حضرت مفتی اعظم علامہ ابوالبرکات سید احمد اشرفی

حضرت مفتی اعظم پاکستان علامہ ابوالبرکات سید احمد اشرفی، لاہور علیہ الرحمۃ 

مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ ابوالبرکات سیّد احمد اشرفی بن حضرت مولانا سید ابومحمد محمد دیدار علی شاہ ابن سید نجف علی ۱۳۱۹ھ/ ۱۹۰۱ءمیں ہندوستان کے مشہور شہر الور کے محلہ نواب پورہ میں پیدا ہوئے۔

آپ کا تعلق ایک علمی و روحانی سیّد  گھرانہ سے ہے اور آپ کا سلسلۂ نسب حضرت امام موسیٰ رضا رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے، آپ کے آباؤ اجداد مشہد سے ہندوستان تشریف لائے اور الور قیام پذیر ہوئے۔[۱]

[۱۔ محمد عبدالحکیم شرف قادری، مولانا: تذکرہ اکابر اہل سنّت، ص۱۴۰۔]

تعلیم و تربیت:

جس طرح آپ کا تعلق ایک عظیم علمی خاندان سے ہے، اسی طرح آپ کی تربیت بھی نہایت مہتم بالشان طریقے سے ہوئی، قرآن مجید الور ہی کے حافظ عبدالحکیم، حافظ عبدالعزیز اور حافظ قادر علی سے پڑھا۔

صرف و نحو کی ابتدائی کتب علامہ سیّد ظہور اللہ ملتانی سے اور اکثر کتب اپنے والد ماجد رحمہ اللہ سے پڑھیں، فنون کی انتہائی کتب قاضی مبارک، حمداللہ، افق المبین، صدرا، شمس بازغہ اور شرح عقائد نسفی وغیرہ، جمیع کتب احادیث اور کتب طب مرادآباد میں حضرت صدرالافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھیں اور ۱۹۱۹ء میں مرادآباد سے ہی سندِ فراغت و دستارِ فضیلت حاصل کی۔

امام اہل سنت سے سندات کا حصول:

۱۹۱۹ء ہی میں آپ امام اہل سنت مولانا الشاہ احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کی صحبت میں رہے اور آپ کے حکم پر فتویٰ نویسی کے فرائض  سر انجام دیتے رہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو جمیع علوم و فنون کی سند اور وظائف و خلافتِ عامہ کی اجازت مرحمت فرمائی۔

آگرہ میں خطابت:

جامع مسجد آگرہ میں آپ کے والد ماجد حضرت مولانا سید ابو محمد محمد دیدار علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ خطیب تھے۔ تحریکِ خلافت میں مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا عبدالماجد بدایونی وغیرہ کانگرس کے حق میں تقریریں کرتے تھے، جبکہ مولانا سیّد دیدار علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ اور سیّد صاحب موصوف کانگرس کے خلاف سرگرم عمل تھے۔

دورانِ تحریک پنجاب کے عوام کی دعوت پر حضرت سید دیدار علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے پنجاب کا دورہ کیا۔ لاہور کے مسلمانوں کو آپ کی تقاریر سے ایسا ذوق میسر ہوا کہ حضرت علامہ کو لوگوں کے اصرار پر لاہور آنا پڑا، چنانچہ آپ کی جگہ حضرت علامہ ابوالبرکات سید احمد دامت برکاتہم العالیہ کو جامع مسجد آگرہ میں فرائض خطابت سونپ دیے گئے۔

لاہور میں آمد:

۱۹۲۳ء میں آپ حضرت والد ماجد علیہ الرحمۃ کے حکم پر جامع مسجد داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی خطابت کے لیے لاہور پہنچے، داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی مسجد ان دنوں زیرِ تعمیر تھی۔ مولانا محرم علی چشتی، سید امین اندرابی اور خلیفہ مولوی تاج الدین کے مشورے سے آپ کو مسجد وزیر خان میں علومِ دینیہ کی تدریس پر مقرر کردیا گیا۔ آپ کی محنتِ شاقہ کی شہرت نے سارے پنجاب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ طلباء جوق در جوق آنا شروع ہوگئےا ور مسجد وزیر خاں کے وسیع صحن میں دینی علوم حاصل کرنے والوں کا بے پناہ ہجوم ہوگیا۔

دارالعلوم حزب الاحناف کی تاسیس:

مرزا ظفر علی جج جو ان دنوں مسجد وزیر خاں کے متولی تھے، انہیں طلباء کے اجتماع سے اختلاف تھا، چنانچہ حضرت مولانا سید دیدار علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے مسجد وزیر خان سے استعفا دے دیا۔

لاہور کے سنی زعماء قاضی حبیب اللہ، مولوی محمد دین، حاجی شمس الدین اور مولانا محرم علی چشتی نے انجمن حزب الاحناف ہند کی بنیاد رکھی اور ۱۵؍مارچ ۱۹۲۶ء کو باقاعدگی سے تدریس کا آغاز ہوگیا۔

دارالعلوم حزب الاحناف کا ابتدائی دور بے سروسامانی کا دور تھا۔ ابتدا مسجد وزیر خان سے ہوئی۔ وہاں سے لنڈا بازار، یکی دروازہ، مسجد  دائی رنگہ اور مسجد مائی لاڈو سے ہوتے ہوئے ۱۵ مارچ ۱۹۲۶ء کو تین گنبد والی مسجد اندرون دہلی دروازہ کو دارالعلوم کے لیے منتخب کیا گیا۔ مسجد کی صفائی ہوئی اور مرمت کرائی گئی۔ امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ علی پوری رحمۃ اللہ علیہ نے پانچ سو روپیہ مسجد کی صفائی پر خرچ کیا اور نو ماہ میں یہ سنی دارالعلوم اپنی پوری تابانیوں سے جلوہ گر ہوگیا۔

ابتدائی اساتذہ میں حضرت مولانا سیّد دیدار علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ علامہ ابوالبرکات، علامہ ابوالحسنات، مولانا عبدالقیوم اور مولانا عبدالحنان جیسے لوگ شریک تدریس تھے۔[۱]

[۱۔پیرزادہ علامہ اقبال احمد فاروقی، تذکرہ علماء اہل سنّت، لاہور، ص۳۲۱۔]

۱۹۳۵ء میں حضرت مولانا سید دیدار علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد آپ نے دارالعلوم کے جملہ انتظام و انصرام کو سنبھالا اور مسندِ درسِ حدیث پر فائز ہوئے، اور وصال تک یہ فیض جاری ہے۔

آج کل دارالعلوم حزب الاحناف لال کوٹھی بیرون بھاٹی گیٹ منتقل ہوچکا ہے اور حضرت قبلہ سید ابوالبرکات رحمہ اللہ باوجود پیرانہ سالی اور صحت کے ساتھ نہ دینے کے خدمت میں حاضر ہونے والوں کو علمی و روحانی فیض سے  مستفیض فرماتے رہے۔ ۹؍جنوری ۱۹۷۴ء کو تنظیم المدارس اہل سنت کی نشاۃِ ثانیہ میں آپ کو تنظیم کا مرکزی صدر منتخب کیا گیا اور پھر ۱۹۷۸ء کے نئے انتخاب میں آپ کو تنظیم کا سرپرست نامزد کیا گیا۔

فتنوں کا مقابلہ:

آج سے کچھ عرصہ پہلے لاہور میں طرح طرح کے فتنے اُٹھے، کہیں وہابیت کا فتنہ سر اُٹھا رہا ہے، کہیں نیچریت اپنے پر تول رہی ہے، کہیں مرزائیوں کی ریشہ دوانیاں ہیں، تو کہیں رافضی گمراہی کے جال بچھائے بیٹھے ہیں، لیکن سنیت  کے اس بحرِ بے کنار کے سامنے جو بھی فتنہ آیا خس و خاشاک کی طرح بہہ گیا۔

تحریرات:

آپ کا زیادہ حصہ علوم و فنون اور حدیث پاک کی تدریس میں گزرا، لیکن اس کے باوجود آپ نے میدانِ تحریر میں بھی کام کیا، چنانچہ مندرجہ ذیل کتب آپ نے تحریر فرمائیں:

۱۔       مناظرہ تلون        ۲۔       دبوس المقلدین

۳۔      فتح المبین           ۴۔      مناظرہ ترن تارن

۵۔       ضیاء القناوین        ۶۔       وہابیوں کی کہانی

چند مشہور تلامذہ:

حضرت مفتیِ اعظم پاکستان علامہ ابوالبرکات دامت برکاتہم العالیہ کی ساری زندگی تبلیغِ دین اور علومِ عربیہ کی تدریس میں گزری اور سینکڑوں تشنگانِ علم نے سیرابی حاصل کی۔ آپ کے چند تلامذہ جو آسمانِ شہرت پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے، اُن کے اسماء گرامی یہ ہیں:

۱۔       شیخ الحدیث مولانا مہر دین دامت برکاتہم العالیہ

۲۔       حضرت مولانا قاضی سراج احمد

۳۔      سلطان الواعظین حضرت مولانا محمد بشیر کوٹلی لوہاراں

۴۔      مولانا حافظ مظہرالدین

۵۔       خطیب اہلِ سنت مولانا غلام دین رحمۃ اللہ علیہ

۶۔       شیخ القرآن مولانا غلام علی اوکاڑوی

۷۔      فقیہ العصر مولانا مفتی محمد نور اللہ بصیر پوری

۸۔      شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ قصوری

۹۔       شیخ الحدیث مولانا حافظ محمد عالم سیالکوٹی

۱۰۔      استاذ العلماء مولانا مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی، ناظمِ اعلیٰ تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان

طویل علالت کے بعد ۲۴؍ ستمبر ۱۹۷۸ء بمطابق ۲۰ شوال ۱۳۹۸ھ علم و عمل کا یہ پیکر اس دارِ فانی سے رخصت ہوا اور علمی دنیا میں نہ پُر ہونے والا خلا پیدا ہوگیا۔

(تعارف علماءِ اہلسنت)

تجویزوآراء