تھا۔ انسانی ہجوم کا اندازہ تو کسی نہ کسی طرح لگایا جا سکتا ہے مگر اس جنازے میں جو جنّات کی کثرت تھی اس کااندازہ کون لگائے؟ 40 نیک مسلمانوں کی جماعت میں ایک ولی ہوتا ہے یہاں تو لاکھوں لاکھ مسلمان تھے۔ کتنے صالحین، کتنے عرفاء، کتنے صوفیاء، کتنے درویش، کتنے اللہ والے اس جلوسِ جنازہ میں شامل ہوئے ہوں گے۔ اگر کوئی تعداد کا پیمانہ ہو تو بتایا جائے وہاں تو ہر طرف سوگوار ہی سوگوار۔ ہر طرف اُن کے دیوانے ہی دیوانے۔ اتنی زبردست بھیڑ کا ہر طرف سمٹ آنا اُن کی کرامت نہیں تو کیا ہے؟ اور یہ بھی یقیناً کرامت ہی ہے کہ اتنا ازدھام اور جم غفیر ہونے کے باوجود کوئی حادثہ نہیں۔ اُن کی موت نے وہ کام کر دیا جو لوگوں کی زندگیاں نہیں کر پاتیں۔ کفار کے دلوں پر اسلامی ہیبت چھاگئی۔ دیوبندیت یہ نظارہ دیکھ کر لرزہ براندام ہوگئی۔ کتنے حاسدین نے توبہ کی اور اقرار کیا کہ ہم غلطی پر تھے آج ہم اپنی غلطی پر نادم ہیں۔ وہ حق پرست تھے حق پر قائم تھے اُن کا جنازہ اُن کی حقانیت کی واضح دلیل ہے ؎
اختر قادری خلد میں چل دیا
خلد وا ہے ہر ایک قادری کے لیے
چند یاد داشتیں:۔
1982 ء میں اجمیر معلیٰ بیت النور میں رضویوں کا مداریوں سے مناظرہ ہوا۔ مداریوں کی کتابوں میں کثرت سے غیر اسلامی عبارات موجود ہیں نیز یہ طبقہ سرکار غوث اعظم کی سیادت و سرداری کا منکِر اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا و مفتی اعظم کی فضیلت و عظمت اور خدماتِ دینیہ کا شدید مخالف ہے۔ مداریوں کی غیر اسلامی عبارات پر مناظرہ طے ہوگیا۔ رضویوں کی جانب سے حضرت مولانا الحاج محمد مختار احمد صاحب قادری اور مداریوں کی جانب سے ڈاکٹر مرغوب عالم مداری مناظِر منتخب ہوئے۔ مداریہ نے ثالثی کے لیے سید ہاشمی میاں صاحب کچھوچھوی کا نام پیش کیا جسے رضویوں نے تسلیم کر لیا۔ فریقین اپنے اپنے نمائندوں اور احباب کے ساتھ اجمیر شریف حاضر ہوگئے اس سلسلے میں خلیفۂ مفتی اعظم الحاج محمد غوث خاں صاحب حامدی بریلوی پیش پیش تھے۔ حضور تاج الشریعہ۔ سید ہاشمی میاں صاحب اور اُن کے برادر اکبر سید مدنی میاں صاحب، مولانا مختار احمد صاحب، حاجی محمد غوث خاں صاحب، راقم الحروف گدائے قادری (عبد الرحمٰن خاں قادری) اور مراد آبادی مولوی انتخاب قدیری اجمیر شریف میں حاضر ہیں۔ مناظرہ کا دن آیا۔ حضرت تاج الشریعہ نے بعض وجوہ کی بنا پر مناظرہ گاہ میں جانے سے انکار کر دیا۔ اب بڑی بے چینی اور فکر و تشویش کا عالم ہے۔ انتخاب قدیری اس وقت تک راہِ حق و صواب پر گامزن تھے۔ مداریوں کے خلاف تقریریں کرنا، اُن کی غیر اسلامی عبارتوں پر ان کا محاصرہ کرنا، مداریوں کی گمراہی اور ان کی مخالفت پر اُن کو للکارنا انتخاب قدیری کا حسین مشغلہ تھا۔ مداری بھی انتخاب قدیری سے سخت خائف و لرزہ براندام تھے۔ انتخاب قدیری نے بھی حضرت تاج الشریعہ کی خوشامد کی اور مناظرہ گاہ میں تشریف لے جانے کی بار بار نہایت ادب و احترام کے ساتھ گزارش کی۔ (حضور مناظرہ میں آپ کا جانا ضروری ہے۔ آپ کے بغیر مناظرہ نہیں ہوسکتا۔ ہم آپ کے سپاہی ہیں بغیر حاکم و سپہ سالار کے نہیں جاسکتے۔) خیر حضرت راضی ہوگئے۔ اور اسی موقع پر حضرت نے راقم الحروف اور حاجی محمد غوث خاں صاحب سے فرمایا ’’اس انتخاب کا کوئی بھروسہ نہیں۔ آج حامی ہے کل مخالف بھی ہو سکتا ہے اس کی باتوں میں مت آنا مجھے یہ ٹھیک نہیں لگتا‘‘
بیت النور میں مناظرہ ہوا۔ اور مداری مناظر کی جہالت و لاعلمی بھی خوب خوب طاہر ہوئی۔ جہاں فارسی کی کتاب میں ’’اوٗمی گوید‘‘ لکھا ہوتا وہاں مداری مناظر ’’آدمی گوید‘‘ پڑھتا اور حضرت تاج الشریعہ زیر لب مسکراتے۔ اس مناظرے میں انتخاب قدیری اور سید ہاشمی میاں صاحب کے درمیان کچھ تلخ کلامی بھی ہوئی۔ مناظرہ ہوگیا۔ ایک زمانے کے بعد فیصلۂ شرعیہ دربارۂ مداریہ کے نام سے کتابچہ بھی شائع ہوا جس میں سید فخر الدین اشرف صاحب اور دیگر علماء کرام نے مداریوں کی غیر اسلامی عبارات پر فیصلۂ شرعیہ بھی صادر فرما دیا۔ تاج الشریعہ نے انتخاب قدیری کے سلسلے میں جو فرمایا تھا۔ ’’اس کا کوئی بھروسہ نہیں آج حامی ہے کل مخالف بھی ہوسکتا ہے‘‘ صد در صد درست ثابت ہوا۔ جو کل تک مداریوں کا شدید ترین مخالف تھا اس پر شیطان رجیم کا ایسا کامیاب حملہ ہوا کہ وہ اعلیٰ حضرت، مفتی اعظم اور تاج الشریعہ کا مخالف ہوگیا۔ جن مداریوں کو رات دن کوستا تھا انہی کی حمایت و پاسداری اور سیادت و ولایت کے ڈھنڈورے پیٹنے لگا۔ آخر حضرت تاج الشریعہ نے کسی نظر سے اُس کا مستقبل دیکھ کر کہا تھا کہ ’’اس کا کوئی بھروسہ نہیں آج حامی ہے کل مخالف بھی ہوسکتا ہے‘‘ یقیناً یہ وہی نظر تھی جس کے بارے میں حدیث شریف میں فرمایا کہ مومن کی فراستِ ایمانی سے ہوشیار رہو اس لیے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔
مولانا رومی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ؎
گفتۂ او گفتۂ اللہ بود
گرچہ از حلقوم عبد اللہ بود
· حضرت تاج الشریعہ اپنی جوانی کے ایام میں بریلی شریف کے پروگراموں اور ضیافتوں میں رکشہ سے بھی تشریف لے جاتے تھے۔ بعد میں وقت کی قلت کے مد نظر، ٹائم بچانے کے لیے آپ کار سے جانے لگے۔ رہ پورہ چودھری ایک پروگرام میں تشریف لے گئے بذریعہ رکشہ واپسی کر رہے ہیں۔ راقم الحروف بھی ساتھ ہے دوڑ کر ایک نوجوان آیا۔ ادب سے دست بوسی کی اور دعا کا طالب ہوا۔ حضرت نے اُس کا نام پوچھا۔ بتایا میرا نام ’’امجد‘‘ ہے حضرت نے نام کی تعریف کی اور ’’امجد‘‘ کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا کی۔ بس اسی دن سے ’’امجد‘‘ کے وارے کے نیارے ہوگئے۔ معاشی حالات سدھر گئے کاروبار ترقی کر گیا۔ مفلسی کا خاتمہ ہوگیا۔ اللہ رب العزۃ نے معاشی کشادگی بھی عطا فرمادی اور اپنے پیاروں کے طفیل پانچ لڑکیوں کے بعد ایک لڑکا بھی عطا فرمایا۔ ’’امجد‘‘ نے لڑکے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا مگر دل میں یہ تمنا تھی۔ حضرت نے ہاتھ رکھ کر دعا کردی اور رب نے اپنا فضل خاص فرما دیا۔ آج ’’امجد‘‘ تو دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں مگر ان کا اکلوتا بیٹا موجود ہے جو پلاٹنگ کے کے کاروبار کے ذریعہ اپنا گھر بار نہایت عمدگی کے ساتھ چلاتا ہے۔
· بریلی شریف کے ایک گاؤں ’’کانسی‘‘ کے رہنے والے ’’اختر رضا‘‘ سے ملاقات ہوئی وہ اپنے گھر واقع بدر بور دہلی لے گئے خوبصورت اور پائیدار و شاندار مکان دیکھ کر طبیعت باغ باغ ہوگئی۔ اختر رضا نے بتایا کہ ان کا بھائی ایک مقدمے میں پھنس گیا تھا، حضرت تاج الشریعہ کے کرم سے مقدمے کے عذاب سے بھی نجات مل گئی اور ان کی دعاؤں سے یہ مکان بھی اللہ رب العزت نے عطا فرما دیا۔ کاروبار بھی تسلی بخش ہے۔ کوئی پریشانی نہیں۔ جب کوئی الجھن یا مصیبت در پیش ہوتی ہے حضرت کو یاد کرتا ہوں اور جا کر ان سے دعا کراتا ہوں بہت جلد سب کچھ ٹھیک ہوجاتا ہے۔
· غالباً ۱۹۸۱ء میں مکرانا (راجستھان) سے چند حضرات حضور تاج الشریعہ سے ملے اور عرض کی حضور ہمیں ایک ایسے امام کی ضرورت ہے جو عالم ہونے کے ساتھ ساتھ قاری بھی ہو۔ اب تک جو امام ہماری مسجد میں تھے وہ قاری تھے۔ انہوں نے اہل سنت اور معمولاتِ اہل سنت پر تنقید کرنا شروع کر دیا۔ ہم نے انہیں امامت سے معزول کر دیا، اب وہ کھل کر وہابیہ کی حمایت کرتے ہیں۔ لہذا ایسا امام جو اُن کی نازیبا اور اہل سنت مخالف باتوں کا بھر پور جواب بھی دے سکے۔ حضرت تاج الشریعہ نے راقم الحروف کا انتخاب فرمایا۔ میں نے عرض کی حضور! میں قاری نہیں ہوں فرمایا ’’آپ اچھا قرآن پڑھتے ہیں ان شاء اللہ قاری ہوجائیں گے‘‘ میں نے عرض کی حضور سابق امام کے اعتراضات کا جواب دینا میرے لیے مشکل ہے کیونکہ میں عالم نہیں ابھی طالب علم ہوں۔ ارشاد فرمایا۔ ’’یا تو وہ آپ کے سامنے نہیں آئے گا اور اگر آئے گا تو آپ اطمینان بخش جواب دے پائیں گے‘‘ میں نے عرض کی حضور میں طالب علم ہوں تعلیم کا بہت نقصان ہوگا فرمایا۔ ’’صرف ایک ماہ کے لیے چلے جاؤ! ایک ماہ میں ماحول سازگار ہوجائے گا اور ان حضرات کا خوف بھی نکل جائے گا۔ میں حضرت کے حکم سے ایک ماہ کے لیے ’’محمدی مسجد‘‘ مکرانہ پہنچا ایک ماہ تک میں نے امامت کی خدمت انجام دی، الحمدللہ! وہی ہوا جو حضرت نے فرمایا تھا۔ سابق امام کے دل پر بریلی شریف کی ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ نہ وہ سامنے آئے اور نہ انہوں نے اعتراض کا منہ کھولا۔ اہل مسجد میرے اخلاق، پابندی اوقات اور تلاوتِ قرآن سے خوش اور مطمئن رہے۔ جبکہ میں خوف زدہ تھا کہ سابق امام اچھا قاری تھا۔ میں کہیں واپس نہ کر دیا جاؤں! ایسا کچھ نہیں ہوا جب ایک ماہ کے بعد میں بریلی شریف کے لیے واپس ہو رہا تھا تو کئی لوگ غمزدہ اور آبدیدہ نظر آئے۔ یہ سب حضور تاج الشریعہ کی پر خلوص دعاؤں کا اثر اور میرے مرشد برحق حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ والرضوان کی زندہ کرامت ہے، کہ اس وقت میں تجوید و قرأت کے مسائل سے قطعاً واقف نہیں تھا، آج! الحمد للہ! کچھ مسائل قرأت جانتا ہوں۔ اور لوگ ’’قاری‘‘ کہتے ہیں۔ ع
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے
· تقریباً ۲۵؍ سال پہلے ایک ناخواندہ مقرر نے اپنی تقریر میں کہا ’’اگر نبوت کا دروازہ بند نہ ہوتا تو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نبی ہوتے‘‘ حضرت تاج الشریعہ کے سامنے یہ قول رکھا گیا فرمایا ’’مقرر کو اپنی بات سے رجوع کرنا چاہیے اس نے غلط کہا‘‘۔ سوال کیا گیا حضور! ہمارے نبی نے بھی تو فرمایا ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے۔
فرمایا اس میں حصر ہے جن کے بارے میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے صرف اُنھیں کے لیے کہا جاسکتا ہے کسی اور کے لیے نہیں۔
ایک صاحب نے حضرت تاج الشریعہ کو خوش کرنے کے لیے اُن کے ایک مخالف کی خوب مذمت کی۔ حتیٰ کہ مخالف کے لیے لفظ ’’سالا‘‘ بھی استعمال کیا!۔ حضرت نا خوش ہوگئے۔ اور فرمایا لفظ ’’سالا‘‘ آپ نے گالی کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس سے احتراز اور رجوع لازم ہے۔ آپ مجھے خوش کرنے کے لیے میرے حاسد کے لیے نا مناسب اور اخلاق سے گرے ہوئے الفاظ استعمال کر رہے ہیں یہ مجھے پسند نہیں۔ کسی سے اختلاف بھی ہو تو معیاری اور حدود شرع میں ہونا چاہیے۔ یہ سُن کر وہ صاحب خاموش ہوگئے او رمعذرت خواہ ہوئے۔ اس واقعہ سے حضرت کے حلم و اخلاق اور دینداری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔