حضرت مولانا عبدالقادر شہید

حضرت علامہ الحاج ابو شاہ محمد عبدالقادر قادری شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

          مولانا الحاج ابو الشاہ محمد عد القادر ابن مولانا علامہ حکیم غلامحی الدین ابن حضرت مولانا علامہ مفتی عبد الرحیم (تلمیذ ارشد امام احمد رضا بریلوی )۲۷رجب ، ۲۷ مارچ (۱۳۴۰ھ/۱۹۲۲ء) کو مدینۃ الاولیاء احمد آباد شریف میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم والد ماجد سے حاصل کی اس کے بعد انجمن اسلامیہ ہائی سکوم احمد سکول احمد آباد میں داخل ہوئے اور میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ ۱۹۴۶ء میں گجرات کالج احمد آباد سے ایف اے کا امتحان نمایانمبر کے پاس کیا !انہی دنوں محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد آباد چشتی قادری،بریلی شریف سے مولوی سلطان حسن سنبھلی سے مناظرہ کرنے کے لئے احمد آباد تشریف لائے ، مناظرہ میں کامیابی کے بعد وعظ و تقریریکا سلسلہ شروع ہوا ۔ چونکہ حضرت شیخ الحدیث کا قیام مولانا عبد القادر کے جدا مجد کے ہاں تھا اس لئے انہیں ضاضری کے او بھی زیادہ مواقع مہیا ہوئے ن۔ نگہا حضرت شیخ الحدیث کا اثر یہ ہوا کہ مولانا عبد القادر دنیاوی تعلیم کو خیر باد کہہ کر سر چشمہ علم و حکمت بریلی شریف چلے گئے۔ حضرت استاذ مولانا عبد الرشید جھنوی دام طلہ کے ساتھ جھنگ چلے آئے اور جب مولانا عبع الرشید جنگوی جامعہ نقشبندیہ علی پور سیاداں تشریف لے گئے تو بھی مولانا ان کے ہمراہ تھے، دو سال بعد مولانا عبد القادر پھر بریلی تشریف لے گئے تو بھی مولانا ان کے ہمراہ تھے ، دو سال بعد مولانا عبد القادر پھر بریلی تشریف لے گئے اور مولانا علامہ وقار الدین اور حضرت محدث اعظم سے معقول و منقول کی کتابوں کا درس لیا۔ قیام پاکستان کے بعد حضرت محدث اعظم کے ہمراہ پاکستان چلے آئے اور تحصیل علم کے لئے کچھ عرصہ سر گودھا اور شر قپور ہے ۔جب حضرت محدث اعظم پاکستان نے محہ سنت نورہ لائل پور میں دورئہ حدیث کا اجراء رمایا تو مولانا عبد القادر بھی درس حدیث میں شریک ہوئے اور شعبان المعظم ۱۳۶۹ ھ/۱۹۵۰ میں سند فراغت حاصل کی حضرت محدث اعظم نے جامعہ رضویہ کی بنیاد رکھی تو آپ کے مخلص احباب کی جماعت میں مولانا عبد القادر بھی تھے شاہی مسجد کی امانت اور جامعہ رضویہ کی نظامت کو اس خوبی سے نبھایا کہ باید و شاید سنی رضوی جامع مسجد کا لینٹر ڈالا گیا تو دوسرے علماء کے ساتھ مولانا عبد القادر بھی سیمنٹ سر پر اٹھا کر شریک کار رہے ۔ ۱۳۷۲ھ/۱۹۵۳ء میں جبل پور کے معزز خاندان کے فرد محترم صوفی محمد حسین خاں کی دختر نیک اختر سے آپ کا نکاح ہوا یہ رشتہ خود حضرت محدث اعظم نے کرایا تھا ۔ ۱۳۷۷ھ/۱۹۵۷ء میں آپ نے بغداد شریف کی حاضری دی اور ہاں سے بذریعہ ہوئی جہاز حج و زیارت کی سعادت سے مشرف ہوئے ۱۳۸۱ھ/۱۹۶۱ء میں سیلون کے احباب کی فرمائش اور حضرت محدث اعظم کے ارشاد کی بنا پر سیلون تشریف لے گئے او ر وہاں کمال خوبی سے تبلیغ کا فریضہ انجام دیا ۔ ایک سال بعد حضرت محد ث اعظم کے ارشاد کی تعمیل کرتے ہوئے واپس لائل پور آگئے مولانا عبد القادر کے خلوص کا اندازہ اس سے لگیا جا سکتا ہے کہ دو سال تک پتو کی منڈی ضلع لاہو جمعہ پڑھانے کے لئے لے جاتے رہے لیکن کبھی اپنی ذات کے لئیکرائے تک کا مطالبہ نہ کیا ۔ مولانا بہترین مدرس سلجھے ہوئے مقرر اور بلند مرتبہ منتظم تھے ، جلد سازی کے فن سے بھی نجوبی آگاہ تھے ، حضرت محدث اعظم کی قابل قدر خدمات انجام دی تھیں ، حضرت محدچ اعظم کی وصیت کے مطابق لائل پور میں آپکی نماز جناہزہ مولانا عبد القادر نے ہی پرھائی۔بعض ناگز یر حالات کی بنا پر مولانا سیلون اور مولانا معین الدین لائلپور سے کراچجانے کی تیاری کر رہے تھے کہ بعض احباب کے اصرار پر ان دونوں حضرات نے لائل پور میں قیام کیا اور عارضی طور پر کار خانہ بازار میں کرائے کے مکان میں جامعہ قادریہ کے نام سے ۳۰،اگست ۱۹۶۳ء کو ایک درس گاہ کا اجراء کیا گیا بعد ازاں مصطفی آباد سر گودھا روڈ لائل پور میں ۷۷ مرلے زمین لے کر جامعہ قادریہ اور جامع طیبہ کاسنگ بنیاد رکھا گیا۔

          ۱۴ رمضان المبارک ( ۱۳۸۳ھ/۱۹۶۳ء) کو آپ کارخانہ بازار جامعہ قادریہ میں نماز ظہر پڑھانے تشریف لائے۔ آپ نے جامعہ کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا ہی تھا کہ ایک شقی القلب نے پیچھے سے آکر چاقو کے بے در پے وار کر کے شدید زخمی کردیا ۔ ڈاکٹروں نے بہت کوشش کی مگر آپ جانبر نہ ہو سکے اور جام شہادت نوش کر گئے ، دھوبی گھاٹ میں قریباً ایک لاکھ مسلمانوں نے نماز جنازہ ادا کی اور آپ کو جامع مسجد طیبہ کے پہلو میں دفن کردیا گیا۔ مزار پر گنبد تعمیر ہو چکا ہے اور آپ کی عظیم الشان دینی یادگار جامعہ قادریہ راہ ترقی پر گامزن ہے ۔ آپ نے اپنے پیچھے ایک صاحبزادی او تین صاحبزادے عطاء المصطفیٰ ،ضیاء المصطفیٰ اور رضا ء المصطفیٰ چھوڑے[1]  

          جناب مولانا غلام قطب الدین احمد نعیمی مدیر سواد اعظم لاہور نے درج ذیل قطعۂ تاریخ وفات کہا ہے   ؎

مولانا عبد قادر،اہل سنن کے حامی

قاتل نے آہ!ان پر کی خنجر آزمائی

دیتا ہے خون ناھق اس بات کی گواہی

رمضان میں شہادت سنت ہے مرتضائی

اب’’طیش‘‘ دور کر کے تاریخ لکھ اے احمدؔ

انیس سو ہے چونسٹھ اور تیس جنوری کی[2]

 

 

[1] محمد افضل کوٹلوی ، مولانا : شہید اہلسنت (مطبوعہ جامعہ قادریہ ،مصطفی آباع ، لائل پور )

[2] سواد اعظم لاہور

(تذکرہ اکابرِاہلسنت)

تجویزوآراء