مبلغ اسلام حضرت مولانا غلام محمد ترنمؔ امر تسری قدس سرہ

 

          شعلہ بیان مقرر ، مبلغ اسلام مولانا گلام محمد ترنم ابن جناب عبد العزیز ، امر تسر م یں ۱۳۱۸ھ؍۱۹۰۰ء میں پیدا ہوئے ،ابتدائی دینی تعلیم پروفیسر عبد الرحیم اور فقیہ عصر مولانا مفتی عبد الصمد خاں کا شمیری سے حاصل کی ، قالین اننی اور شال بافی کا کام سیکھا حکیم فیروز الدین فیروز طغرانی کی خدمت میں طلب علم کے لئے حاضر ہوئے اور بہت جلد منشی فاضل اور ادیب فاضل کا امتحان پاس کیا ، علامہ طغرائی کے جانشین علامہ محمد حسینعرشی امر تسری نے آپ کا تخلص ترنم تجویز کیا ۔ اس کے بعد مختلف اساتذہ سے علوم دفنون کی تحصیل کر کے ادب عربی کے فاضل مولانا محمد عام آسی امر تسری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ادب عربی کی کتابیں پرھ کر مولوی فاضل کا امتحان دیا، علوم دینیہ سے فارغ ہو کر طب کی کتابیں حکیم حاجی محمد علی، حکیم محبوب عالم اور حکیم فتح چند سے پڑھیں ، لاہور کے نامور طبیب حکیم شہزادہ غلام محمد سے اصول مطب سیکھے اور انگریزی میں بھی خاصی استداد پیا کرلی۔

          مولانا ترنم قادر الکلام مقرر تھے ، ان کی تقریری میں روانی ، بے باکی ، بے پناہ خلوص اور سب سے بڑھ کر سرور دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا عشق جلوہ گر ہوتاتھا ، غالبا ۱۹۳۱ء میں امر تسری میں جامعہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی جس کی بدولت مسلمان نو جوانوں کے لئے یونیورسٹی کے امتحانات پاس کر نے آسان ہو گئے ،مولانا ترنم انجم تبلیغ الاحناف امر تسر کی روح رواں تھے جس کے زیر اہتمام ہر سال عرس امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بریشان و شوکت سے منایا جاتا اسی انجمن نے دا رالعلوم حنفیہ رضویہ کی بنیاد رکھی جس کا افتتاح ۱۹۴۵ء میں حضرت سید محمد کچھو چھوی نے کیا ۔ قیام امر تسر کے دور ان مختلف سیاسی تحریکوں میں حصہ لیا خصوصاً تحریک پاکستا ن میں مثالی کردار ادا کیا ، اپنی شعلہ بیان تقاریر کے ذریعے مسلمانو ں کے خوابیدہ جذبات کو بیدار کیا ۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور میں قیام پذیر ہوئے ، جامع مسجد حضرت داتا گنج بخش رحمہ اللہ تعالیٰ ، بیرون موری گیٹ وعظ درس کاسلسلہ جاری کیا ، پھر عقید ت مندوں کی فرمائش پر مسجد سول سیکر ٹریٹ میں خطابت کی ذمہ داری قبول کرلی ۔ ایک عرصہ تک جمیعۃ علمائے پاکستان ، پنجاب کے صدر رہے پھر مرکزی جمیعت کے نائب صدر ہو گئے اور  نہایت وقیع خدمات انجام دیں ۔

          تحریک ختم نبوت میں پر جوش حصہ لیا اور چھ ماہ سے زئد عرصہ تک جیل کی صعوبتوں کو پا مروی سے برداشت کیا، مولانا ترنم حضرت حافظ سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری قدس سرہ سے بیعت تھے۔حضرت شاہعلی حسین قادری کچھو چھوی سے بھی کسب فیض کیا، بے شمار مصروفیا ت کے با وجود چند علمی تبرکات آپ سے یادگار ہیں نعتیہ کلام، دستور پاکستان ، مقدمہ حواشی بطل نبوت ، الجہاد ، غذائی چارٹ اور ماہنامہ ٹمپرنس لاہور جو تین سال تک جاری رہا ، مولانا ترنم اس کے پرنٹر اور پبلشر تھے۔ مولانا ترنم نغز گو شاعر بھی تھے ، پنجابی ، اردو اور فارسی میں شعر کہتے تھے۔

          اڑھائی تین سال تک ذیابیطس کے مریض رہ کر ۱۷ محرم الحرام ، ۲۴ جولائی (۱۳۷۹ھ؍۱۹۵۹ء جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب کو سفر آخرت اختیار کیا ،مزار گوستان میانی ،لاہور میںبہاول پور روڈ پر واقع ہے[1]

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

[1] محمد موسیٰ امر تسری ،حکیم اہلسنت : مولانا غلام محمد ترنمؔ

(تذکرہ اکابرِاہلسنت)

تجویزوآراء