شہزادیٔ رسول حضرت سیدہ ام کلثوم
شہزادیٔ رسول حضرت سیدہ اُمِ کلثوم رضی اللہ عنہا
اِن کا پہلا نکاح ابی لہب کے دوسرے بیٹے عُتَیْبہ سے تھا، قبل زفاف کے ابی لہب نے طلاق دلوادی، بعد وفات حضرت رقیّہ رضی اللہ عنہا کے اِن کا نکاح ربیع الاوّل ۳ھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عُثمان ذوالنّورین رضی اللہ عنہ سے کردیا، چھ (۶) سال کے بعد شعبان ۹ھ میں وفات پائی، نمازِ جنازہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پڑھائی، جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔
(شریف التواریخ)
ام کلثوم حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی،جناب خدیجتہ الکبریٰ کے بطن سے تھیں،زبیر کا قول ہے،کہ ام کلثوم،رقیہ اور فاطمہ سے بڑی تھیں،باقی لوگ اس سے اختلاف کرتے ہیں، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ام کلثوم رقیہ سے چھوٹی تھیں،کیونکہ حضور اکرم نے پہلے جناب رقیہ کو حضرت عثمان ذوالنورین سے بیاہا تھا،اور ان کی وفات کے بعد ام کلثوم کو،اور ظاہر ہے کہ چھوٹی بہن کو بڑی سے پہلے کیوں بیاہا جاتا،واللہ اعلم۔
آپ نے اولاً رقیہ اور ام کلثوم کر ابولہب کے بیٹوں عتبہ اور عتیبہ کے ساتھ بیاہا تھا،جب سورۂ لہب تَبَّت یَدَااَبِی لَھَب نازل ہوئی،تو ابولہب نے اپنے دونوں بیٹوں کوبُلا کر کہا،کہ اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کو طلاق نہ دو ،توتم میرے بیٹے نہیں ہو،اور ان کی ماں ام جمیل نے جو حرب بن امیہ کی بیٹی تھی،اپنے بیٹوں کو کہا کہ تمہاری بیویاں صابی ہوگئی ہیں،انہیں طلاق دے دو،اور یہ سب کچھ شب زفاف سے پہلے ہوگیا،اس کے بعد آپ نے رقیہ کا نکاح عثمان سے کردیا،اور جب وہ فوت ہوگئیں تو ام کلثوم سے بیاہ دیا،یہ نکاح ہجری کے تیسرے سال ماہِ ربیع الاول میں ہوا تھا،اور شبِ زفاف کی نوبت ربیع الثانی میں آئی ،ان سے حضرت عثمان کی کوئی اولاد نہ ہوئی،اور جناب ام کلثوم نویں سال ہجری میں وفات پاگئیں اور حضور اکرم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی،ام کلثوم حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہی صاحبزادی ہیں جنہیں ام عطیہ نے غسل دیا تھا،اور جن کے بارے میں آپ نے فرمایا تھا کہ انہیں تین،پانچ یا سات بار غسل دینا اور آپ نے صاحبزادی کے بال باندھنے کے لئے ایک پٹکا دیا تھا۔
ان کی قبر میں حضرت علی،فضل اور اسامہ بن زید اترے تھے،اور ایک روایت میں ہے کہ ابو طلحہ انصاری نے حضورِ اکرم سے قبر میں اترنے کی اجازت مانگی تھی،اور آپ نے اجازت دے دی تھی، حضورنے فرمایا تھا کہ اگر میری تیسری لڑکی ہوتی تومیں اسے بھی عثمان سے بیاہتا۔
سعیدبن مسیب سے مروی ہے کہ آپ نے عثمان کو دیکھا کہ رقیہ کی وفات کے بعد وہ افسردہ اور پریشان تھے،حضور ِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وجہ دریافت فرمائی،تو انہوں نے کہا،یا رسول اللہ!جو دکھ مجھے پہنچا ہے،کیا کسی اور کو ایسی مصیبت پیش آئی ہے،حضورِ اکرم کے صاحبزادی جس نے مجھے آپ سے جوڑاہواتھا فوت ہوگئی ہے،وہ رشتہ منقطع ہو گیا ہے،اور میری کمر ٹوٹ گئی ہے، حضرت عثمان یہاں تک پہنچے ہوئے تھے کہ آپ نے فرمایا،عثمان! یہ جبریل ہیں،جو دربارِ خداوندی سے پیغام لائے ہیں کہ میں تمہیں اپنی بیٹی ام کلثوم سے بیاہ دُوں،اس کا مہر بھی وہی ہوگا جو رقیہ کا تھا، اوراس کی بودوباش بھی وہی ہوگی جواس کی تھی۔
تینوں نے ان کا ذکر کیا ہےاور ابوموسیٰ نے ابن مندہ پر استدراک کیا ہے،حالانکہ اسکی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی،کیونکہ ابن مندہ نے رسول کریم کی صاحبزادیوں کے ذکر میں ان کا ذکر کیا ہےاور ہم نے کاف کے تحت بھی اختصار سے ان کے حالات لکھے ہیں،واللہ اعلم۔