شہزادی رسول حضرت سیدہ رقیہ
شہزادی رسول حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
رقیہ دختر حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم،ان کی والدہ جناب خدیجتہ الکبرٰی تھیں،زبیر بن بکار نے اپنے چچا مصعب بن عبداللہ سے روایت کی کہ جناب ام المؤنین کے بطن سے فاطمہ،زینب ، رقیہ،اور ام کلثوم پیدا ہوئیں،نیز ابن الہیعہ نے ابوالاسود سے روایت کی کہ ام المؤمنین کے بطن سے زینب،رقیہ،فاطمہ اور ام کلثوم پیدا ہوئیں،یہی روایت محمد بن فضالہ کی ہے،ایک اور روایت کی رُو سے جناب فاطمہ سب سے چھوٹی تھیں،ابو عمر لکھتے ہیں کہ اس میں تو کوئی اختلاف نہیں،کہ جناب زینب سب سے پہلے پیدا ہوئیں،البتہ اختلاف اس میں ہے،کہ ان کے بعد کون پیدا ہوئیں۔
حضورِ اکرم نے جناب رقیہ کو ابو لہب کے بیٹے عتبہ سے بیاہا تھا،اور ام کلثوم کو عتیبہ سے،جب سورۂ تبت یدا نازل ہوئی، تو ابو لہب اور ان کی ماں ام جمیل دخترِ حرب بن امیہ نے اپنے بیٹوں کو حکم دیا،کہ اپنی بیویوں کو طلاق دے دو،انہوں نے اپنی بیویوں کو قبل از دخول طلاق دے دی،یہ حضورِ اکرم کا معجزہ تھا اور ابو لہب کے بیٹوں کی توہین و تذلیل،اس کے بعد حضور نبی کریم نے جناب رقیہ کو حضرت عثمان سے بیاہ دیا،اور میاں بیوی ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے،جہاں ان کے یہاں عبداللہ نامی ایک بچہ ہوا،جب وہ چھ برس کا ہوا،تو ایک مرغے نے اس کی آنکھ میں چونچ ماردی،جس سے اس کا منہ سوج گیا،اور و ہ چار ہجری کو جمادی الاول کے مہینے میں فوت ہوگیا،اور حضرت عثمان نے اسے اپنے ہاتھوں قبر میں رکھا۔
قتادہ لکھتے ہیں،کہ جناب رقیہ کے بطن سے ان کی کوئی اولاد نہیں ہوئی،بقول ابنِ اثیر قتادہ غلطی پر ہیں،جناب رقیہ کے بطن سے عبداللہ پیدا ہوا تھا،ہاں البتہ جناب ام کلثوم بے اولاد تھیں،جن سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہا نے بعد از وفات رقیہ نکاح کیا تھا،اس سے معلوم ہوا،کہ جناب رقیہ ،ام کلثوم سے بڑی تھیں۔
جب حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے میدانِ بدر کی طرف کوچ کیا تھا،تو جناب رقیہ چیچک کی وجہ سے صاحبِ فراش تھیں، آپ نے ان کی تیمارداری کے لئے حضرت عثمان کورُک جانے کی اجازت دیدی،چنانچہ جس دن زید بن حارثہ کے آنے کے بعد ہوئی،جب ان کی تدفین ہورہی تھی،ایک روایت میں ہے،کہ ان کی وفات زید بن حارثہ فتح بدر کے بشارت لائے،جناب رقیہ کی تدفین ہورہی تھی،ایک روایت میں ہے،کہ ان کی وفات زید بن حارثہ کے آنے کے بعد ہوئی،جب ان کی تدفین ہورہی تھی،تو لوگوں نے اللہ اکبر کی آواز سنی،نگاہ اٹھا کر دیکھا،تو زید بن حارثہ حضورِ اکرم کی اونٹنی کی پیٹھ سے اللہ اکبر کا نعرہ لگا رہے تھے،حضورِاکرم نے مالِ غنیمت سے حضرت عثمان کو برابر کا حِصّہ دیا تھا۔
جب میاں بیوی ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے تو کچھ عرصہ تک حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ان کے بارے میں کوئی اطلاع موصول نہ ہوئی،چنانچہ آنے جانے والوں سے دریافت حال کے لئے شہر سے باہر نکل جایا کرتے،ایک دن ایک عورت نے بتایا کہ اس نے میاں بیوی کو دیکھاہے،وہ بہ خیرو عافیت تھے،یہ سُن کر آپ نے فرمایا،خدا انہیں بہ خیروعافیت رکھے،حضرت لوط علیہ السلام کے بعد،عثمان پہلے آدمی ہیں،جنہوں نے مع اہل و عیال ہجرت کی،تینوں نے ذکر کیا۔