حکیم سنائی غزنوی قدس سرہ

 

آپ کی کنیت ابوالمجد بن آدم تھی۔ آپ صوفی شعراء میں سر برآور دہ تھے۔ حضرت خواجہ یوسف ہمدانی﷫ کے مرید تھے والد حضرت شیخ رضی الدین علی تھے کتاب حدیقۃ الحقیقت آپ کی بہترین تصنیف ہے آپ کی توبہ کا واقع یوں بیان کیا گیا ہے کہ سلطان ابراہیم غزنوی جاڑوں کی سردی میں غزنین سے کسی ملک کی فتح کے لیے نکلے حکیم سنائی﷫ نے ان کے حق میں ایک خوبصورت قصیدہ لکھا تھا آپ سلطان کے دربار کی طرف جارہے تھے تاکہ وہ قصیدہ پیش کرسکیں راستے میں ایک مجذوب دیکھا جو شراب کے نشہ میں دھت ہوکر ساقی کو کہہ رہا تھا شراب کاایک پیالہ ابراہیم غزنوی کے اندھے پن کے لیے اور پلادو ساقی نے کہا وہ غازی مرد ہے بادشاۂِ اسلام ہے وہ کیسے اندھا ہوسکتا ہے؟ مجذوب نے کہا کیا وہ اندھا نہیں کہ اپنے ملک کو آباد اور خوشحال کرنے کے بجائے دوسرا ملک فتح کرنے کو چل نکلا ہے پیالہ اٹھایا اور پی گیا ایک بار پھر اٹھا اور کہا ایک ایک پیالہ حکیم سنائی شاعر کے اندھے پن کے صدقے دے دو۔‘‘ ساقی نے کہا وہ تو ایک دانا شاعر ہے وہ کیسے اندھا ہے! مجذوب نے کہا وہ نامبارک مرد ہے اگر وہ اندھا نہ ہوتا تو سلطان کے پیچھے بے فائدہ قصیدہ لکھ کر نہ دوڑتا جھوٹی باتوں پر مشتمل قصیدہ لکھ کر خوش ہونا یا خوش کرنا کون سی عقلمندی ہے کیا اللہ تعالیٰ نے اسے اس کام کے لیے پیدا کیا ہے سنائی﷫ نے یہ بات سنی تو ان کے دل کی کیفیت بدل گئی تارک الدّنیا ہوکر یاد الٰہی میں مشغول ہوگئے۔

دارالشکوہ اپنی کتاب سفینۃ الاولیاء میں لکھتے ہیں۔ کہ چونکہ حدیقہ سنائی میں کئی الحاقی اور نامعقول اشعار تھے انہیں پڑھ کر میرے دل میں تغیر و تکدّر پیدا ہوا اور حکیم سنائی کے متعلق میری رائے بڑی نامناسب ہوگئی چنانچہ جب میں غزنی گیا تو عہد کیا کہ تمام بزرگان دین کے مزارات کی زیارت کو جاؤں گا مگر حکیم سنائی کے مزار پر نہیں جاؤں گا۔ مجھے رات خواب میں یوں دکھائی دیا کہ میں غزنی کے تمام مزارات کی زیارت کر رہاہوں مجھے کسی نے بتایا کہ یہ حکیم سنائی کی قبر ہے میں غور کیا تو سفید سنگِ مَر مَر کی ایک قبر نظر آئی۔ اس پر کتبہ لکھا ہوا تھا۔ ’’یہ سنائی سُنّی العقیدہ کی قبر ہے‘‘ جب میں نے یہ واقعہ دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ حکیم سنائی سُنی تھے۔ دوسرے روز میں مزارات کی زیارت کو نکلا تو میں نے دیکھا کہ سفید پتھر کی ایک قبر جسے میں خواب میں دیکھ چکا تھا۔ سامنے ہے مجھے یقین ہوگیا کہ جن اشعار کی وجہ سے میرا دل مکّدر ہوگیا تھا وہ حکیم سنائی کے نہیں تھے۔ بلکہ الحاقی تھے کسی بدعتی رافضی نے کتاب میں درج کردئیے تھے۔

حضرت حکیم سنائی﷫ ۵۲۵ھ میں فوت ہوئے آپ کے مزارپر یہی سنِ وصال لکھا ہوا ہے۔

چوں سنائی حکیم روشن دل
۵۲۵ھ
شاہ عالم حکیم سرور گفت

 

گشت از دیدۂ جہاں مستور

رحلتش ہم زہے مۂ نور است
۵۲۵ھ

(خزینۃ الاصفیاء)

تجویزوآراء