شہزادی رسول حضرت سیدہ رقیہ
شہزادیٔ رسول حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دوسری صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں ان کی ولادت واقعہ فیل کے ۳۳ برس میں ہے اور سیدہ زینب کی ولادت کے تین سال بعد سیدہ رقیہ کی ولادت ہوئی۔ عہد نبوت سے قبل سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثوم بنت رسول ابو لہب کے دو بیٹوں کی زوجیت میں تھیں بعض روایات میں ہے کہ عقد ہوگیا تھا لیکن رخصتی نہیں ہوئی تھی۔(مدارج النبوت، ۲:۷۸۳)
جب سورت تبت یدا ابی لہب نازل ہوئی تو ابو لہب نے عتبہ سے کہا "او عتبہ تیرا سر حرام ہے مطلب یہ کہ میں تجھ سے بیزار ہوں اگر تو محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی بیٹی کو اپنے سے جدا نہ کرے" اس پر اس نے جدائی کرلی اور علیحدہ ہوگیا۔ قریش نے ابو العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ زینب کو جدا کرنے پر ابھارا لیکن انہوں نے فرمایا خدا کی قسم میں ہر گز سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی صاحبزادی کو جدا نہیں کرونگا اور نہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ اس کے عوض قریش کی کوئی اور عورت ہو۔(مدارج النبوت،۲:۷۸۴)
اس کے بعد حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنی صاحبزادی سیدہ رقیہ کا نکاح حضرت سیدنا عثمان ابن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی کے ساتھ مکہ مکرمہ میں کردیا اور اس وقت مکہ مکرمہ میں یہ بات مشہور ہوگئی۔
احسن زوجین راہما انسان رقیّۃ وزوجہا عثمان
(ترجمہ) : سب سے اچھا جوڑا جو دیکھا گیا وہ سیدہ رقیہ اور سیدنا عثمان کا ہے۔(الاصابہ ، ۸:۹۱)
حضرت عثمان نے ان کے ساتھ دو ہجرتیں فرمائیں ایک حبشہ کی طرف اور دوسری حبشہ سے مدینہ طیبہ کی طرف حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان کی شان میں فرمایا کہ "حضرت سیدنا لوط علیہ السلام اللہ کے نبی کے بعد یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے خدا کی طرف ہجرت کی ۔(طبقات ابن سعد،۸:۵۵)
حضرت عثمان ذوالنورین حسن رفیع اور جمال کریم کے مالک تھے۔ حضرت سیدہ رقیہ کو چیچک کا عارضہ ہوا اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم جب غزوۂ بدر کو تشریف لے جارہے تھے تو سیدہ صاحبِ فراش تھیں آپ کی تیمار داری کیلئے سیدنا عثمان اور اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو مدینہ میں چھوڑا۔ چنانچہ سیدہ رقیہ کا اسی عارضہ میں ارتحال ہوا اور منقول ہے کہ سیدہ کے انتقال پر عورتیں روتی تھیں مگر حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے کسی کو منع نہ فرمایا۔ سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سیدہ رقیہ کی قبر کے سرہانے سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے پہلو میں بیٹھی رو رہی تھیں اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اپنی چادر مبارک کے کنارہ سے سیدہ فاطمۃ الزہراء کی چشم مبارک سے آنسو پونچھتے تھے۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ان کے وصال کے وقت بدر میں تشریف فرما تھے۔ غزوۂ بدر کی واپسی کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سیدہ رقیہ کی قبر انور پر تشریف لائے ۔ سیدہ رقیہ کی عمر مبارک بوقت انتقال اکیس برس تھی سیدہ کے بطن سے فرزند حضرت عبداللہ حضرت عثمان کے ہاں پیدا ہوئے۔ (طبقات ابن سعد، ۸:۵۶)
سبط رسول عبداللہ ابن رقیہ کا انتقال:
حضرت عبداللہ سبط رسول اپنی والدہ محترمہ سیدہ رقیہ کے بعد دو سال تک حیات رہے ان کی عمر مبارک چھ سال کی تھی کہ اچانک ان کی آنکھ کے قریب ایک مرغ نے چونچ ماری وہ زخم بن گیا آخر یہ بھی اپنی والدہ سیدہ رقیہ کی یاد گار آغوش میں جا سوئے۔ صلوٰۃ اللہ سلامہٗ(اسد الغابہ لابن الاثیر الجزری،۱۰:۱۱۱)