حضرت علامہ عابد انصاری مدنی

حضرت علامہ عابد انصاری مدنی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

شیخ محمد عابد بن شیخ احمد علی بن شیخ الاسلام محمد مراد بن حافظ محمد یعقوب بن محمود انصاری سیوھن شریف ( ضلع دادو، سندھ ) میں شہباز ولایت حضرت لعل شہباز قلندر قدس سرہ کی نگری میں علمی گھرانہ میں تولد ہوئے ۔

آپ کے جدامجد شیخ الاسلام محمد مراد اپنے وقت کے ناموز عالم دین و فاضل جلیل تھے اور امام اہل سنت ،علامۃ الدھر ، عارف باللہ ، مجدد و فقیہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی قادری قدس سرہ کے تلمیذ خاص تھے۔ شیخ محمد مراد اہل خانہ کے ہمراہ سیوھن شریف سے حجاز مقدس منتقل ہو گئے اور حدیدہ ( یمن ) میں مستقل سکونت اختیار کی اور حدیدہ میں شیخ محمد مراد نے انتقال کیا۔

تعلیم و تربیت :

ابتدائی تعلیم سیوھن شریف میں حاصل کی ۔ اس کے بعد اپنے چچا شیخ محمد حسین انصاری سے تعلیم و تربیت پائی ۔ انہیں کی خدمت میں رہ کر درسی نصاب مکمل کر کے فارغ التحصیل ہوئے۔ یہ تعلیم کا سلسلہ سیوھن شریف اور حدیدہ میں جاری رہا۔ انہیں اپنے چچا بزرگ سے سندحدیث حاصل تھی جو کہ اس طرح ہے:

شیخ محمد عابد سندھی حنفی عن شیخ محمد حسین انصاری حنفی عن مخدوم ابو الحسن صغیر ھوی مدنی حنفی سندھی عن مخدوم محمد حیات سندھی حنفی مدنی عن مخدوم ابو الحسن کبیر ھوی مدنی حنفی المعروف علامہ سندھی شارح صحاح ستہ عن شیخ عبداللہ السالم بصری مدنی رحمھم اللہ تعالیٰ علیہ۔ ( تذکرہ مشاہیر سندھ)

شیخ محمد عابد سندھی نے یمن کے علمی مرکز زبیدہ میں وہاں کے علماء و مشائخ اہل سنت سے استفادہ کیا ۔ انہوں نے اپنے چچا محمد حسین انصاری سے علم طب میں بھی تحصیل کی ۔ اس کے علاوہ مدینہ منورہ حاضر ہوئے وہاں بھی علماء و مشائخ اہل سنت سے علمی و روحانی استفادہ کیا۔

بیعت :

شیخ محمد عابد سندھی حنفی حدیدہ کے دوران قیام ان کی درگاہ لواری شریف ( سندھ ) کے سجادہ نشین حضرت خواجہ محمد زمان ثانی صدیقی قدس سرہ سے ملاقات ہوئی ۔ پہلی ہی ملاقات میں روحانی تسکین پائی ، متاثر ہو کر سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت ہوئے ۔

درس و تدریس :

تدریس کا آغاز زبیدہ ( یمن ) سے کیا ۔ یمن کی دارالسلطنت صنعاء میں بھی درس و تدریس کی مسند پر جلوہ افروز رہے۔ یمن کے بادشاہ کے شاہی طبیب بھی رہے۔ ایک بار بادشاہ یمن کی جانب سے بادشاہ مصر کی جانب سفیر بن کر گئے ، دونوں ملکوں کی طرف سے سفارتی تعلقات کو اپنی علمی بصیرت اور ذہنی صلاحیت سے بہتر بنایا۔ اس طرح علامہ محمد عابد سندھی کو دونوں ملکوں میں عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کے علم و فضل سے فقط عام نہیں بلکہ خاص الخاص بھی استفادہ کرتے تھے۔

ان کے زندگی کا اکثر حصہ یمن میں گذرا غالبا اسی لئے مورخ ساباطی نے انہیں فہرست میں ’’زبیدہ کے علماء ‘‘میں شمار کیا ہے۔

تمام عزت و شہرت کے باوجود ان کا دل مدینہ منورہ کے لئے تڑپتا رہتا تھا ۔ یہ سب کچھ شہنشاہ مدینہ حضور پر نور ﷺ کے عشق و محبت کی وجہ سے تھا۔ اسی محبت کی خاطر آپ نے تمام اعزازات و مناصب کی قربانی دے کر مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور بقیہ زندگی گنبد خضریٰ کے زیر سایہ درس و تدریس میں بسر کرنا چاہتے تھے۔ وہ اس ارادے سے ۱۲۲۴ھ کو مدینہ منورہ پہنچے ان دنوں گورنر مکہ مکرمہ سید محمود بن محمد کا نجد ( قرن شیطان : موجودہ نام ریاض ) سے ابھر نے والی ’’وہابی تحریک ‘‘ سے سخت اختلافات چل رہے تھے۔ اس لئے علامہ صاحب واپس حدیدہ (یمن ) آئے وہاں بھی انقلاب آچکا تھا۔ وہاں قاضی حسین بن علی حازمی مقرر ہوئے تھے جو کہ زیدی شیعہ تھے۔ اس نے یہ بدعت نکالی کہ اذان فجر سے الصلوۃ خیر من النوم کو نکالا جائے اور اس کی جگہ ’’حی علیٰ العمل‘‘کا اضافہ کیا جائے۔ لیکن عام مسلمانوں نے قاضی کے حکم پر کوئی توجہ نہیں دی اور پاگل کی بڑسمجھ کر اس خیال باطل کو سراسر ٹھکرادیا۔ عدم عمل کی صورت میں قاضی نے چالیس حنفی علماء کو گرفتار کرنے کا آڈر جاری کیا ان چالیس میں سر فہرست علامہ محمد عابد سندھی تھے۔ علامہ سندھی کو جیل میں سخت اذیت ناک تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔

جب سے آزادی ملی تو حالات ناساز گار کی وجہ سے آبائی وطن سندھ واپس آنے کا پروگرام مرتب کیا ۔ سندھ آنے کے بعد پیر خانہ حاضری دی کچھ روز حضرت خواجہ کی صحبت میں رہ کر فیضیاب ہوئے ۔ روضہ رسول ﷺ کی جدائی بہت شاق گذر رہی تھی ، اندر ہی اندر دل مدینہ منورہ کے لئے پگل رہا تھا۔حضرت خواجہ صاحب نے عاشق مدینہ کی یہ کیفیت نور بصیرت سے محسوس کر کے انہیں مدینہ منورہ کے لئے واپسی کی اجازت اور ڈھیر ساری دعاوٗں سے رخصت کیا۔ سندھ سے واپسی کے بعد مدینہ منورہ میں مستقل سکونت اختیار کی۔ اس بار کا یا ہی پلٹی ہوئی تھی ۔ اللہ کے ولی کی دعاوٗں نے رنگ دکھایا، حالات ہر طرف ساز گار تھے۔ محبین و معتقدین کے حلقہ میں اضافہ تھا۔ سندھ کے عظیم حنفی محدث شیخ محمد عابد نے اطمینان قلبی کے ساتھ مدینہ شریف میں درس و تدریس ، تحریر و تصنیف ، عبادت و ریاضت ، ذکر و فکر ، تہجد و نوافل ، اور کثرت درود شریف کے معمولات میں مصروف و مشغول ہو گئے ۔ انہیں مصروفیات میںمشغول تھے کہ بغیر کوشش وکاوش کے بادشاہ مصر نے آپ کو مدینہ منورہ کا ’’رئیس العلماء ‘‘ کے مقام و منصب سے نوازا۔ آپ مدینہ منورہ کے مذاہب اربعہ ( حنفی ، مالکی ، شافعی ، حنبلی ) علماء کے رئیس قرار پائے۔ بے شک آپ اس مقام و منصب کے اہل لائق و فائق تھے۔ عرب و عجم ، مشرق تا مغرب تک علماء و مشائخ نے آپ سے استفادہ کیا اور یہ صدقہ جاریہ کا سلسلہ آج بھی عرب و عجم مشرق تاق مغرب فاری و ساری ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جس چیز کے پیچھے بھاگا جائے وہ دور ہی چلی جاتی ہے اور جب بندہ مکمل اللہ تعالیٰ عزوجل کا ہو جاتا ہے تو ہر چیز اس کی ہو جاتی۔

بقو ل اقبال :

کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

تلامذہ :

آپ کے شاگردوں کی طویل فہرست میں سے بعض کے اسماء گرامی بڑی کوشش وسعی کے بعد سامنے آئے ہیں ۔ ( حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کی ہمہ جہت شخصیت پر وہ کام کر سکتا ہے جو عرب کا عالم ہو یا عرب کی حالیہ تاریخی اشاعت اس کی نظر کے سامنے ہو ۔ کیوں کہ آج کل عرب کے علماء و مشائخ و مشاہیر کی تاریخ و تذکرہ پر بہت ساری کتابیں حجاز مقدس ، مصر، شام بیروت ، یمن ، دبئی، کویت،اردن وغیرہ مقامات سے شائع ہو چکی ہیں ۔ مثلا: نشر النور ، نثر الدرر، نظر الدرر، معجم الموٗلفین ، ھدیۃ العارفین ، اعلام الحجاز فی القرن الرابع عشر للھجرۃ للمحمد علی مغربی مطبع جدہ ، اھل الحجاز بعبقھم التاریخی حسن عبدالحئی قزاز، علماء العرب فی شبۃ القارۃ الھندیۃ شیخ یونس ابراھیم ، سیرو تراجم ، عمر عبدالجبار جدہ ، فھرس الفھارس والاثبات علامہ سید عبدالحئی کتانی مراکشی مطبوعہ بیروت ایسی کتب کے مطالعہ سے آپ کی جامع سوانح کے علاوہ تلامذہ کی طویل فہرست بھی تیار ہو سکتی ہے۔ خدا کرے کوئی اہل علم حجاز مقدس کے علماء سندھ پر کام کرے )۔

۱۔ امام مسجد الحرام کعبہ شریف شیخ حسین بن صالح جمل اللیل حنفی ۔ مکہ مکرمہ (ان سے امام احمد رضا خان بریلوی نے سند حدیث حاصل کی تھی )

۲۔ شیخ سید عبداللہ بن علامہ سید محمد عبداللہ بخاری مشہور کو جک حنفی مکی متوفی ۱۲۹۷ھ

۳۔ قاضی حسن بن احمد بن عبداللہ عاکش الضمدی ۱۲۸۹ھ

۴۔ سیف المسلول شیخ طریقت علامہ فضل رسول بدایونی قادری قدس سرہ

۵۔ شیخ طریقت حضرت علامہ خواجہ ابو سعید مجددی رامپوری مدفون دہلوی متوفی ۱۲۵۰ھ

۶۔ شیخ طریقت علامہ عبدالغنی رامپوری مجددی ابن ابو سعید مدفون مدینہ منورہ ۱۲۹۶ھ

۷۔ شیخ الاسلام شہاب الدین احمد حنفی حسینی استنبول ، ترکی

۸۔شیخ جمال بن عبداللہ مکی حنفی

۹۔ شیخ داوٗد بن سلیمان بغدادی خالدی شافعی نقشبندی المعروف بابن جرجیس

۱۰۔ شیخ سلیمان بن محمد خطیب و امام مسجد نبوی مدینہ منورہ

۱۱۔ شیخ صدیق بن عبدالرحمن بن عبداللہ کمال حنفی مکی

۱۲۔ مولانا علم الدین بن رفیع الدین عمری قندھاری حیدر آباد دکن

۱۳۔ مولانا شیخ ابو الفضل عبدالحق بن فضل اللہ عثمانی بنارسی بھارت

۱۴۔ شیخ عبدالجلیل بن عبدالسلام مالکی فاسی مدنی

۱۵۔ مولانا محمد برہان الحق بن محمد نور الحق انصاری لکھنوی بھارت

۱۶۔ شیخ محمد بن خلیل ابو المحاسن القاونجی طرابلس

۱۷۔ مولانا محمد حیدر بن ملا محمد مبین انصاری حیدرآباد دکن

۱۸۔ شیخ غلام حسنین بن حسین علی بن عبدالباسط قنوجی

۱۹۔ مولانا ابو علی محمد ارتضیٰ علی خان قاضی نجاری مدراس بھارت

۲۰۔ شیخ داوٗد بن عبدالرحمن حجر مقبول الاحدل زبیدی

۲۱۔ علامہ قاضی ابوالخیر عبداللہ جتوئی ضلع ٹھٹھہ سندھ

وغیرہ وغیرہ

تصنیف و تالیف:

علامہ محمد عابد سندھی صاحب تصانیف کثیرہ بزرگ تھے۔ ان میں سے بعض کے نام معلوم ہو سکے جو کہ درج ذیل ہیں :

۱۔ طوالع الانوار شرح الدر المختار (آٹھ جلدیں ، قلمی )

اس کتاب کے بارے میں’’ردمختار ‘‘اور فتاویٰ ‘‘ کے مصنفین کی رائے یہ ہے کہ شیخ محمد عابد، کی یہ معرکۃ الآرا تصنیف اگر ہمارے پیش نظر ہوتی تو شاید ہم اپنی مذکورہ کتابیں نہ لکھتے ۔ ( صقال الضمائر ص ۳۰۳) اس کا ایک نسخہ اپنے قلم سے لکھا ہوا شیخ محمد عابد نے اپنے پیرو مرشد خواجہ محمد زمان ثانی کو ہدیہ پیش کیا تھا۔ عصر حاضر کے محقق سید محمد عابد حسین شاہ کی عرب دنیا کی جدید اشاعت پر گہری نظر ہے۔ انہوں نے اس کتاب کی آٹھ جلدیں گنوائی ہیں ۔ (معارف رضا کراچی )

۲۔ المواھب اللطیفہ شرح مسند الامام ابی حنیفہ

مذکورہ کتاب فقہ حنفیہ میں بے نظیر کتاب ہے اور یہ کتاب علم حدیث میں ثانی نہیں رکھتی افسوس کہ اشاعت کے زیور سے آراستہ نہیں ہو سکی ۔

۳۔ شرح تیسیر الوصول الیٰ جامع الاصول من احادیث الرسول لا بن الربیع الشیبانی

۴۔ شرح بلوغ المرام لا بن حجر عسقلانی

۵۔ حصر الشارد فی اسانید محمد عابد ( عربی ) ۲ جلدیں مطبوعہ

۶۔ منحۃ الباری فی جمع مکررات البخاری صحیح بخاری کی مکررا حادیث کے متعلق عمدہ اور بہتر ین کتاب ہے۔

۷۔ شرح مسند الامام الشافعی ( دو ضخیم جلدیں )

۸۔ رسالہ رد عقائد نجدی

۹۔ کتاب الشمالی و یوم مولدہ ﷺ بحوالہ البشریٰ امن اختفل بمیلا د المصطفیٰ

۱۰۔ رسالۃ فی جواز الاستغاثۃ والتوسل و صدور الخوارق من الاولیاء المقبورین

۱۱۔ رسالۃ فی تقبیل الصحابۃ ید رسول اللہ و راسہ الشریف و حکم التقبیل عامۃ

(بحوالہ مکہ مکرمہ کے عجیمی علماء ص ۶۹)

۱۲۔ شفا ء قلب کل سوٗول فی جواز من تسمی بعبد النبی و عبدالرسول

۱۳۔ رسالۃ فی کرامات الاولیاء والتصدیق بھا

۱۴۔ رسالۃ فی التوسل و انواعہ واحکامہ

علامہ سندھی کے مندرجہ بالا چار رسائل کا ذکر مورخ جناب سید عابد حسین صاحب نے ’’علماء اہل سنت نے وہابی افکار کے تعاقب میں رسائل و کتب قلم بند کئے‘‘کے عنوان کے تحت کیا ہے۔ (دیکھئے مکہ مکرمہ کے عجیمی علماء ص ۶۹) اس سے واضح ہوا کہ مذکورہ رسائل وہابی افکار کی تردید میں لکھے گئے ہیں ۔

۱۶۔ جزء فی تراجم مشائخ ;

۱۷۔ کشف الباس عن سید الناس

۱۸۔ ترتیب مسند الامام ابی حنفیہ بروایۃ الحصکفی

۱۹ دیوان عابد السندی

۲۰۔ شرھ مسند الحارثی

۲۱۔ الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعۃ

۲۲۔ الکرامۃ والتقبیل

۲۳۔ ترتیب مسند الامام الشافعی

۲۴۔ حواشی السندی علی البیضاوی

۲۵۔ نفحات النسیم

۲۶۔ مجموعۃ فی اجازات مشائخہ لہ واسانید ھم نظما و نثرا

ان کے علاوہ بھی چھوٹی بڑی بہت سی تصانیف یاد گار ہیں جو کہ مختلف مقامات پر ذاتی و سر کاری لائبریری میں قلمی صورت میں موجود ہیں۔ خدا کرے کہ یہ علمی شہہ پارے جلد منظر عام پر آکر سب کے لئے فیض عام کا ذریعہ بنیں ۔

وصال :

علامہ شیخ محمد عابد سندھی نے مدینہ منورہ میں گنبد خضریٰ کے زیر سایہ بروز دو شنبہ ۱۸یا ۱۹ ربیع الاول ۱۲۵۸ھ؍ ۱۸۴۱ء کو متاع جان کو جان آفرین کی جناب میں پیش کیا ۔ جنت البقیع میں امیر المومنین حضرت سید نا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مقبرہ شریف کے دروازہ سے متصل مدفون ہوئے۔

نجدی خارجی فرقہ کی غاصبانہ تحریک نے حجاز مقدس پر قبضہ کرنے کے بعد حجاز مقدس پر اپنا نام ’’سعودی عرب ‘‘مسلط کر کے احیاء بدعت کا آغاز کیا۔ عوام الناس خصو صا علماء و مشائخ اہل سنت اور سادات کرام کا قتل عام کر کے اپنی بادشاہی قائم کی۔ اس کے علاوہ یاد گار مساجد و مزارات مقدسہ کو بے دردی و بے جگری سے شہید کیا۔ اس لئے آج مزار شریف حضرت عثمان غنی پر مقبرہ شریف نہیں رہا جو کہ خارجی وہابی فرقے کے ظلم و بر بریت کو یاد دلاتا رہے گا۔

[تذکرہ مشاھیر سندھ، الرحیم مشاھیر نمبر ، فاضل بریلوی اور علماء حجاز سید عابد حسین شاہ ، ارشاد القاری الی حیاۃ الشیخ محمد عابد الانصاری ( عربی ) موٗ لف عبدالغفور سندھی سے مواد اخذ کیا گیا]

نوٹ : حلب ( شام ) کے شیخ سائد بکداش مدنی نے کتاب ’’الامام الفقیہ المحدث الشیخ محمد عابد السندی الانصاری رئیس العلماء المدینۃ المنورۃ فی عصرہ ‘‘ تصنیف کی ہے ، جسے دارالبشائر الاسلامیہ بیروت نے ۵۶۰ صفحات پر مشتمل ۱۴۲۳ھ میں شائع کیا ہے۔

(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)

شیخ حافظ محمد عابد بن احمد علی بن یعقوب سندھی: محقق مدقق،فقیہ محدث، جامع علوم نقلیہ و عقلیہ،مدرس حدیث،حامی مذہب حنفیہ تھے۔شہر سیون میں جو شہر بوبک کے پاس شمالی کنارہ نہر حیدر آباد سندھ پر واقع ہے،پیدا ہوئے جہاں سے آپ کے دادا شیخ الاسلام نے جو اہلِ علم و صلاح میں سے تھا عرب کو ہجرت کی اور شیخ محمد عابد شہر زبید واقع یمن میں اقامت پذیر ہوئے اور وہاں کے علماء سے استفادہ اور عظماء کے اشعہ سے اقتبا کیا یہاں تک کہ وہاں کے لوگوں میں سے شمار کیے گئے۔ وہاں سے صنعاء یمن میں داخل ہوئے اور وزیر کی بیٹی سے نکاح کیا اور ایک دفعہ صنعاء یمن کے امام کی طرف سفیر ہوکر مصر کو گئے اور وہاں سے اپنے وطن کو معاودت فرماکر کئی روز قصبہ نواری میں جو ملک سندھ میں کراچی بندر کے پاس واقع ہے،اقامت اختیار کی پھر مدینہ طیبہ کو پھر گئے اور وہاں والئ مصر کی طرف سے ریاست علماء کی آپ کو سپرد ہوئی۔آپ نے بہت سی کتب مبسوط و مختصرہ تصنیف کیں جن میں سے کتاب مواہب اللطیفہ علیٰ مسند الامام ابی حنیفہ و کتاب طوالع الانوار علی الدرر المختار وکتاب شرح تیسیراوصول الیٰ احادیث الرسول و شرح بلوغ المرام مشہور و معروف ہیں۔وفات آپ کی یوم دو شنبہ ماہ ربیع الاول ۱۲۵۷ھ میں ہوئی اور بقیع میں دفن کیے گئے۔’’فاضل بر گزیدۂ زماں‘‘ تاریخ وفات ہے۔

(حدائق الحنفیہ)

تجویزوآراء