حضرت سیدی ابو عیسیٰ محمد امام ترمذی

حضرت امام ابو عیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ

ولادت: ۲۰۹ھ          وفات: ۲۷۹ھ

 

اسم گرامی محمد، کنیت ابو عیسیٰ۔ سلسلۂ نسب یہ ہے محمد بن عیسیٰ بن سورہ بن ضحاک سلمی ترمذی۔ آپ کی ولادت مشہور قول کے مطابق شہر ترمذ میں ۲۰۹ھ میں ہوئی۔ یہ شہر نہر جیحون کے ساحل پر آباد ہے۔ اسے مدینۃ الرجال بھی کہا گیا ہے کیوں کہ اس خاک سے بڑے بڑے علماء و فضلا پیدا ہوئے امام ترمذی کے دادا اسورہ مروز کے باشندوہ تھے۔لیث بن سیار کے زمانہ میں ترمذ آکر آباد ہوگئے۔

تحصیل علم:

خراسان ماوراء النہر کا علاقہ علم و فن کاگہوارہ رہا ہے جس کی خاک سے ہزاروں اسلامی شخصیتیں ابھریں انہیں میں امام ترمذی کی باکمال ذات گرامی بھی ہے امام ترمذی نے جس زمانہ میں آنکھ  کھولی آپ کے گرد پیش کا سارا ماحول علم و فضل کےغلغلوں سے معمور تھا انہوں نے اپنی فطری مناسبت علم اور قوت حفظ و ضبط کے ساتھ ابتداءمیں اپنے شہر کے محدثین سے کسب فیض کیا پھر اسلامی شہروں کی رحلت کی اور اپنے دامن کو علم حدیث کی دولت سے مالا مال کیا۔

حافظ ابن حجر کہتے ہیں: ‘‘طاف البلاد  وسمع خلقاً من الخراسیین والعراقیین والحجازیین’’ انہوں نے متعدد شہروں کا سفرکیا۔ خراسان، عراق اور حجاز کے ارباب کمال سے سماع کیا۔ (تہذیب، ج۹، ص۳۴۴)

قوت حافظہ:

قدرت نے انہیں غیر معمولی قوت حفظ و ضبط عطا فرمائی تھی جس حدیث کو ایک بار سن لیتے ہمیشہ کے لیے حافظہ میں محفوظ ہوجاتی انہوں نے ایک شیخ سے حدیث کے دو جزء نقل کیے مگر اب تک انہیں پڑھ کر سنانے کو موقع نہیں ملا تھا مکہ مکرمہ کے راستہ میں اتفاقاً ان سے ملاقات ہوگئی ترمذی نے نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر ان سے ان اجزاء کے قرأت کی درخواست پیش کی شیخ نے قبول فرمایا اور کہا ان اجزاء کو نکال لو میں پڑھتا ہوں تم مقابلہ کرتے جاؤ امام ترمذی نے تلاش کیا تو اتفاقاً وہ اجزء ان کے پاس نہ تھے وہ بہت گھبرائے لیکن اس وقت ان کی سمجھ میں سوائے اس کے اور کچھ نہ آیا کہ وہ دو جزء سادے کاغذ کو ہاتھ میں لے کر سننے میں مشغول ہوجائیں شیخ نے قراءت شروع کی اتفاقاً ان کی نظر سادے گاغذ پر پڑی اس بات پر شیخ کو غصہ فرمایا کیا تم مذاق کرتے ہو امام صاحب نے پورا واقعہ بیان کیا اور کہا وہ مکتوب اجزاء میرے پاس نہیں ہیں لیکن مجھے لکھےہوئے سے زیادہ وہ محفوظ ہیں امام ترمذی نے وہ ساری حدیثیں زبانی سنادیں شیخ اس پر متعجب ہوئے اور فرمایا ایک بار سننے سے ساری حدیثیں یاد ہوگئیں ہیں پھر امتحاناً اپنی چالیس غریب حدیثیں پڑھیں امام ترمذی نے ان کو صحت کے ساتھ پڑھ کر سنادیا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ بعض محدثین نے ابو عیسیٰ ترمذی نے ان کو صحت کے ساتھ پڑھ کر سنادیا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ بعض محدثین نے ابو عیسیٰ ترمذی کا امتحان لیا اور اپنی چالیس غریب حدیثیں ان کے سامنے پڑھیں جو ابو عیسیٰ نے اسی وقت زبانی پڑھ کر سنادیں اس پر وہ بولے ‘‘ما رأیت مثلک’’ میں نے آپ جیسا کسی کو نہیں دیکھا۔ (تذکرہ، ج۲، ص۱۸۸)

امام ترمذی نے خداداد صلاحیت علم کو بروئے کار لاکر اپنے وقت کے جلیل القدر محدثین سے حدیث کا سماع کیا۔ امام بخاری اور امام مسلم کے بعض شیوخ سے بھی استفادہ کیا۔ اس طرح آپ کے شیوخ کی تعداد کافی ہوگئی ان میں سے کچھ اہم شیوخ یہ ہیں:

قتیبہ بن سعید، ابو مصعب، ابراہیم بن عبداللہ ہروی، اسماعیل بن موسیٰ سیدی، سوید بن نضر، علی بن حجر، محمد بن عبدالملک بن ابی الشوارب، عبداللہ بن معاویہ جمحی، امام بخاری امام مسلم ہناد بن سری، ابو کریب، محمد بن علاء، محمد بن موسیٰ الزمین، محمد بن بشار، عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی۔ (تذکرہ، ج۲، ص۸۶، کتاب الانسائی سمعانی)

فضل و کمال:

قدرت نے امام ترمذی میں ضبط علم کی فطری صلاحیتیں و دیعت کردی تھی اور ساتھ ہی انہیں اپنے وقت کے بڑے بڑے محدثین سے اکتساب علم کا موقع ملا خصوصیت کے ساتھ امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری کی صحبت نے آپ کو علم حدیث میں ذروۂ کمال تک پہونچا دیا۔ آپ کی جلالت علم، شان حفظ و ضبط، اور فضل وکمال پر تمام محدثین اور ارباب تذکرہ کا اتفاق ہے۔

خلیلی: ‘‘ثقہ متفق علیہ’’ وہ ثقہ اور متفق علیہ ہیں۔ (تہذیب، ص۹، ص۳۴۴)

امام بخاری: امام بخاری باجودیکہ آپ کے عظیم المرتبت شیخ ہیں فرماتےہیں ‘‘ما انتفعت بک اکثر مما انتفعت بی’’تم نے مجھ سے جتنا فائدہ حاصل کیا اس سے زیادہ میں نے تم سے حاصل کیا۔ (ایضاً، ص۳۴۵)

ابن خلکان: ‘‘الحافظ المشہور احد ائمۃ الذین یقتدیٰ بھم فی علم الحدیث صنف کتاب الجامع والعلل تصنیف رجل متقن’’ مشہور حافظ حدیث اور ان ائمہ میں سے ہیں علم حدیث میں جن کی اقتداء کی جاتی ہے۔ آپ نے جامع اورعلل تصنیف فرمائیںوہ متقن تھے۔ (وفیات الاعیان، ج۲، ص۳۶۳)

ادریسی:کان الترمذی احد ائمۃ الذین یقتدیٰ بھم فی علم الحدیث صنف الجامع و التواریخ والعلل تصنیف رجل عالم متقن کان یضرب بہ المثل فی الحفظ۔ امام ترمذی ان اماموں میں سے تھے علم حدیث میں جن کی پیروی کی جاتی ہے۔ انہوں نے حدیث میں جامع علل اور تاریخ تصنیف فرمائی۔ وہ عالم اور متقن شخص تھے قوت حفظ میں ان کی مثال دی جاتی تھی۔ (تہذیب التہذیب، ج۹، ص۳۴۵)

عمران ابن علان: مات محمد بن اسماعیل البخاری ولم یخلف بخراسان مثل ابی عیسی فی العلم والورع بکی حتی عمی، امام محمد بن اسماعیل بخاری نے وفات پائی اور اپنے بعد خراسان میں علم و تقویٰ میں ابو عیسیٰ ترمذی کا مثل نہیں چھوڑا وہ خشیت الہی سے اس قدر روئے کہ بینائی جاتی رہی۔ (ایضاً)

ابن خبان: ‘‘کان ابو عیسٰی ممن جمع وصنف حفظ وذاکر’’ ابو عیسی نے علم حدیث جمع کیا۔ اس فن میں کتابیں تصنیف کیں زبانی محفوظ رکھا اور مذاکرے کئے۔ (تذکرہ، ج۲، ص۱۸۷)

حلقۂ درس اور تلامذہ:

امام ترمذی صرف خراسان ہی نہیں بلکہ تمام اسلامی شہرو اورقریوں میں عظمت علم و فضل کے لیے مشہور ہوگئے تھے۔ امام بخاری کےبعد پورے خراسان میں کوئی صاحب علم آپ کا ہمسرنہ تھا یہی وجہ ہے کہ جب آپ نے حلقۂ درس قائم کیا تو خراسان کے علاوہ دوسرے ملکوں اور شہروں سے بھی طالب علموں کا قافلہ جوق درجوق سماع سماع حدیث کے لیے آنے لگا۔ آپ نے نامور تلامذہ یہ ہیں۔

ابو حامد بن عبداللہ بن داؤد مروزی، ہشیم بن کلیب شامی، محمد بن محبوب ابو العباس المحبوبی المروزی، احمد بن یوسف نسفی، ابو حارث اسد بن حمدویہ، داؤد بن نصر بن سہیل بزدوی، عبدبن محمد بن محمود نفسی، محمود بن نمیر، محمد بن نمیر، محمد بن نکی بن فوج، ابو جعفر محمد بن سفیان بن نضر، محمد بن منذر بن سعید ہروی، مکحول بن فضل، محمدبن محمود عنبر، حماد بن شاکر، احمد بن علی بن حسنویہ وغیرہم۔ (تہذیب التہذیب، ص۹، ۳۴۴، تذکرہ، ج۲، ص۱۸۶)

تصانیف:

امام ترمذی بلند پایہ مصنف بھی تھے حدیث، رجال اور علل کے ساتھ صحابہ، تابعین، تبع، تابعین اور ائمہ فقہ کے اقوال و آراء میں درجۂ کمال رکھتے تھے۔ ان کی اہم تصانیف انہیں موضا عات ر مشتمل ہیں۔ چند مشہور مصنفات یہ ہیں۔

۱۔ جامع ترمذی ۲۔ کتاب العلل ۳۔ کتاب التاریخ ۴۔ کتاب  الذہد ۵۔ کتاب الاسماء والکنی ۶۔ کتاب الشمائل النبویہ۔

جامع ترمذی:

لیکن امام ترمذی کو جس کتاب نے شہرت دوام عطا کی وہ جامع ترمذی ہے جامع ترمذی، نسائی اور ابو داؤد کے بعد تصنیف کی گئی لیکن اپنی افادیت و جامعیت کے لحاظ سے اس کتاب کاشمار کتب صحاح ستہ میں بخاری و مسلم کے بعد کیا جاتا ہے۔

امام ترمذی سے قبل ہی حدیث کی معرکۃ الآراء کتابیں تصنیف کی جاچکی تھیں جو ہر لحاظ سے اہم تھیں مگر ان تصانیف کی موجود گی میں بھی امام ترمذی نے اپنی جامع ایسی نہج پر ترتیب دی کہ امت نے اسے قبول دوام بخشا۔ حافظ ابن اثیر کا قول ہے۔

جامع ترمذی کتب صحاح میں سب سے زیادہ احسن ہے کیوں کہ اس کی افادیت سب سے زیادہ اور ترتیب سب سے عمدہ نیز اس میں تکرار سب سے کم مذاہب ائمہ اور وجوہ استدلال کے ذکر اور انواع حدیث اور احوال رواۃ کے بیان میں کتاب سب سے منفرد ہے۔ (تذکرۂ المحدثین سعیدی، ص۲۴۵)

شیخ ہرات عبداللہ انصاری فرماتے ہیں میرے نزدیک ابو عیسیٰ ترمذی کی کتاب جامع ترمذی صحیح بخاری اور مسلم سے زیادہ مفید ہے ان کتابوں سے وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جسے حدیث میں معرفت تامہ حاصل ہو ان کے برعکس امام ترمذی نے اپنی کتاب میں تمام احادیث کی شرح و تفسیر اور مذاہب علماء اس طرح بیان کردئیے ہیں کہ اس سے ہر فقیہ، ہر محدث بآسانی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ تذکرۃ المحدثین سعیدیم، ص۲۴۵)

امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں: ‘‘صنفت ھٰذا الکتاب فعر ضتہ علٰی علماء الحجاز والعراق والخر اسان و رضوابہ ومن کان فی بیتہ ھٰذ الکتاب یعنی الجامع فکانمافی بیتہ نبی یتکلم’’ میں نے یہ کتاب تصنیف کی تو اسے حجاز، عراق اور خراسان کے علماء کے سامنے پیش کیا سب نے اسے پڑھ کر پسندیدگی کا اظہار کیا جس گھر میں یہ کتاب (جامع ترمذی) موجود ہے یوں سمجھو کہ اس میں خود نبی ﷺ کلام کر رہے ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ، ج۲، ص۱۸۸)

جامع ترمذی کی تصنیف کا بنیادی مقصد مع الاستدلال بیان مذہب ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں۔

 ‘‘انہوں نے شیخین کے طریق کو جہاں کہ انہوں نے واضح کیا تھا او جہاں مبہم چھوڑا تھا اسے پسندیدہ صورت دیدی اور ابو داؤد کے طریقہ کو بھی اختیار کیا کہ صاحب مذہب کے مسلک کو بیان کردیا چناں چہ ایک جامع کتاب بنادی اور حدیث کے طرق کا اچھے طریقہ سے اختصار کیا۔ ایک طریق کاذکر کرکے دوسرے طرق کی طرف اشارہ کردیا اور ہر حدیث کو واضح کردیا کہ یہ صحیح ہے یاحسن ہے یا ضعیف ہے یا منکر اور ضعف کی حالت کوبھی واضح کردیا تاکہ طالب حدیث کو اس معاملہ میں بصیرت کاملہ حاصل رہے اور وہ لائق اعتبار میں فرق کرسکے اور یہ بھی بتا دیا کہ یہ حدیث مستفیض ہے یا غریب ہے نیز صحابہ اور فقہاء امصار کا مذہب بھی ذکر کردیا او جس شخص کے نام کی ضرورت تھی اس کا نام بتا دیا اس جس کی کنیت معلوم کرنے کی ضرورت تھی اس کی کنیت بتا دی اور اہل علم لوگوں کے لیے کسی قسم کا خفاء باقی رہنے نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ کہا کرتے ہیں کہ یہ کتاب مجتہد کے لیے کافی ہے اور مقلد کو بے نیاز کرنے والی ہے۔’’ (حجۃ اللہ البالغہ، ج۱، ص۳۶۵)

شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی لکھتے ہیں۔

‘‘جامع ترمذی ان (امام ترمذی) کی بہت مشہور اور مقبول تصنیف ہے مجموعی حدیثی فوائد کے لحاظ سے اس کتا کو تمام کتابوں پر فوقیت دی گئی ہے اول اس وجہ سے کہ اس کی ترتیب عمدہ ہے اور تکرار نہیں ہے۔ دوم اس وجہ سے کہ اس میں فقہاء کا مذہب اور اس کے ساتھ ساتھ ہر ایک کا استدلال بیان کیاگیا ہے۔ سوم اس وجہ سے کہ اس میں حدیث کے انواع مثلاً صحیح، حسن، ضعیف، غریب اور معلل بہ علل وغیرہ کو بیان کیا گیا ہے۔ چہارم اس وجہ سے کہ اس میں راویوں کے نام ان کے القاب اور کنیت کے علاوہ ان فوائد کو بھی کیا گیا ہے جن کا علم الرجال سے تعلق ہے’’۔ (بستان المحدثین، ص۱۸۵)

جامع ترمذی کی خصوصیات:

اس کی تمام حدیثیں کسی نہ کسی امام محدث فقیہ کی معمول بہا ہیں یعنی ہر روایت کسی نہ کسی صاحب علم کے نزدیک صحیح ہے اور اسقام سے پاک قابل حجت اور لائق عمل ہے۔

٭ اس کے اندر روایات کی تکرار بہت قلیل ہے ایک ہی مسئلہ کے متعلق مختلف روایتوں کی جانب اشارہ بھی کردیا ہے۔

٭ جرح و تعدیل کی رو سے جس روایت کا سند میں عجیب و ہنر ہوتا ہے اس کو ظاہر کردیتے ہیں۔

٭ فقہی حدیثوں میں فقہائے مذہب کے استنباطات دلائل اور ان کے اختلافات اور اس پر اپنی رائے بھی ظاہر کردیتے ہیں۔

٭ رواۃ کے نام کنیت اور القاب کے اجمال کی تفصیل کردی ہے۔

٭ حدیث میں کوئی مشکل لفظ ہو تو اس کی معنی آسان لفظ میں بیان کردیتے ہیں۔

٭ اگر دو حدیثوں میں تعارض ہوتو بسااوقات تعارض دفع کرنے کے لیے کوئی توجیہ اور تاویل پیش کرتے ہیں اور کبھی رفع تعارض کے لیے متعارض حدیثوں میں سے کسی ایک کا منسوخ ہونا بیان کردیتے ہیں۔

جامع ترمذی اپنے عہد تصنیف سے لے کر آج تک مدارس میں پڑھی پڑھائی جاتی ہے اور اس کی شروح کاکام بھی ہر عہد میں ہوتا رہا اور یہ سلسلہ بھی جاری ہے چند اہم شروح یہ ہیں۔

عارضۃ الاحوذی، المنقح الشذی، العرف الشذی، شرح الجامع، الکوکب الدری، التحفۃ الاحوذی، جائزۃ الشعوذی۔

اخلاق و کردار:

امام ترمذی جس طرح علم میں امتیازی شان رکھتے تھے عمل و کردار کے سدا بہار پھولوں سے بھی ان کا دامن حیات مالا مال تھا۔ زہد و ورع، عبادت و ریاضت کے ساتھ خوف خدا ان کے رگ وریشے میں سرایت کئے ہوئے تھا۔ خشیت الہی کا اتنا غلبہ تھا کہ روتے روتے بینائی ختم ہوگئی تھی مگر ان کا قلب اور بصیرت تادم مرگ روشن رہا۔

وفات:

ااس یگانۂ روزگار محدث کا وصال ۱۳ رجب المرجب ۲۷۹ھ کو بمقام ترمذ ہوا اور وہیں آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔

 

تجویزوآراء