حضرت علی بن موفق بغدادی

حضرت علی بن موفق بغدادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

 آپ عراق اور بغداد کے معروف بزرگان دین میں سے تھے۔ حضرت شیخ ذوالنون مصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے محبت  رکھتے تھے۔ بہت سے سفر کیے اپنی عمرمیں  ستر بار حج بیت اللہ کیا۔

ایک دن حج کے موقعہ پر آپ کو خیال آیا کہ میں ہر سال حج پر آتا ہوں اور واپس چلا جاتا ہوں۔ مجھے یہ معلوم نہیں ہوا کہ میں کیا ہوں اور کس شمار میں ہوں۔ رات  کو اللہ تعالیٰ نے خواب میں ارشاد فرمایا: یاد رکھو جسے گھر بلاتے ہو وہی تمہارے گھر آتا ہے۔ اگر تم کسی کو گھر نہ بلاؤ تو کون تمہارے گھر آئے گا تم ہر سال ہمارے گھر آتے ہو، تمہاری کیا مجال ہے کہ بن بلائے ہمارے گھر آسکو اور ہمارے گھر میں قدم بھی رکھ سکو۔

ایک دن شیخ کو اپنی تنگدستی اور افلاس پر بڑا خیال آیا۔ راہ میں ایک کاغذ دیکھا اٹھایا اور اپنی آستین میں محفوظ رکھ لیا۔ گھر پہنچے تو کاغذ کو آستین سے گرتا دیکھا اٹھاکر  پڑھا تو لکھا تھا: ابن موفق! فقر سے ڈرتے ہو حالانکہ میں تمہارا پروردگار ہوں۔

آپ اپنی دعاؤں میں کہا کرتے ’’اے اللہ! اگر میں دوزخ کے ڈر سے تیری عبادت کرتا ہوں تو مجھے دوزخ میں ڈال دو۔ اگر بہشت کی امید سے عبادت کرتا ہوں تو مجھے بہشت میں رکھ اگر اخلاص و محبت سے کرتا ہوں تو ایک بار اپنے دیدار سے نوازش  کر پھر جو چاہے کر’’!

آپ کی وفات ۲۶۵ھ میں ہوئی تھی۔ بعض تذکرہ نگاروں نے ۲۶۰ھ بھی لکھی ہے۔

چو رفت آہ از دار دنیا علی
علی والی حق بگو سال او
۲۶۵ھ
    
مکاں یافت در خلد عالی علی
وگر تیز فرمان معلی علی
۲۶۰ھ

(خزینۃ الاصفیاء)

تجویزوآراء