حضرت ابو عبداللہ محمد بن علی حکیم ترمذی

حضرت ابو عبداللہ محمد بن علی حکیم ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

کنیت ابوعبداللہ تھی۔ مشائخ و اولیاء میں آپ بہت بلند مقام پر فائز تھے۔ صاحب تصنیف بزرگ تھے۔ حدیث پر عبور تھا۔ حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی صحبت کے فیض یافتہ تھے حضرت خضرعلیہ السلام سے ملاقات تھی۔ آپ کی تصانیف میں سے ختم الولائیت اور نوادِ والاصول تو یادگار زمانہ کتابیں ہیں۔ آپ نے قرآن پاک کی تفسیر بھی لکھنا شروع کی مگر مکمل نہ کرسکے۔

ابتدائی زمانہ میں ایک ساتھی طالب علم کے ساتھ طلب علم میں روانہ ہوئے اپنی والدہ سے اجازت حاصل کی۔ والدہ رو پڑیں اور کہنے لگیں مجھے کس کے حوالے کرتے جا رہے ہو۔ یہ بات آپ کے دل پر اثر انداز ہوئی۔ سفر کا ارادہ ترک کردیا۔ آپ کے ساتھی روانہ ہوگئے پانچ ماہ گزر گئے مگر طلب علم اور حکم والدہ کی کشمکش باقی تھی۔ ایک دن قبرستان میں بیٹھے تھے کہ زار زار رو رہے تھے اور افسوس کر رہے تھے کہ میں نے اپنا قیمتی وقت ضائع کردیا ہے۔ میرے دوست عالم فاضل بن کر واپس آئیں گے میں ان کے سامنے جاہل اور شرمسار رہوں گا ناگاہ ایک نورانی شکل نمودار ہوئی اور فرمانے لگے علم کے حصول کے لیے یہ بے قراری واقعی قابلِ قدر ہے۔ میں ہر روز یہاں آیا کروں گا اور تمہاری علمی تشنگی دور کرتا رہوں گا تم اپنے ساتھیوں سے پیچھے نہیں رہو گے۔ آپ نے کہا یہ تو آپ کی عنایت ہوگی۔ چنانچہ اس بزرگ نے آپ کو لگاتار تین سال تک پڑھایا۔ یہ ساری محنت اور عنایت ان کے شوق علم اور خدمت والدہ کے صلے میں تھی۔ حقیقت میں یہ استاد بزرگ حضرت خضر تھے تعلیم مکمل ہونے کے بعد حضرت خضر ہفتہ وار تشریف لاتے اور اپنے شاگرد کی مجلس کو تازہ فرماتے۔

حضرت شیخ ابوبکر دراق فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت شیخ محمد حکیم ترمذی میرے ہاں تشریف لائے اور مجھے کہنے لگے۔ میں تمہیں کہیں لے جانا چاہتا ہوں۔ میں آپ کے ساتھ ہولیا۔ کچھ وقت گزرا تھا کہ ایک ویرانے سے گزنا ہوا۔ دیکھا کہ ایک درخت کے سایہ میں ایک سنہری تخت بچھا ہوا ہے۔ پانی کا ٹھنڈا چشمہ رواں ہے۔ ایک شخص شاہانہ لباس میں اس تخت پر تشریف فرما ہے۔ شیخ اس کے قریب گئے تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کو اپنے پہلو میں بٹھالیا۔ چند لمحے گزرنے کے بعد چالیس افراد وہاں ہی پہنچے۔ شیخ نے آسمان کی طرف اشارہ کیا تو ایک طشتری جس پر رنگا رنگ کے کھانے چنے ہوئے تھے، اُتری، تمام نے کھایا آپ میں بڑی اچھی گفتگو ہوئی وہ ایک دوسرے سے ایسی زبان میں گفتگو کرتے کہ میری سمجھ میں نہ آتی تھی۔ شیخ ترمذی نے اجازت لی اور ہم جس راستے گئے تھے اسی راستے سے ترمذم یں آگئے میں نے دریافت کیا۔ حضرت وہ کون سی جگہ تھی جہاں ہم گئے تھے اور وہ کون شخص تھا جو تخت نشین تھا۔ آپ نے بتایا وہ صحرا تہیہ اسرائیل تھا۔ وہ شخص قطب المدار تھا اور چالیس مہمان چالیس ابدال تھے جو کاروبار دنیا پر مامور ہوتے ہیں وہ دنیا کے مختلف گوحوں سے وہاں آئے تھے۔ میں نے پوچھا ہم اتنی دُور دراز جگہ پر کیسے پہنچ گئے اور پھر واپس بھی آگئے آپ فرمانے لگے ابوبکر تمہیں جانے آنے سے واسطہ ہے یا پوچھنے سے۔

شیخ وراق نے ایک اور جگہ بتایا کہ حضرت حکیم ترمذی نے مجھے اپنی ایک تصنیف دی۔ اور فرمایا اسے لے جاؤ اور دریا میں پھینک دو۔ میں نے دریا میں پھینکی تو دیکھا کہ دریا سے ایک صندوق نمودار ہوا اور یہ کتاب اس میں جا پڑی۔ صندوق دیکھتے دیکھتے بند ہوا اور پانی کی تہہ میں چلا گیا۔ واپس آکر حضرت شیخ کو سارا حال بتایا میں نے صورت حال پوچھی تو آپ نے فرمایا میں نے کچھ چیزیں ایسی تصنیف کی تھیں کہ اس کے مطالب موجودہ زمانہ کے اہل علم سمجھنے سے قاصر تھے حضرت خضر علیہ السلام نے مجھے حکم دیا تھا کہ یہ تصنیف انہیں دے دی جائے یہ سارا انتظام تو ان کی طرف سے تھا۔ یہ تصنیف دریائی مخلوقات کے لیے کافی ہوگی۔

حضرت خواجہ ترمذی﷫ نے اپنی عمر میں ایک ہزار ایک بار اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا تھا۔ جوانی کے زمانے میں ایک مالدار عورت جو حسن و جمال میں بھی بے مثال تھی۔ آ پ کے عشق میں مبتلا ہوگئی وہ کوشش کرتی کہ آپ سے ملاقات ہوجائے مگر اسے کامیابی نہ ہوئی ایک دن اسے خبر ملی کہ شیخ باغ میں تشریف فرما ہیں۔ اس نے بناؤ سنگھار کیا اور اس باغ میں جا پہنچی۔ حضرت نے اسے دیکھا تو رونے لگے۔ اور اس کی طرف التفات نہ فرمایا۔ آپ باغ کی دیوار پھلانگ کر باہر چلے گئے۔ جب بوڑھے ہوگئے تو آپ کو یہ واقعہ یاد آیا اور خیال آیا کہ کیا برا تھا۔ اگر میں اس کی آرزو کو پورا کردیتا۔ اور پھر توبہ کرلیتا۔ یہ خیال آتے ہی آپ نے سمجھا کہ یہ وسوسہ شیطانی ہے اپنے آپ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ جوانی کے عالم میں یہ وسوسہ تمہارے خیال میں نہ آیا پڑھاپے پر آنے کے بعد اتنی ریاضات شاقہ طے کرنے کے بعد اس قسم کے شیطانی خیالات کی حقیقت کیا ہے؟ آپ بے حد مغموم ہوئے تین دن تک اس خیال فاسدہ کا ماتم کیا۔ تین دن بعد جناب سرور کائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت ہوئی۔ آپ نے تسلی دی اور فرمایا غم نہ کرو۔ یہ وسوسہ اس لیے نہیں ہے کہ تم ان خیالات کی طرف توجہ دیتے ہو بلکہ بات یہ ہے کہ چالیس سال گزرے ہیں کہ تم عالمِ ارواح سے ایک عرصہ تک دور ہو۔ دنیائے دوں کی ایسی چیزوں کا یاد آنا۔ اس دنیائے آخرت سے دوری کا نتیجہ ہے۔

صاحبِ سفینۃ الاولیاء اور دوسرے تذکرہ نگاروں نے آپ کا سن وفات ۲۵۵ھ لکھا ہے۔

آں محمد حکیم حاکم دل
سال وصلش جو از خرد جستم

 

ذاتِ اوبود متقی و ولی
گفت ہاتف محمد ابن علی
۲۵۵

قطب سعید(۲۵۵)۔ ولی حق نامی(۲۵۵)

 

 

(خزینۃ الاصفیاء)

تجویزوآراء