حضرت مولانا غلام قطب الدین اشرفی برہمچاری
حضرت مولانا غلام قطب الدین اشرفی برہمچاری رحمۃ اللہ علیہ
فخر العلماء حضرت مولانا حکیم سخاوت حسین چشتی فخری سلیمانی حافظی سہسوانی کےفرزند ارجمند جائےولادت سہسوان، ضلع بد ایوں، اولاً والد ماجد سے پڑھا، بعدہ استاذ العلماء مفتی محمد لطف اللہ علیہ الرحمۃ سے تکمیل کی، حضرت مولانا شاہ سید محمد اسلم خیر آبادی علیہ الرحمۃ سے بیعت حاصل کی، قطب المشائخ مخدوم شاہ علی حسیناشرفی میاں سرکار کچھوچھہ شریف نے اجازت وخلافت مرحمت فرمائی، سترہ برس تک بنارس کے مندرمیں بڑے پنڈت سےہند وفلسفہ کی تعلیم حاصل کی، بعد فجر سےعصر تک مطالعہ میں منہمک رہتے تھے اور عصر کےوقت اپنے کمرےمیں جاکر اندر سے کمرہ بند کرلیتے اور فوت شدہ نماز کی قضا پڑھتے، اس زمانے میں سال میں کئی کئی بار آپ کی ملاقات کےلیے مشہور مبلغ اسلام مولانا شاہ عبد العلیم صدیقی میرٹھی بنارس پہونچتے اور پُل پر کھڑے ہوکر پر اٹھے اور گائے کے گوشت کے کباب کپڑے میں لپیٹ کر آپکی طرف پھینک دیتے، آپ لے کمرے میں چلے جاتے، سنسکرت اور ہند وفلسفہ کے پوری واقفیت کے بعد ایک دن اپنے پنڈت استاد سے مباحچہ کرنے لگے، جب جاکر آپ کے مسلمان ہونے کا اس پر راز فاشہوا، جس سے اس کو سخت افسوس ہوا، ۔۔۔۔۔۔ یہاں سے کلکتہ کے مشہور پیار وقوال کے پاس پہونچے، پہلے تو اس نے سکھانے سے انکار کیا، مگر جب اس کو آپ کامقصد معلوم ہوا تو پوری توجہ سے ایک ہی ہفتہ میں تمام راگ سکھادیئے، ۔۔۔۔۔۔ کلکتہ سے واپسی پر آپ نے متھرا، ہر دوار و غیرہ کو تبلیغ واشاعت اسلامکا مرکز قرار دیا،پہلے دیر تک بھجن گاتے جب لوگ جمع ہوجاتے تو آپ حقانیت اسلا پر ہندو کتابوں کی روشنی میں تقریر فرماتے، اس طرح بکثرت افراد کو آپ نے مسلمان کیا آپ کے پاس دو بڑے بوروں میں ہندوؤں کی چوتیاں رکھی محفوظ تھیں نہیں آپ کی ہدایت کے مطابق آپ کے ساتھ دفن کردیا گیا، ۱۸؍رمضان المبارک ۱۳۵۰ھ میں اپنے آبائی وطن سہسوان ضلع بد ایوں میں فوت ہوئے، آپ کی خواہش کے مطابق آفتاب شریعت ، ماہتابِ طریقت حضرت مولانا خواجہ سید مصباح الحسن پھپھوندوی نے نماز جنازہ کی امامت فرمائی۔
حضرت مولانا غلام زین العابدین علیہ الرحمۃ آپ کے فرزند ارجمند تھے، اُن کو حجۃ العصر صدر الشریعہ مولانا حکیم امجد علی اعظمی سے تلمذ کا شرف حاصل تھا، انہوں نے جواں عمری میں تقریباً ۱۳۲۹ھ میں دادوں ضلع علی گڈھ میں وفات پائی۔