حضرت علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی
حضرت علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ اکابر علماء اور اعاظم فضلائے زمانہ میں سے تھے۔ ظاہری علوم میں فریدالدہر اور باطنی روموز میں وحید العصر تھے۔ حدیث، فقہ اور علم تفسیر میں یکتائے زمانہ تھے۔ صاحب تصنیف تھے اور حضرت مولانا کمال الدین کشمیری کے شاگرد خاص تھے۔ اگرچہ مولانا عبدالحکیم صاحب تصانیف کثیرہ تھے۔ مگر تفسیر بیضادی کا حاشیہ، حاشیہ اور تکملہ عبدالغفور آپ کی شہرہ آفاق تصانیف ہیں۔ آپ نے اپنے واجب الاحترام بزرگ شاہ بلاول قادری لاہوری کے ارشاد پر حضرت غوث الاعظم سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کی مشہور کتاب غنیّتہ الطّالبین کا فارسی ترجمہ کیا تھا۔ آپ کو مغل بادشاہ جہانگیر اور شاہجہاں کے دربار میں مقتدر مقام حاصل تھا۔ آپ نے بادشاہ کے حکم پر لاہور میں درس قرآن دینا شروع کیا۔ علماء ہند آپ کے فیصلے پر صاہ کرتے اور بادشاۂ وقت شرعی احکام میں آپ کا فتویٰ ہی قبول کرتے تھے۔ حضرت مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی نے روحانی طور پر بہت بزرگان سے استفادہ کیا۔ خصوصاً حضرت شیخ احمد مجدّد الف ثانی سرہندی سے عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ حضرت شیخ احمد سرہندی کو جس شخص نے مجدد الف ثانی کا خطاب دیا وہ علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی ہی تھے۔ حضرت مجدّد نے آپ کی علمی قابلیت کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کو آفتاب پنجاب کے لقب سے نوازا تھا۔
حضرت علامہ عبدالحکیم بن شمس الدین (آفتاب پنجاب) سیالکوٹی قدس سرہٗ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اپنے شہر میں درس قرآن پاک شروع کیا۔ عملی شہرت نے دربار مغلیہ میں پہنچا دیا دربار شاہی میں دربارچاندی سے تلوایا گیا اور چاندی آپ کو بخش دی گئی آپ نے اپنے شاگردوں میں تقسیم کردی۔ جاگیر عطا ہوتی طلبا پر وقف کردی۔ سلطان وقت نے ایک لاکھ روپیہ ماہانہ مقرر کیا۔غرباء میں تقسیم کردئیے تفسیر متصبادی کے حاشیہ اور تکملہ عبدالغفور کے علاوہ آپ نے مقدمات تلویح مطّوں، شرح مواقف شرح عقائد تفتازانی شرح عقائد دوان، شرح شمسہ، شرح مطالع مینبدی، مراح الارواح پر گراں قدر حواشی لکھے۔ جو آج تک اساتذہ درس نظامیہ کے راہنما ہیں۔ آپ کے حالات حدائق الخیفہ، ثرالکرام اور کوثر شجدالمرجان۔ تواریخ سیالکوٹ دیکھے جاسکتے ہیں۔
مخبرالواصلین نے آپ کا سن وفات ۱۰۶۸ھ لکھا ہے۔
چو عبدالحکیم آں ولی خُدا
ندا شد پے سال تاریخ او
ز دنیائے دُوں شد بجنت مقیم
ولی مخزن علم عبدالحکیم
۱۰۶۸ھ
(خذینۃ الاصفیاء)
-----------------------------------
مولاناعبدالحکیم سیالکوٹی بڑے عالم فاضل فقیہ محدث،مفسر خصوصاً علم معقولات میں طاق،یگانۂ آفاق،محسود علمائے معقول ہندوستان اور صاحب تصانیف عالیہ تھے چنانچہ ھاشیہ تفسیر بیضاوی اور حاشیہ کتاب مشہور وحاشیہ مقدمات تلویح و ھاشیہ مطول و حاشیہ شریفیہ و حاشیہ شرح عقائد تفتازانی و حاشیہ عقائد دوانیہ و حاشیہ شرح شمسیہ و حاشیہ شرح مطالع وحاشیہ درۃ التملینہ فی اثبات واجب تعالیٰ وترجمہ فارسی غنیۃ الطالبین حضرت غوث الاعظم وحاشیہ عبد الغفوروحاشیہ شرح ہدایۃ الحکمہ وحاشیہ خیالی،تکملہ عبد الغفور،ھاشیہ قطبی وحواشی ہوامش شرح حکمۃ العین وھاشیہ مراح الارواح وغیرہ آپ کی کمالیت و فضیلت علمی پر شاہد ناطق اور برہان قاطع ہیں۔علوم ظاہری آپ نے مولانا محمد کمال کاشمیری سے پڑھے اور فیوض باطنی اپنے زمانہ کے مشائخ سے حاصل کیے۔آپ ہی ہیں جنہوں نے پہلے پہل شیخ احمد سرہندی کو مجدد الف ثانی کے خطاب سے یاد کیا اور شیخ احمد مجدد الف ثانی نے آپ کو آفتاب پنجاب کا لقب دیا۔جہانگیر و شاہجہان کے دربار میں آپ کی بڑی عزت و توقیر تھی اور آپ شہرزادگان کے استاد تھے چنانچہ شاہجہان بادشاہ نے آپ کو دو دفعہ میزان میں تلوایا اور ہر دفعہ چھ چھ ہزار روپیہ دیا۔آپ کو سیالکوٹ میں سوا لاکھ روپیہ کی جاگیر ملی ہوئی تھی جو آپ کی اولاد کے پاس نسل بعد نسل موجود رہی اور اخیر کو گھٹتے گھٹتے اب سرکار انگلشیہ کے عہد میں بسبب انقطاع خاندان کے بالکل ضبط ہوگئی،بادشاہ کی اجازت سے آپ نے لاہورمیں درس جاری کیا اور آپ کے لکھے ہوئے فتاویٰ پر کسی کو علمائے ہند و پنجاب میں سے جائے چوں و چرانہ ہوئی تھی،وفات آپ کی ۱۰۶۸ھ یا ۱۰۹۸ھ میں ہوئی،’’شیخ محسن‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔آپ کےخلف الرشید ملا عبداللہ الملقب بہ لبیب بھی بڑے عالم فاضل،ماہر متجر تھے چنانچہ عالمگیر بادشاہ ان کی بڑی عزت کرتا تھا اور کتاب تفریح بر تلویح ان کی تالیفات سے یادگار ہے۔
ملا عبد الحکیم بن شمس الدین بقول بمختار خاں مؤرخ ۹۸۹ھ میں پیدا ہوئے اور بقول محمد صالح کنبوہ ۱۰۶۷ھ میں وفات پائی۔
(حدائق الحنفیہ)