فقیہ ِاعظم خلیفۂ اعلیٰ حضرت مولانا محمد شریف کوٹلوی
فقیہ ِاعظم خلیفۂ اعلیٰ حضرت مولانا محمد شریف کوٹلوی رحمۃ اللہ علیہ
فقیہ اعظم حضرت مولانا ابو یوسف محمد شریف علیہ الرحمۃ کوٹلی لوہاران ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، آپ کے والد ماجد حضرت مولانا عبد الرحمٰن متبحر عالم اور متورع ومتقی بزرگ تھے درس نظامی کی کتابوں کا والد بزرگوار سے درس لیا، اور مناظرہ کی مشق کی، فراغت کے بعد آپ نے مجاہدہ تبلیغ اختیار فرمایا، ترک تقلید کے انسداد اور تائید مذہب اہل سنت کے لیے آپ نے کوشش فرماکر امرت سرہی سے الفقیہ نامی ہفتہ وار اخبار جاری کرایا، اس پرچے کے حکیم معراج الدین مرحوم ایڈیٹر تھے، اس اخبار میں آپ نے احناف و مذہب اہل سنت کی تائید و حمایت میں جو مضامین لکھے اُن کا وزن مولانا ثناءاللہ جیسےغیر انصاف پسند شخص نے بھی محسوس کیا، اور آپ کی فقاہت کے معترف ہوئے، مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی غیر مقلد سے آپکے مناظرے ہوئے، حضرت صدر الشریعۃ امام امجد علی اعظمی اور صدر الافاضل مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی قدس سرہما آپ کے علمی تبحر کے معترف تھے،
آپ کی مؤلفات میں ضرورت فقہ، کتاب التراویح، صداقت الاحناف، اباحۃ البناء، کشف الغطاء قابل ذکر ہیں ، ‘‘حنفی نماز مدلل’’ پر امام اہل سنت اعلیٰ حضرت بریلوی قدس سرہٗ نے تقریظ تحریر فرمائی اور آپ کو فقیہ اعظم کے خطاب سے یاد کیا۔
آپ کو تقریر ووعظ پر بڑی مہارت حاصل تھی، لاہور ، جالندھر وغیرہ کے علاوہ آپ کلکتہ، اور بمبئی تک وعظ کے لیے آتے تھے، اردو، فارسی اور عربی میں بہت عمدہ شعر کہتے تھے، آپ کو تاریخ گوئی میں کمال تھا، اپنے مرشد اول حضرت حافظ صاحب فرماتے تھے مجھ سے جو کچھ حاصل کرنا تھا، وہ فقیہ اعظم نے کرلیا ہے، امام اہل سنت ہمام العصر مولانا شاہ احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ نے آپ کو چھ۶سلسلوں کی اجازت عنایت کی تھی، یہ اجازت نامہ نماز مدلل کے آخر میں منسلک ہے۔۔۔۔ آپ نے نوے ۹۰برس کی طویل عمر پاکر ۱۵؍جنوری ۱۹۵۱ء میں وفات پائی، حضرت مولانا نور الحسن علیہ الرحمۃ امام مسجد مُلا عبدالحکیم سیالکوٹ نے نماز جنازہ کی امامت کی، کوٹلی لوہاران کی درے والی مسجد میں مدفن ہے،
آپ نے اپنے اخلاف میں حضرت علامہ ابو النور محمد بشیر جیسا فاضل وعالم فرزند یادگار چھوڑا ہے جن کی سحر بیانی سے عشق رسالتﷺ کی شمر فروزاں دلوں میں روشن ہوری ہے۔(تذکرہ علمائے اہل سنت )
محدث کوٹلوی اہلسنت کادرد رکھنے والے عظیم مفکر تھے:
نباض قوم علامہ الحاج ابو داؤدمحمد صادق علیہ الرحمۃ نے بتایا ! کہ علی پور شریف میں طالب علمی کے زمانے میں ایک دفعہ میں نے فقیہ اعظم حضرت مولانا محمد شریف محدث کوٹلوی رحمتہ اﷲ علیہ کی خدمت میں فارسی میں عریضہ ارسال کیا اور میرا ذوق بڑھانے کے لئے آپ نے بھی فارسی میں خط لکھا اور اس میں تحریر فرمایا کہ جب تم عربی میں خط لکھو گے تو مجھے اور زیادہ مسرت ہوگی۔ چنانچہ پھر میں نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں عربی میں مکتوب ارسال کیا۔ آپ نے بہت حوصلہ افزائی فرمائی۔ انہوں نے ساری زندگی درس و تدریس تقریر و تحریر کے ذریعے سے تبلیغ فرمائی۔ آپ کی تقریر گویا حدیث کا درس ہوا کرتا تھا۔ آپ حنفیت کے علمبردار اور مقلدین کے لئے ڈھال تھے۔ غیر مقلدیت اور آزاد خیالی کو آپ نے ہی بسمل کردیا۔ آپ نے مذہب حنفی کی بیش بہا اور شاندار خدمات انجام دیں۔ احناف آپ کے احسانات کو فراموش نہیں کرسکتے۔ اگرچہ آپ کی ساری عمر تبلیغی خدمات میں گزری لیکن اس کے باوجود اہلسنت اپنی عدم تنظیم کی وجہ سے حضرت کے علمی فیوض و برکات سے کماحقہ مستفید نہ ہوسکے۔ آپ کے صاحبزادے مولانا ابو النور محمد بشیر فرماتے تھے کہ حضرت نے کئی بار اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ دیگرفرقوں کی طرح اہلسنت میں بھی کوئی منظم ادارہ ہو تو میں طباعت و اشاعت کی فکر سے آزاد رہ کر بہت کچھ لکھوں۔ جس سے مسلک اہلسنت کو بڑی تقویت ہو۔ آپ کو یہ بڑی حسرت تھی کہ کاش اہلسنت بھی پوری تنظیم کے ساتھ میدان میں آئیں۔ آپ نے اپنی تصانیف میں جابجا اس کا تذکرہ فرمایا ہے اور اہلسنت کو بیدار کرنے کی پوری کوشش کی ہے اور آپ کے اسی جذبہ صادقہ کا نتیجہ اور توجہات شریفہ کا ثمرہ ہے کہ آپ کے وصال کے فورا بعد آپ کے سعادت مند صاحبزادے مولانا ابو النور محمد بشیر کوٹلوی نے اکیلے ہونے اور بہت سی مصروفیات کے باوجود تقاریر و مواعظ کے علامہ ماہنامہ ماہ طیبہ کے ذریعہ اہلسنت کی مستقل اور ٹھوس تبلیغ کا بیڑا اٹھالیا اور ماشاء اﷲ تھوڑے ہی عرصے میں ماہ طیبہ کو بلند معیار پر پہنچادیا اور ماہ طیبہ کے ذریعہ سنیت کی عظیم خدمات انجام دیں۔
محدث کوٹلوی پر سرکارِدوعالم ﷺکی عنایت:
علامہ الحاج ابو داؤد محمد صادق رضوی علیہ الرحمۃ نے نہایت ایمان افروزواقعہ بیان کیا۔ آپ فرما رہے تھے کہ یہ 1941ء کی بات ہے کہ حضرت فقیہ اعظم قدس سرہ پر مرض فالج کا حملہ ہوا اور آپ سخت بیمار ہوگئے۔ ان دنوں سیالکوٹ چھاؤنی میں ایک بنگالی ڈاکٹر تھا جو بہت قابل تھا‘ اسے لایا گیا۔ اس نے حالت دیکھ کر مایوسی کا اظہار کیا اور کہاکہ’’فالج ‘‘ بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ تاہم علاج کرتا ہوں۔ اس نے علاج شروع کیا مگر بددلی کے ساتھ‘ حضرت فقیہ اعظم کی حالت یہ تھی کہ دونوں ٹانگیں بالکل بے جان ہوچکی تھیں‘ کھڑے ہوناتو درکنار بیٹھ بھی نہ سکتے تھے‘ سب پریشان تھے کہ اسی دوران فقیہ اعظم کا عشق رسولﷺ رنگ لایا اور ایک خاص کرشمے کا ظہور ہوا۔ جسے اس ڈاکٹر نے کوٹلی والوں نے‘ سیالکوٹ کے کئی باشندوں نے ‘ اپنوں اور بیگانوں نے‘ الغرض سب نے دیکھا۔ ہوا یوں کہ ایک رات جبکہ حضرت فقیہ اعظم سو رہے تھے اورآپ کے فرزند مولانا محمد بشیر پاس بیٹھ کر پنکھا ہلا رہے تھے کہ اچانک سوتے میں آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ مولانا حیران رہ گئے کہ یہ کیا بات ہے؟ اسی وقت فقیہ اعظم بیدار ہوئے اور مولانا محمد بشیر سے پوچھا کہ ’’تم نے کیا دیکھا‘‘؟ مولانا نے عرض کیا کہ ’’آپ سوتے ہوئے رو رہے تھے‘‘ پھر رو کر فرمایا کہ ’’نبی کریم رؤف و رحیمﷺ تشریف لائے تھے اور اپنے دست رحمت سے میری بند آنکھوں کو کھول کر فرمایا کہ ’’آنکھیں کھولو‘ اب ہم ایک دوسرے مریض کی جانب جارہے ہیں‘‘ پھر آپ نے فرمایا کہ ’’حضورﷺ میری آنکھیں کھول کر مجھے اچھا فرما گئے ہیں‘ مجھے اٹھا کر کھڑا کردو‘‘ جب آپ کو کھڑا کیا گیا تو حاضرین کی آنکھیں یہ دیکھ کر فرط مسرت سے پرنم ہوگئیں کہ ٹانگوں میں طاقت آگئی ہے اور بوجھ سہارنے لگی ہیں پھرآپ کو لٹادیا گیا اور اگلی صبح ہی سے آپ نے چلناشروع کردیا۔ حضورﷺ کے اس اعجاز رحمت کا قصبہ کوٹلی میں چرچا ہوگیا اور لوگ بڑی خوشی کے ساتھ آپ کی زیارت کو آنے لگے۔ بنگالی ڈاکٹر بھی یہ واقعہ سن کر حیران رہ گیا اور دو ہی دن میں حضرت فقیہ اعظم کو مکمل صحت یاب ہوگئے۔
شرف ِملت محسن ِاہل سنت علامہ عبد الحکیم شرف قادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں!
فقیہ اعظ مولانا ابو یوسف محمد شریف قدس سرہ (کوٹلی لوہاراں،سیالکوٹ)
حنفیت و سنیت کے بطل جلیل مولانا محمد شریف ابن مولانا عبد الرحمن سیالکوٹی کوٹلی لوہاراں ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے،علوم دینیہ کی تکمیل والد ماجد سے کی،ان کے وصال کے بعد بر صغیر پاک و ہند کے ممتاز علماء سے کسب فیض کیا حضرت خواجہ حافظ عبد الکریم نقشبندی قدس سرہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور خلافت سے مشرف ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ سے بھی اجازت و خلافت حاصل تھی۔فقیہ اعظم کا لقب آپ ہی نے عطا فرمایا تھا حضرت فقیہ اعظم نے فقہ حنفی کی بے بہا خدمات انجام دی ہیں۔ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ امر تسر میں آئے دن اہل سنت احناف کے خلاف مضامین شائع ہوتے رہتے تھے۔ حضرت فقیہ اعظم کی کوششوں سے امر تسرہی سے ’’الفقیہ‘‘ کے نام سے ہفت روزہ جاری ہوا جس میں ان اعتراضات کے جوابات نہایت تحقیق و متانت سے دئے جاتے تھے اس جریدے کےعلاوہ دیگر مؤ قر جرائد میں بھی آپ کے مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔
آپ عالم شریعت اور شیخ طریقت ہونے کے ساتھ ساتھ مقبول ترین مقرر بھی تھے وعظم وارشاد میں اپنا ایک مخصوص اسلوب رکھتے تھے۔آپ کے خلف رشید سلطان الواعظین مولانا ابو النور محمدبشیر سیالکوٹی "مدیر ماہ طیبہ" کی تقریر میں آپ کے انداز بیان کی نمایاں جھلک پائی جاتی ہے۔
حضرت فقیہ اعظم نے پنجاب کے اطراف و اکناف کے علاوہ کلکتہ اور بمبئی وغیرہ مقامات تک سنیت و حنفیت کا پیغام پہنچایا۔آل انڈیا سنی کانفرنس،بنارس کے تاریخی اجلاس میں شرکت فرمائی اور تحریک پاکستان کی حمایت میں جگہ جگہ تقریریں کیں اور مسلمانوں کو مسلم لیگ کی حمایت و معاونت پر تیار کیا۔
آپ کے مریدین کا حلقہ نہایت وسیع ہے جو ملک کے طول و عرض میں موجود ہے، آپ نے تصنیف و تالیف کی طرف بھی توجہ فرمائی،چنش تصانیف یہ ہیں:۔
۱۔ تائید الامام:(حافظ ابو بکر ابن ابی شیبہ کی تالیف الردعلیٰ ابی حنیفہ کا محققانہ رد)
۲۔ نماز حنفی مدلل ۴۔ کتاب التراویح
۳۔ صداقت الاحناف ۵۔ ضرورت فقہ
۶۔ کشف الغطاء ۷۔ فقہ الفقیہ
تحریکِ پاکستان میں خلیفۂ اعلیٰ حضرت
فقیہ اعظم علامہ ابو یوسف محمد شریف محدث کوٹلی کا کردار
(1280ھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1370ھ)
تحریر: سیّد صابر حسین شاہ بخاری قادری
تحریک پاکستان میں فقیہ اعظم علامہ ابو یوسف محمد شریف محدث کوٹلی علیہ الرحمۃ کا کردار روز روشن کی طرح واضح ہے۔ آپ نے تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کے حق میں جگہ جگہ پر جوش تقریریں کر کے مسلمانانِ ہند کو پاکستان اور مسلم لیگ کے حق میں بیدار اور منظم کیا۔
26,29 اکتوبر 1945ء کو ڈسٹرکٹ سنی کانفرنس امرتسر کے زیر اہتمام حضرت امام ابو حنیفہ رَ ضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ، کا عرس منعقد ہوا۔ عرس کی تقریبات کی صدارت حضرت امیر ملت علیہ الرحمۃ کر رہے تھے ان تقریبات میں حضرت فقیہ اعظم علیہ الرحمۃ، صدر الافاضل مولانا سیّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمۃ، محدث اعظم سیّد محمد محدث کچھوچھوی علیہ الرحمۃ، فتح القرآن علامہ عبدالغفور ہزاروی علیہ الرحمۃ کے اسمائے گرامی نہایت نمایاں ہیں۔
ان تمام علماء نے تصور پاکستان اور مطالبہ پاکستان کی پُر زور حمایات کا اعلان کیا۔
1945ء 1946ء میں انتخابات کے موقع پر کوٹلی لوہاراں کے مولانا محمد احمد چشتی علیہ الرحمۃ نے جب حضرت فقیہ اعظم علیہ الرحمۃ سے دریافت کیا کہ ووٹ کسے دینا چاہیے مسلم لیگ یا کانگریس کو؟ تو آپ نے جواب میں صریحاً مسلم لیگ کی حمایت کرنے اور اس کو ووٹ دینے کی ہدایت کی۔
تحریک پاکستان کی حمایت میں علمائے کرام اور مشائخ عظام کی حمایت کا واضح اور دوٹوک موقف بنارس سنی کانفرنس (منعقدہ 27,30 اپریل 1946ء) میں ظاہر ہوا۔ حضرت فقیہ اعظم علیہ الرحمۃ نے دیگر علمائے سیالکوٹ کے ہمراہ بنارس سنی کانفرنس میں شرکت کی اور مطالبہ پاکستان کو تقویوت پہنچائی۔
تحریک پاکستان کے آخری دور میں حضرت فقیہ اعظم علیہ الرحمۃ نے مولانا فقیر اللہ نیازی، مولانا محمد یوسف سیالکوٹی، مولانا عبدالعزیز ہاشمی، مولانا محمد امام الدین قادری، مولانا محمد نور الحسن سیالکوٹی اور سیّد فتح علی شاہ قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے ہمراہ متحدہ پنجاب کے تقریباً تمام اضلاع کا دورہ کیا اور مسلمانوں کے سامنے ہندو اور انگریزوں دونوں کے سامراجی عزائم کوبے نقاب کیا اور مسلم لیگ کی حمایت پر زور دیا۔ (دیکھئے: مجیب احمد، پروفیسر: تذکرہ فقیہ اعظم، مطبوعہ لاہور، ۱۹۹۴ء، ص ۴۶ تا ۴۸)
(ماہنامہ معارفِ رضا کراچی، جنوری ۲۰۱۶ء / ربیع الاوّل ۱۴۳۷ھ، ص ۳۵، ۳۶، ۵۱)
آپ ۹۰ سال کی عمر میں ۱۵جنوری ۱۹۵۱ء کو عازم خلد بریں ہوئے،دورے والی مسجد کوٹلی لوہاراں ضلع سیالکوٹ میں آپ کا مزار پر انوار ہے۔
محمد افضل کوٹلوی،مولانا: روز نامہ سعادت لائل پور (ائمہ اہل سنت نمبر ،اگست ۱۹۶۸)
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)